سوره اعراف آيات 41 – 60

سوره اعراف آيات 41 – 60

لَہُمۡ مِّنۡ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّ مِنۡ فَوۡقِہِمۡ غَوَاشٍ ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الظّٰلِمِیۡنَ﴿۴۱﴾

۴۱۔ ان کے لیے جہنم ہی بچھونا اور اوڑھنا ہو گی اور ہم ظالموں کو ایسا بدلہ دیا کرتے ہیں۔

41۔ کفار کے لیے آسمان کے دروازے نہ کھلنے کا مطلب ممکن ہے یہ ہو کہ ان کے اعمال قبول نہ ہوں گے یا پھر یہ کہ ان کا جنت میں داخلہ ممنوع ہو گا۔ چنانچہ بعد کی عبارت سے دوسری تفسیر قرین قیاس معلوم ہوتی ہے جس میں کافروں کا جنت میں داخل ہونا سوئی کے ناکے سے اونٹ کے گزرنے کی طرح محال بتایا ہے۔ جس طرح کافر کا جنت میں داخل ہونا اللہ کے حتمی فیصلے کے خلاف ہے اسی طرح متقی اور پرہیزگار مومن کا جہنم میں داخل ہونا بھی محال اور عدل الٰہی کے خلاف ہے۔


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَاۤ ۫ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور ایمان لانے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، ہم کسی کو (نیک اعمال کی بجا آوری میں) اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔


وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ؕ وَ نُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡکُمُ الۡجَنَّۃُ اُوۡرِثۡتُمُوۡہَا بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔ اور ہم ان کے دلوں میں موجود کینے نکال دیں گے، ان کے (محلات کے) نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور وہ کہیں گے: ثنائے کامل ہے اس اللہ کے لیے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اگر اللہ ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، ہمارے رب کے پیغمبر یقینا حق لے کر آئے اور اس وقت ان (مومنین) کو یہ ندا آئے گی کہ یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو ان اعمال کے صلے میں ہے جنہیں تم بجا لاتے رہے ہو۔

43۔ اہل ایمان کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے اگر دنیا میں ان کی آپس میں کدورت ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں سے ان کدورتوں اور عداوتوں کو صاف کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کرخوشی اور کیف و سرور محسوس کریں۔ کیونکہ جن سے عداوت ہو ان کو دیکھنے سے اذیت ہوتی ہے۔ جنت میں کسی قسم کی اذیت نہ ہوگی اور احباب کے ساتھ بیٹھنے سے لطف اندوز ہوں گے۔


وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا ؕ قَالُوۡا نَعَمۡ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔

44۔اہل جنت اور اہل جہنم کے اس مکالمے سے اہل جنت کو نعمتوں کی زیادہ قدر ہو گی اور اہل جہنم کی حسرت و ندامت میں اضافہ ہو گا۔ ایسے میں اہل جنت میں سے ایک مؤذن اذان برائت دے گا جس کا مضمون یہ ہو گا: اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں ایک خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: انا المؤذن فی الدنیا والآخرۃ، قال اللّٰہ عزوجل: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ وانا ذلک المؤذن و قال:وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ انا ذلک المؤذن ۔ میں دینا و آخرت دونوں میں مؤذن ہوں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ میں ہی وہ مؤذن ہوں نیز فرمایا:َ اَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ یہاں بھی میں ہی وہ مؤذن ہوں‘‘۔ (معانی الاخبار ص 58)

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرکین سے برائت کا اعلان بحکم خدا و رسولؐ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جو دنیا میں شرک و ایمان کے درمیان ایک فیصلہ کن اذان تھی۔ وہ رسولؐ کی فتح، نفیٔ شرک اور توحید کی اذان تھی۔ آخرت میں ہونے والی یہ اذان اسی اذان کا تسلسل ہے۔ وہی حق والوں کی اذان اور اہل جنت و اہل جہنم میں امتیاز کی اذان۔ اب ظالموں سے برائت کی نہیں بلکہ ظالموں پر لعنت کی اذان، تاریخ اذان کی سب سے اہم ترین اذان اور سب سے آخری اذان۔

