گناہ اور اس كا علاج

گناہ اور اس كا علاج

((يااٴَيھا النَّاسُ قَدْ جَائَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَہُدًي وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ))۔ 44
“پيغمبر كہہ ديجئے كہ يہ قرآن فضل و رحمت خدا كا نتيجہ ھے لہٰذا انھيں اس پر خوش ھونا چاہئے كہ يہ ان كے جمع كئے ھوئے اموال سے كھيں زيادہ بھتر ھے”۔
صلح و صفا كي كنجى
انسان كو جب يہ معلوم ھوجاتا ھے كہ جس ذات نے اس پر ظاھري و باطني نعمتيں كامل اور وسيع پيمانے پر عطا كي ھے، ليكن اس نے گزشتہ عمر ميں غفلت سے كام لياھے، اور يہ بھي معلوم ھوجاتاھے كہ وہ تمام نعمتوں كو دنيا و آخرت كي سعادت اور خدا كے لطف و كرم كے دروازے كھولنے كے لئے بروئے كار نھيں لاياھے، بلكہ اكثر اوقات خدا كي مخالفت كي ھے جس كے نتيجہ ميں گناھان صغيرہ و كبيرہ كا مرتكب ھوا ھے جس سخت خسارہ ميںھے اور ھوا و ھوس اور ظاھري اور باطني شيطان كي بندگي كا ٹيكا اس كي پيشاني پر لگ گيا ھے، تو اس پر واجب ھے كہ اپنے شرمناك ماضي كے جبران وتلافي كے لئے، جھل و غفلت خطا و معصيت اور شرمناك اعمال اور شيطاني امور سے توبہ كركے خدا كي بارگاہ ميں استغفار كرے اور خدا كا بندہ بن جائے، اور اپني زندگي ميں صلح و صفا كا آفتاب چمكائے۔
جي ھاں، رحمت خدا سے مدد لينے اور اس كي عنايت خاص سے طاقت حاصل كرنے نيز اس كے ملكوتي فيض كو كسب كرنے كے لئے اس كو خدا كي طرف رجوع كرنا چاہئے اور اس راستہ كو عزم و ارادہ، اور عاشقانہ جھاد كي طرح ھميشہ طے كرنا چاہئے تاكہ اس كا ظاھر و باطن فسق و فجور، برائيوں و خطاؤں اور برے اخلاق سے مكمل پاك ھوجائے، نيك و صالح اور عابد بندوں كي صف ميں آجائے اور خدا كے غضب كے بدلے رحمت، اور دردناك عذاب كے بدلے جنت كا مستحق بن جائے۔
اس طرح سے اپنے ماضي كي نسبت بيداري اور توبہ و استغفار كرنا نيز اپنے ظاھر و باطن كو برائيوں اور گناھوں سے دھونا خدا سے صلح و دوستي كي كنجي ھے۔
چونكہ خداوندعالم كي بارگاہ ميں توبہ و استغفار، عظيم ترين عبادت، مفيد فرصت ھے، اور قرآن كريم كي آيات اور معصومين عليھم السلام كي تعليمات كا ايك عظيم حصہ اسي حقيقت سے مخصوص ھے، لہٰذا توبہ كرنے والے شخص پر لازم ھے كہ توبہ كے سلسلہ ميں غور كرے تاكہ اس عظيم عبادت، بھترين حقيقت اور سنھرے موقع سے فيضياب ھوسكے۔
گناہ بيماري ھے
ھر انسان ذاتي طور پر اور باطني لحاظ سے پاك و سالم اس دنيا ميں آتا ھے۔
حرص، حسد، بخل، رياكارى، فسق و فجور او رديگر گناہ انسان كي ذات ميں نھيں ھوتے بلكہ خاندان، معاشرہ اور دوستوں كي صحبت كي وجہ انسان گناھوں ميں ملوث ھوتا ھے۔
حضرت رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم سے روايت ھے:
“كُلُّ مَولودٍ يولد عَلَي فِطْرَةِ الإسْلَامِ، حَتّي يكُونَ ابواہ يھودانہ وينصِّرانہ”۔45
“ھر بچہ فطرت (اسلام) پر پيدا ھوتا ھے، مگر اس كے ماں باپ اس كو يھودي يا نصراني بناديتے ھيں۔”
منحرف استاد، منحرف معاشرہ اور منحرف سماج، انسان كي گمراھي ميں بھت زيادہ موثر ھوتے ھيں۔
چنانچہ انسان انھيں اسباب كي بنا پر فكري و عملي اور اخلاقي لحاظ سے گمراہ ھوجاتا ھے، اور گناھوں
ميں ملوث ھوجاتا ھے، ليكن ان تمام چيزوں كا علاج بھي موجود ھے قرآن مجيد كي نظر سے يہ بيماري قابل علاج ھے اور اس مرض كے دوا بيان كي گئي ھے، ارشاد ھوتا ھے:
((يااٴَيھا النَّاسُ قَدْ جَائَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَہُدًي وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ))۔ 46
“پيغمبر كہہ ديجئے كہ يہ قرآن فضل و رحمت خدا كا نتيجہ ھے لہٰذا انھيں اس پر خوش ھونا چاہئے كہ يہ ان كے جمع كئے ھوئے اموال سے كھيں زيادہ بھتر ھے”۔
قرآن كي نظر ميں يہ بيماري خداوندعالم كي مغفرت اور بخشش كے ذريعہ قابل علاج ھے:
((إِلاَّ الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَاٴَصْلَحُوا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 47
“علاوہ ان لوگوں كہ جنھوں اس كے بعد توبہ كر لي اور اپني اصلاح كرلى، يقينا خدا غفور اور رحيم ھے”۔
نااميدي كفر ھے
جس وقت قرآن مجيد كي آيات اور معصومين عليھم السلام كي روايت كے ذريعہ يہ معلوم ھوجائے كہ ظاھري اور مخفي طور پر كئے جانے والے گناہ ايك بيماري ھے، اور يہ بيماري قابل علاج ھے، اس پر خداوندعالم پردہ ڈال سكتا ھے، توگناھگار كو چاہئے كہ اس خطرناك اور مھلك كنويں سے باھر نكلنے كي كوشش كرے، اپنے گناھوں كي بخشش كي اميد ركھے، خداوندعالم كے لطف و كرم اور عنايت سے توقع ركھے اور اس مثبت اميد كے سھارے حقيقي توبہ اور عاشقانہ صلح نيز اپنے گزشتہ گناھوں كي تلافي كرے تاكہ اس بيماري اور خسارے كو دور كرسكے، كيونكہ انسان يہ كام كرسكتا ھے، توبہ و استغفاراور اس بيماري كے علاج كے علاوہ چھوٹے ھوئے واجبات كي ادائيگي كرے، اس سلسلہ ميں نااميدي وياس، سستي اور كسالت، شيطاني اور انحرافي نعرہ لگانا مثلاً كہنا كہ “اب تو ھمارے سر سے پاني گزرگيا ھے، چاھے ايك بالشت ھو يا سو بالشت” غرض يہ سب چيزيں حرام اور كفر كے برابر ھے۔
