ڈیموکریسی کے بارے میں اسلام کا نقطھ نظر کیا ھے؟

مذکوره سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے درج ذیل چند نکات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے:

۱۔ “ڈیموکریسی ” ایک ایسی اصطلاح ھے جو یونانی لفظ “Demorkratia” سے مشتق ھے ، جس میں ضمیمھ ” دموس” ملک کے داخلی امور (پولیس ) کے مقابل میں خارجی امور کو چلانے کے معنی ومفھوم میں استعمال ھوتا ھے۔ [1]

آج کی ڈیموکریسی ، سیاسی اصطلاح میں قومی مقاصد کو پانے کے لئے عوام کے ذریعھ حکومت چلانے میں حکومت کی برتری کے مفھوم میں ھے۔[2] البتھ ، ڈیموکریس پر ، خاص کر ایک عملی اور نفاذی سسٹم کے عنوان سے علوم سیایس کے دانشوروں کا اتفاق نھیں ھے۔ [3]

۲۔ لوگوں پر لوگوں کی حکومت ، جسے فارسی میں مردم سالاری ( عوامی راج ) سے تعبیر کیا جاتا ھے ۔[4] مندرجھ ذیل خصوسیات رکھتی ھے۔ [5]

الف : بنیادی آزادی ، خاص کر عقیده کی آزادی ، مطبوعات کی آزادی اور اجتماعات کی آزادی کا احترام ۔

ب: عوامی حمایت کا ھونا اور اصلاحات کے سلسلھ میں تشدد سے کام نھ لینا۔

ج: ڈیموکریسی طاقت کی مشکل کو حل کرنے اور استبداد کو روکنے کا ایک طریقھ اور وسیلھ ھے۔

ڈیموکریسی کے بارے میں جو خصوصیات یھاں تک بیان کی گئیں ، یھ معقول اور پسندیده خصوصیات ھیں ، بظاھر سیاسی و اجتماعی مسائل میں اسلام کے ساتھه    تضاد رکھتی ھیں۔

د: ڈیموکریسی کی دوسری خصوصیات جو آج کل مغربی دنیا میں قبول کی گئی ھیں اور ” حقوق انسانی” کے عنوان سے اس کا ڈھنڈورا پیٹا جارھا ھے ، وه لوگوں کے مطالبات کو کسی قید و شرط کے بغیر قبول کرنا ھے ، چاھے یھ مطالبات انسان کی عظمت اور شان کے خلاف بھی ھوں ، مثلا ھم جنس شادی کو قانونی حیثیت دینا وغیره۔ یقیناً ڈیموکریسی کی یھ خصوصیات اسلام کے لئے قابل قبول نھیں ھیں۔ بنیادی طورپر انبیاء کی بعثت کا فلسفھ اورمقصد لوگوں کےاس قسم کے مطالبات سے مبارزه و مقابلھ کرنا اور عوام کو انسانی عظمت و شان کی طرف ھدایت کرنا ھی تھا۔

قرآن مجید میں جس اکثریت کی مذمت ملامت کی گئی ھے [6] وه یھی اکثریت ھے یھ وه اکثریت ھے جو انبیاء علیھم السلام کی طرف سے سعادت ، ھدایت اور کمال کی دعوت کو اپنی خواھشات کے منافی سمجھتی تھی اور بلا سوچے وسمجھے اس کی مخالفت کرتی تھی۔

اب ھم مذکوره تمھید کے پیش نظر ، ڈیموکریسی کے بارے میں اسلامی نقطھ نظر کی بھ نسبت موجوده مختلف نظریات کا یک جائزه لیتے ھیں:

۱۔ ایک نظریھ ، یھ ھے کھ بنیادی طورپر دین اور ڈیموکریسی دو متفاوت اور مخالفت مفھوم ھیں اور ان کا آپس میں کوئی ربط نھیں ھے ، کیونکھ ڈیموکریسی ایک ایسا طریقھ کار ھے جو سیاسی اور حکومتی مسائل کے دائره میں استعمال ھوتا ھے اور دین کا سیاسی مسائل سے کوئی ربط نھیں ھے۔

یھ نظریھ ان لوگوں کا ھے جو دین کو سیاست سے الگ جانتے ھیں ، کیونکھ ان کی نظر میں دین کی وسعت اور قلمرو ذاتی مسائل ، انسانی کے خدا سے رابطھ ، اور آخرت پر اعتقاد تک محدود ھے اور اس کا اجتماعی اور سیاسی مسائل سے کوئی لینا دینا نھیں ھے۔

