تقویٰ و پرھیزگاری كے فوائد

تقویٰ و پرھیزگاری كے فوائد

انسان روپیہ پیسہ، غذا، لباس، زمین و جائداد، گاڑی، خواہشات نفسانی اورجاہ و مقام كی آرزوركھتا ھے، لیكن یہ غور كرنا چاہئے كہ خواہشات بے قید و شرط كے نہ ھوں، ھماری خواہشات دوسروں كے حقوق كی پامالی كا سبب نہ بنیں، ھماری خواہشات كسی كا گھر یا معاشرہ كو درھم و برھم نہ كرڈالیں، ھماری خواہشات، انسانی شرافت كونہ كھوبیٹھے ھماری، خواہشات اس حد تك نہ ھو ںكہ انسان اپنی آخرت كو كھوبیٹھے اور غضب الٰھی كا مستحق بن جائے اور ھمیشہ ھمیشہ كے لئے نار جہنم میں جلتا رھے، اس چیز كی اجازت نہ شریعت دیتی ھے اور نہ عقل و منطق، آپ كسی بھی صاحب فطرت اور صاحب وجدان اور عقل سلیم ركھنے والے شخص سے سوال كرلیں كہ میں مال و دولت، مقام ومنصب یا عورت كو حاصل كرنے كے بعد دوسرے كے حق كو پامال اور ان پر ظلم كرنا چاھتا ھوں، یا كسی كے دل كو جلانا یاكسی كا گھر برباد كرنا چاھتا ھوں تو دیكھئے وہ كیا جواب دیتا ھے، یا ان تمام سوالوں كو اپنی عقل و فكر اور وجدان سے پوچھ كر دیكھیں تو كیا جواب ملے گا؟
خود آپ اور دوسروں كی عقل صرف یھی جواب دے گی كہ ناجائز خواہشات كو ترك كردو، اور جس چیز كی خواہش ھے اسے اس طرح حاصل كرو جس طرح تمھارا حق ھے، اگر اس طرح آپ نے خواہشات پر عمل كیا تونہ كسی كا كوئی حق ضائع ھوگا اور نہ ھی كسی پر ظلم ھوگا۔
اگر یھی سوال خدا، انبیاء اور ائمہ علیھم السلام سے كریں گے تو جواب ملے گا اگر تمھارا حق ھے تو چاھو، اور اگر تمھارا حق نھیں ھے تو اس چیز كی خواہش نہ كرو، قناعت كے ساتھ ساتھ حلال طریقہ سے خواہشات كو پورا كرو لیكن اگر تمھاری خواہشات غیر شرعی طریقہ سے ھو یا اجتماعی قوانین كے خلاف ھے تو یہ ظلم و ستم ھے۔
اگر تمام خواہشات میں قوانین الٰھی اور معاشرتی حدود كی رعایت كی جائے تو زندگی كی سلامتی، حفظ آبرو، اور اخلاقی كمالات پر پہنچنے كا سبب ھیں، لیكن اگر ان خواہشات میں معاشرہ اور الٰھی قوانین كی رعایت نہ كی جائے تو انسان كی زندگی برباد ھوجاتی ھے، اس كی عزت خاك میں مل جاتی ھے اور انسان میں شیطانی صفات اور حیوانی خصلتیں پیدا ھوجاتی ھیں۔
بھر حال انسانی زندگی میں پیش آنے والی تمام خواہشات دو قسم كی ھوتی ھیں: حساب شدہ خواہشات، اور غیر حساب شدہ خواہشات۔
حساب شدہ وہ خواہشات ھوتی ھیں جو خدا كی مرضی كے مطابق ھوں، اور اس كی مرضی كے مطابق ھی انسان آرزو كرے، جو قوانین الٰھی اور اس كے حدود كے مطابق ھوں۔ اس وقت انسان مال و دولت چاھتا ھے لیكن حلال مال و دولت، مكان چاھتا ھے لیكن حلال، شھوانی خواہشات كی آگ بجھانا چاھتا ھے لیكن شرعی نكاح كے ذریعہ، مقام و منصب چاھتا ھے لیكن رضائے الٰھی اور محتاج لوگوں كی مدد كرنے كے لئے، T.V دیكھنا چاھتا ھے لیكن صحیح او رمناسب پروگرام، ان تمام صورتوںمیں خواہشات ركھنے والا ایسا انسان موٴمن، بیدار، صاحب بصیرت، قیامت كو یاد ركھنے والا، ذمہ داری كا احساس كرنے والا، لوگوں سے نیكی اور مھربانی كرنے والا، معاشرے كے سلسلہ میں دلسوز، رضائے الٰھی كو حاصل كرنے والا، دین و دنیا كی سعادت چاہنے والا اور جھاد اكبر كرنے والاھوجاتا ھے۔