(( ۔۔۔ وَلَا تَايئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّہُ لَا يايئَسُمِنْ رَوْحِ اللهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الكَافِرُونَ))۔ 48
“۔۔۔اور رحمت خدا سے مايوس نہ ھونا كہ اس كي رحمت سے كافر قوم كے علاوہ كوئي مايوس نھيں ھوتا ھے “۔
البتہ جو شخص خدا كي رحمت و مغفرت اور بخشش كا اميدوار ھو، اس كے لئے اپني اميد كے اسباب و وسائل فراھم كرنا ضروري ھے مثلاً گناھوں پر شرمندہ ھونا، ان سے كنارہ كشي كرنا، ترك شدہ واجبات كو ادا كرنا، لوگوں كے حق كو ان تك واپس لوٹانا، اپنے عمل اور اخلاق كي اصلاح كرنا، كيونكہ يہ ايك مثبت اميد ھے اور بالكل اسي كسان كي طرح ھے كہ جس نے سرديوں كے موسم ميں اپني زمين كو جوتا بويا ھو، اور كھاد پاني كا خيال ركھاھو اس اميد كے ساتھ كہ وہ گرمي ميں فصل كاٹے گا۔
ليكن اگر انسان اپني اميد كے پورا ھونے كے اسباب فراھم نہ كرے تو اس كي اميد بے فائدہ اور بے ثمر ھوگي اور اس كسان كي طرح ھوگي جس نے زمين ميں كوئي كام نہ كيا ھو اور نہ ھي زمين ميں بيج ڈالا ھو، ليكن فصل كاٹنے كي اميد ركھتا ھو، تو كيا ايسا شخص فصل كاٹنے كي اميد ركھ سكتا ھے؟ايك معتبر حديث ميں صحيح اور غلط اميد كے بارے ميں اشارہ ھوا ھے:
حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے ان لوگوں كے بارے ميں سوال كيا گيا جو گناھوں ميں ملوث رھتے ھيںاور گناھوں سے آلودگي كي حالت ميں كھتے ھيں: “ھم خداكي رحمت و مغفرت اور اس كي بخشش كے اميدوار ھے”۔ يھاں تك كہ ان كي موت آجاتي ھے، امام صادق عليہ السلام نے فرمايا:”يہ لوگ غلط اميد كے شكار ھيں، كيونكہ جو شخص كسي چيز كي اميد ركھتا ھے تو اس كو حاصل كرنے كے لئے ضروري قدم بھي اٹھاتا ھے اور اگر كسي چيز سے ڈرتا ھے تو وہ اس سے پرھيز كرنا چاہئے۔ 49
علاج كرنے والے اطباء
جب ھمارے كے لئے يہ بات ثابت ھوچكي كہ گناہ كوئي ذاتي مسئلہ نھيں ھے بلكہ ايك بيماري كي طرح ھے جيسا كہ بعض اسباب كي بناپر انسان كے جسم ميں بيماري پيدا ھوجاتي ھے، يہ ايك ايسي بيماري ھے كہ جو انسان كے دل و دماغ، نفس اور ظاھر و باطن پر اثرانداز ھوتي ھے، اور جس طرح بدن كي بيمارياں طبيب كے پاس جانے اور اس كے لكھے ھوئے نسخہ پر عمل كرنے سے قابل علاج ھوتي ھيں، اسي طرح معنوي بيماري كے لئے بھي علاج كرنے والے طبيب موجود ھيں، لہٰذا ان كي طرف رجوع كيا جائے اور ان كے بتائے گئے احكام پر عمل كرتے ھوئے اپنے دل و دماغ سے اس بيماري كي جڑيں ختم كي جائيں، اگرچہ وہ بيماري بھت خطرناك مرحلہ تك پہنچ گئي ھو! اس طرح كي بيماريوں كے طبيب خود ذات پروردگار، انبياء اور ائمہ معصومين عليھم السلام نيز علمائے ربّاني ھيں۔
گناھگار كے علاج كا نسخہ قرآن كريم، انبياء، ائمہ اور علمائے رباني ھيں، ان كي حكيمانہ باتيں اور مشفقانہ نصيحتيں اور دلسوز وعظ ان بيماريوں كا مرھم ھے۔
حضرت رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اھل گناہ كو خطاب كرتے ھوئے فرماتے ھيں:
“اَيھاالنَّاسُ اَنْتُم كَالْمَرْضَيٰ وَرَبُّ العَالَمِينَ كَالطَّبِيبِ فَصَلاحُ الْمَرضَيٰ فِيمَا يعْمَلُہُ الطَّبِيبُ وَ يدَبِّرُہُ لَا فِيمَا يشْتَھِيہِ المَريضُ وَ يقْتَرِحُہُ “۔50
“اے اھل گناہ! تم بيمار لوگوں كي طرح ھو، اور تمھارا پروردگار طبيب كي طرح، بيمار كي بھلائي طبيب تدبير اور تجويز ميں ھے، نہ كہ بيمار كے ذائقہ اور اس كي مرضي ميں”۔
احاديث معصومين عليھم السلام ميں بھي انبياء كرام، ائمہ معصومين (عليھم السلام) اور علمائے رباني كو بھي طبيب كا عنوان دياگيا ھے۔
بيمار گناہ كو اپنے علاج كے لئے ان مھربان طبيبوں كے پاس جانا چاہئے اور ان كي مرضي كے مطابق عمل كرنا چاہئے اور اپنے صحت و سلامتي كے بارے ميں اميدوار ھونا چاہئے اور اس كے لئے توبہ كے علاوہ اور كوئي راستہ نھيں ھے۔
محترم قارئين ! واضح رھے كہ ھم يھاں ان طبيبوں كے چند معنوي نسخوں كي طرف بھي اشارہ كرتے ھيں تاكہ بيمارگناہ ان نسخوں كا مطالعہ كركے اپنا علاج كرلے يا علمائے كرام كي زباني سن كر اپنے دكھ درد كو مٹالے، ارشاد ھوتا ھے:
((قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يحْبِبْكُمْ اللهُ وَيغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 51