۲۔ دوسرا نظریھ ، یھ ھے کھ ان دو مفاھیم ، یعنی دین اور سیاست کے درمیان تناقض پایا جاتا ھے اور یھ آپس میں سازگار نھیں ھیں۔ کیونکھ ڈیموکریسی لوگوں کی رائے اور افکار کے بارے میں مطلق قدر قیمت کی قائل ھے اور یھ ڈیموکریسی کے مفھوم سے الگ نھیں ھوسکتی ھے ، جبکھ اسلام لوگوں کی رائے کے بارے میں اس قسم کی مطلق قدر و قیمت کا قائل نھیں ھے ۔ مثال کے طورپر اگر ایک معاشره کے اکثر لوگوں کی رائے یھ ھو کھ اس معاشره میں دین کی حاکمیت نھ ھو ، تو ڈیموکریسی کے مطابق یھ قابل قبول ھے لیکن اسلام اسے قبول نھیں کرتا ھے۔

یھاں پر دو گروه پائے جاتے ھے ۔ ایک طرف وه متشرع (مذھبی) لوگ ھیں جو عوام کی رائے اور نظریات کے لئے کسی قسم کی قدر و قیمت کے قائل نھیں ھیں اور دوسری طرف وه دین دشمن عناصر ھیں جو بغض و عناد کی وجھ سے دین کی حکمرانی کو دیکھنا نھیں چاھتے ھیں۔ پھلا گروه دین اور دینی حکومت کی حمایت کی پالیسی اختیار کرکے ڈیموکریسی سے دشمنی کی بنا پر ان دونوں کو اکٹھا ھونے کے قابل نھیں جانتا ھے اور دوسرا گروه ڈیموکرٹیک حکومت کا قائل ھے اور ین کو ڈیموکریسی کا دشمن جانتا ھے۔

۳۔ ایک اور نظریھ ، یھ ھے کھ اسلام کا ڈیموکریسی سے رابطھ نھ مکمل طورپر مخالفانھ ھے اور نھ بالکل موافقانھ ھے ، یعنی دین اور ڈیموکریسی کا رابطھ “عام و خاص” کا رابطھ ھے ، اس نظریھ کے مطابق ڈیموکریسی کی کچھه اقسام ھیں جن میں سے بعض غیر دینی ، بعض دین مخالفت اور بعض دینی ھیں اور دینی ڈیموکریسی اسلام کے لئے قابل قبول ھے ، اس قسم کی ڈیموکریسی کی ماھیت اور دوسری ڈیموکریسیوں میں کوئی خاص فرق نھیں ھے ، اس قسم کی ڈیموکریسی کی خصوصیت صرف اس کا اسلامی ھونا ھے۔

ڈیموکریسی، امام خمینی(رح) کی نظر میں:

امام خمینی (رح) ایک دینی مرجع کی حیثیت سے ” اسلامی جمھوریھ” کے نام سے دنیا کی سب سے بھتر ڈیموریٹیک حکومت کی داغ بیل ڈالنے والے ھیں ، انھون نے ایران میں اسلامی نظام کی بنیاد ڈال کر ثابت کیا کھ اسلام اور ڈیموکریسی میں نھ صرف آپس میں کسی قسم کا اختلاف اور تضاد نھیں ھے بلکھ یھ دونوں آپس میں جمع بھی ھوسکتی ھیں اور اسلام میں معاشره کو چلانے کے لئے سب سے بهتر ڈیموکریٹیک طریقھ کار موجود ھے۔

اگر ھم ڈیموکریسی کی ایک ایسی روش کےعنوان سے تعریف کریں جس کے مطابق آزاد انسانوں کا اراده اپنے حکام کو انتخاب کرنے یا انھیں معزول کرنے میں اوراپنی تقدیر کا فیصلھ خود کرنے میں مداخلت کرنا ھے اور حقیقت میں حکومت کا طریقھ اکثریت رائے پر مبنی ھو تو ڈیموکریسی کےبارے میں یھ مطلب امام خمینی (رح) کے خیالات سے تضاد نھیں رکھتا ھے ۔ امام خمینی (رح) اس سلسلھ میں فرماتے ھیں:

” یھاں پر لوگوں کی رائے حکومت کرتی ھے ، یھ قوم ھے جس کے ھاتھوں میں حکومت ھے “۔۔۔۔ قوم کے حکم کی مخالفت کرنا ھم میں سے کسی کے لئے جائز نھیں ھے اور ممکن بھی نھیں ھے ” [7]

اپنی تقدیر کا فیصلھ خود کرنے کے سلسلھ میں لوگوں کے کلیدی رول پر امام خمینی (رح) کی تاکید ، ان کی حکومت کے عھده داروں اور پارلیمنٹ کے نمایندوں وغیره کو دئے گئے بیانات ، مکمل گواه ھے۔

امام خمینی (رح) ایک مقام پر پارلیمنٹ کے ممبروں کو قوم و ملت کی راه سے منحرف نھ ھونے کے سلسلھ میں نصیحت کرتے ھوئے فرماتے ھیں:

” اگر آپ اپنی مرضی کے مطابق ڈیموکریسی پر عمل کرنا چاھتے ھوں ، تو ڈیموکریسی یھ ھے کھ اکثریت کی رائے اور وه بھی اس طرح کی اکثریت ، قابل اعتبار ھے۔ اکثریت نے جو کھا اس کی رائے قابل اعتبار ھے اگرچھ اس کے برعکس ، آپ نقصان میں ھوں ، آپ اس کےولی نھیں ھیں جو یھ کھیں کھ چونکھ یھ تمھارے خلاف ھے اس لئے ھم اسے انجام نھیں دیں گے ، بلکھ آپ اس کے وکیل ھیں۔ [8]

اس بیان سے بالکل واضح ھوجاتا ھے کھ امام خمینی (رح) ھر معاشره و ھر قوم کی تقدیر کا فیصلھ اس قوم و معاشره کے اپنے ھاتھوں اور اس کی رائے سے کرنے کے قائل تھے ، امام خمینی (رح) کا اعتقاد تھا کھ: ” اسلام میں ڈیموکریسی موجود ھے اور اسلام میں لوگ آزاد ھیں ، اپنے عقائد کو بیان کرنے میں اور اپنے اعمال میں، بشرطیکھ کوئی سازش پوشیده نھ ھو”[9]۔ اس نظام کے قائد کا یھ عقیده ملک کے آئین میں بھت شھرت پا چکا ھے ۔

اسلامی جمھوریھ ایران کے آئین میں اسلام اور ڈیموکرسی کا معاملھ واضح اور نمایاں ھے ، اسلامی جمھوریھ کے آئین میں دینی حکومت اور ڈیموکرٹیک حکومت ایک دوسرے سے جدا نھیں ھیں ، بلکھ ان کا باھمی رابطه ایک دوسرے کو مشروط اور معین کرنے والا ھے ، اس طرح کھا جاسکتا ھے کھ آئین کی روح اور منطق کی بناید پر اسلامی حکومت لازمی طورپر ایک ڈیموکرٹیک حکومت ھے اور شائد اس لئے اسلامی جموریھ کے بانی نے اس قسم کے نظام کے لئے ” اسلامی حکومت ” کا عنوان منتخب کرنے کی موافقت نھیں کی اور اس کا نام ” اسلامی جمھوریھ ” رکھنے پر اصرار کیا۔

اسلامی جمھوریھ ایران کے آئین کی تیسری فصل کی انیسویں اور تیئسویں اصل میں ” قوم و ملت کے حقوق” کے عنوان سے آیا ھے کھ ” قانون کے مطابق ، بیان ، عقائد ، سیاسی پارٹیوں، کی سرگرمیوں ، اور مطبوعات کی آزادی میں تمام لوگ مساوی حق رکھتے ھیں۔ اس کے علاوه آئین کی پانچویں فصل میں ” ملت کے حق حاکمیت ” کے عنوان سے اسلام میں ڈیموکریسی اور عوامی راج کی وضاحت کی گئی ھے۔ [10]

اسلام کا یھ تصور اور اس کے ڈیموکریسی کے ساتھه رابطھ کی دینی کتابوں میں آیات، روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اور حضرت امام علی علیھ السلام کی حکومتی سیرت کے توسط سے تائید کی گئی ھے۔

خداوند متعال قرآن مجید میں پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وٓلھ وسلم سے خطاب کرتے ھوئے ارشاد فرماتا ھے: “۔۔۔ و شاورھم فی الامر ” [11] (کاموں میں ان کےساتھه صلاح و مشوره کرنا) اور دوسری ایک آیت میں صلاح و مشوره کو نماز قائم کرنے کے ساتھه قرار دیا ھے۔ [12]

عقیده کی آزادی کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:” فذکر انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر ” [13](لھذا تم نصیحت کرتے رھو کھ تم صرف نصیحت کرنے والے ھو ، تم ان پر مسلط اور ان کے ذمھ دار نھیں ھو)

نمونھ کے طور پر یھ آیات ، لوگوں کے اپنی تقدیر   اور معاشره کا فیصلھ خود کرنے ،عقیده اور شھری آزادی ( آزادی اظھار )   وغیر کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھه شرکت کرنے کا بین ثبوت ھے۔