غیر حساب شدہ خواہشات وہ ھوتی ھیں جن میں صرف نفس شامل ھوتا ھے، جن میں انانیت كی بو آتی ھو، جن كی وجہ صرف تكبر و غرور اور خود خواھی ھوتی ھے اور وہ ضلالت و گمراھی سے ظاھر ھوتی ھیں۔
اس صورت میں آدمی مال و دولت چاھتا ھے لیكن جس راہ سے بھی ھو اس كے لئے كوئی مشكل نھیں چاھے سود، چوری، غصب، مكاری، دھوكا فریب، رشوت وغیرہ كے ذریعہ ھی كیوں نہ ھو، مكان چاھتا ھے چاھے وہ اعزاء و دوستوں كے حق كو پامال كرنے سے ھو، شھوت كی آگ بجھانا چاھتا ھے چاھے استمناء، لواط زنا وغیرہ كے ذریعہ سے ھی كیوں نہ ھو، مقام و منصب چاھتا ھے، چاھے دوسروں كو ان كے حق سے نامحروم كرنے ذریعہ ھی كیوں نہ ھو، كچھ سننا چاھتا ھے چاھے غیبت، تھمت اور حرام موسیقی اور گانا ھی كیوں نہ ھو۔
ایسی خواہشات ركھنے والا شخص بے دین، ضعیف الایمان، دل كا اندھا، بے بصیرت، آخرت كو خراب كرنے والا، غضب الٰھی كا خریدنے والا اور ظلمت و گمراھی كے میدان میں شیطان كا نوكر ھوتا ھے۔
قرآن مجید نے ایسی خواہشات ركھنے والے انسان كو “ھوا و ھوس كے غلام”سے تعبیر كیا ھے۔
ھوا و ھوس انسان كی اس باطنی قوت كا نام ھے جو انسان پر حكومت كرتی ھے، اور خود خدا كی جگہ قرار پاتی ھے، خود اپنی كو معبود كھلواتی ھے، انسان كو اپنا غلام بنالیتی ھے اور انسان كو خدا كی عبادت و اطاعت كرنے كے بجائے اپنی عبادت كے لئے مجبور كرتی ھے:
((اٴَرَاٴَیْتَ مَنْ اتَّخَذَ إِلَہَہُ ہَوَاہُ اٴَفَاٴَنْتَ تَكُونُ عَلَیْہِ وَكِیلًا))۔ 2
“كیا آپ نے اس شخص كودیكھاھے جس نے اپنی خواہشات ھی كو اپنا خدا بنا لیا ھے، كیا آپ اس كی بھی ذمہ داری لینے كے لئے تیا ر ھے”۔
انسان اپنی زندگی كے آغازسے جس چیز كو دیكھتا ھے اس كو حاصل كرنا چاھتا ھے، جس چیز كو سنتا ھے اس كے پیچھے دوڑتا ھے اور جس چیز كا دل چاھتا ھے اس كو حاصل كرنے كی كوشش كرتا ھے، اپنے پیٹ كو حلال و حرام كی پروا ہ كئے بغیر بھرتا ھے، شھوت كی آگ بجھانا چاھتا ھے چاھے جس طرح سے بھی ھو، مال و دولت كے حصول كے لئے، مقام و عہدہ پانے كے لئے كسی بھی حق كی رعایت نھیں كرتا، درحقیقت ایسا انسان ھوا وھوس كے بت سازكارخانہ میں داخل ھوجاتا ھے، جو كچھ ھی مدت كے بعد اپنے ھاتھوں سے بت تراشناشروع كردیتا ھے، اور اس بت كو دل میں بسالیتا ھے اور یھی نھیں بلكہ اپنے ھاتھ سے بنائے ھوئے بت كی پوجا شروع كردیتا ھے!