“اے! پيغمبر كہہ ديجئے كہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت كرتے ھو تو ميري پيروي كرو۔ خدا بھي تم سے محبت كرے گا اور تمھارے گناھوں كو (بھي) بخش دے گا كہ وہ بڑا بخشنے والا اور رحم كرنے والاھے”۔
((يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيكَفِّرْ عَنكُمْ سَيئَاتِكُمْ وَيغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ )) 52
“ايمان والو! اگر تم تقوي الٰھي اختيار كرو گے تو وہ تمھيں حق و باطل ميں فرق كي صلاحيت عطا كردے گا۔ تمھاري برائي كي پردہ پوشي كرے گا۔ تمھارے گناھوں كو معاف كردے گا، يقينا وہ بڑا فضل كرنے والا ھے”۔
(( يااٴَيھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ۔ يصْلِحْ لَكُمْ اٴَعْمَالَكُمْ وَيغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يطِعْ اللهَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا))۔ 53
“ايمان والو! اللہ سے ڈرو، او ر سيدھي بات كرو ۔ تا كہ وہ تمھارے اعمال كي اصلاح فرمادے اور تمھارے گناھوں كو بخش دے اور جوشخص بھي خدا اور اس كے رسول كي اطاعت كرے گا وہ عظيم كاميابي كے درجے پر فائز ھوگا”۔
((يااٴَيھا الَّذِينَ آَمَنُوا ھل اٴَدُلُّكُمْ عَلَي تِجَارَةٍ تُنجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ اٴَلِيمٍ . تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِہِ وَتُجَاہِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِاٴَمْوَالِكُمْ وَاٴَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۔ يغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِھا الْاٴَنْھارُ وَمَسَاكِنَ طَيبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ))۔ 54
“ايمان والو! كيا ميں تمھيں ايك ايسي تجارت كي طرف رہنمائي كروں كہ جو تمھيں درد ناك عذاب سے بچا لے۔ تو اللہ اور اس كے رسول پر ايمان لے آؤ اور راہ خدا ميں اپني جان و مال سے جھاد كرو كہ يھي تمھارے حق ميں سب سے بھتر ھے، اگر تم جاننے والے ھو۔ وہ تمھارے گناھوں كو بھي بخش دے گا او رتمھيں ايسي جنتوں ميں داخل كردے گا جن كے نيچے نھريں جاري ھوںگي اور ان ميں پاكيزہ محل ھو ںگے او ر يھي بھت بڑي كاميابي ھے”۔
((إِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يضَاعِفْہُ لَكُمْ وَيغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ))۔ 55
“اگر تم اللہ كو قرض الحسنہ دوگے تو وہ اسے دوگنا بنا دے گا اور تمھيں معاف بھي كردے گا كہ وہ بڑا قدر داں اور برداشت كرنے والا ھے”۔
((وَالَّذِينَ عَمِلُوا السَّيئَاتِ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِھا وَآمَنُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِھا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 56
“اور جن لوگوں نے برے اعمال كئے اور پھر توبہ كرلي اور ايمان لے آئے تو توبہ كے بعد تمھارا پروردگار بھت بخشنے والا اور بڑا مھربان ھے”۔
(( ۔۔۔ فَإِنْ تَابُوا وَاٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَھم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 57
“۔۔۔ پھر اگر (وہ لوگ) توبہ كر لےں اور نماز قائم كريں اور زكاة اداكريں تو پھر ان كا راستہ چھوڑ دو، بے شك خدا بڑا بخشنے والا اور مھربان ھے”۔
((وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِھم خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيئًا عَسَي اللهُ اٴَنْ يتُوبَ عَلَيھم إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ))۔ 58
“اور دوسرے لوگ جنھوں نے اپنے گناھوں كا اعتراف كيا، انھوں نے نيك اور بد اعمال مخلوط كردئے ھيں، عنقريب خدا ان كي توبہ قبول كر لے گا كہ وہ بڑا بخشنے والا اور مھربان ھے”۔
قارئين كرام! مذكورہ آيات سے يہ نتيجہ حاصل ھوتا ھے كہ اگر كوئي گناھگار خداوندعالم كي رحمت و معرفت كو حاصل كرنا چاھتا ھے اور يہ خواہش ركھتا ھے كہ اس كي توبہ قبول ھوجائے، اس كا سياہ نامہ اعمال معنوي سفيدي اور نور ميں تبديل ھوجائے، اور روز قيامت كے دردناك عذاب سے چھٹكارا مل جائے تو اسے چاہئے كہ قرآن مجيد ميں بيان شدہ نسخوں كے پيش نظر حسب ذيل امور پر عمل كرے:
1۔ سيرت پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي اتباع و پيروي كرے۔
2۔ تقويٰ و پرھيزگاري كي رعايت كرے اور اپنے آپ كو گناھوں سے دور ركھے۔
3۔ حق بات كھے، اور وقت پر گفتگو كرے۔
4۔ خداوندعالم كي اطاعت كرے۔
5۔ رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي اطاعت كرے۔
6۔ خدا پر ايمان ركھے۔
7۔ رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم پر ايمان ركھے۔
8۔ مال و دولت كے ذريعہ راہ خدا ميں جھاد و كوشش كرے۔
9۔ راہ حق ميں دل و جان سے كوشش كرے۔
10۔ ضرورت مندوں كو قرض الحسنہ دے۔
