سید محمد قلی موسوی

سید محمد قلی موسوی

 

سید محمد قُلی موسوی ہندی نیشاپوری (متوفی 1268 ھ) علامہ کنتوری کے نام سے مشہور، برصغیر پاک و ہند کے شیعہ اثنا عشری مکتب کے محدث، فقیہ، مؤرخ اور متکلم تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب ایران میں مشہد کے قریب نیشاپور میں آباد امام موسی کاظم (ع) کی اولاد سے ملتا ہے۔ اپنی تعلیم کا سلسلہ لکھنؤ میں شروع کیا اور علوم کے اعلی مراحل طے کئے اور خاص طور پر علم کلام میں ایک مقام حاصل کیا۔ متعدد تالیفات کے مالک اور ہندوستان میں ناصریہ کے نام سے کتابخانہ ان کی یادگار ہے۔ وہ صاحب عبقات الانوار سید حامد حسین موسوی کے والد اور سید ناصر حسین معروف ناصر الملت کے دادا ہیں۔

ولادت و خاندان

سید محمد قلی موسوی 5 ذی القعدہ 1174 یا 1188 ھ (1774 ء) میں کنتور میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نسب ۲۵ واسطوں سے موسی بن جعفر (ع) تک پہنچتا ہے۔[1]

آپ نیشاپور کے علمی خاندان کے بزرگ تھے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد حسین (معروف الله‌ کَرَم) تھا جو اپنے زمانے کے علما اور فقہا میں سے تھے۔ جنہوں نے اکثر علوم مولوی عبد الرب حضرت  پوری کے پاس پڑھے۔ قرآن سمیت بہت سی حدیثی کتابیں جیسے تحفۃ الزائر، علامہ مجلسی کی حق الیقین اور شیخ بہائی کی جامع عباسی کو استنساخ کیا۔[2]

تعلیم اور منصب

سید محمد قلی نے ابتدائی کتابیں لکهنو میں موجود فاضل شخصیات کے پاس پڑھیں۔ پھر سید دلدار علی نقوی (۱۱۶۶-۱۲۳۵ق) کی شاگردی اختیار کی اور اکثر علوم انکے پاس پڑھے اور علم کلام میں ایک خاص مقام حاصل کیا۔

لکهنو کے نزدیک میرٹھ میں درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور وہیں قضاوت کے عہدے پر فائز رہے اور فتوا دینے کے فرائض بھی نبھاتے رہے۔[3]

شاگردان

تألیفات

سید محمد قلی نے اکثر علوم میں تصانیف لکھیں اور آپ اکثر علوم میں خاص طور پر علم کلام میں صاحب نظر اور محقق تھے۔ درج ذیل آپ کی تصنیفات میں سے ہیں:

  1. تقریب الأفہام فی تفسیر آیات الأحکام (فارسی)
  2. تطہیر المؤمنین عن نجاسۃ المشرکین؛ کفار کی نجاست کے احکام (ہند، ۱۲۶۱ق)
  3. احکام عدالت علویہ (فارسی)؛ بارہ ابواب اور ایک خاتمہ (ہند)
  4. أبنیۃ الافعال؛ علم صرف (اردو)
  5. تکمیل المیزان لتعلیم الصبیان؛ شرح کتاب میزان (علم صرف)
  6. الحواشی و المطالعات
  7. نفاق الشیخین بحکم احادیث الصحیحین؛ (ہند، مطبعہ شریفیہ)۔ (مؤلف نے بخاری اور مسلم کی دو حدیثیں ذکر کرنے کے بعد: ۱. علامات نفاق؛ ۲. در نزاع علی (ع) اور عباس کی فدک کے معالمے میں نزاع ذکر کی)؛
  8. مزیل الوسواس فی ردّ من تبع الخنّاس؛ اس کا ناقص خطی نسخہ کتابخانۂ مرکز احیائے میراث اسلامی قم میں موجود ہے۔
  9. رسالۂ تقیہ (فارسی، لکهنو)؛ انکے بیٹے میر حامد حسین نے اسے اردو میں ترجمہ کیا اور اصلاح نامی مجلے میں چھپوایا۔
  10. رسالۂ گناہان کبیره (فارسی)
  11. سیف ناصری؛ ردّ باب اول تحفہ اثنا عشریہ کے پہلے باب کا جواب جسے عبد العزیز دہلوی نے لکھا۔ اس کا خطی نسخہ کتابخانۂ آستان قدس رضوی میں موجود ہے۔
  12. تقلیب المکائد؛ تحفہ اثنا عشریہ کے دوسرے باب کا جواب (فارسی)۔ یہ کتاب کلکتہ سے ۱۲۶۲ق میں چاپ ہوئی۔
  13. برہان سعادت؛ تحفہ اثنا عشریہ (فارسی) کے ساتویں باب کا ترجمہ۔ یہ کتاب امامت ائمہ (ع) کے موضوع سے ہے۔ اس کا نسخہ رام پور ہند میں راجہ رضا کے کتابخانے میں موجود ہے۔
  14. تشیید المطاعن لکشف الضغائن؛ تحفہ اثنا عشریہ (فارسی) کے دسویں باب کا جواب۔ یہ کتاب مطاعن، قبائح افعال اور خلفائے ثلاثہ کی جانب سے شروع کئے دین میں نئے اقدامات کے بارے میں لکھی گئی۔
  15. مصارع الافہام لقطع (لقلع) الاوہام؛ تحفہ اثنا عشریہ کے گیارھویں باب کا جواب ہے۔
  16. الاجوبۃ الفاخرة فی ردّ الاشاعرة؛ رشید الدین دہلوی کی کتاب ہے جو سیف ناصری کا جواب تھی۔ مولف نے اسکے اعتراضات کے جواب دیئے ہیں ۔
  17. فتوحات حیدریہ؛ ردّ بر صراط المستقیم عبد الحی برہانوی (۱۲۴۳ق) کی صراط مستقیم کا جواب ہے جو امام حسین کی عزاداری کے منع میں لکھی اور اسے بدعت کہا۔ مصنف نے اس کتاب میں سید الشہدا کی عزاداری کے جواز کو اہل سنت کی کتب سے اثبات کیا۔
  18. شعلہ ظفریہ لإحراق الشوکۃ العمریہ؛ شوکت عمریہ کا رد ہے جو رشید الدین خان کے شاگرد عبد العزیز دہلوی نے بارقہ ضیغمیہ، تألیف سلطان العلماء سید محمد بن سید دلدار علی نقوی میں لکھی تھی۔ شعلہ ظفریہ کے بعد سلطان العلماء نے بھی ضربت حیدریہ کے نام سے شوکت عمریہ کا رد لکھا جس میں متعتین (متعۂ حج اور متعۂ نسا کو اہل سنت کی کتب سے اثبات کیا۔
  19. رسالۂ وجوب غسل مسّ میت؛ اس کا نسخہ کتابخانہ ناصریہ لکهنؤ میں موجود ہے۔
  20. مقدمہ الہیہ؛ تحفہ اثنا عشریہ کے مقدمے کا جواب ہے۔[5]

ناصریہ کتابخانہ

سید محمد قلی کی علمی خدمات میں سے ایک ناصریہ کتاب خانے کا قیام ہے۔ آپ کے بعد آپ کے بیٹے میر حامد حسین اور نواسے سید ناصر حسین نے اس کی توسیع میں بہت کوشش کی اور اس میں موجود کتابوں کی تعداد خاطر خواہ حد تک بڑھائی۔ یہانتک کہ پاک و ہند کا یہ ایک بہت بڑا کتابخانہ سمجھا جاتا ہے کہ جس میں شیعہ اور اہل سنت کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ نفیس خطی نسخے بھی موجود ہیں۔[6]

وفات

اپنی عمر کے آخری حصے میں لکھنؤ واپس آ گئے اور تالیف، دینی اور علمی کاموں میں مصروف ہوئے اور بالآخر ۸۴ سال کی عمر گزار کر ۹ محرم ۱۲۶۸ق کو لکهنؤ شہر میں وفات پائی اور اپنے تعمیر کئے ہوئے امام بارگاہ میں مدفون ہیں۔[7]

مربوط لنک

حوالہ جات

 

  1. ناصر الدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی علامہ سید محمد قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش.
  2. ناصر الدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی علامہ سید محمد‌ قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش.
  3. ناصر الدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی علامہ سید محمد قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش.
  4. ناصرالدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی سید علامہ محمد قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش
  5. ناصر الدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی سید محمد قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش.
  6. ناصر الدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی سید محمد قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش.
  7. ناصر الدین انصاری قمی، شخصیت‌ شناسی علامہ سید محمد قلی موسوی لکهنوی، ۱۳۹۰ش.