البیان کے مطابق ابو القاسم حسکانی نے محمد حنفیہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: انا ذلک المؤذن ۔ وہ مؤذن میں ہی ہوں۔


الَّذِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ کٰفِرُوۡنَ ﴿ۘ۴۵﴾

۴۵۔جو لوگوں کو راہ خدا سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے تھے اور وہ آخرت کے منکر تھے۔


وَ بَیۡنَہُمَا حِجَابٌ ۚ وَ عَلَی الۡاَعۡرَافِ رِجَالٌ یَّعۡرِفُوۡنَ کُلًّۢا بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ وَ نَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۟ لَمۡ یَدۡخُلُوۡہَا وَ ہُمۡ یَطۡمَعُوۡنَ﴿۴۶﴾

۴۶۔اور (اہل جنت اور اہل جہنم) دونوں کے درمیان ایک حجاب ہو گا اور بلندیوں پر کچھ ایسے افراد ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی شکلوں سے پہچان لیں گے اور اہل جنت سے پکار کر کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، یہ لوگ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ہوں گے۔


وَ اِذَا صُرِفَتۡ اَبۡصَارُہُمۡ تِلۡقَآءَ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۙ قَالُوۡا رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿٪۴۷﴾

۴۷۔ اور جب ان کی نگاہیں اہل جہنم کی طرف پلٹائی جائیں گی تو وہ کہیں گے: ہمارے رب ہمیں ظالموں کے ساتھ شامل نہ کرنا۔

47۔یہ جملہ اصحاب الاعراف ہی کی طرف سے ہے کیونکہ دوسرے لوگ تو پس حجاب میں ہوں گے وہ اصحاب النار کی طرف نہیںدیکھ رہے ہوں گے۔ اس دعا سے اول تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ظالمین کی حالت کس قدر وحشت ناک ہو گی کہ ہر دیکھنے والا اس سے پناہ مانگتا ہے۔ ثانیاً اولوالعزم انبیاء نے بھی اس قسم کے مضمون کی دعائیں کی ہیں۔

تفسیر البرھان میں آیا ہے کہ مفسر اہل سنت ثعلبی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اعراف صراط پر موجود ایک بلند جگہ کا نام ہے۔ وہاں عباسؓ، حمزہؓ، علی بن ابی طالب (ع) اور جعفر ذو الجناحین ہوں گے۔

قیامت کے دن متعدد مقامات پر شفاعت کی ضرورت پیش آئے گی۔ ان میں سے ایک اہم جگہ اعراف یا صراط ہے۔ فریقین کے متعدد طرق سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے: لایجوز علی الصراط الا من کتب لہ علی الجواز ۔ صراط سے کوئی گزر نہیں سکے گا مگر وہ جسے علیؑ پروانہ عطا فرمائیں۔


وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡاَعۡرَافِ رِجَالًا یَّعۡرِفُوۡنَہُمۡ بِسِیۡمٰہُمۡ قَالُوۡا مَاۤ اَغۡنٰی عَنۡکُمۡ جَمۡعُکُمۡ وَ مَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔اور اصحاب اعراف کچھ ایسے لوگوں کو بھی پکاریں گے جنہیں وہ ان کی شکلوں سے پہچانتے ہوں گے اور کہیں گے: آج نہ تو تمہاری جماعت تمہارے کام آئی اور نہ تمہارا تکبر۔

48۔ متعدد روایات میں آیا ہے کہ اصحاب الاعراف ائمہ اہل بیت (ع) ہیں۔ مجمع البیان میں آیا ہے کہ عالم اہل سنت ابو القاسم حسکانی نے اصبغ بن نباتہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے ابن الکواء کو بتایا: ہم ہی اصحاب الاعراف ہیں۔