11۔ گناھوں سے دوري اختيار كرے اور خدا كي طرف پلٹ جائے۔
12۔ غلط و باطل عقائد سے اجتناب كرے۔
13۔ نماز قائم كرے۔
14۔ زكوٰة ادا كرے۔
15۔ خداوندعالم كي بارگاہ ميں اپنے گناھوں كا اقرار و اعتراف كرے۔
“جاءَ رَجُلٌ اِلَي النَّبِي فَقالَ:يٰارَسُولَ اللّٰہِ، مٰاعَمَلُ اَھل الْجَنَّةِ؟ فَقالَ:اَلصِّدْقُ، اِذا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ، وَ اِذا بَرَّاَ مِنَ وَاِذا اَمِنَ دَخَلَ الْجَنَّةُ۔فَقالَ يٰا رَسُولَ اللّٰہِ، مٰاعَمَلُ اَھل النّٰارِ، قٰالَ:اَلْكِذْبُ، اِذا كَذَبَ الْعَبْدُ فَجَرَ وَاِذا فَجَرَ كَفَرَ، وَاِذا كَفَرَ دَخَلَ النّٰارَ:”۔ 59
“ايك شخص رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي خدمت ميں حاضر ھوااور عرض كى: يا رسول اللہ ! اھل بہشت كا عمل كيا ھے؟ آپ نے فرمايا: صداقت، كيونكہ جس وقت خدا كا بندہ سچ بولتا ھے تو اس نے نيكي انجام دي ھے، اور جب نيكي كرتا ھے تو امان مل جاتي ھے اور جب امان مل جاتي ھے تو جنت ميں داخل ھوجاتا ھے، سوال كرنے والے نے عرض كيا: يا رسول اللہ! اھل جہنم كا عمل كيا ھے؟ تو آنحضرت صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: جھوٹ، كيونكہ جب انسان جھوٹ بولتا ھے تو گناہ كرتا ھے او رجب گناہ كرتا ھے تو ناشكري اور كفر سے دچار ھوجاتا ھے اور كفر كرتا ھے تو جہنم ميں داخل ھوجاتا ھے”۔
رسول اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كي ازواج مطھرات ميں سے ايك زوجہ كھتي ھيں كہ ميں نے رسول اكرم سے سوال كيا:
“بِمَ يعْرَفُ الْمُوٴْمِنُ ؟قٰالَ:بِوَقارِہِ، وَلينِ كَلامِہِ، وَصِدْقِ حَديثِہِ:” 60
“يا رسول اللہ ! كن اعمال سے مومن كي پہچان ھوتي ھے؟ تو آپ نے فرمايا: وقار، نرم لہجہ اور صداقت سے”۔
حضرت داؤد عليہ السلام نے بني اسرائيل سے كھا:
“اِجْتَمِعُوا، فَاِنّي اُرِيدُ اَن اَقُومَ فيكُمْ بِكَلِمَتَين :فَاجْتَمَعُوا عَلٰي بابِہِ فَخَرَجَ عَلَيھِمْ فَقٰالَ:يٰا بَني اِسْرائيلَ، لاٰ يدْخُلْ اَجْوافَكُمْ اِلاّ طَيبٌ وَلاٰ يخْرُجُ مِنْ اَفْواھِكُمْ اِلاّ طَيبٌ :” 61
“تم لوگ ايك جگہ جمع ھوجاؤ كہ ميں تم سے كچھ گفتگو كرنا چاھتا ھوں، جب لوگ جناب داؤد عليہ السلام كے دروازہ پر جمع ھوگئے تو انھوں نے ان كے روبرو ھوكر خطاب كيا: اے بني اسرائيل! پاك اور حلال چيزوں كے علاوہ كچھ نہ كھاؤ، اور صحيح اور حق بات كے علاوہ زبان مت كھولو”۔
جناب جابر كھتے ھيں: ميں نے سنا كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم كعب بن عجرہ سے فرمارھے ھيں:
لا يدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ نَبَتَ لَحْمُہُ مِنَ السُّحْتِ، اَلنّٰارُ اَوْلٰي بِہِ “62
“جس شخص كا گوشت حرام مال سے بڑھا ھو، وہ بہشت ميں نھيں جاسكتا، بلكہ جہنم اس كے لئے زيادہ سزاوارھے”۔
حضرت امير المومنين عليہ السلام سے مروي ھے:
“مَنْ نَقَلَہُ اللّٰہُ مِنْ ذُلِّ الْمَعاصي اِلٰي عِزِّ التَّقْويٰ اَغْنٰاہُ بِلا مالٍ، وَاَعَزَّہُ بِلا عَشيرَةٍ، وَا ٓنَسَہ بِلا اَنيسٍ:” 63
“جس شخص كو خداوندعالم گناھوں كي ذلت سے نكال كر تقويٰ كي عزت تك پہنچادے تو خدا اس كو بغير مال عطاكئے بے نياز بناديتا ھے، اور بغير قوم و قبيلہ كے عزت ديتا ھے، اور بغير دوست كے انس و محبت عطا فرماتا ھے”۔
“عَنِ اَميرِ الْمُوٴْمِنينَ :اَلدُّنْيا مَمَرٌّ، وَالنَّاسُ فيھا رَجُلاٰنِ:رَجُلٌ باعَ نَفْسَہُ فَاَوْبَقَھٰا، وَرَجُلٌ ابْتاعَ نَفْسَہُ فَاَعْتَقَھا:” 64
“حضرت امير المومنين عليہ السلام كا ارشاد ھے: دنيا ايك گزرگاہ(يعني راستہ) ھے جس سے دو طرح كے لوگ گزرتے ھيں: ايك وہ شخص جس نے اپنے آپ كو دنيا كے بدلے فروخت كرديا لہٰذا اس نے خود كو نابود كرليا، دوسرے وہ شخص ھے جس نے دنيا سے اپنے آپ كو خريد ليا، لہٰذا اس نے خود كو آزاد كرليا”۔
مروي ھے كہ ايك شخص حضرت امام حسين عليہ السلام كي خدمت ميں شرفياب ھوكر عرض كرتا ھے:
” ميں ايك گناھگار شخص ھوں اورگناہ پر صبر نھيں كرسكتا، لہٰذا مجھے نصيحت فرمايئے، تو امام عليہ السلام نے اس سے فرمايا: تو پانچ چيزوں كو انجام دے اس كے بعد جو چاھے گناہ كرنا:
1۔ خداكا عطا كردہ رزق مت كھا۔
2۔ خدا كي حكومت و ولايت سے باھر نكل جا۔
3۔ ايسي جگہ تلاش كر جھاں خدا نہ ديكھتا ھو۔
4۔ جس وقت ملك الموت تيري روح قبض كرنے آئے تو اس بچ كر بھاگ جانا۔
5۔ جب (روز قيامت) تجھے مالكِ دوزخ، دوزخ ميں ڈالنا چاھے تو اس وقت دوزخ ميں نہ جانا۔” 65
“قالَ عَلِي بْنُ الْحُسينِ عليہ السلام: اِنَّ الْمَعْرِفَةَ وَكَمالَ دينِ الْمُسْلِمِ تَرْكُہُ الْكَلامَ فيما لاٰ يعْنيہِ، وَ قِلَّةُ مِرائِہِ وَ حِلْمُہُ وَ صَبْرُہُ وَ حُسْنُ خُلْقِہِ:” 66
