ولايت فقيہ

ولايت فقيہ

كوئي بھي باصلاحيت حكومت وہ ہوتي ہے جس كي اساس درج ذيل دو چيزوں پر ہو:
1) صحيح ماٴخذ سے شرعي طور پر ولايت حاصل كرے ۔
2) معاشري كي سعادت و خوشبختي اور معاشرتي مفادات اور مصلحتوں كے تحقق كي كفيل و ضامن ہو اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ وہ ولايت فقيہ جو شيعہ مكتب فكر سے مطابقت ركھنے والي ايك الہي حكومت ہے اس كي اساس بھي ان دو چيزوں پر استوار ہے؟
ہماري موجودہ بحث كا ہدف و مقصد اس بات كو ثابت كرناہے كہ ولايت فقيہ نبي و امام عليہ السلام كي ولايت كے تسلسل كا نام ہے ۔ مسلمانوں كے نزديك ولايت كا سرچشمہ ذات كردگار ہے جو ہرچيز كي خالق و موجد ہے خدا ہي حقيقي مولا ہے اور تمام لوگ اسكے بندے ہيں اور ان پر اسكے احكام كا اتباع كرنا (يعني خدا نے جن كاموں سے منع كيا ہے انہيں ترك كرنا اور جنكا حكم ديا ہے انكو انجام دينا) واجب ہے۔
ان ہي احكام ميں سے ايك يہ ہے كہ خداوندحكيم نے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كو ولايت عطا فرما كر لوگوں كوآپكي پيروي كا حكم ديا ہے ارشاد رب العزت ہے “بے شك نبي تمام مومنين سے ان كے نفس كي نسبت زيادہ اولي ہے”102 شيعہ عقيدے كے مطابق (نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت كے بعد) يہ ولايت آپكے معصوم جانشينوں كي طرف منتقل ہوگئي جن كے (ناموں) كي تصريح (روايات) ميں كي گئي ہے۔ 103
واضح ہے كہ ہماري بحث كا ہدف و مقصد اللہ تعالي اورنبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي ولايت كوثابت كرنا نہيں ہےكيونكہ تمام مسلمان اسےقبول كرتے ہيں اورنہ ہي ائمہ اطہار عليھم السلام كي ولايت كوثابت كرنا ہمارا مقصودہے كيونكہ عالم تشيع ائمہ اطہارعليھم السلام كي ولايت كا صدق دل سے اقرار كرتا ہے (اس كے باري ميں مفصل بحث مسلمانوں اور شيعوں كے عقائد سے متعلق كتابوں ميں كي گئي ہے)
ہماري يہاں پر بحث، اسلام اور تشيع كے مباني كے باري ميں ہے تاكہ معلوم ہوسكے كہ كيا مذہب شيعہ كے پاس موجود دلائل يہ ثابت كرنے كي صلاحيت ركھتے ہيں كہ ولايت فقيہ كا سرچشمہ اور ماخذ اسلام اور وحي پروردگار ہے؟ ہم يہاں پر اس بات كي طرف اشارہ كرنا ضروري سمجھتے ہيں كہ اگر شيعوں كا يہ دعوي صحيح نہ ہو كہ نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے نص اور تصريح كے ذريعہ اپنے بعدانے والے خليفہ كو معين فرمايا ہے تو وہ اسلا مي نظام (جسے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم بشريت كو دنيا وآخرت ميں سعادت مند و خوشبخت بنانے كے لئے لائے تھے) لامحالہ طور پر ناقص رہ جائے گا۔
پھر اس نقص كي دو ہي صورتيں ہوسكتي ہيں يا تو يہ نقص خدا كي طرف سے ہے يا پھر نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے تبليغ ميں كوتاہي كي ہے اور يہ بات اسلام كے مسلمات ميں سے ہے كہ خدا اور رسول اس سے بہت بالاتر ہيں كہ ان كي طرف اس نقص كي نسبت دي جائے۔
اب جبكہ ہم تفصيل سے جان چكے ہيں كہ اسلام ميں رسول خدا كے بعد شوري كو اسلامي حكومت كي بنياد اور اساس قرار نہيں ديا گيا ہے اور يہ بھي واضح ہے كہ ايك طرف سے بشريت كي سعادت و خوشبختي اور دوسري طرف سے اسلامي احكام كا نفاذ اس وقت تك ممكن نہيں ہے جب تك كہ ايك اسلامي حكومت نہ قائم كي جائے ساتھ ہي ساتھ يہ بھي طے ہے كہ اسلام نے رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد اسلامي حكومت كے لئے شوري اور نص كے علاوہ كوئي اور بنياد اور اساس نہيں قرار دي ہے اور شوري كو قبول نہيں كيا جاسكتا لہذا اب نص كا انكار اسلام يا مبلغ اسلام (رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) پر كوتاہي كي تہمت لگانے كا باعث بنے گا۔ 104
شيعہ معتقد ہيں كہ بارہويں امام حضرت مھدي عليہ السلام نے اپني غيبت صغري ميں چار افراد كو اپنا نائب قرار دياتھا اوران ميں سے ہر ايك كے نام كي تصريح خود حضرت نے فرمائي۔ وہ چار نائب يہ ہيں:
1) عثمان بن سعيد العمري
2) محمدبن عثمان العمرى
3) حسين بن روح النوبختى
4) علي بن محمد السمري۔
شيعہ روايات سے استفادہ ہوتا ہے كہ ان چار نائبوں كي مدت ختم ہوجانے كے بعد امام زمانہ عليہ السلام نے اپني نيابت و نمايندگي اور عمومي ولايت ان فقہا كو عطا فرمائي جن كے اندرآئندہ ذكر ہونے والي صفات پائي جاتي ہوں، فقہاء كے لئے عمومي ولايت كے ثبوت كا مطلب يہ نہيں ہے كہ فقہاء نبي صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم و امام عليہ السلام كي طرح تمام مومنين سے ان كے نفس كي نسبت زيادہ اولي ہيں ۔ ولايت سے اگر مومنين كے نفسوں پر اولويت مراد لي جائے تو نص كے مطابق ايسي ولايت صرف نبي اور امام عليہ السلام كے پاس ہے ليكن عرفي 105 طور پر ولايت كے دلائل (خواہ وہ والد كي اولاد پر ولايت سے متعلق ہوں خواہ فقيہ كي معاشري پر ولايت كے باري ميں ہوں) جو بات ذہن ميں آتي ہے وہ يہ ہے كہ اس سے مراد ايسي ولايت ہے جس كے ذريعہ مولي عليہ (جس پر ولايت حاصل ہے) كا نقص برطرف كيا جاسكے اور اس كے خاميوں كا علاج ہوسكے۔
ولايت فقيہ سے متعلق حضرت امام خمينى عليہ الرحمۃ كا بيان
متعدد شيعہ علماء نے فتوي ديا ہے كہ اس طرح كي عمومي ولايت اس فقيہ كو حاصل ہے جس كے