معصومین علھیم السلام کی سیرت اور روش کا بھی یھی مدعا ھے ، پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے مکھ مکرمھ میں بعثت کی ابتدا سے مدینھ کی طرف ھجرت تک حکومت تشکیل دینے کی بنیادی شرعی جواز رکھنے کے باوجود مدینھ منوره میں اس کا اقدام کیا ،کیونکھ مدینھ کے لوگوں کی طرف سے آپ کی بیعت کرنے سے ، لوگوں کی رائے اورمرضی کی شرف پوری ھوئی [14] اسی طرح امام علیھ علیھ السلام نے روایات غدیر وغیره کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ و ّآلھ وسلم کے بعد رھبری کی ولایت اور الھی حق رکھنے کے باوجود اس وقت عملی ولایت اور حکومت کو قبول فرمایا جب لوگوں کی اکثریت نے آپ (ع) کی بیعت کی۔

حضرت علی ابن ابیطالب علیھ السلام نھج البلاغه میں لوگوں سے مخاطب ھوکر فرماتے ھیں: جس طرح تاریخ کے جابروں اور ظالموں سے بات کرنے کی رسم ھے ، میرے ساتھه بات نھ کرنا اور یھ تصور نھ کرنا کھ اگر مجھه سے کوئی حق بات کھی جائے گی تو مجھه پر گران گزرے گی۔۔۔ پس حق بات کھنے اور عدل و انصاف کی تجویز کرنے میں دریغ نھ کرنا[15]

ملک کا نظم و انتظام چلانے میں صلاح مشوره کی صورت میں ، فیصلوں میں ، لوگوں کا اشتراک ، امیر المومنین کا اھم پروگرام اور پالیسی تھی، اسی کی لوگوں کی اپنی تقدیر کا خود فیصلھ کرنے میں مداخلت کا حق ، یعنی فیصلوں میں شرکت کھتے ھیں۔

اس لئے ، اگر چھ بعض مواقع پر ممکن ھے اکثریت کی رائے شرعی جواز نھ رکھتی ھو لیکن اکثریت ، حکومت کو عملی جامھ پهنا سکتی ھے یا اپنی مقبولیت سے حکومت کو جود میں لانے کا ماحول بنا سکتا ھے۔

اسلام کے مطابق لوگ حق خود ارادیت رکھتے ھیں اور اسلامی حکومت کی روشنی میں انفرادی و اجتماعی آزادی سے استفاده کرتے ھیں۔

اسلام ، اگرچھ مغربی طرز کی بعض جمھوریتوں کو قبول نھیں کرتا ھے، اگر وه اس صورت میں ھو کھ اکثریت کی رائے انسانی عظمت کے ساتھه تضاد رکھتی ھو ، لیکن ڈیموکریسی کی دوسری صورتیں بھتر اورزیبا انداز میں اسلام میں پائی جاتی ھیں ، اس لئے دین اور ڈیموکریسی میں نھ صرف کی قسم کا تضاد نھیں ھے بلکھ ترقی یافتھ ڈیموکریسی اور عوامی راج اسلام کے اندر موجود ھے۔



[1]   فرھنگ علوم سیاسی ، علی بابایی ، علامرضا ، ج ۱ کلمھ دموکراسی، : کوھن ، کارل ، دموکراسی ( ترجمھ فریبرز مجیدی ) ص ۲۱۔

[2] ایضاً

[3]  تفکر نوین سیاسی اسلام ، حمید عنایت، ص ۱۷۹،

[4]  اور آج کل اس بات کا بھت رواج ھے کھ وه حکومت زیاده تر لوگوں کے مسائل کی طرف توجھ دیتی ھے جو زیاده ڈیموکریٹک ھو۔

[5] البتھ ڈیموکریسی کے موضوع پر تاریخی اور لوگوں کے ڈیموکریسی کے ساتھه رابطھ اور اسلامی نقطھ نظر سے تحقیق کرنا ایک وسیع موضوع ھے جس کی اس مختصر مقالھ میں گنجایش نھیں ھے۔

[6]   سوره مائده / ۱۰۳۔

[7]  امام خمینی (رح) صیحفه نور ج ۱۴ / ص ۱۰۹، ج ۹ ص ۳۰۴۔

[8]  سحیفھ نور، ج ۸ ص ۲۴۷۔

[9]  ایضاً ، ج ۴ ص ۲۳۴۔

[10]  قانون اساسی جمھوری اسلامی ، مصوب ۱۳۵۸۔ با آخرین اصلاحات، ۱۳۶۸۔

[11]  سوره آل عمران / ۱۵۹۔

[12] اور جو اپنے رب کی بات کو قبول کرتے ھین اور نماز قائم کرتے ھیں اور آپس کے معاملات مین مشوره کرتے ھیں۔۔۔ ” سوره شوری / ۳۸

[13]  سوره غاشیھ ۲۱ ، ۲۳،

[14]  تاریخ پیغمبر اسلام آیتی ، محمد ابراھیم ص ۱۸۱

[15]  نھج البلاغه، ( خورشید بی غروب ، ترجمھ ، عبد المجید ، معادیخواه ) خ ۲۰۷۔