افسوس كی بات ھے كہ بھت لوگوں كی عمر كا نتیجہ یہ ھوتا ھے كہ ان كا باطن بت خانہ بن جاتا ھے اور اس كی تلاش و كوشش كا ثمرہ “ھواپرستی كا بت ” ھوتا ھے اور ان كا كام اس بت كی عبادت كرنا ھوتا ھے، ایك عارف كے بقول:
انسانی نفس خود سب سے بڑا بت ھے
اس بت كی پوجا كرنے والے یہ لوگ كسی جاندار كی جان كو جان نھیں سمجھتے، كسی كی عزت كو كوئی اھمیت نھیں دیتے، كسی كے حق كی رعایت نھیں كرتے، ایك معاشرہ كی عزت وناموس كو پامال كردیتے ھیں، ھر چیز پر اپنا حق جتاتے ھیں لیكن دوسروں كے لئے كسی بھی طرح كے حق كے قائل نھیں ھوتے۔
خداوندعالم نے تمام بندوں كو دنیا و آخرت كی خیر و بھلائی كے لئے نفس اور اس كی بے حساب و كتاب خواہشات كی پیروی نہ كرنے كا حكم دیا ھے، اگرچہ ھوائے نفس كی مخالفت ظاھراً ان كے اور دوسروں كے لئے نقصان دہ ثابت ھوتی ھو۔
((یَااٴَیُّھا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَی اٴَنفُسِكُمْ اٴَوْ الْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ إِنْ یَكُنْ غَنِیًّا اٴَوْ فَقِیرًا فَاللهُ اٴَوْلَی بِھما فَلاَتَتَّبِعُوا الْہَوَی اٴَنْ تَعْدِلُوا۔۔۔))۔ 3
“اے ایمان والو! عدل و انصاف كے ساتھ قیام كرو اور اللہ كے لئے گواہ بنو چاھے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقرباء ھی كے خلاف كیوں نہ ھوں جس كے لئے گواھی دینا ھے وہ غنی ھو یا فقیر، اللہ دونوں كے لئے تم سے اولیٰ ھے، لہٰذا تم ھوا و ھوس كی پیروی نہ كرو، اور عدالت سے كام لو “۔
قرآن مجید نے ھوائے نفس كے بت كی پیروی كو ضلالت و گمراھی، حق سے منحرف ھونے اورروز قیامت كو فراموش كرنے كا سبب بتایا ھے، اور قیامت كے دن درد ناك عذاب میں مبتلا ھونے كا سبب بیان كیا ھے۔
((وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنَّ الَّذِینَ یَضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ لَھم عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوا یَوْمَ الْحِسَابِ))۔ 4
“اور خواہشات كا اتباع نہ كرو كہ وہ راہ خدا سے منحرف كردے، بے شك جو لوگ راہ خدا سے بھٹك جاتے ھے ان كے لئے شدید عذاب ھے كہ انھوں نے روز حساب كو بالكل نظر انداز كردیا ھے۔”
قرآن مجید نے عظمت خدا سے خوف زدہ اورھوائے نفس سے مقابلہ كرنے كو بہشت میں داخل ھونے كا سبب بتایا ھے:
(( وَاٴَمَّامَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَویٰ فَإِنَّ الْجَنَّةَ ھِیَ الْمَاویٰ))۔ 5
“اور جس نے رب كی بارگاہ میں حاضری كا خوف پیدا كیا ھے اور اپنے نفس كو خواہشات سے روكا ھے، تو جنت اس كا ٹھكانہ او رمركز ھے”۔
قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام كے زمانہ كے مشھور عالم “بلعم باعورا” كے ایمان سے ھاتھ دھونے، روحانیت اور معنویت سے جدائی، مادیت سے آلودہ ھونے اور اس كے اندر پیدا ھونے والی بُری صفات كی وجہ، ھوائے نفس كی پیروی بتایاھے:
(( ۔۔۔ وَلَكِنَّہُ اٴَخْلَدَ إِلَی الْاٴَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ اٴَوْ تَتْرُكْہُ یَلْہَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِینَ كَذَّبُوا بِآیَاتِنَا۔۔۔))۔ 6
“۔۔۔لیكن وہ خود زمین كی طرف جھك گیااور اس نے خواہشات كی پیروی اختیار كر لی تو اب اس كی مثال كتے جیسی ھے كہ اس پر حملہ كرو تو بھی زبان نكالے رھے اور چھوڑ دو تو بھی زبان نكالے رھے ۔یہ اس قوم كی مثال ھے جس نے ھماری آیات كی تكذیب كی ۔۔”۔
قرآن مجید نے غافلوں، ھوائے نفس میں گرفتار اور ذلیل و پست افراد كی اطاعت كرنے سے سخت منع كیا ھے :
(( ۔۔۔ وَلاَتُطِعْ مَنْ اٴَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَكَانَ اٴَمْرُہُ فُرُطًا))۔ 7
“۔۔۔اور ھرگز اس كی اطاعت نہ كرنا جس كے دل كو ھم نے اپنی یاد سے محروم كردیا ھے اور وہ اپنے خواہشات كا پیروكار ھے اور اس كاكام سراسر زیادتی ھے”۔
قرآن مجید كے مختلف سوروں( جیسے سورہ مائدہ، سورہ انعام، سورہ رعد، سورہ مومنون، سورہ قصص، سورہ شوریٰ، سورہ جاثیہ اور سورہ محمد 8) كے لحاظ سے ھوائے نفس كی پیروی كتب آسمانی كی تكذیب، گمراھی، ولایت خدا سے دوری، زمین و آسمان اوران میں رہنے والوں میں فساد، نبوت سے دوری، استقامت كو كھوبیٹھنے، غافل اور جاھل لوگوں كے جال میں پھنسنے اور ان كے دل پر مھر لگنے كا سبب ھیں۔
ھوائے نفس كی غلامی كی پہچان درج ذیل چیزیں ھیں:
بُرا اخلاق، بُرا عمل، بے حساب و كتاب زندگی، دوسری مخلوق كے حقوق كی رعایت نہ كرنا، دوسروں پر ظلم و ستم كرنا، ترك عبادت، گناھان كبیرہ سے آلودہ ھونا، گناھان صغیرہ پر اصرار كرنا، غیظ و غضب اور غصہ سے كام لینا، لمبی لمبی آرزوئیں كرنا، نیك لوگوں كی صحبت سے دور ھونااورگناھگار او ر بُرے لوگوں كی صحبت سے لذت اٹھانا ۔
جھاد اكبر
اگر ھوائے نفس میں گرفتار شخص اپنی دنیا و آخرت كی بھلائی چاھتا ھے، اگر اپنے ماتحت لوگوں كی خیرخواھی چاھتا ھے، اگر اپنے باطن و عمل اور اخلاق كی اصلاح كرنا چاھتا ھے تو ایسے شخص كے لئے چارہ كار یہ ھے كہ ایك شجاع و بھادر فوج كی طرح ھوائے نفس سے جنگ كے لئے كھڑا ھوجائے اور اس بات پر یقین ركھے كہ اس جنگ میں خدا كی نصرت و مدد اور اس كی رحمت شامل حال ھوگی اور سو فی صد اس كی كامیابی اور ھوائے نفس كی شكست ھے۔
اگر اس جنگ میں كامیابی ممكن نہ ھوتی تو پھر انبیاء علیھم السلام كی بعثت، ائمہ علیھم السلام كی امامت اور آسمانی كتابوں كا نزول لغو اوربے ھودہ ھوجاتا۔
چونكہ اس جنگ میں شریك ھونا اور اس میں كامیابی حاصل كرنا نیز ھوائے نفس كے بت كو شكست دینا سب كے لئے ممكن ھے، لہٰذا انبیاء علیھم السلام كی بعثت، ائمہ علیھم السلام كی امامت اور آسمانی كتابوں كا نزول ھوا، اور اس سلسلہ میں سب پر خدا كی حجت تمام ھوگئیں، اور اب كسی كے پاس دنیا میں یا آخرت میںكوئی قابل قبول عذر نھیں ھے ۔