اندر روايات ميں ذكر شدہ صفات پائي جاتي ہوں ہم ان علماء ميں سے بہ طور خاص آيت اللہ العظميٰ امام الحاج سيد روح اللہ الموسوي الخميني عليہ الرحمۃ كا ذكر كريں گے جنہوں نے فقيہ كے لئے عمومي ولايت ثابت كي ہے اور ان كے نزديك اسلامي نظام حكومت اسي ولايت كي بنياد پر استوار ہے انہوں نے اپني كتاب “البيع” ميں اس موضوع پر سير حاصل بحث كي ہے ہم ان كي بحث سے بعض اقتسابات نقل كررہے ہيں امام خمينى عليہ الرحمۃ نے فرمايا: اسلام نے حكومت كي بنياد نہ تو استبداد پر ركھي ہے كہ جس ميں فرد كي راي اور اس كے ذاتي رجحانات معاشري پر مسلط ہوتے ہيں اور نہ ہي آئيني بادشاہت پر يا ايسي جمہوريت پر جو ايسے بشري قوانين كي بنياد پر قائم ہو جو انسانوں كي ايك جماعت كے نظريات اور افكار كو پوري معاشري پر مسلط كرتے ہيں، بلكہ اسلامي حكومت كي بنياد و اساس يہ ہے كہ زندگي كے تمام شعبوں ميں خدائي قوانين سے الہام و امداد لي جائے، كسي بھي حكمران كو اپني ذاتي راي مسلط كرنے كا حق حاصل نہيں ہے بلكہ حكومت اوراس كے مختلف شعبوں اور اداروں ميں جاري ہونے والے تمام قوانين حتي صاحبان امر كي اطاعت بھى، لازمي ہے كہ خدائي قانون كے مطابق ہو ۔ مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے فيصلے كرنے البتہ يہ چيز اپني راي مسلط كرنا نہيں كہلاتي بلكہ انہيں مسلمانوں كي مصلحت كے پيش نظر كئے جانے والے فيصلے شمار كياجاتا ہے اس اعتبار سے حاكم كي راي اس كے عمل كي طرح عوام كي مصلحت كے تابع ہوتي ہے ۔۔
اب حكمران (صاحبان ولايت) سے متعلق بحث باقي رہ گئي ہے مذہب حق (شيعہ) كے مطابق اس ميں كوئي اختلاف نہيں كہ نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كے بعد صاحبان امر و ولايت ائمہ اطہارعليھم السلام ہيں جو سيد الوصيين اميرالمومنين حضرت علي ابن ابي طالب عليہ السلام اور آپكي معصوم اولاد ہيں، يہ ائمہ اطہار يكے بعد ديگري اس دنيا ميں آتے رہے اور يہ سلسلہ زمانہ غيبت تك جاري رہا ان ائمہ اطہارعليھم السلام كے لئے نبي اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي عمومي ولايت اور كلي خلافت ہي كي طرح خدا كي طرف سے ولايت و خلافت قرار دي گئي ہے زمانہ غيبت كبري ميں ولايت و حكومت كسي فرد خاص كے لئے قرار نہيں دي گئي ہے ليكن عقل و نقل كے اعتبار سے كسي نہ كسي شكل ميں باقي رہنا بہرحال واجب ہے۔
جب اسلامي حكومت ايك قانوني حكومت ہے بلكہ خدائي قانون كي حكومت فقط يہي ہے اور اس حكومت كا واحد ہدف يہ ہے كہ قانون كے نفاذ كے ساتھ ساتھ لوگوں كے درميان خداپسند عدالت كا رواج ہے تو والي (حكمران) ميں دو صفتوں كا پايا جانا ضروري ہے جو قانوني حكومت كي بنياد و اساس ہيں كيونكہ ان كے بغير كسي بھي (اسلامي) قانوني حكومت كا وجود ميں انا ممكن ہي نہيں ہے وہ صفات يہ ہيں ۔
1) قانون كا علم۔
2) عدالت۔
علم كے وسيع دائري ميں لياقت اور شايستگي بھي شامل ہے كيونكہ اس ميں شك نہيں كہ ان دونوں كا ہونا بھي حاكم كے لئے ضروري ہے اگرآپچاہيں تو يوں كہہ سكتے ہيں كہ يہ صفتيں حكومت كي تين بنيادي شرطوں ميں سے تيسري شرط ہيں، ولايت كي بازگشت اس فقيہ عادل كي طرف ہے جو مسلمانوں پر ولايت (سرپرستي) كي صلاحيت ركھتا ہو اب چونكہ يہ ضروري ہے كہ حاكم، فقہ و عدالت سے بہرہ مندہو لہذا حكومت اور اسلامي حكومت كو تشكيل دينا دنيا كے تمام عادل فقہاء پرواجب كفائي ہوجاتا ہے اس اعتبار سے ان ميں سے كوئي ايك حكومت تشكيل دينے ميں كامياب ہوجائے تو بقيہ پر اس كي اطاعت واجب ہوجاتي ہے ۔
اور اگر حكومت كا قيام اس وقت تك ممكن ہي نہ ہو جب تك ساري فقہاء اكھٹے ہوكر اسے انجام نہ ديں تويہ كام اجتماعي طور پر ان پر واجب ہوجاتا ہے ۔ يعني سب كے لئے ضروري ہوجاتا ہے كہ مل كر حكومت تشكيل ديں اور اگر كسي بھي صورت ميں حكومت كي تشكيل ممكن نہ ہو (نہ انفرادي طور پر اور نہ ہي اجتماعي طور پر) تو فقہاء كا منصب ساقط نہيں ہوتا ۔ اگرچہ تشكيل حكومت كے سلسلے ميں ان كا عذر قابل قبول ہوتا ہے اس كے باوجود ان سب فقہاء كو بيت المال ميں تصرف كا حق بھي حاصل ہوتا ہے اور ان كے لئے حدود كا جاري كرنا (اگر ممكن ہو تو) واجب ہوجاتا ہے، اسي طرح صدقات لينا ٹيكس اور خمس كا وصول كرنا اور اسے مسلمانوں اور تنگ دست سادات وغيرہ اور اسلام و مسلمين كي دوسري ضروريات پوري كرنے كے لئے خرچ كرنا بھي واجب ہوجاتا ہے كيونكہ فقہا ء كو حكومتي امور ميں وہي ولايت حاصل ہے جو ولايت پيغمبراكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور آپكے بعد ائمہ اطہارعليھم السلام كو حاصل تھى، اور حكومت و سياست جيسے امور ميں فقہ عادل كو وہ تمام حقوق حاصل ہيں
جو رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار كوحاصل تھے
يہ امام خمينى كي عبارت سے چند اقتباس تھے جنہيں ہم نے نقل كيا ۔ 106
اس اعتبار سے اگر ولايت فقيہ كو اسلامي حكومت كي بنياد و اساس قرار دينے كے لئے (شيعوں
كے پاس) تام و كامل دليل ہو تو يہ چيز اس مذہب كي حقانيت پر ايك اور شاہد قرار پائے گي كيونكہ مذہب تشيع كے علاوہ بقيہ ساري مذاہب كي شريعت ميں موجودہ زمانے ميں اسلامي حكومت كي تشكيل كے لئے اسي شورائي نظام كے علاوہ كوئي اور بنياد و اساس نظر نہيں آتي جس كابطلان واضح وآشكار ہوچكا ہے لہذا ان كے نظريہ كا لازمہ يہ ہے كہ اسلام ميں نقص ہے يا پھر العياذ باللہ مبلغ اسلام (رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) نے تبليغ ميں كوتاہي كي ہے ۔
اب ہم ولايت فقيہ كي عمومي دليلوں كو پيش كريں گے ۔
دو طريقوں سے ولايت فقيہ كا اثبات:
اس ولايت كو ثابت كرنے كے دو طريقے ہيں پہلا طريقہ، يقيني اور حتمي امور كو انجام دينا:
اس بات كي وضاحت كے لئے درج ذيل دو نكات پر توجہ ضروري ہے:
 پہلا نكتہ
يہ بات واضح و روشن ہے كہ زمانہ غيبت ميں (امكاني صورت ميں) اسلامي حكومت كي تشكيل واجب ہے اگر اسلام كي فطرت (حقيقت) ميں معمولي غور فكر كيا جائے تو يہ امر واضح اور آشكار ہوجاتا ہے ۔اسماني اديان ميں سے سب سےآخري دين اسلام ہے جس كے ذريعے اللہ تعالي نےاسماني اديان پر خاتمے كي مہر لگائي ہے اسلام تمام اديان كے درميان بہترين اور كامل ترين دين ہے ۔
جسے رسول اعظم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس زمانے ميں لے كراي جسے زمانہ فترت (يعني رسولوں سے خالي زمانہ) كہا جاتا ہے جب انسانيت ترقي كركے اس مرحلے تك پہنچ چكي تھي كہ اس عظيم اور كامل رسالت كي ہدايت سے استفادہ كرے گزشتہ زمانہ سے انسانيت (كسي حد تك) درك و فہم، علم و معرفت اور احساس ذمہ داري كے اعتبار سے كامل اور قدرتمند ہوچكي تھي اس كے پس پردہ بہت سے اسباب كارفرماتھے ان ميں سب سے اہم سبب يہ تھا كہ انسانيت ايسي متعدداسماني اور خدائي رسالتوں كا زمانہ ديكھ چكي تھي جو كہ انبياكرام كے ذريعہ آئي تھيں اور كامل ترين اور عظيم رسالت يعني اسلام كے لئے تمہيد اور مقدمہ قرار پائي تھيں اسلام نےآكر وہ تمام چيزيں مہيا كيں جن كا انسان اپني سعادت و خوشبختي اور اپني روحي و معنوي ضرورتوں نيز علمي اور عملي ترقي اور نشوونما كے سلسلے ميں محتاج ہے ساتھ ہي ساتھ اسلام نے وہ چيزيں بھي فراہم كيں جو بشري نظام زندگي عبد و معبود كے روابط انسانوں كے باہمي تعلقات اور فرد كے اپني ذات پر حقوق سے متعلق ہيں اگر اس دعوي كي حقانيت كي بہترين دليل حاصل كرنے كے لئے كتاب و سنت ميں موجود احكام كادقت كے ساتھ مطالعہ كيا جائے اور ان كے باري ميں غور و خوض سے كام ليا جائے تو معلوم ہوجائے گا كہ يہ احكام جامع، وسيع اور تمام ابواب پر محيط ہيں اس بات كي تصريح و وضاحت متعدد احاديث ميں ہوئي ہے ان احاديث ميں سے چند حديثيں درج ذيل ہيں:
1) عن علي بن ابراھيم عن محمد بن عيسي عن يونس عن حماد عن ابي عبداللہ عليہ السلام قال سمعتہ يقول: مامن شي الا وفيہ كتاب او سنۃ 107 كافي ميں شيخ يعقوب كليني نے علي ابن ابراھيم سے انہوں نے محمد بن عيسي سے انہوں نے يونس سے انہوں نے حماد سے اور حماد نے امام صادق عليہ السلام سے نقل كيا، حماد كہتے ہيں ميں نے سنا كہ آپنے فرمايا كوئي بھي چيز ايسي نہيں ہے كہ جس كے باري ميں كتاب و سنت ميں (ذكر) نہ كيا ہو
2) كافي ميں يعقوب كليني نے اصحاب كي ايك جماعت سےانہوں نے احمد بن محمد سے
عن عدۃ من اصحابنا عن احمد ابن محمد عن ابن فضال عن عاصم عن حميد عن ابي حمزہ ثمالي عن ابي جعفرعليہ السلام قال: خطب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم في حجۃ الوداع فقال: ياايھاالناس واللہ ما من شي يقربكم من الجنۃ و يباعدكم من النار الا وقد امرتكم بہ ومامن شي يقربكم من النار و يباعدكم من الجنۃ وقد نھيتكم عنہ۔۔۔) 108
ترجمہ: انہوں نے ابن فضال سے انہوں نے عاصم بن حميد سے انہوں نے ابوحمزہ ثمالي سے اور ابوحمزہ ثمالي نے امام محمدباقرعليہ السلام سے نقل كيا ہے كہ آپنے فرمايا رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع كے موقع پر خطبہ ديتے ہوئے فرمايا: اے لوگو! خدا كي قسم جن چيزوں كا ميں نے حكم ديا ہے ان كے علاوہ كوئي بھي چيز ايسي نہيں رہ گئي ہے جو تمہيں جہنم سے قريب اور جنت سے دور كرسكے ۔
مندرجہ بالا دونوں حديثيں سند كے اعتبار سے كامل ہيں۔
واضح ہے كہ دين اسلام اپني جامعيت اور وسعت كے ساتھ انساني زندگي كے مختلف شعبوں كو منظم كرنے كے لئےكيا ہے لہذا يہ ممكن نہيں ہے كہ يہ دين حكومت سے بے نياز ہوجائے كيونكہ حكومت ہي كے ذريعہ اسلام مكمل نافذ ہوسكتا ہے خود رسول خدا صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے زمانے ميں اسلامي حكومت كے سربراہ تھے امير المومنين علي عليہ السلام كو بھي جتني مہلت ملے اتنے دن آپ اسلامي حكومت كے سربراہ رہے امام حسن عليہ السلام صلح سے پہلے اسلامي حكومت كے سربراہ تھے امام حسين عليہ السلام نے بھي حكومت حق قائم كرنے كے لئے قيام كياتھا، البتہ يہ اس بات سے منافات نہيں ركھتي كہ آپكو اپني شہادت كا علم تھا اور يہ بھي علم تھا كہ آپكي شہادت سے دين حنيف كي نصرت ہوگى اسي طرح امام زمانہ (ارواحنا فداہ) بھي انشاء اللہ اسلام كي بنياد پرحكومت قائم كرنے كے لئے ظہورفرمائيں گے۔
فطرت (حقيقت) اسلام سے يہ بات سمجھ ميں آتي ہے كہ امكاني صورت ميں اسلامي حكومت كا قائم كرنا واجب ہے حضرت امام خمينى عليہ الرحمۃ اپني كتاب “البيع” ميں ارشاد فرماتے ہيں: وہ دليل جو امامت ائمہ عليہم السلام كے سلسلے ميں ہے بعينہ وہي دليل امام زمانہ عليہ السلام كي غيبت كے زمانے ميں حكومت كي ضرورت كو ثابت كرتي ہے خصوصاايسے حالات ميں جب كہ امام زمانہ عليہ السلام كي غيبت كو شروع ہوئے كافي عرصہ گذرچكا ہے شايد اب بھي يہ غيبت كئي سال تك باقي رہے كيونكہ اس كا علم صرف خدا كے پاس ہے 109
دوسرا نكتہ