اَہٰۤؤُلَآءِ الَّذِیۡنَ اَقۡسَمۡتُمۡ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہُ بِرَحۡمَۃٍ ؕ اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡکُمۡ وَ لَاۤ اَنۡتُمۡ تَحۡزَنُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور کیا یہ (اہل جنت) وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کر کہتے تھے کہ ان تک اللہ کی رحمت نہیں پہنچے گی؟ (آج انہی لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ) جنت میں داخل ہو جاؤ جہاں نہ تمہیں کوئی خوف ہو گا اور نہ تم محزون ہو گے۔

49۔ اُدۡخُلُوا الۡجَنَّۃَ : جنت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ حکم اصحاب الاعراف کی طرف سے مل رہا ہے۔ اس سے وہ حدیث قرآن کے مطابق ثابت ہوئی جس میں فرمایا: عَلِّیٌ قَسِیْمُ النَّارِ وَالْجَنَّۃِ ۔


وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ النَّارِ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ اَفِیۡضُوۡا عَلَیۡنَا مِنَ الۡمَآءِ اَوۡ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ ؕ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَہُمَا عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿ۙ۵۰﴾

۵۰۔اور اہل جہنم اہل جنت کو پکاریں گے: تھوڑا پانی ہم پر انڈیل دو یا جو رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہمیں دے دو، وہ جواب دیں گے: اللہ نے جنت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کیا ہے۔


الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَہُمۡ لَہۡوًا وَّ لَعِبًا وَّ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ۚ فَالۡیَوۡمَ نَنۡسٰہُمۡ کَمَا نَسُوۡا لِقَآءَ یَوۡمِہِمۡ ہٰذَا ۙ وَ مَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَجۡحَدُوۡنَ﴿۵۱﴾

۵۱۔ جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا دیا تھا اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈالا تھا، پس آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح وہ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اور ہماری آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔

51۔اس آیت میں کافروں کے لیے جنت کی نعمتوں کے حرام ہونے کے چند اسباب کا ذکر ہے: ٭ان کا دین کو کھیل اور بے مقصد و لغو کاموں کی طرح بنا لینا۔ ٭ اپنی ساری توجہ دنیا کی چند روزہ زندگی پر مرکوز کر لینا۔ ٭ اپنے ذہنوں میں درگاہ الہی میں حاضر ہونے کا خیال تک نہ لانا۔ ٭آیات الہی کا تمسخر اڑانا اور ان کا انکار کرنا۔


وَ لَقَدۡ جِئۡنٰہُمۡ بِکِتٰبٍ فَصَّلۡنٰہُ عَلٰی عِلۡمٍ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃً لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔اور ہم ان کے پاس یقینا ایک کتاب لا چکے ہیں جسے ہم نے از روئے علم واضح بنایا ہے جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و رحمت ہے۔

52۔ یہ قرآن ایک ایسا دستور پیش کرتا ہے جسے اس ذات نے ترتیب دیا ہے جو دانائے راز ہے، انسان کی ضرورتوں اور اس کے تمام تقاضوں پر علم وآگہی رکھتی ہے۔ یہ دستور مفصل ہے۔ تفصیل سے مراد یہ ہے کہ حق کو باطل اور امر واقع و حقیقت کو خرافات سے جدا کرنے والی کتاب ہے۔ تفصیل سے مراد یہ نہیں کہ اس کتاب میں تمام جزئیات کو بیان کیا گیا ہے۔


ہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِیۡلَہٗ ؕ یَوۡمَ یَاۡتِیۡ تَاۡوِیۡلُہٗ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ نَسُوۡہُ مِنۡ قَبۡلُ قَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَقِّ ۚ فَہَلۡ لَّنَا مِنۡ شُفَعَآءَ فَیَشۡفَعُوۡا لَنَاۤ اَوۡ نُرَدُّ فَنَعۡمَلَ غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ قَدۡ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ وَ ضَلَّ عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿٪۵۳﴾

