بنیادی تعلیم کی اہمیت

محمد اسلم ناز شگری

Importance of Primary Education

بنیادی تعلیم کی اہمیت

تعلیم و تعلم کے میدان میں بنیادی تعلیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر کسی بچے کو بنیادی تعلیم بہتر میسر ہوں تو اگلی جماعتوں میں بغیر کسی مشکل کے ترقی پانا ممکن ہے۔ 2016 ء کی ایک حیرت زدہ کرنے والی رپورٹ کے مطابق پرائمری سطح کے 58 فیصد طلبہ ایسے تھے جو پڑھنے لکھنے اور حساب دانی کی بنیادی مہارتوں سے عاری رہ جاتے ہیں۔ صرف بیالیس فیصد بچے بنیادی مہارتوں پر دسترس حاصل کرپاتے ہیں۔ جنوبی ایشیا خصوصاً پاکستان کی تعلیمی صورتحال پر جب نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں پرائمری تعلیم کی بدتر صورتحال کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہاں پر گوناگوں مسائل کے گرداب میں پھنسے تعلیمی ادارے پرائمری تعلیم کی زبوں حالی کا سبب بن رہے ہیں اور نتیجتاً قومی تعلیمی نصاب کے مطابق تعلیمی مقاصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پرائمری تعلیم کا آغاز نرسری کلاس یا پھر ای سی ای لیول سے ہوتا ہے۔ جہاں پر بچوں کو ابتدائی حروف سے آشنا کرایا جاتا ہے۔ عام طور پر بنیادی تعلیم میں بچوں کو دو زبانیں یعنی اردو اور انگریزی کے حروف تہجی سکھائی جاتی ہے جبکہ اسی سطح پر ریاضی کے بنیادی ہندسے بھی متعارف کرائے جاتے ہیں۔ نیز اٹھنے بیٹھنے اور بول چال کے آداب بھی ذہن نشین کرانے کی مشق شروع کروائی جاتی ہے۔

پرائمری تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ اور معیاری بنیادی تعلیم ہی اس بچے کی مستقبل میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ دنیا میں پرائمری تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کی طرف توجہ دی جارہی ہے لیکن ترقی پذیر ممالک اب بھی پرائمری تعلیم تک ہر بچے کی رسائی کو ممکن بنانے میں ناکام ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں پرائمری سطح پر بچوں کے لئے بہتر تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ان کی بہتر تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں بچوں کی اعلیٰ تعلیم کا سوچ ہر والدین بچت کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں لیکن بنیادی تعلیم میں انوسٹمنٹ ہرگز نہیں کرتے۔ اس حوالے سے بنیادی طور پر والدین کی رائے عامہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ مستقبل کا سوچ کر ابتدائی تعلیم پر انوسٹمنٹ کرے تاکہ بچے کا آنے والا کل شاندار ہو۔ نیز مجموعی طور پر تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے پرائمری تعلیم میں جدت اور اختراع لانے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ پرائمری تعلیم کے دوران معصوم بچوں کے کچے ذہنوں کو میموری کارڈ میں معلومات بھرنے کی طرح مختلف معلومات سے بھر کر انہیں لکیر کا فقیر بنانے کے بجائے تعلیم کو بچوں کے لئے تفریح کا سامان بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم چیز پرائمری اساتذہ کی تربیت اور انہیں مراعات فراہم کرنا ہے۔ پرائمری سکولوں کو صرف ایک استاد کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے بجائے کم از کم پانچ اساتذہ کی پرائمری سکولوں میں تعیناتی یقینی بنانا ہوگا۔ بچوں کو رسمی تعلیم کے خول سے باہر نکال کر جدت سے مزین کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے پرائمری اساتذہ کی تربیت بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ماہرین تعلیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرائمری تعلیم کے لئے خواتین اساتذہ بہتر ہیں کیونکہ بچوں کی نفسیاتی الجھنوں سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی صلاحیت قدرتی طور پر مردوں کی نسبت صنفِ نازک کے پاس بہتر ہوتی ہیں۔
نیزبچوں کے لئے سکول کو ایک دلچسپ جگہ بنانا ہوگا تاکہ بچے راحت محسوس کریں اور گھر جیسا ماحول پائیں تو تعلیم سے انسیت پیدا ہوسکیں۔ اس کے علاوہ دلچسپ سرگرمیوں پر مشتمل کلاس رومز کی تشکیل سے اساتذہ بچوں کو نفسیاتی طور پر زیادہ مطمئن کرسکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق بچوں میں کسی چیز پر توجہ زیادہ دیر تک مرکوز رکھنے کی صلاحیت نہیں۔ ایک بچہ زیادہ سے زیادہ 5 سے 6 منٹ تک کسی مخصوص کام پر توجہ مرکوز رکھ سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں ۔ لہٰذا متنوع سرگرمیوں کیساتھ کلاس روم کی تدریس کو تشکیل دے کر ہی ایک استاد اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔ بچوں میں تنقیدی سوچ، مسائل کے حل کی تلاش کی صلاحیت، بات چیت کے سلیقے ، شہریت کا احساس، صفائی ستھرائی کا شعور، تخلیقی صلاحیتیں ، بلنداندازِ فکر، محمود رویئے، زندگی گزارنے کے بنیادی اصول، دوسروں کے دکھ درد کا احساس اور نظم و ضبط جیسے اوصافِ حمیدہ پیدا کرنا ایک کہنہ مشق پرائمری استاد کے لئے ہی ممکن ہے۔
حکومت وقت کو چاہئے کہ پرائمری تعلیم کی عالمگیریت اور معیارِ تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے تاکہ ایک روشن مستقبل تشکیل دیا جاسکے۔ ہر سکول میں ای سی ڈی ٹرینڈ اساتذہ اور ای سی ڈی کٹ کی فراہمی یقینی بنایا جائے۔ ہر پرائمری سکول میں کم از کم پانچ اساتذہ ہوں۔ ایکٹویٹی بیسڈ لرننگ کو فروغ دیا جائے۔ بنیادی دو تین کلاسوں کو خواتین اساتذہ کے حوالے کیا جائے۔ پرائمری اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ مراعات فراہم کیا جائے تاکہ اساتذہ ان کم سن فرشتہ نما مخلوقات کی خدمت میں فخر محسوس کرسکیں۔ فریڈرک ڈوگلس کے اس معروف جملے کے ساتھ راقم کو اجازت دیجئے کہ مضبوط بچوں کی تشکیل آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی مرمت کی کوشش کیا جائے۔