لہٰذا انسان كو چاہئے كہ ھوائے نفس میں گرفتار ھونے اور اپنے باطن میں یہ خطرناك بت پیدا ھونے سے پھلے ھی خود اپنی حفاظت كرے اور ھمیشہ یاد خدا میں غرق رھے، اور خودكو گناھوں سے محفوظ ركھے تاكہ یہ خطرناك بت اس كے دل میں گھر نہ بنالے اگر ایساكر لیااور اپنے نفس كو محفوظ ركھ لیا تو یھی عین كرامت اور شرافت ھے جس كے ذریعہ انسان میں تقویٰ اور انسانیت پیدا ھوتی ھے۔
لیكن جب انسان كے اندر غفلت كی وجہ سے یہ بت پیدا ھوجاتا ھے، اور ایك مدت كے بعد خدائی چمك یا نفسانی الھام، یا وعظ و نصیحت، یا نیك لوگوں كی سیرت كے مطالعہ كے بعد اس بت كے پیدا ھونے سے مطلع ھوجائے، اس كی حكومت كے خطرناك آثار سے آگاہ ھوجائے اور اس كے بعد بھی اس سے جنگ كے لئے قدم نہ اٹھائے، بلكہ ھاتھ پر ھاتھ ركھ كر بیٹھ جائے یا سستی سے كام لے توكم از كم ایك واجب كے عنوان سے یا واجب سے بھی بالاتر خداوندعالم كے حكم كی اطاعت، اور انبیاء و ائمہ علیھم السلام كی دعوت پر لبیك كھتے ھوئے اپنے اخلاق و اعمال كی اصلاح كے لئے آگے بڑھے اور اپنے گناھوں سے توبہ كرتے ھوئے واجبات كو انجام دے، خدا كی عبادت كرے، نیك اور صالح افراد كے ساتھ بیٹھے، مال حرام سے پرھیز كرتے ھوئے “ھوائے نفس كے بت “سے جنگ كے لئے تیار ھوجائے كہ اس جنگ میں فتح كا سھرا اسی كے سر ھوگا، اس جنگ كو دینی تعلیمات میں “جھاد اكبر” كھا جا تا ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ھے:
“اِنَّ النَّبِیَّ بَعَثَ سَریَّةً، فَلَمَّا رَجَعُوا قَالَ: مَرْحَباً بِقَوْمٍ قَضَوُا االْجِھادَ الاَصْغَرَ، وَ بَقِیَ عَلَیْھم الْجِھادَ الاَكْبَرُ ۔ فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! وَمَا الْجِھادُ الاَكْبَرُ؟ قَالَ: جِھادُ النَّفْسِ”۔ 9
“پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بعض اصحاب كو جنگ كے لئے بھیجا، جب وہ اسلامی لشكر جنگ سے واپس لوٹا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مرحبا، اس قوم پر جو جھاد اصغر انجام دے كر آرھی ھے، اور جھاد اكبر ان كے ذمہ باقی ھے۔ لوگوں نے سوال كیا: یا رسول اللہ! جھاد اكبر كیا چیزھے، توآپ نے فرمایا:
“جھاد بالنفس” (یعنی اپنے نفس سے جنگ كرنا)یہ بات واضح ھے كہ “نفس سے جنگ “، خود نفس سے جنگ كرنا نھیں ھے بلكہ اس كے خطرناك پھلو سے جنگ كرنا مراد ھے جس كو قرآن كریم نے “ھواو ھوس” كا نام دیا ھے۔
ھوائے نفس كے مقابل لڑنا اور جھادكرنا ھر دوسرے جھاد سے بالاتر ھے، ھوائے نفس سے ہجرت كرنے والے كی ہجرت ھر ہجرت سے افضل ھے، ا ور اس جھاد كا ثواب ھردوسرے ثواب سے بھتر ھے۔
حضرت علی علیہ السلام كہ خود آپ نفس سے جھاد كرنے والوں میں بے نظیر ھیں؛ فرماتے ھیں:
“مَاالْمُجَاہِدُ الشَّہِیْدُ فِی سَبِیْلِ اللهِ بِاَعْظَمَ اَجْراً مِمَّنْ قَدَرَ فَعَفَّ، لَكَادَ الْعَفِیْفُ اَنْ یَكُونَ مَلَكاً مِنَ الْمَلاَئِكَةِ”۔ 10
“راہ خدا میں جھاد كركے شھید ھوجانے والا اس سے زیادہ اجر كا حقدار نھیں ھوتا ھے جتنا اجر اس شخص كے لئے ھے جو اختیارات كے باوجود عفت سے كام لے كہ عفیف و پاكدامن انسان قریب ھے كہ وہ صفوف ملائكہ میں شمار ھو “۔