۵۳۔کیا یہ لوگ صرف اس (کتاب کی تنبیہوں) کے انجام کار کے منتظر ہیں؟ جس روز وہ انجام کار سامنے آئے گا جو لوگ اس سے پہلے اسے بھولے ہوئے تھے وہ کہیں گے: ہمارے رب کے پیغمبر حق لے کر آئے تھے کیا ہمارے لیے کچھ سفارشی ہیں جو ہماری شفاعت کریں یا ہمیں (دنیا میں) واپس کر دیا جائے تاکہ جو عمل (بد) ہم کرتے تھے اس کا غیر(عمل صالح) بجا لائیں؟ یقینا انہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا اور جو جھوٹ وہ گھڑتے رہتے تھے وہ ان سے ناپید ہو گئے۔

53۔ تاویل وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے گرد احکام و اعمال کا مدار ہے۔ یعنی وہ راز و حکمت جس کی بنا پر احکام صادر ہوتے ہیں اور تمام احکام کا مآل و مرجع وہی نقطۂ نظر ہوتا ہے۔

قرآن جس دستور و نظام کو متعارف کر ا رہا ہے اس کے راز و حکمت کو دنیا میں لوگ نہیں مانتے تھے اور اس کی تکذیب کرتے تھے، جب بروز قیامت وہ حقیقت منکشف ہو کر سامنے آجاتی ہے تو تسلیم کر لیتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے کیے کی سزا پاتے ہیں تو مانتے ہیں۔ یہاں وہ دو چیزوں میں سے ایک کی خواہش کریں گے۔ ایک یہ کہ دنیا میں پھر بھیج دیے جائیں اور ایک موقع اور دیا جائے تاکہ وہ اپنے اعمال کو درست کریں یا یہ کہ ان کے لیے کوئی شفاعت کرنے والا مل جائے۔


اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۵۴﴾

۵۴۔ تمہارا رب یقینا وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر متمکن ہوا، وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جو اس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے سب اسی کے تابع فرمان ہیں۔ آگاہ رہو! آفرینش اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ جو عالمین کا رب ہے۔

54۔ قرآن مجیدمیں سات مقامات پر اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں خلق فرمایا ہے۔یوم سے مراد ہمارے ارضی دن نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ ہمارے نظام شمسی کے وجود سے پہلے کا ذکر ہے، بلکہ خود زمانے کے وجودمیں آنے سے پہلے کا ذکر ہے۔

اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر چیز کا یوم اس کے حساب سے ہوتا ہے۔ حکومتوں کے عروج و زوال کے ادوار اور امتوں کے زوال و عروج کو یوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا خدائی ایام کا اندازہ ہم اپنے محدود پیمانوں سے نہیں کر سکتے، بلکہ ہم تو رسالتی ایام کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ چنانچہ معراج کے موقع پر حضورؐ ہمارے زمانے کے چند لمحوں میں پورے ملکوت سماوی کی سیر فرما کر واپس آ گئے۔

اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ : خلق و امر دونوں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ خلق ایک تدریجی عمل ہے جیساکہ چھ دنوں میں آسمانوں اور زمین کی خلقت عمل میں آئی اور امر فوری عمل کا نام ہے۔ وَ مَاۤ اَمۡرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَۃٌ کَلَمۡحٍۭ بِالۡبَصَرِ (قمر: 50) اور ہمارا امر تو ایک ہی ہوتا ہے آنکھ کے جھپکنے کی طرح۔


اُدۡعُوۡا رَبَّکُمۡ تَضَرُّعًا وَّ خُفۡیَۃً ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿ۚ۵۵﴾

۵۵۔ اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرو عاجزی اور خاموشی کے ساتھ، بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

55۔ یہاں انسان کے دو روابط کا ذکر ہے۔ ایک اس کا رابطہ اپنے رب سے اور دوسرا بندوں سے۔ رب کے ساتھ رابطہ عبودیت و بندگی کا ہونا چاہیے۔ بندگی کے آداب یہ ہیں :

1۔جو کچھ مانگنا ہے اس کی بارگاہ سے مانگا جائے۔ اللہ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ بندے اس سے مانگیں اور مانگنے کے آداب یہ بتلائے ہیں کہ عاجزی کے ساتھ ہو اور نہایت دھیمی آواز میں ہو کیونکہ چیخ کر مانگنا ادب کے منافی ہے۔