“حضرت امام زين العابدين عليہ السلام فرماتے ھيں:بے شك مسلمانوں كي معرفت اور دين كا كمال اس ميں ھے كہ بے فائدہ گفتگو سے پرھيز كرے، نزاع و جھگڑے سے دور رھے، صبر و حلم اور حسن خُلق سے كام لے”۔
عَنِ الْبَاقِرِ (عَلَيہ السَّلام):مَنْ صَدَقَ لِسَانُہُ زَكيٰ عَمَلُہُ وَمَنْ حَسُنَتْ نِيتُہُ زِيدَفِي رِزْقِہِ وَمَنْ حَسُنَ بِرُّہُ بِاَھلہِ زِيدَفِي عُمْرِہِ”۔67
حضرت امام باقر عليہ السلام فرماتے ھيں: جس شخص كي زبان سچ بولے اس كاعمل پاكيزہ ھوجاتا ھے، اور جس شخص كي نيت اچھي ھو اس كي روزي ميں اضافہ ھوجاتا ھے اور جو شخص اپنے اھل و عيال كے ساتھ نيكي و احسان كرے اس كي عمر بڑھ جاتي ھے”۔
“عَن اَبي عَبْدِاللّٰہِ(عَلَيہ السَّلام): اَوْرَعَ النّٰاسِ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ الشُّبْھَةِ ۔اَعْبَدُ النَّاسِ مَنْ اَقامَ الْفَرائِضَ اَزْھَدُ النَّاسِ مَنْ تَرَكَ الْحَرامَ۔اَشَدُّ النَّاسِ اجْتِھاداً مَنْ تَرَكَ الذُّنُوبَ:” 68
“حضرت امام صادق عليہ السلام فرماتے ھيں:سب سے زيادہ باتقويٰ وہ شخص ھے جو خود كو مشتبہ چيزوں سے محفوظ ركھے، سب سے اچھا بندہ وہ ھے جو واجبات الٰھي كو بجالائے، زاہد ترين شخص وہ ھے جو حرام چيزوں كو ترك كرے، اور سب سے زيادہ جدو جہد كرنے والا شخص وہ ھے جو گناھوں چھوڑ دے”۔
امام موسيٰ كاظم عليہ السلام نے ہشام بن حكم سے فرمايا:
“رَحِمَ اللّٰہُ مَنِ اسْتَحْييٰ مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَياءِ، فَحَفِظَ الرَّاٴْسَ وَما حَوٰى، وَالْبَطْنَ وَ ما وَعيٰ، وَذَكَرَ الْمَوْتَ وَالْبِليٰ، وَعَلِمَ اَنَّ الْجَنَّةَ مَحْفُوفَةٌ بِالْمَكٰارِہِ، وَ النَّارَ مَحْفُوفَةٌ بِالشَّھَواتِ:” 69
“خداوندعالم رحمت كرے اس شخص پر جو خداكے سامنے اس طرح شرم كرے جس كا وہ حقدار ھے، آنكھ، كان اور زبان كو گناھوں سے محفوظ ركھے، اپنے كو لقمہ حرام سے بچائے ركھے، قبر اور قبر ميں بدن كے بوسيدہ ھونے كو ياد ركھے، اور اس بات پر توجہ ركھے كہ جنت زحمت و مشكلات كے ساتھ ھے اور جہنم لذت شھوت كے ساتھ “۔
حضرات انبياء كرام، اور ائمہ معصومين عليھم السلام نے ان نيك امور اور انسان كو شقاوت و ھلاكت سے بچانے والے اھم مسائل كو بيان كيا ھے جن كي تفصيل معتبر كتابوں ميں بيان ھوئي ھے، مذكورہ احاديث اسي ٹھاٹے مارتے ھوئے قيمتي سمندر كے چند قطرے تھے ۔ اسي طرح علماء كرام سے وعظ و نصيحت نقل ھوئي ھيں جو انسان كي بيماري كے علاج كے لئے بھترين نسخے ھيں، جن كے ذريعہ انسان اپنے نفس كو گناھوں كي گندگي اور كثافت سے بچاسكتا ھے، ذيل ميں ان كے چند نمونے بھي ملاحظہ فرماليں:
ايك عارف نے كھا: ھم نے چار چيزوں كو چار چيزوں ميں طلب كيا ليكن راستہ كا غلط انتخاب كيا، اور ھم نے ديكھا وہ چار چيزيں دوسري چار چيزوں ميں ھيں:
1۔بے نيازي كو مال و دولت ميں ڈھونڈا ليكن قناعت ميں پايا۔
2۔مقام و عظمت كو حسب ونسب ميں تلاش كيا ليكن تقويٰ ميں ملا۔
3۔چين وسكون كو مال كي كثرت ميں ڈھونڈا ليكن كم مال ميں پايا۔
4۔نعمت كو لباس، غذا اور لذتوں ميں تلاش كيا ليكن اس كو بدن كي صحت و سلامتي ميں ديكھا۔ 70
جناب لقمان نے اپنے فرزند كو وصيت كرتے ھوئے فرمايا: كل روز قيامت خدا كي بارگاہ ميں، چار چيزوں كے بارے ميں سوال كيا جائے گا: اپني جواني كس چيز ميں گزارى، اپني عمر كو كس چيز ميں تمام كيا، مال و دولت كھاں سے حاصل كي اور حاصل شدہ مال و دولت كھاں پر خرچ كيا؟ لہٰذا اس كے لئے جواب تيار كرلو۔ 71
ايك عارف كھتے ھيں:دانشوروں نے چارچيزوں پر اتفاق كيا ھے اور ميں نے ان كو چار چيزوں سے انتخاب كيا ھے:
1۔توريت: جس شخص نے قناعت كي وہ سير ھوگيا۔
2۔زبور: جس شخص نے سكوت اختيار كيا وہ صحيح و سالم رھے۔
3۔انجيل: جس شخص نے ناحق چيزوں اور نامناسب لوگوں سے كنارہ كشي كي اس نے نجات پائي۔
4۔ قرآن: جو شخص خدا كي پناہ ميں چلا گيا وہ راہ مستقيم كي ہدايت پاگيا۔ 72
“سليمان علي “نے “حميد طويل “سے كھا: مجھے موعظہ و نصيحت فرمائيے:تو “حميد “نے كھا: اگر خلوت ميںخدا كي معصيت كررھے ھو اور يہ جانتے ھو كہ خدا تمھيں ديكھ رھا ھے، تو تم نے بھت بڑے كام كي جرئت كي اور اگر تم يہ سوچو كہ خدا نھيں ديكھ رھا ھے تو تم كافر ھوگئے۔ 73
جناب جبرئيل نے عرض كى: يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم ! اگر روئے زمين پر ھم لوگ عبادت كيا كرتے تو تين كام انجام ديتے:
مسلمان كو پاني پلاتے، اھل و عيال ركھنے والوں كي مددكرتے، اور لوگوں كے گناھوں كو چھپايا كرتے۔ 74
ايك عالم بزرگوار نے فرمايا: خداوندا! تجھ سے اميد ركھنا، تيري سب سے بڑي عبادت ھے، اور تيري ثنا كرناميري زبان پر شيرين ترين سخن ھے، اور تجھ سے ملاقات كا وقت، ميرے نزديك محبوب ترين وقت ھے۔ 75