اصلاح نفس كا طریقہ
ایك لاكھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام كی بعثت كے پیش نظر، معتبر اسلامی كتابوں اور قرآن مجید میں احكام الٰھی بیان ھوئے ھیں، اسی طرح آسمانی كتابوں كے پیش نظر خصوصاً قرآن مجید میںجو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كا زندہٴ جاوید معجزہ ھے، نیز ائمہ علیھم السلام كی امامت كہ جن كے ارشادات زندگی كے ھر پھلو كے لئے كتب حدیث میں موجود ھيں، اسی طرح انسانی فطرت، عقل اور وجدان كے پیش نظر جو انسان كے پاس الٰھی امانتیں ھیں اور دنیا و آخرت كے لئے مفید سرمایہ ھيں، لہٰذا ان تمام معنوی اور روحانی امور كے ذریعہ زندگی كے تمام پھلوؤں میں سب انسانوں پر خدا كی حجت تمام ھوچكی ھے، كیا یہ كھا جاسكتا ھے كہ انسان كے لئے اصلاح كا راستہ بندھوگیا ھے یا یہ كہ انسان میں اصلاح كے راستہ پرچلنے كی طاقت نھیں ھے، یا انسان اپنے اعمال و اعتقادات اور اخلاق میں مجبور ھے؟
مسلّم طور پر ان تمام مسائل كا جواب منفی ھے، اصلاح كا راستہ روز قیامت تك سب كے لئے كھلا ھے، اور اس راستہ پر چلنے كی طاقت ھر انسان میںموجود ھے، اور انسان كسی بھی اعتقاد و عمل اور اخلاق كے سلسلہ میں مجبور نھیں ھے۔
ھمیشہ تاریخ میں ایسے افراد ملتے ھیں جنھوں نے گناھوں میں مبتلا ھونے، معصیت سے آلودہ ھونے اور ھوائے نفس كا اسیر ھونے كے بعد اپنے گناھوں سے توبہ كی اور معصیت كی گندگی سے پاك اور ھوائے نفس كی غلامی سے آزاد ھوگئے، جو خود اس بات كی دلیل ھے كہ نہ تو اصلاح كا راستہ بند ھے اور نہ انسان بُرے كام كرنے پر مجبور ھے۔یقینااس طرح كے بے بنیاد مسائل اور بے دلیل مطالب انسانی تہذیب میں ان لوگوں كی طرف سے داخل ھوگئے جو اپنے گناھوں پر عذر پیش كرنا چاھتے ھیں یا دنیاوی لذتوں كے شكار ھوچكے ھیں، وہ خود بھی خواہشات اور ھوا و ھوس میںگرفتار ھوچكے ھیں اور دوسرے كو بھی گمراہ كرنا چاھتے ھیں۔یہ لوگ اپنی باتوں كے بے بنیاد ھونے سے آگاہ ھیں اور اس بات كو اچھی طرح جانتے ھیں كہ یہ باتیں بے دلیل اور علم و منطق كے برخلاف ھیں اگرچہ ان باتوں كو كبھی كبھی تہذیبی و نفسیاتی ماھرین یا مشرقی اور مغربی یونیورسٹی كے اساتید كی زبان سے سنتے ھیں جن پر شھوتوں كا بھوت سوار رھتا ھے:
((بَلْ الْإِنسَانُ عَلَی نَفْسِہِ بَصِیرَةٌ ۔وَلَوْ اٴَلْقَی مَعَاذِیرَہُ ))۔ 11
“بلكہ انسان خود بھی اپنے نفس كے حالات سے خوب باخبر ھے۔چاھے وہ كتنے ھی عذر كیوں نہ پیش كرے”۔
كیا وہ افراد جو حیلہ او رمكاری، دھوكا اور فریب اور ریاكاری كرتے ھيں، اور دوسروں كو ذلیل و رسوا كرتے ھيں، یا كسی بے بنیاد مسئلہ كو علمی رنگ دے كر پیش كرتے ھیں یا اپنا واقعی چھرہ مخفی ركھتے ھیں یا عوام الناس كو دھوكہ میں ڈال كر ان پر حكومت كرنا چاھتے ھیں یا كسی قوم و ملت كو بے بنیاد مكتب لیكن علمی رنگ دے كر لوگوں كو اس كی دعوت دیتے ھیں، كیا یہ لوگ خود معاشرہ میں پیش كرنے والے مسائل كے بارے میں آشنائی نھیں ركھتے؟!