جيسا كہ جمہوريت كي بحث ميں بيان كيا گيا تھا كہ چونكہ حكومت كي اساس عمومي ولايت پر ہوئي ہے لہذا اسلام (جس كے لئے امت كي قيادت كرنا اور امت كو ساحل سعادت و خوشبختي اور خير و صلاح تك پہنچانا فقط حكومت كے ذريعے ہي ممكن ہے) كے ذريعے قائم ہونے والي حكومت ميں بھي يقينا عمومي ولايت پائي جاتي ہے اور اگر يہ شك ہوجائے كہ يہ ولايت كس كو حاصل ہے تو اس صورت ميں قدرمتيقن (يقيني مقدار) پر اكتفاكرنا واجب ہوجائےگا كيونكہ كسي بھي انسان كي كسي دوسري انسان پر ولايت، اسلامي اصولوں اورابتدائي قواعد (قواعد اوليہ) كےخلاف ہے 110 واضح ہے كہ ايسي صورت ميں قدر متيقن يہ ہے كہ يہ ولايت اس شخص كے حصے ميں آئےگي جس ميں درج ذيل مخصوص صفات پائي جاتي ہوں:
1) اسلام كےاحكام كي معرفت اس كامطلب يہ ہے كہ معاشرے كا ولي (سرپرست وحكمران) فقيہ ہو
2) عدالت
3) لياقت
امور حكومت كو چلانے كي اہليت و لياقت ركھتا ہو) لہذا معاشري كا ولي ايسا فقيہ ہوگا جو عادل اور باصلاحيت (لائق) ہو۔يہ تھا ولايت فقيہ كو ثابت كرنے كا پہلا طريقہ مگر يہ طريقہ صحيح نہيں ہے كيونكہ قدر متيقن كو اخذ كرنے كا تصور وہاں پر ہوتا ہے جہاں امر دو چيزوں كے درميان مشتبہ ہوجبكہ ان دو چيزوں ميں سے ايك كا دائرہ وسيع ہو اور دوسري كا دائرہ تنگ ہو كہ وہ وسيع دائري ميں شامل ہو 111 ايسے موقع پر قدر متيقن كا يہ تقاضا ہوتا ہے كہ تنگ دائرہ كو لے ليا جاتا ہے يعني اس تنگ دائرہ ميں اس حكم كا ثبوت يقيني ہوتا ہے ليكن جب حالت يہ ہو كہ امر ايسي دو عدد چيزوں كے درميان مشتبہ ہو اور ان كے درميان تباين اور اختلاف پايا جاتا ہو تو اس صورت ميں قدر متقين كا فرضيہ بے معني ہوجاتا ہے ۔
ہماري بحث بھي اسي دوسري قسم ميں شامل ہے كيونكہ جس طرح ہم يہ احتمال ديتے ہيں كہ عمومي ولايت، فقيہ كے ہاتھ ميں ہوتي ہے اسي طرح يہ احتمال بھي پايا جاتاہے كہ مذكورہ ولايت، (بہت سے ميدانوں اور شعبوں ميں) اكثرت كے ہاتھ ميں ہوسكتي ہے البتہ اس شرط كے ساتھ كہ قوانين كے فقہي پہلوؤں پر فقيہ كي كڑي نظارت ہو، تاكہ يہ ضمانت فراہم كي جاسكے كہ قوانين، شريعت اسلامي سے مطابقت ركھتے ہوں اس قسم كي نظارت ايك دوسرا موضوع ہے جو فقيہ كي عمومي ولايت سے الگ ہے ۔
اسي طرح ہم يہ بھي ملاحظہ كرتے ہيں كہ انساني معاشرہ ميں بہت سے حياتي اور بے پناہ اہميت كے حامل شعبے پائے جاتے ہيں جن ميں سے ہر ايك كے لئےماہر افراد ہوتے ہيں اس سلسلے ميں فقيہ كي ولايت كے قائل افراد يہ احتمال ديتے ہيں كہ فقيہ كو (ان شعبوں ميں بھي) عمومي ولايت حاصل ہوتي ہے اور وہ ان شعبوں كے نقائص كو انہي شعبوں كےماہرين پر بھروسہ كرتے ہوئے دور كرتا ہے ۔ ليكن اس كے برعكس يہ احتمال بھي ديا جاسكتا ہے كہ خود ان شعبوں كےماہرين كو ولايت حاصل ہوتي ہے اور ان كے لئے ضروري ہوتا ہے كہ فقہ سے متعلق مسائل ميں فقيہ كي طرف رجوع كريں ۔ظاہر ہے كہ اس اعتبار سے يقيني اور حتمي امور كو انجام دينے كے نظرئيے ميں اختلاف نظر سے اس كے عملي نتائج ميں بھي اختلاف پيدا ہوجائے گا۔
دوسرا طريقہ: روايات سے تمسك
دوسرا طريقہ يہ ہے كہ اس سلسلے ميں موجود روايات سے تمسك كيا جائے اس موضوع سے متعلق سب سے عمدہ روايات يہ ہيں:
پہلي روايت
الروايات التي ذكرت قولہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم”اللھم ارحم خلفائى: قيل، يارسول اللہ ومن خلفاؤك، قال: الذين ياتون من بعدي يروون حديثي و سنتي وزاد بعضھا، ثم يعلمونھا في بعض، فيعلمونھا الناس من بعدي۔ 112
يہ روايت متعدد طريقوں سے نقل ہوئي ہے جس ميں رسول خدا كا يہ قول ذكر ہوا ہے “اے خدا ميري خلفاء پر رحم فرما كہا گيا ! اے رسول اللہ آپكے خلفاء كون ہيں؟ آپنے فرمايا جو ميري بعدآئيں گے اور ميري حديث اور ميري سنت كو نقل كريں گے بعض روايات ميں اس جملے كا اضافہ ہے “پھر ميري سنت كي تعليم ديں گے “جبكہ بعض روايات ميں يوں نقل ہوا ہے پھر ميرے بعد لوگوں كو ميري سنت كي تعليم ديں گے ۔
اگر يہ مان لياجائے كہ يہ تمام روايات سند كے اعتبار سے كامل ہيں (چونكہ ان كے باري ميں دعوي ہے كہ اس قسم كي روايات استفاضہ 113 كي حد تك پہنچي ہوئي ہيں) ليكن پھر بھي ان كي دلالت كامل نہيں ہے كيونكہ ان روايات سے استدلال كے لئے زيادہ سے زيادہ يہ كہا جاسكتا ہے كہ ان سے خلافت مطلق (قيد و شرط كے بغير خلافت) ثابت ہوتي ہے لہذا جن كے باري ميں يہ شبہ ہو كہ كيا ان كو رسول خدا نے خلافت عطا فرمائي تھي يا نہيں تو وہاں پر ان روايات كے اطلاق سے تمسك كر كے ان كے لئے ولايت مطلقہ كو ثابت كيا جاسكتا ہے۔
اس بات كي طرف توجہ كرني چاہيئے كہ اطلاق ہميشہ شمول اور سرايت كا موجب بنتا ہے ليكن محمول ميں اطلاق جاري نہيں ہوسكتا (يعني اطلاق كبھي بھي محمول ميں شمول اور سرايت كا موجب نہيں بنتا) مثلا اگر كہا جائے زيد عالم، زيد عالم ہے تو يہ قضيہ اپنے اطلاق كے ذريعہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ ہر وہ چيز جس كے متعلق عالم ہونے كا احتمال ديا جائے زيد اس كا عالم ہے اگر كہا جائے فلاں شخص كي غذا نفع بخش ہے 114 تو يہ جملہ تمام احتمالي منفعتوں كے ثبوت پر دلالت نہيں كرتا كيونكہ محمول كي حالت اس كے موضوع كي حالت كي طرح نہيں ہے جس ميں اطلاق جاري ہوتا ہے اور سرايت كا سبب بنتا ہے جب كہا جائے “النار حارہ” آگ گرم ہے تو اطلاق كا تقاضہ يہ ہے كہ آگ كي تمام قسميں گرم ہيں ۔
اس سلسلے ميں تفصيلي گفتگو علم اصول ميں كي جاتي ہے وہاں مراجعہ كيا جائے ہماري اس بيان سے يہ واضح ہوجاتا ہے كہ ان روايات سے خلافت ثابت نہيں ہوتي اور جو خلافت ثابت ہوتي ہے وہ اجمالي ہے جس كا قدر متيقن يہ ہے كہ يہ خلافت تعليم و ارشادا و رراہنمائي كے سلسلے ميں ہے گويا يہ روايات راويوں، روايت اور راہنمائي و ارشاد كي عظمت كو بيان كررہي ہے اور اس روايت ميں اس عمل كو رسول خدا كي خلافت قرار ديا گيا ہے ۔