ايك عارف فرماتے ھيں: ابليس پانچ چيزوں كي وجہ سے بدبخت اور ملعون ھوا ھے:
گناہ كا اقرار نہ كيا اور گناہ پر شرمندہ نہ ھوا، اپني ملامت نھيں كى، توبہ كا ارادہ نہ كيا، اور رحمت خدا سے مايوس ھوگيا؛ ليكن جناب آدم پانچ چيزوں كي وجہ سے كامياب ھوگئے: اپني خطا كا اقرار كيا، شرمندہ ھوئے، اپني ملامت كى، توبہ كرنے ميں جلدي كي اور رحمت خدا سے نااميد نھيں ھوئے۔76
يحيٰ بن معاذ كھتے ھيں: جو شخص زيادہ كھانا كھاتا ھے تو اس كي طاقت ميں اضافہ ھوتا ھے، اور جس كي طاقت زيادہ ھوجاتي ھے اس كي شھوت ميں (بھي) اضافہ ھوجاتا ھے، اور جس كي شھوت ميں اضافہ ھوجاتا ھے اس كے گناہ بھي زيادہ ھوتے ھيں، اور جس كے گناہ زيادہ ھوتے ھيں وہ سنگ دل بن جاتا ھے اور جو سنگ دل ھوجاتا ھے وہ دنيا كے زرق و برق اور اس كي آفات ميں گرفتار ھوجاتا ھے۔ 77
اولياء كي صفات كے بارے ميں كھا گيا ھے كہ ان ميں تين خصلتيں پائي جاتي ھيں:
1۔ سكوت اختيار كرتے ھيں اور اپني زبان كو محفوظ ركھتے ھيں كيونكہ يہ چيزيں نجات كا دروازے ھيں۔
2۔ ان كا شكم خالي رھتا ھے، جو خيرات كي كُنجي ھوتي ھے۔
3۔ دن بھر كے روزے اور رات بھر كي عبادت كي وجہ سے اپنے نفس كو زحمت ميں ڈالتے ھيں۔ 78
قارئين كرام! اگر ھر گناھگار بندہ ؛خدا، رسول اور ائمہ معصومين عليھم السلام نيز علمائے كرام كے بتائے نسخہ پر عمل كرے تو يقينا اس كے گناہ بخش ديئے جاتے ھيں اور اس كي بيمار روح كاعلاج ھونا ممكن ھے۔
گناھگار انسان كو اس بات پر توجہ ركھنا چاہئے كہ انبياء عليھم السلام كي بعثت، ائمہ عليھم السلام كي امامت اور علمائے كرام كے علم و حكمت كا اصلي مقصد انسانوں كي فكرى، روحى، اخلاقي اور عملي بيماريوں كا علاج كرنا ھے، لہٰذا گناھگار بندے كا مغفرت سے نااميد ھونا كوئي معني نھيں ركھتا، لہٰذا اپنے دل كو ياس و نااميدي سے آلودہ نھيں كرنا چاہئے، اپنے كو گناھوں پر باقي نھيں ركھنا چاہئے، اور نہ ھي اپني شقاوت و بدبختي ميں اضافہ كرنا چاہئے، بلكہ گناھگار انسان اس پر لازم ھے كہ خداوندعالم، انبياء و ائمہ عليھم السلام كي تعليمات خصوصاً خداوندعالم كي رحمت واسعہ اور اس كے لطف و كرم كے مدنظر اپنے گناھوں سے توبہ كرلے۔
توبہ واجب ِفوري ھے
گزشتہ بحث ميں ھم ثابت كرچكے ھيں كہ قرآن مجيد اور الٰھي تعليمات كي رو سے گناہ ايك بيماري ھے، اور بتاچكے ھيں كہ يہ بيماري قابل علاج ھے، نيز يہ بھي واضح كرچكے ھيں كہ اس بيماري كے علاج كرنے والے اطباء يعني خدا، انبياء، ائمہ عليھم السلام اور علمائے دين ھيں، لہٰذا گناھگار بندے كو اپني بيماري كے علاج كے لئے ان مقدس ترين اطباء كے پاس جانا چاہئے، اور ان كے تجويز كردہ نسخہ پر عمل كرنا چاہئے تاكہ اس بيماري سے شفا مل جائے، صحت و سلامتي لوٹ آئے، اورنيك و صالح بندوں كے قافلہ ميں شامل ھوجائے۔
گناھوں كے بيمار كو اس چيز پر توجہ ركھنا چاہئے كہ جس طرح انسان عام بيمار ي كے معلوم ھونے كے فوراً بعد اس كے علاج كے لئے طبيب يا ڈاكٹر كے پاس جاتا ھے تاكہ درد و تكليف سے نجات حاصل ھونے كے علاوہ بيماري بدن ميں جڑ نہ پكڑلے، جس كا علاج ناممكن ھوجائے، اسي طرح گناہ كي بيماري كے علاج كے لئے بھي جلدي كرنا چاہئے اور بھت جلد الٰھي نسخہ پر عمل كرتے ھوئے توبہ و استغفار كرنا چاہئے، تاكہ گناہ و ظلمت، معصيت، شرّ شيطان اور ھوائے نفس كا اس كي زندگي سے خاتمہ ھوجائے، اوراس كي زندگي ميں رحمت و مغفرت، صحت و سلامتي كا نور چمكنے لگے۔
گناھگار كو چاہئے كہ خواب غفلت سے باھر نكل آئے، اپني نامناسب حالت پر توجہ دے اور يہ سوچے كہ ميں نے خداكے ان تمام لطف و كرم، احسان اور اس كي نعمتوں كے مقابلہ ميں شب و روز اپني عمر كو نور اطاعت و عبادت اورخدمت خلق سے منور كرنے كے بجائے معصيت و گناہ اور خطا كي تاريكي سے اپنے كو آلودہ كيا ھے، اس موقع پر اپنے اوپر واجب قرار دے كہ اپنے تمام ظاھري و باطني گناھوں كو ترك كرے، ھوائے نفس اور شيطان كي بندگي و اطاعت سے پرھيز كرے، خداوندعالم كي طرف رجوع كرے، اور صراط مستقيم پر برقرار رہنے كے ساتھ ساتھ حيا و شرم، عبادت و بندگي اور بندگان خدا كي خدمت كے ذريعہ اپنے ماضي كا تدارك كرے۔
فقھي اور شرعي لحاظ سے يہ واجب “واجبِ فوري” ھے، يعني جس وقت گناھگار انسان اپنے گناھوں كي طرف متوجہ ھوجائے، اور يہ احساس ھوجائے كہ اس نے كس عظيم مقدس ذات كي مخالفت كي ھے اور كس منعم حقيقي كي نعمت كو گناہ ميں استعمال كيا ھے، اور كس مولائے كريم سے جنگ كے لئے آمادہ پيكار ھوا ھے، اور كس مھربان كے روبرو كھڑا ھوگيا ھے، تو فوري طور پر اپنے علاج كے لئے توبہ كرے اور ندامت كي حرارت اور حسرت كي آگ كے ذريعہ اپنے وجود سے گناھوں كے اثر كو جلادے، اور اپنے دل و جان اور روح سے فحشاء و منكر كي گندگي كو پاك كردے، اور اپنے اندر خدائي رحمت و مغفرت كو جگہ دے كيونكہ توبہ ميں تاخير كرنا خود ايك گناہ ھے اور خود كو عذاب الٰھي سے محفوظ سمجھنا اور اس حالت پر باقي رہنا گناھان كبيرہ ميں سے ھے۔