قرآن مجید كے بیان كے مطابق یہ لوگ ان تمام مسائل كو جانتے ھیں لیكن یہ وہ افراد ھیں جنھوں نے انسانی زندگی كے آب حیات كو ھمیشہ مٹی سے آلودہ كردیا ھے تاكہ اپنی خواہشات كو پورا كرنے كے لئے خوب مچھلی پكڑسكیں۔
بے شك اس ماحول میں گمراھی اور ضلالت پائی جاتی ھے، یھاں پر نخوت و تكبر اور جھالت كا دور دورہ ھے۔
ایسے لوگ جو حقائق كائنات اورخالق كے وجود كا انكار كرتے ھیں، اور خداوندعالم كی نشانیوں كو جھٹلاتے ھیں، ان لوگوں كایھی كام ھونا بھی چاہئے، بے بنیاد اور باطل مسائل ھی ان كے ذہن میں خطور كرسكتے ھیں، اس كے بعد اس كو ایك “آئین و مكتب فكر” قرار دیدیتے ھیں، تاكہ دوسرے لوگوں كو حقائق سے اور خداوندعالم سے دور كردیں۔یہ لوگ زمین پر فتنہ و فساد، نسل كشی، تباھی و بربادی اور قوم و ملت كو گناہ و معصیت میں آلودہ كرنے كے علاوہ كوئی ہدف نھیں ركھتے۔
(( وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِی الْاٴَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیھا وَیُھلكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لاَیُحِبُّ الْفَسَادَ۔)) 12
“اور جب آپ كے پاس سے منھ پھیر تے ھیں تو زمین میں فساد برپا كرنے كی كوشش كرتے ھیں اور كھیتیوں اور نسلوں كو برباد كرتے ھیں جب كہ خدا فساد كو پسند نھیں كرتا ھے”۔
صھیونیزم كے رہنماوٴں نے اپنی “پروٹوكل” “Protocole”كتاب میں لكھا ھے: ھم نے “داروین”، “ماركس” اور “نیچہ “كی كامیابی كو انھیں نظریات پر بنیاد ركھی ھے، اور جس كے برے اثرات ھمارے لئے بھت واضح ھیں( جس كا اثر غیر یھودی لوگوں پر ھورھا ھے)یھودیت كے اپنے تین دانشوروں : ماركس، فرویڈاور ڈركائم كے ذریعہ “داروین” اور “تدریجی ترقی”پیش كی گئی جس سے یورپ میں موجود فضیلت كو بالكل ختم كردیا ھے، ان تینوں دانشوروں نے ھمیشہ دین كی توھین كی ھے، ان لوگوں نے دین كی صورت كو بگاڑ كر بد صورت بنا كر پیش كیا ھے۔ 13
ان لوگوں نے اپنے سے وابستہ دانشوروں كے نظریات كی بدولت كسی بھی انسانی فضیلت كو خراب كئے بغیرنھیں چھوڑا، كیونكہ انھوں نے خالق كائنات كے رابطہ سے لے كرعالم ہستی نوع بشر كے تمام رابطوں كو فاسد او رتباہ و برباد كردیا ھے، انھیںخرافات میں بدل دیا ھے۔
ان كے اصلی انحرافات خدا كے بارے میں ھیں اسی طرح انسان كا خدا سے كیا تعلق ھے یااس كائنات كا خداسے اور خدا كا اس سے كیا ربط ھے، نیزانسان كا رابطہ دنیا سے اور دنیا كا رابطہ انسان سے كیا ھے، خلاصہ یہ كہ انھوں نے ان تمام چیزوں میں انحراف پیدا كردیا ھے۔
زندگی كا تصور، زندگی كے اہداف و مقاصد، انسانی نفس، ایك انسان كا دوسرے انسان سے رابطہ، بیوی شوھر كارابطہ اورمعاشرہ كا رابطہ غرض یہ كہ زندگی كے تمام پھلوؤں میں انحراف پیدا كرڈالا ھے۔
انھی غلط اور خطرناك انحرافات كا نتیجہ یہ ھوا كہ انسان كی حقیقی زندگی ھوائے نفس سے متاثر ھوگئی، انسان طاغوت كے سامنے جھك گیا ھے، شھوت میں گرفتار ھوگیا ھے، چنانچہ ھر روز فتنہ و فساد میں اضافہ ھوتا چلا جارھا ھے، اور ان ھلاك كنندہ فساد كی انتھا اس وقت ھوگی جب “خدا” كو بے تاثیر معبود قرار دیا جانے لگے گا اور دوسرے باطل معبودوں كو انسانی زندگی پر قبضہ ھوجائے گا۔ 14یہ لوگ (بقول خود)اپنی علمی چھلانگ كے ذریعہ اس جگہ پہنچ چكے ھیں كہ دنیا كے اكثر لوگوں كو یہ یقین كرادیا كہ اقتصاد، اجتماع اور تاریخ كی طاقت ھی انسان كی زندگی پر اثر انداز ھوتی ھے اور انسان كو اس كی مرضی كے بغیر اپنے تحت لے كر اس كو مسخر كرلیا ھے۔
ان بے بنیاد اور باطل گفتگو نے امریكہ اور یورپ میں بھت سے لوگوں خصوصاً جوانوں كو اس جگہ پہنچا دیا ھے كہ آج كل كے انسان كی زبان پر یہ نعرہ ھے:
“میں قید و بند كی زنجیر میں جكڑا ھوا ھوں، مجھے اپنی مرضی سے اپنی زندگی كو منظم كرنا چاہئے!