جب يہ روشن ہوگىا كہ كس نكتے كي بنياد پر محمول ميں اس معني كے ساتھ اطلاق نہيں ہوسكتا، تو اب اس بات كي ضرورت نہيں رہ گئي كہ كس قسم كي روايات (جن كا ذكر ابھي انے والا ہے) كے متعلق دلالت، سنداور متن كے اعتبار سے بحث كر كے كلام كو طولاني كيا جائے 115 وہ روايات درج ذيل ہيں:
1) رسول خداكا ارشاد گرامي ہے: ان العلماء ورثۃ الانبياء 116 علما انبياء كے وارث ہيں ۔
2) آپ كا ارشاد ہے: الفقہاء امناالرسل مالم يدخلوافي الدنيا 117 فقہاء رسولوں كے امين ہيں جب تك كہ دنيا ميں داخل نہ ہوجائيں۔
3) امام موسيٰ كاظم عليہ السلام كاقول ہے: ان المومنين الفقھاء حصون الاسلام كحصن سورالمدينۃ لھا 118
وہ مومن جو فقيہ ہوں اسلام كے محكم قلعے ہيں جس طرح پتھر كي ديوار شہر كے لئے محكم قلعہ ہوتي ہے۔
دوسري روايت
كتاب تحف العقول ميں يہ روايت ہے كہ:
عن سيد الشہداء حسين ابن علي عن اميرالمومنين علي عليہ السلام وقد جاء فيھا مجاري الامور والاحكام علي ايد العلماء باللہ الامناء علي حلالہ و حرامہ 119
سيدالشھداء امام حسين عليہ السلام نے اميرالمومنين علي عليہ السلام سے نقل كيا ہے”تمام امورواحكام كي باگ ڈورعلماء رباني كے ہاتھوں ميں ہے جو كہ خدا كے حلال وحرام كے امين ہيں”
يہ روايت دلالت كے اعتبار سے عبدالواحد احمدي كي اس روايت سے زيادہ قوي ہے جسے انہوں نے اپني كتاب غرر الحكم ميں اميرالمومنين علي سے نقل كيا ہےآپنے فرمايا: عن اميرالمومنين عليہ السلام قال “العلماء حكام علي الناس (علماء لوگوں پر حاكم ہيں) 120 يہ دونوں روايتيں سند كے اعتبار سے ناقابل عمل ہيں۔
بعض اوقات دوسري روايت كي دلالت ميں اشكال كيا جاتا ہے كہ روايت ميں لفظ حكام موضوع نہيں ہے بلكہ محمول واقع ہوئي ہے لہذا محمول ميں اطلاق كے جاري و ساري ہونے كا موجب نہيں بنے گا۔
اس اشكال كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ جب خطاب كے وقت قدرمتيقن نہ پايا جاتا ہو اور اطلاق بدلي بھي معقول ہو ساتھ ہي ساتھ امر ان دو چيزوں كے درميان منحصر ہو اطلاق شمولي روايت مہمل ہو اور قضيہ بھي ايسا ہو كہ جس ميں فقط خبر نہ دي جارہي ہو بلكہ اس قضيہ ميں حكم بيان ہورہا ہو تو ايسي صورت ميں عرف اس سے اطلاق سمجھتا ہے ۔
يہ جواب قابل قبول نہيں ہے كيونكہ جو مقدار يقيني ہے وہ يہ ہے كہ فقہاء كو تطبيق ميں ولايت حاصل ہے مثلا اگر دولوگ ايك دوسري كے خلاف مقدمہ دائر كريں تو فقيہ كو يہ حق حاصل ہے كہ جو شخص حق پر نہ ہو اس پر حدود اور احكام كا نفاذ كرے فقيہ كو اس سے زيادہ ولايت حاصل نہيں ہے تاكہ وہ غير ضروري كو ضروري كرسكے يعني جو چيزعنوان اولي كے اعتبار سے غير ضروري ہو اسے ضروري قرار دے سكے كبھي يہ بھي اشكال كيا جاسكتا ہے كہ اتني مقدار (حدود و احكام كي تطبيق و نفاذ) بھي مقام خطاب ميں يقيني نہيں ہے
تيسري روايت
تيسري روايت”ما رواہ الكليني عليہ الرحمۃ عن محمد بن يحيٰ عن محمد بن الحسين عن محمد بن عيسيٰ عن صفوان بن يحيٰ عن داؤد بن الحصين عمر بن حنظلہ قال: سئلت اباعبداللہ عليہ السلام عن رجلين من اصحابنا بينھما منازعۃ في دين اوميراث فتحاكما الي السلطان والي القضاۃ ايحل ذالك؟ قال: من تحاكم اليھم في حق او باطل فانما تحاكم الي الطاغوت ومايحكم فانما ياخذ سحتاوان كان حقا ثابتاً لہ لانہ اخذہ بحكم الطاغوت وما امر اللہ ان يكفربہ قلت: فكيف يضعان؟ قال:
ينظر ان من كان منكم ممن قد روي حديثنا و نظر في حلالنا وحرامنا و عرف احكامنا فليرضوابہ حكما فاني قد جعلتہ عليكم حاكما فاذا حكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانما استحف بحكم اللہ علينا رد والراد علينا الراد علي اللہ وھو علي حد الشرك باللہ۔
شيخ كليني عليہ الرحمۃ نے محمد بن يحي سے انھوں نے محمد بن الحسين سے انھوں نے محمد بن عيسيٰ سے انھوں نے صفوان بن يحيٰسے انھوں نے داؤد بن حصين سے اور انھوں نے عمر بن حنظلہ سے نقل كيا ہے، عمر بن حنظلہ كا كہنا ہے: ميں نے امام صادق عليہ السلام سے ہماري مسلك كے اصحاب كے باري ميں سوال كيا جن كے درميان قرض يا وراثت كے سلسلے ميں اختلاف ہو گيا تھا اور وہ دونوں اپنے شكايت حاكم وقت اور اس كے قاضيوں كے پاس لے گئے تھے تو كيا يہ كام جائز ہے؟ حضرت نے فرمايا: جس نے حق يا باطل ميں سے كسي كے لئے ان كي طرف رجوع كيا تو بيشك اس نے طاغوت كي طرف رجوع كيااور وہ (قاضي يا حاكم) جو حكم كرے گا اس حكم كے نتيجہ ميں حاصل ہونے والا مال ناحق اور ناجائز ہوگا۔اگر چہ حقيقتاً يہ مال اس شخص كا حق ہي كيوں نہ ہو كيونكہ اس نے طاغوت كے حكم كے ذريعے يہ مال حاصل كيا ہے، ميں نے كہا: پھر وہ كياكريں؟ حضرت نے فرمايا: وہ دونوں ڈھونڈتے كہ تم ميں سے جو ہماري احاديث كو نقل كرنے والا ہو ہماري حلال و حرام سےآگاہ ہو اور ہماري احكام كو جانتا ہو، تو اسے حاكم تسليم كرتے ميں نے اس شخص (ان صفات كے حامل مجتہد) كو تم لوگوں پر حاكم قرار ديا ہے، اگر وہ ہماے احكام كے مطابق فيصلہ كرے اور اس كا فيصلہ قبول نہ كيا جائے تو يہ حكم خدا كي اہميت كو كم كرنے اور ہماري بات كو رد كرنے اور ٹھكرانے كے برابر ہوگا اور جو ہميں ٹھكراي گا اس نے خدا كو ٹھكركيا اور جس نے خدا كو ٹھكركيا اس نے شرك اختيار كيا۔