حضرت عبد العظيم حسني عليہ الرحمہ نے حضرت امام محمد تقي عليہ السلام سے، انھوں نے حضرت امام رضا عليہ السلام سے، انھوںنے حضرت امام موسي كاظم عليہ السلام سے، انھوں نے حضرت امام صادق عليہ السلام سے روايت كي ھے كہ عمرو بن عُبَيد نے امام عليہ السلام سے سوال كيا: گناھان كبيرہ كون سے ھيں؟ تو آپ نے قرآن سے گناھان كبيرہ كي تفصيل بيان كرتے ھوئے فرمايا:خود كو عذاب الٰھي سے محفوظ سمجھنا بھي گناہ كبيرہ ھے۔79
كسي گناھگار كو يہ حق نھيں ھے كہ وہ توبہ و استغفار كے لئے كوئي زمانہ معين كرے اور خداوندعالم كي طرف بازگشت كو آئندہ پر چھوڑدے، اور اپنے درد كے علاج كو بوڑھاپے كے لئے چھوڑدے۔
كيونكہ اس بات كي كيا ضمانت ھے كہ جس اميد كے سھارے اس بيماري كے علاج كو آئندہ پرچھوڑا جارھا ھے وہ اس وقت تك زندہ بھي رھے گا، كيا ايك جوان كا بوڑھاپے تك باقي رہنا ضروري ھے؟!! ھوسكتا ھے اسي غفلت كي حالت اور گناھوں و شھوت كے عالم ميں ھي موت كا پيغام پہنچ جائے۔
ايسے بھت سے لوگ ديكھنے ميں آئے ھيں جو كھتے تھے كہ ابھي تو جواني ھے، بوڑھاپے ميں توبہ كرليں گے، ليكن موت نے ان كو فرصت نہ دي اور اسي جواني كے عالم ميں توبہ كئے بغير چل بسے۔
بھت سے گناھگار جوانوں كو ديكھا گيا جو كھتے تھے كہ ابھي تو ھم جوان ھيں لذت و شھوت سے فائدہ اٹھائيں، بوڑھاپے كے وقت توبہ كرليں گے، ليكن اچانك اسي جواني كے عالم ميں موت نے آكر اچك ليا!
اسي طرح بھت سے گناھگاروں كو ديكھا ھے جو كھتے تھے كہ ابھي تو وقت ھے بعد ميں توبہ و استغفار كرليں گے، ليكن گناھوں اور معصيت كي تكرار نے نفس كو ھوا و ھوس كا غلام بناليا اور شيطان نے انھيں گرفتار كرليا اور گناھوں كے اثر سے توبہ كي صلاحيت كھو بيٹھے، اور ھرگز توبہ و استغفار نہ كرسكے، اس كے علاوہ گناھوں كي كثرت، ظلمت كي سنگيني اور خدا كي اطاعت سے زيادہ دوري كي بنا پر وہ خدا كي نشانيوں اور اس كے عذاب ھي كو جھٹلانے لگے، اور آيات الٰھي كا مذاق اڑانے لگے، اور خود اپنے ھاتھوں سے توبہ و استغفار كا دروازہ بند كرليا!
(( ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ اٴَسَائُوا السُّوئَي اٴَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللهِ وَكَانُوا بِھا يسْتَہْزِئُون))۔ 80
“اس كے بعد برائي كرنے والوںكا انجام برا ھوا كہ انھوں نے خدا كي نشانيوں كو جھٹلاياديا اور برابر ان كا مذاق اڑاتے رھے”۔
گناہ، جذام اور برص كي طرح گناھگار انسان كے ايمان، عقيدہ، اخلاق، شخصيت، كرامت اور انسانيت كو كھاجاتے ھيں، انساني زندگي اس منزل پر پھونچ جاتي ھے كہ انسان خدا كي آيات كي تكذيب كرنے لگتاھے، اور انبياء، ائمہ معصومين عليھم السلام اور قرآن مجيد كا مسخرہ كرتا ھوا نظر آتا ھے، اور اس پر كسي كے وعظ و نصيحت كا كوئي اثر نھيں ھوتا۔
اللہ تعاليٰ كا ارشاد ھوتا ھے:
((وَسَارِعُوا إِلَي مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھا السَّمَاوَاتُ وَالْاٴَرْضُ اٴُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِين))۔ 81
“اور اپنے پروردگار كي مغفرت اور اور اس جنت كي طرف جلدي كرو جس كي وسعت زمين و آسمان كے برابر ھے اور اسے صاحبان تقويٰ لئے مھيا كياگياھے”۔
اس آيت كے پيش نظر واجب ھے كہ انسان اپنے ظاھر و باطن كو گناھوں سے پاك كرنے اور مغفرت و بہشت حاصل كرنے كے لئے توبہ و استغفار كي طرف جلد از جلد قدم اٹھائے، اور توبہ و استغفار كے تحقق كے لئے جتنا ھوسكے جلدي كرے كيونكہ توبہ ميں ايك لمحہ كے لئے تاخير كرنا جائز نھيں ھے، قرآن مجيد كي رُوسے توبہ ميں تاخير كرنا چاھے كسي بھي وجہ سے ھو، ظلم ھے، اور يہ ظلم دوسرے گناھوں سے الگ خود ايك گناہ ھے۔
(( ۔۔۔ وَمَنْ لَمْ يتُبْ فَاٴُوْلَئِكَ ھم الظَّالِمُونَ))۔ 82
“۔۔۔اور جو شخص بھي توبہ نہ كرے تو سمجھ لو كہ يھي لوگ در حقيقت ظالموں ميں سے ھے”۔
گناھگار كو اس حقيقت كا علم ھونا چاہئے كہ توبہ كا ترك كرنا اسے ستم گاروں كے قافلہ ميں قرار ديديتا ھے اور ستم گاروں كو خداوندعالم دوست نھيں ركھتا۔
(( ۔۔۔وَاللهُ لاَيحِبُّ الظَّالِمِين)) 83
“۔۔۔اور خدا، ظلم كرنے والوں كوپسند نھيںكرتا”۔
گناھگار كو معلوم ھونا چاہئے كہ ايسے شخص سے خداوندعالم، انبياء اور ائمہ عليھم السلام سخت نفرت كرتے ھيں اور اس سے ناراض رھتے ھيں چنانچہ حضرت عيسي اپنے حواريوں كو تہديد كرتے ھوئے فرماتے ھيں:
“يا مَعْشَرَ الْحَوارِيينَ، تَحَبَّبُوا اِلَي اللّٰہِ بِبُغْضِ اَھل الْمَعاصى، وَ تَقَرَّبُوا اِلَي اللّٰہِ بِالتَّباعُدِ مِنْھُمْ وَ الْتَمِسُوا رِضاہُ بِسَخَطِھِمْ:” 84
“اے گروہ حوارين! گناھگاروں اور معصيت كاروں سے دشمني اور ناراضگي كا اظھار كركے خود كو خدا كا محبوب بناؤ، آلودہ لوگوں سے دوري اختيار كرتے ھوئے خدا سے نزديك ھوجاؤ، اور گناھگاروں كے ساتھ غيض و غضب اورغصہ كا اظھار كركے خداوندعالم كي خوشنودي حاصل كرلو”۔
گناھگار انسان كو اس بات پر متوجہ ھونا چاہئے كہ ھر گناہ كے انجام دينے سے خدا كے نزديك انسان كي شخصيت اور كرامت كم ھوجاتي ھے يھاں تك كہ انسان حيوان كي منزل ميں پہنچ جاتا ھے بلكہ اس سے بھي پست تر ھوتا چلا جاتا ھے، يھاں تك كہ ايسا شخص قيامت كے دن انسان كي صورت ميں محشور نھيں ھوسكتا۔
حضرت امير المومنين علي عليہ السلام براء بن عازب سے فرماتے ھيں: “تم نے دين كو كيسا پايا؟ انھوں نے عرض كيا: مولا! آپ كي خدمت ميں آنے اور آپ كي امامت و ولايت كا اقرار كرنے نيز آپ كي اتباع اور پيروي سے پھلے يھوديوں كي طرح تھا، ھمارے لئے عبادت و بندگى، اطاعت و خدمت بے اھميت تھے۔ ليكن ھمارے دلوں ميں ايماني حقائق كي تجلي اور آپ كي اطاعت و پيروي كے بعد عبادت و بندگي كي قدر كا پتہ چل گيا، اس وقت حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا: دوسرے لوگ قيامت كے دن گدھے كے برابر محشور ھوں گے، اور تم ميں سے ھر شخص روز محشر بہشت كي طرف جارھا ھو گا۔ 85
44. سورہٴ يونس آيت، 57۔
45. عوالي اللئالي ج135، الفصل الرابع، حديث 18؛بحار الانوارج3281؛باب 11، حديث 22۔
46. سورہٴ يونس آيت، 57۔
47. سورہٴ آل عمران آيت، 89۔
48. سورہٴ يوسف آيت 87۔
49. عن ابي عبدالله (ع) قال:قلت لہ:قوم يعملون بالمعاصي و يقولون نرجو فلا يزالون كذلك حتي ياتيھم الموت فقال:ھوٴلاء قوم يترجحون في الاماني كذبوا ليسوا براجين ان من رجا شئيا طلبہ ومن خاف من شيء ھرب منہ”۔
50. عدة الداعي ص37 الباب الاول في لالحث علي الدعاء؛ارشاد القلوب ج 1، ص153، الباب السابع والاربعون في الدعاء؛ بحار الانوار ج81، ص61، حديث 12۔
51. سورہٴ آل عمران آيت 31۔
52. سورہٴ انفال آيت، 29۔
53. سورہٴ احزاب آيت، 70۔71۔
54. سورہٴ صف آيت 10۔12۔
55. سورہٴ تغابن آيت 17۔
56. سورہٴ اعراف آيت 153۔
57. سورہٴ توبہ آيت 5۔
58. سورہٴ توبہ آيت 120۔
59. مجموعہٴ ورام، ج1، ص43۔، باب ما جاء في الصدق و الغضب لله، ارشاد القلوب، ج1ص851۔باب 51۔
60. مجموعہٴ ورام، ج1، ص43۔، باب ما جاء في الصدق و لغضب لله، مستدرك الوسائل ج8ص 455 باب 91 حديث 9985۔
61. مجموعہٴ ورام، ج1، ص60۔ باب العتاب۔
62. مجموعہٴ ورام، ج1، ص61۔باب العتاب۔
63. مجموعہٴ ورام، ج1، ص65۔باب العتاب۔
64. مجموعہٴ ورام، ج1، ص75۔باب العتاب۔
65. روي ان الحسين بن علي عليہ السلام جاء ہ رجل و قال:انا رجل عاص ولا اصبر عن المعصية فعظني بموعظة۔فقال عليہ السلام:افعل خمسة اشياء واذنب ما شئت فاول ذلك لا تاكل رزق اللہ واذنب ما شئت والثاني اخرج من ولاية اللہ واذنب ما شئت والثالث اطلب موضعا لا يراك اللہ واذنب ماشئت والرابع اذاجاء ملك الموت ليقبض روحك فادفعہ عن نفسك واذنب ماشئت والخامس اذا اٴدخلك مالك في النار فلا تدخل في النار واذنب ماشئت”۔
66. تحف العقول ص279؛بحار الانوار، ج75، ص137، باب 21، حديث3۔
67. بحار الانوار ج75، ص175، باب22، حديث5۔
68. خصا ل ج1، ص16، حديث 56؛تحف العقول ص489؛بحار الانوار ج75، ص192، باب 23، حديث5۔
69. تحف العقول ص390؛بحار الانوار ج 75، ص305، باب 25حديث1؛مستدرك الوسائل ج8ص464، باب 93، حديث 10022۔
70. مواعظ العدديہ ص 336۔
71. عن ابي عبد اللہ عليہ السلام قال :كان فيما وعظ بہ لقمان ابني ۔۔۔واعلم انك ستساٴل غدا اذا وقفت بين يدي اللہ عز وجل عن اربع :شبابك فيما ابليتہ و عمرك فيما افنيتہ ومالك مما اكتسبتہ وفيماانفقتہ فتاھب لذلك واٴعد لہ جوابا”۔
72. مواعظ عدديہ ص240۔
73. مجموعہ ورام ج1، ص 236 با ب محا سبة النفس ۔
74. مجموعہ ورام ج1، ص 236، با ب ذكر الاٴشرار و الفجّار۔
75. مواعظ عدديہ ص190۔
76. مواعظ عدديہ ص278۔
77. مواعظ عدديہ ص280۔
78. مواعظ عدديہ ص192۔
79. كافي ج2، ص285، باب الكبائر، حديث 24؛وسائل الشيعہ ج15، ص318، باب 46، حديث 20629۔
80. سورہٴ روم آيت 10۔
81. سورہٴ آل عمران آيت، 133۔
82. سورہٴ حجرات آيت، 11۔
83. سورہٴ آل عمران آيت 57۔
84. مجموعہٴ ورّام ج2، ص235، الجزء الثانى ؛بحار الانوار، ج14، ص330، باب 21، حديث 64؛مستدرك الوسائل ج12، ص196، باب6، حديث 13865۔
85. رجال علامہ بحر العلوم، ج2، ص127۔

http://shiastudies.com/ur/143/%da%af%d9%86%d8%a7%db%81-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d8%b3-%d9%83%d8%a7-%d8%b9%d9%84%d8%a7%d8%ac/