2۔ کسی کی طرف رجوع کرنے کے عام طور پر دو عوامل ہوتے ہیں: خوف اور امید۔ اللہ سے مانگنے اور اس کو پکارنے میں یہ دو عوامل کارفرما ہونے چاہییں۔ یعنی خوف صرف اللہ کا ہو اور امیدیں بھی صرف اسی سے وابستہ ہوں۔

بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرے میں ہونی چاہیے۔


وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا وَ ادۡعُوۡہُ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ؕ اِنَّ رَحۡمَتَ اللّٰہِ قَرِیۡبٌ مِّنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۵۶﴾

۵۶۔ اور تم زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاؤ اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارو، اللہ کی رحمت یقینا نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔


وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ﴿۵۷﴾

۵۷۔ اور وہی تو ہے جو ہواؤں کو خوشخبری کے طور اپنی رحمت کے آگے آگے بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ ابر گراں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر بادل سے مینہ برسا کر اس سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو بھی (زمین سے) نکالیں گے شاید تم نصیحت حاصل کرو۔

57۔ خدائی مؤقف کے مطابق مردہ زمین اور بے جان مادے میں حیات کا پیدا ہونا اللہ کی نشانی اور خالق کے وجود کی علامت ہے نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو پہلی بار خلق کر سکتا ہے وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔


وَ الۡبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخۡرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذۡنِ رَبِّہٖ ۚ وَ الَّذِیۡ خَبُثَ لَا یَخۡرُجُ اِلَّا نَکِدًا ؕ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّشۡکُرُوۡنَ﴿٪۵۸﴾

۵۸۔ اور پاکیزہ زمین میں سبزہ اپنے رب کے حکم سے نکلتا ہے اور خراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے۔ یوں ہم شکر گزاروں کے لیے اپنی آیات کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔

58۔ زمین کی استعداد اور قابلیت کے اختلاف سے کوئی زمین پر فیض یعنی سر سبز و شاداب ہوتی ہے اور کوئی زمین روئیدگی کے قابل ہی نہیں ہوتی جب کہ باد و باران یکساں طور پر ان پر فیض کرتے ہیں۔ اسی طرح نیک باطن انسان خدائی رحمت و ہدایت کو فوراً قبول کر لیتا ہے اور خبیث انسان شوریدہ زمین کی مانند نہ صرف یہ کہ رحمتوں کو قبول نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر کی خبائث ابھر کر پورے ماحول کو آلودہ کر دیتی ہیں۔


لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ عَظِیۡمٍ﴿۵۹﴾

۵۹۔ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس انہوں نے کہا: اے میری قوم! تم اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، مجھے تمہارے بارے میں ایک عظیم دن کے عذاب کا ڈر ہے۔

59۔ یہ انبیاء علیہم السلام میں قدیم ترین اور توحید کے بارے میں طویل ترین جہاد کرنے والے نبی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ آپ پہلے صاحب شریعت رسول ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام کے بعد دوسرے ابو البشر ہیں۔ آپ(ع) حضرت آدم (ع)کی دسویں پشت میں آتے ہیں۔ آپؑ کا مسکن موجودہ عراق کے بالائی علاقے تھا۔ آپؑ نے نو سو پچاس سال تبلیغ فرمائی۔آپؑ کی دعوت، توحید اور تصور آخرت پر مشتمل تھی۔ کیونکہ قومِ نوح، اللہ کی منکر نہ تھی بلکہ وہ شرک کا ارتکاب کرتی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان فطرتاً خدا پرست ہے اور انبیاء نے شرک جیسے انحراف کا مقابلہ کیا ہے۔


قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِہٖۤ اِنَّا لَنَرٰىکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶۰﴾

۶۰۔ ان کی قوم کے سرداروں نے کہا :ہم تو تمہیں صریح گمراہی میں مبتلا دیکھتے ہیں۔