اس روايت كو شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے اپنے سند كے ساتھ محمد بن يحيٰ سے نقل كيا ہے اور انھوں نے محمد بن الحسن بن شمون سے اور انھوں نے محمد بن عيسي … سے نقل كيا ہے۔ 121
شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے اپنے سند كے ساتھ محمد بن علي بن محبوب سے انھوں نے محمد بن عيسيٰ سے اسي طرح نقل كيا ہے۔ 122 اوران تين سندوں ميں سے پہلي اور تيسري سند كامل ہے۔ 123
روايت عمربن حنظلہ كي دلالت
پہلا استدلال
دلالت كي بحث ميں بعض اوقات حضرت كے قول “فاني جعلتہ حاكما”كے اطلاق سے استدلال كيا جاتا ہے ليكن اس استدلال ميں وہي اشكال پايا جاتا ہے جو گذشتہ روايت ميں تھا وہ يہ كہ محمول ميں اطلاق جاري نہيں ہو تا (كيونكہ اطلاق شمول و عموم نہيں ركھتا) اور اگر قدر متيقن كو اخذ كيا جائے تو حديث كے موقع ومحل كو مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہا جائے گا كہ ولايت كي يقيني مقدار يہ ہے كہ فقہاء كو باب قضاوت ميں اور نزاع و اختلاف كو حل مرنے كے سلسلہ ميں ولايت حاصل ہے ۔ 124
دوسرا استدلال
بعض اوقات مذكورہ روايت سے استدلال كرتے وقت حضرت كے اس قول مبارك”فاذاحكم بحكمنا فلم يقبل منہ فانما استخف بحكم اللہ”كے اطلاق 125 سے استفا دہ كيا جاتا ہے ليكن اس استدلال ميں يہ اعتراض ہے كہ عرف ميں اس بات كا احتمال پايا جاتا ہے كہ حضرت كے اس قول “اذاحكم “جب وہ حكم كرے “ميں موجد ضمير “ھو” اس حاكم كي طرف پلٹ رہي ہے جس كے پاس وہ دونوں افراد اپني شكايت اور اپنا مقدمہ لے كے گئے تھے۔
اس احتمال كے مطابق عرفي طورپر حضرت كے اس قول سے يہ مفہوم ليا جائے گا كہ “جب وہ ہماري حكم كے ذريعے نزاع و اختلا ف كو حل كرے اور فيصلہ كرے اور اس كے فيصلہ كو قبول نہ كيا جائے تو يہ خدا كے حكم كو كم اہميت اور سبك شمار كرنے كے برابر ہے، اس طرح مذكورہ روايت سے فقيہ كے لئے ولايت مطلقہ كو ثابت نہيں كيا جا سكتا ۔ 126
چوتھي روايت: “ما جاء في كتاب “اكمال الدين واتمام النعمۃ ” عن محمدبن محمد بن عصام عن محمد بن يعقوب عن اسحٰق بن يعقوب قال: ساٴلت محمد بن عثمان العمري اٴم يوصل لي كتابا سئلت في عن مسائل اشكلت على، فوردالتوقيع بخط مولاناصاحب الزمان عليہ السلام: اما ما سئلت عنہ ارشدك اللہ وثبتك الي ان قال: واماالحوادث الواقعہ فارجعوا فيھا الي رواۃ احاديثنا فانھم حجتي عليكم وانا حجۃ اللہ “۔
“اكمال الدين واتمام النعمۃ” ميں صاحب كتاب نے محمد بن محمد بن عصام سے انھوں نے محمد بن يعقوب سے انھوں نے اسحٰق بن يعقو ب سے نقل كيا ہے كہ وہ كہتے ہين: ميں نے محمد بن عثمان سے كہا كہ وہ ميري خاطر (يہ زحمت كريں كہ ميري) ايك خط كو پہچاديں جس ميں، ميں نے ان مسائل كے باري ميں سوال كيا تھا جو ميري لئے واضح نہيں تھے پھر ہماري موليٰ صاحب الزمان عليہ السلام كے دست مبارك سے تحرير كي ہوئي توتوقيع 127 مجھ تك پہنچي (جس ميں لكھاتھا): اورجس چيز كے متعلق تم نے سوال كيا ہے خداوند تمہاري ہدايت كرے اور تمہيں ثابت قدم ركھے…يہاں تك كہ حضرت نے فرمايا: اور پيش انے والے حوادث و واقعات ميں ہماري احاديث نقل كرنے والوں كي طرف رجوع كرو وہ تم پر ميري حجت ہيں اور ميں حجت خدا ہوں۔
اس روايت كو شيخ طوسي عليہ الرحمۃ نے كتاب “الغيبۃ”ميں ايك جماعت سے نقل كيا ہے اور اس جماعت نے جعفر بن محمد بن قولويہ اور ابو غالب رازي سے نقل كيا ہے ۔ساتھ ہي ساتھ يہ روايت ان دو كے علاوہ دوسرون سے بھي نقل ہوئي ہے اور ان سب نے محمد بن يعقوب سے نقل كيا ہے اس روايت كو طبرسي نے بھي اپني كتاب “الاحتجاج”ميں اطر ح نقل كيا ہے۔ 128
اس روايت كي دوسري سند نقل كے اعتبار سے اسحاق بن يعقوب تك تقريباً يقيني ہے كيونكہ روايت كو ايك جماعت 129 نے ايك دوسري جماعت 130 سے اوراس جماعت نے شيخ كليني عليہ الرحمۃ سے نقل كيا ہے اور پہلي سند بھي اس كو اور قوي كر رہي ہے پس اس روايت كا شيخ كليني عليہ الرحمۃ سے نقل كيا جانا شخصي اطمينان كا باعث ہے ۔پھر شيخ كليني نے يہ روايت ايك شخص يعني اسحاق بن يعقوب كے واسطہ سے امام زمانہ عليہ السلام سے نقل كي ہے، سند ميں نقص يہ ہے كہ اسحاق بن يعقوب كا نام علماء رجال نے اپني كتابوں ميں نقل نہيں كيا ہے لہٰذا كيا يہ شخص مجہول الحال شمار كيا جائے گاجب كہ يہ شخصيت اتني عظيم الشان ہے كہ ان كے باري ميں شيخ كليني نے نقل كيا ہے كہ ان كے پاس امام زمانہ عليہ السلام كي توقيع مبارك آئي تھي۔لہٰذا اس صورت ميں اس جھوٹ اور كوتاہي كے باري ميں يوں بحث كي جائے گي ۔پہلي دفعہ اس شخصيت كے سلسلے ميں جھوٹ يا كوتاہي كا احتمال خود تو قيع كے صادر ہونے باري ميں ہے اور دسري دفعہ اس توقيع كے جملوں اور خصوصيات كے سلسلے ميں ہے ۔
ليكن پہلا فرضيہ بہت بعيد ہے كيونكہ يہ احتمال قابل توجہ نہيں ہے كہ شيخ كليني سے يہ بات چھپي رہي ہو كہ ان كے زمانے ميں كوئي شخص توقيع كا جھوٹا دعويٰ كررہا ہے، يعني توقيع كے باري ميں جھوٹے دعويٰ كا احتمال شيخ كليني كے لئے اس حد تك قابل اعتناء نہيں تھاكہ انھيں اس كے نقل كرنے سے روك ديتا، خصوصاً جب اس باب كو بھي ملحوظ خاطر ركھا جائے كہ معمولاً امام زمانہ عليہ السلام كي توقيع مبارك فقط خاص افراد كے لئے صادر ہو ئي تھى، كيونكہ اس وقت تك امام عليہ السلام كي غيبت كے زمانہ شروع ہو چكا تھا اور آپ معاشري اور خليفہ سے مخفي تھے، اس زمانے ميں تقيہ كي شدت كا يہ حال تھا كہ امام عليہ السلام نے لوگوں كے لئےآپكا نام لينا تك حرام قرار ديديا تھا، اگر چہ يہ حكم اس لئے تھا تاكہ لوگوں كي جان ومال كي حفاظت ہو سكے۔كيونكہ اگرامام عليہ السلام كا نام ليا جاتا تو اس شخص كو حاكم وقت كے پاس طلب كيا جاتا۔ان حالات ميں يہ بات كيسے تصور كي جاسكتي ہے كہ خاص افراد كے علاوہ كسي اور كے لئےآپكي توقيع مبارك صادر ہو؟! اور يہ كيسے فرض كيا جاسكتا ہے كہ شيخ كليني اپنے زمانے كے خواص كو عوام سے تميز دينے پر قادر نہيں تھے؟ يا يہ تصور كيسے ممكن ہے كہ خواص ميں سے كسي ايك كي طرف سے ايك مكمل توقيع جعل كي گئي ہو؟
