جہاد سے فرار

جہاد سے فرار

جہاد سے فرار

ستائیسواں گناہ کبیرہ جس کے بارے میں نص شرعی ہے وہ جہاد شرعی سے فرار کرنا ہے۔ یعنی جہاد شرعی کے اس معرکے سے فرار اختیار کرنا جہاں پر دشمن دوگناسے زیادہ نہ ہو وہ احادیث جو گناہاں کبیرہ کے سلسلے میں رسول خدا اور امیر المومنین وامام صادق وامام محمد تقی وامام رضاعلیہ السلام سے نقل کی گئی ہیں اس میں انہوں نے صرحتاجہاد سے فرار اختیار کرنے کو سورہ انفال کی ۱۶ویں آیت سے استدلال کرتے ہوئے گناہ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یا ایھا الذین امنوا اذا القیتم الذین کفرو ا زحفا فلا توّلوھم الادبار ومن یوّلھم یومئذ دبرہ الا متجر فالقتال اومتحیر الی فئة فقد باء بغضب من اللّٰہ وما واہ جھنم وبئس المصیر(سورہ انفال آیت ۱۶)
اے ایمان والو جب تمہارا میدان جنگ میں کفار سے مقابلہ ہو تو (خبردار) ان کی طرف پیٹھ نہ پھیرنا اور جو کوئی ان سے پیٹھ پھیرے گا وہ یقینی خداکے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے مگر یہ کہ پیٹھ پھیرنا مصلحت جنگ کی بناء پر یا پناہ حاصل کرنے کے لیے یا اسلحہ جمع کرنے کے لئے ہو۔
حضرت امیر المومنین علی – فرماتے ہیں:
ولیعلم المنھزم بانہ مسخط ربہ موبق نفسہ وان فی الفرار موجدة اللّٰہ والذل الازم والعارالاباقی وان الفار لغیر مزید فی عمرہ ولا محجوربینہ ودین یومہ ولا یرضی ربہ ولموت الرجل محقا قبل اتیان ھذہ الخصال خیر من الرضا بالتلبس بھا والا قرار علیھا۔ (وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۶۵ب ۲۹)
میدان جہاد سے فرار کرنے والے کو جان لینا چاہئے کہ اس نے اپنے خدا کو غضب ناک کیا اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا اس لئے کہ جہاد سے بھاگناخدا کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ اور فرار کرنے والے کو یقینی طور پر پر یشانی اور ابدی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اس کا فرار کرنا اس کے اور اس کی موت کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتا اور اس کی عمر زیادہ نہیں ہوسکتی یعنی اگر اس کی موت آچکی ہو تو اس کا فرار کرنا اس کو فائدہ پہنچانہیں سکتا بلکہ اس کی موت کسی اورسبب سے واقع ہوسکتی ہے۔ اور اگر اس کی موت کا وقت نہیں آیا ہو توجہاد میں شرکت کرنے سے بھی اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا پس غضب خدا ذلت و رسوائی کے ساتھ زندگی گزارنے سے یہ بہتر ہے کہ انسان حق کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی جان جان آفیرین کے سپر دکردے۔
ابتدا ئی اور دفاعی جہاد
جہاد شرعی کی دو قسمیں ہیں۔ ا۔ ابتدائی اور ۲۔ دفاعی۔ جہادابتدائی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان دعوت اسلام اور قیام عدل کے لئے کفارسے جنگ شروع کریں لیکن اس قسم کے جہاد کے لئے پیغمبر ، امام یا امام کے خصوصی نائب کی اجازت لازمی شرط ہے۔ لیکن یہ زمانہ چونکہ غیبت کبریٰ کا ہے۔ اس لئے اس قسم کا جہاد جائز نہیں۔
جہاد دفاعی یہ ہے کہ اگر کفار اسلامی شہروں پر حملہ کریں اور اسلام کی بنیاد اور آثار کو مٹانا چاہیں یا یہ کہ مسلمانوں پر حملہ کر کے ان کے مال واسباب کو لوٹ لینا اور انکی جان وعزت وناموس کو ظلم کا نشانہ بنانا چاہیں تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں پر القرب فلاقرب واجب کفائی ہے۔کہ کفار کے حملے کا دفاع کریں اور ان کے ظلم کی روک تھام کے لئے ان سے جنگ کریں اور اس قسم کے جہاد میں امام ونائب امام کی اجازت شرط نہیں ہے۔
میدان جہاد سے فرار کرنا جو کہ ہماری بحث کا موضوع ہے۔ آیا یہ قسم اول سے متعلق ہے یا ہر دو قسموں کے ہے۔ اس سلسلے میں دو قول ہیں بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ اس جہاد سے متعلق ہے جو امام یا اس کے نائب خصوصی کی اجازت سے ہو (مثلاً شہید کے لئے غسل وکفن کا ساقط ہونا بھی ایسے ہی جہاد سے متعلق ہے۔) بعض دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ اس میں دونوں قسمیں شامل ہیں جو کوئی ان مسائل کو یا جہاد کے دوسرے مسائل کو جاننا چاہتاہو اسے چاہئے کہ فقہ سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کرے۔
جہاد سے فرار کے مسائل کی مناسبت سے مناسب ہے کہ حضرت امیر المومنین-کی جنگوں میں ثابت قدمی کا ذکر کیا جائے۔ جو کہ آپ کے فضائل ومناقب میں سے ہے۔ تاریخ شیعہ وسنی میں کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ حضرت علی نے کسی بھی میدان جنگ سیراہ فرار اختیار کی ہو خاص طور پر غزوہ احد میں صرف وہ ہستی کہ جس نے راہ فرار نہیں کیا وہ احضرت علی کی ذات تھی۔ چنانچہ بحاالانوار کی نویں جلد میں باب شجاعت میں ابن مسعود سے حضرت علی کے بارے میں ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ کہ وہ چودہ افراد جو راہ فرار اختیارکرنے کے بعد دوبارہ پلٹ آئے اوررسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے ساتھ مل گئے وہ ابودجانہ مقداد۔ طلحہ اور مصعب تھے اور اس کے سب انصار لوٹ آئے۔ یعنی یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کو میدان جنگ میں تنہا چھوڑ دیا تھا اور تمام اصحاب نے راہ فرار اختیار کی فقط علی تھے جو مشرکین کی صفوں میں داخل ہوکر ان کے سروں کو اپنی تلوار سے جدا کرتے رہے۔
غزوہ احزاب میں حضر ت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے حضرت علی کرار غیر فرار کا لقب دیا یعنی وہ شخص جو ہمیشہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے اور کسی بھی وقت فرار اختیار نہیں کرتا امام کے اس صفت سے متصف ہونے میں کوئی شک نہیں تاریخ شیعہ وسنی اس بات پر متفق ہے کہ ابو بکر و عثمان نے غزوہ خیبر وحنین وذات السلاسل میں راہ فرار اختیار کی اور ابن ابی الحدید اپنے مشہور قصیدے میں اس بات کر طرف اشارہ کرتا ہے۔
ولیس بنکر فی الحنین فرارہ وفی احد قد فرخو فا وخیبر ا
اس بات میں تعجب نہیں کہ روزحنین ابوبکر فرار کر گئے اور اس کے بعد غزوہ خیبر و احد میں بھی ڈر کر راہ فرار اختیار کی۔

http://shiastudies.com/ur/290/%d8%ac%db%81%d8%a7%d8%af-%d8%b3%db%92-%d9%81%d8%b1%d8%a7%d8%b1/