كتاب “الغيبۃ”ہي ميں ايك اور جگہ ص22۰ پر اس حديث كي سند ذكر ہوئي ہے ليكن متن حديث كا ذكر نہيں ہے ۔اس سند ميں لفظ “وغيرھما” كے بجائے لفظ”وابي محمد التلعكبري” ذكر ہوئي ہے ۔يہ تينوں (جعفر بن محمد بن قولويہ ابو غالب رازي اور ابو محمد التلعكبري) ثقہ اور جليل القدر ہيں۔ليكن دوسري فرضيہ ميں جب يہ ثابت ہے كہ اصل نص (توقيع) كي بنا پر جھوٹ و بہتان پر نہيں تھي اور توقيع فقط خاص افراد كے لئے صادر ہوتي تھي تو پھر كيفيت نقل ميں كوتاہي عام طور پر درج ذيل صورتوں ہي ميں ممكن ہے:
(1) توقيع ميں تبديلي كسي اہم ذاتي مصحلت كي وجہ سے كي گئي ہو، ليكن ہماري محبت ميں ايسي كسي مصلحت كا كوئي تصورنہيں ہے۔
(2) نسيان يا شك و ترديد وغيرہ كي وجہ سے نقل كرنے ميں كوتاہي ہوئي ہو اور دقت سے كام نہ ليا گيا ہو، عام طور پر يہ چيز زباني نقل ميں پائي جاتي ہے ليكن اگر كتبي شكل ميں
نقل كيا جا ئے تو يہ چيز قابل تصور نہيں ہے، لہٰذا اب بڑے ہي اطمينان سے يہ دعويٰ كيا جا سكتا ہے كہ يقيناً اسحاق بن يعقوب نے اس روايت كے سلسلے ميں جھوٹ سے كام نہيں ليا، اوراس بات كا بھي يقين ہے كہ نہ تو اصل توقيع كے صادر ہونے ميں اور نہ ہي توقيع كي بعض خصو صيات ميں ايسا ہو اہے۔ 131 يہاں تك تو حديث كي سند كي كيفيت كے باري ميں بحث تھي۔
روايت كي دلالت: يہ روايت دلالت كے اعتبار سے كامل ہے كيونكہ عرف كي نگاہ ميں امام عليہ السلام كے اس جملے فانھم حجتي عليكم” ميں مناسبات مقام كي وجہ سے اطلاق پاياجاتا ہے، يعني امام عليہ السلام تمام ميدانوں اور تمام صورتوں ميں اہل بيت عليھم السلام كي حديث نقل كرنے والوں كي طرف رجوع كرنے كاحكم دے رہے ہيں ۔كيونكہ ارشاد وہدايت اور موقف عملي كي تعيين و تشخيص كے لئے امام كي طرف رجوع كيا جاتا ہے، اور يہ (راويان احاديث=فقہاء) امام عليہ السلام كي طرف سے لوگوں پر حجت ہيں ۔كيا اس كا مطلب (فقيہ كي) ولايت عامہ كے علاوہ كچھ اور ہو سكتا ہے؟ 132
پانچويں روايت: يہ روايت اصول كافى ميں محمد بن عبداللہ (حميري) ومحمد بن يحي (عطار) سے نقل ہوئي ہے كہ جسے ان دونوں نے عبد ابن جعفر حميري سے نقل كيا ہے ۔عبد اللہ بن جعفر حميري كہتے ہيں:
ميں اور شيخ ابو عمر و عثمان بن سعيد عمري رحمۃ اللہ عليہ احمدبن عبد اسحاق كے پاس آئے ہوئے تھے اس وقت احمد بن اسحاق نے اشارہ كيا كہ ميں عثمان بن سعيد عمري سے امام عسكرے كا نائب و جانشين كے متعلق سوال كروں، ميں نے ان سے كہا: اے ابو عمرو!آپ سے ايك چيز كے باري ميں پوچھنا چاہتا ہوں البتہ جس چيز كے متعلق سوال كر رہا ہوں مجھے اس ميں كوئي شك وشبہ نہيں ہے، ميرا عقيدہ اور دين يہ ہے كہ زمين حجت خدا سے خالي نہيں رہ سكتي سوائے ان چاليس دنوں كے جو قيامت سے پہلےآئيں گے جب حجت خدا كو زمين سے اٹھا ليا جائے گا اور توبہ كا دروازہ بند ہو جائے گا، جو لوگ اس وقت تك ايمان نہيں لائے ہوں گے اور جنھوں نے ايمان كے ساتھ نيك عمل نہيں گئے ہوں گے ا ب ان كا ايمان لانا انھيں كوئي فائدہ نہيں پہنچائے گا، يہ لوگ خدا كي بد ترين مخلوق ہوں گے اور ان پر ہي قيامت برپا ہوگى ۔ميں يہ سوال صرف اپنے يقين ميں اضافے كي خاطر كر رہاہوں، ابراہيم عليہ السلام نے خدا سے درخواست كي كہ اے خدا!مجھے يہ دكھلا دے كہ تو كيسے مردوں كو زندہ كرتا ہے؟ خدا نے فرمايا: كيا تم (اس پر) ايمان نہيں ركھتے ہو؟ ابراہيم عليہ السلام نے فرمايا: (ايمان تو ركھتا ہوں) ليكن اطميان قلب كي خاطر (سوال كررہا ہوں) ۔
ميري لئے ابو احمد بن اسحاق نے امام علي نقي عليہ السلام سے نقل كيا ہے ۔احمد بن اسحاق كہتے ہيں ميں نے امام علي نقي عليہ السلام سے پوچھا: ميں كس سے رابطہ ركھوں؟ كس سے احكام وغيرہ لوں؟ اور كس كا قول قبول كروں؟ امام عليہ السلام نے فرمايا: عمري ميرا قابل اعتماد شخص ہے وہ جو كچھ ہماري طرف نسبت ديتے ہوئے تم تك پہنچائے گا وہ درحقيقت ہماري ہي طرف سے ہوگا اور ہماري طرف سے جو كچھ تم سے كہے گا وہ حقيقۃً ہماري ہي طرف سے ہوگا۔اس كي باتوں كو سنواور اس كي اطاعت كرو (كيونكہ) وہ ہماري نگاہ ميں قابل اعتماد اورامين ہے ۔
مجھے ابو علي نے بتايا ہے كہ انھوں نے امام حسن عسكرے عليہ السلام سے مندرجہ بالا سوال كئے تو امام حسن عسكرے عليہ السلام نے ابو علي كے جواب ميں فرمايا: عمري اور اسكا بيٹا قابل اعتماد ہيں، يہ دونوں ہماري طرف سے جو كچھ تم تك پہنچائيں (نقل كريں) وہ ہماري طرف سے پہنچاتے ہيں جو كچھ ہماري طرف سے تم سے كہتے ہيں وہ واقعاً ہماري طرف سے كہتے ہيں، ان دونوں كي بات غور سے سنو اور ان دونوں كي اطاعت كرو كيونكہ يہ دونوں قابل اطمينان اور امين ہيں، يہ آپ (عمري) كے باري ميں ان دواماموں كا ارشاد تھا جو دنيا سے رحلت فرماچكے ہيں، عبد اللہ بن حميري كہتے ہيں (يہ سن كر) ابو عمر وعثمان بن سعيد عمري روتے ہوئے سجدے ميں گر گئے، پھر مجھ سے كہنے لگے اپنا سوال بيان كرو، ميں نے ان سے كہا
كياآپنے امام حسن عسكرے عليہ السلام كے جانشين كو ديكھا ہے؟ انھوں نے كہا خدا كي قسم ميں نے ديكھا ہے ان كي مبارك گردن اس طرح ہے (انھوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ كيا) پھر ميں نے
ان سے كہا: فقط ايك سوال اور رہ گيا ہے انھوں نے كہا: بيان كرو ميں نے كہا: ان (امام عسكرے عليہ السلام) كے جانشين كانام كيا ہے؟ انھوں نے جواب ديا: ان كے نام كے باري ميں سوال كرنا تم لوگوں پر حرام ہے يہ بات ميں اپنے طرف سے نہيں كہہ رہا ہوں كيونكہ مجھے كسي چيز كو حلال يا حرام كرنے كا حق حاصل نہيں ہے، ميں يہ (حكم) خود امام زمانہ عليہ السلام كي طرف نقل كر رہاہوں، حاكم وقت كو يہ اطلاع ملي ہے كہ امام حسن عسكرے عليہ السلام اس دنيا سے رحلت كر چكے ہيں اور ان كي كوئي اولاد نہيں ۔
لہٰذا اس نے امام حسن عسكرے عليہ السلام كي ميراث تقسيم كر دي ہے، اس طرح انحضرت كي ميراث اس نے حاصل كي ہے جو حقدار 133 نہ تھا، اس وقت حضرت كا خاندان در بدر ہے اور كسي ميں يہ جراٴت نہيں كہ ان كے سامنے اپنا تعارف كروائے يا ان تك كوئي چيز پہنچائے، اگر حضرت كا نام ليا جائے تو حاكم وقت انھيں ڈھونڈ ھنے لگے گا لہٰذا خدا كا تقويٰ اختيار كرو اور آپكا نام پوچھنے سے گريز كرو۔
شيخ كليني عليہ الرحمۃ فرماتے ہيں: ہماري اصحاب ميں سے ايك شيخ 134 (جن كا نام ميں بھو ل گيا ہوں) نے ميري لئے نقل كيا ہے كہ ابو عمرو نے احمد بن اسحاق سے اس طرح كے سوال كئے تھے اور انھوں نے اسي طرح كے جواب ديئے تھے ۔ 135
اس حديث كي سند تو اعليٰ درجے تك معتبر ہے ۔ (ليكن دلالت كے باري ميں ابھي بحث كي جائے گي)
روايت كي دلالت: روايت كي دلالت اس بات پرموقوف ہے كہ كلمہ “اطعہ ” اس كي اطاعت كرو”اور “اطعھما” ان دو كي اطاعت كرو “سے عمري اور ان كے بيٹے كي اطاعت كو ان تمام صورتوں ميں واجب سمجھا جائے جب وہ كسي بھي طرح كا حكم ديں۔
امام عليہ السلام نے عمري اور ان كے بيٹے كي اطاعت كا حكم فقط اس صورت ميں نہيں ديا ہے كہ جب وہ امام عليہ السلام سے روايات نقل كررہے ہوں يا فقيہ ہونے كے اعتبار سے فتويٰ دے رہے ہوں، بلكہ امام عليہ السلام كا حكم اس فرضيہ كو بھي شامل كئے ہے كہ وہ جب بھي كسي چيز كا حكم ديں ان كي اطاعت واجب ہے اب وہ چاہے ولي امر كے طور پر حكم ديں يا حد اقل امام عليہ السلام كے نمايندے كے عنوان سے امر كريں كيونكہ اطاعت كا حقيقي مصدق روايت و فتويٰ ميں نہيں بلكہ حكم ميں جلوہ گر ہوتا ہے، اور پھر راوي يا مفتي (بعنوان راوي يا بعنوان مفتي) حكم دينے والا شمار نہيں ہوتا تاكہ اس كي اطاعت كي جائے بلكہ ہميشہ حاكم كو (بعنوان حاكم) امر كرنے والا شمار كيا جاتاہے ۔
امام كے اس قول “اطعہ يا اطعھما” كو روايت يا فتويٰ سے مخصوس كرنا، اطاعت كو مجازي اور ناقابل اعتنا معني سے مخصوص كرنے كے برابر ہے اوراس قسم كي تخصيص غير عر في ہے۔ 136
اگر چہ فطري طور پر حديث “عمرى” اور ان كے فرزند كے سلسلے ميں گفتگو ہوئي ہے ليكن چوں كہ روايت ميں حكم اطاعت كي يہ علت بيان كي گئي ہے كہ وہ دونوں ہماري نگاہ ميں قابل اعتماد ہيں اس لئے (ان كي اطاعت تم پر واجب ہے) لہٰذا اس تعليل كے قرينے سے روايت ميں مذكورہ حكم كو ان تمام فقہاء پر نافذ كيا جائے گا جو فہم اور نقل احكام ميں قابل اعتماد اور مورد اطمينان ہوں۔
اس تفصيلي بحث كے بعد بھي اگر كوئي يہ فرض كرے كہ ان روايات كے ذريعے ولايت فقيہ كو ثابت نہيں كياجا سكتا اور يہ كہے كہ ياتو سند كے اعتبار سے يہ روايتيں ضعيف ہيں يا پھر دلالت ميں نقص ہے ليكن پھر بھي در ج ذيل دوروشوں ميں سے كسي ايك كے ذريعے تو يقيناً ولايت فقيہ كو ثابت كيا جا سكتا ہے:
ولايت فقيہ كے اثبات كے لئے پہلي روش
واضح ہے كہ ہميشہ سے شيعوں كو ايك ايسے ولي كي شديد ضرورت رہي ہے جو ان كے امور كوآگے بڑھا ئے حتيٰ يہ ضرورت اسلامي حكومت كے قائم نہ ہونے كي صورت ميں بھي رہي ہے ہماري زندگي ميں متعدد ايسي صورتيں آتي ہيں جہاں حاكم شرعي كے حكم كي ضرورت محسوس ہوتي ہے، (چنانچہ واضح ہے) اگر يہ كہا جائے كہ فقيہ كا حكم صرف باب قضاوت اور باب شككيات يعني نزاع وغيرہ كے فيصلے كے باب ميں ہي نافذ ہوتا ہے تب بھي يہ ضرورتيں حكومت كے بغيرپوري نہيں ہو پاتيں اوران خلاؤں كو پر نہيں كرپاتے، اوراگر يہ فرض كر ليا جائے كہ بعض صورتوں ميں مؤمنين ہي ميں سے كسي ايك عادل شخص كو شرعي ولايت حاصل ہے جو ان كاموں كو انجام دے تو اگر اس فرض كو قبول كر بھي ليا جائے تب بھي يہ ضروريات پوري نہيں ہوتيں۔
اب وہ واحد نظر يہ جو ان خلاؤں كو پر كرنے كي صلاحيت ركھتا ہے اور جو روايات سے ان خلاؤں كو پر كرنے كے سلسلے ميں راہ حل كے طور پر سامنےآتا ہے (اگر چہ روايات ميں سند و دلالت كے اعتبار سے شكوك و شبہات پائے جاتے ہيں) وہ ہے ولايت فقيہ يا راويان حديث كي ولايت كا نظريہ ۔ان روايات كي سند كے متعلق اس وقت جو شكوك و شبہات پائے جاتے ہيں شايد وہ شبہات نص كے (صادر ہونے كے) زمانے ميں نہيں پائے جاتے تھے، اور اسي طرح دلالت كے متعلق پائے جانے والے شبھات بھي نص كے صادر ہونے كے زمانے ميں موجود نہيں تھے، كيونكہ وہ لوگ جس ماحول اور جن افكار كے درميان زندگي گذار رہے تھے ان كے پاس ايسے اطمينان بخش قرائن موجود تھے جو ان كو روايت كے مقصود كوسمجھنے ميں مدد ديتے تھے (ليكن اب وہ قرائن مفقود ہيں لہٰذا ان روايات كے مقصود كو سمجھنے م

http://shiastudies.com/ur/156/%d9%88%d9%84%d8%a7%d9%8a%d8%aa-%d9%81%d9%82%d9%8a%db%81/