میں اپنے عقائد اور طرز زندگی كو اپنی عقل كے لحاظ سے تنظیم كرنا چاھتا ھوں۔
میں اس وقت اور آئندہ كی زندگی كو مستقل طور پر اور خدا كی سرپرستی كے علاوہ ھی منظم كرنا چاھتا ھوں!”
چنانچہ انسان انھیں چیزوں كی وجہ سے خدا كی حمایت سے دور ھوتاجارھا ھے اور شیطان كے مكر و فریب میں پھنستا جارھا ھے ۔
اسی نظریہ اور غرور كی وجہ سے پوری دنیا میں ظلم و ستم كا بول بالا ھے، اور انسان مختلف غلامی كی ذلت میں گرفتار ھوگیا ھے بعض لوگ مال و دولت كے غلام، بعض لوگ حكومت كے غلام اور بعض لوگ ڈیكٹیٹری كے غلام اور بعض شھوت اور مستی كے غلام بن گئے ھیں۔
اسی وجہ سے ساری دنیا میں فسق و فجور پھیلا ھوا ھے، اور تمام جوان لڑكوں اور لڑكیوں كو گناھوں كے كھنڈر میں گرادیا ھے۔
اسی انحراف كی وجہ سے انسان جنون كی حد تك پہنچ گیاھے اور ماڈرن ممالك كے ہسپتالوںمیں ان دیوانوں كے لئے جگہ نھیں ھے، دوسری طرف سے مڈرنیزم پرستی، فلم اور فلمی ستاروں اور دوسری شھوتوں نے انسان كو اپنی حقیقت كے بارے میں غور وفكر كرنے سے روك دیا ھے جس سے اس كی تمام عمر یونھی غفلت و تباھی میں برباد ھوتی جارھی ھے۔
اس منحوس زندگی كے نتائج نے (جس نے انسان كے ظاھر و باطن كو آلودگی، انحراف اور فسق و فجور میں غرق كردیا ھے) دنیا بھر كے بھت سے لوگوں كو مایوس كردیا ھے ان كی روح میں یاس و ناامیدی پیدا ھوگئی ھے، اپنی فطرت كو برداشت نہ كرتے ھوئے كھتے ھیںكہ انسان كے لئے اصلاح كا راستہ بند ھے اور اگر كھلا بھی ھو تو انسان میں اس راستہ پر چلنے كی طاقت نھیں ھے، اور نسبتاً اپنے سكون كے لئے كھتے ھیں: انسان اپنے تمام امور میں قضا و قدر اور جبر كاتابع ھے، یعنی انسان خودكچھ نھیں كرسكتا جیسا اس كی تقدیر میں ھوگا ویسا ھوكر ھی رھے گا۔
حقیقی اسلام كی ثقافت نے مذھب شیعہ اثناعشری میں ایك خاص روشنی پیدا كردی ھے، قرآنی آیات اور ائمہ علیھم السلام كی تعلیمات كے پیش نظر دلیل و حكمت او رمنطق و برھان كے ساتھ یہ اعلان ھوتا ھے كہ كسی بھی انسان كے لئے “اصلاح كا راستہ “بند نھیں ھے اور قیامت تك كسی بھی انسان كے لئے بند نھیں ھوگا، نیز اس راستہ پر چلنا ھر خاص و عام كے لئے ممكن ھے، اگرچہ مختلف گناھوں سے آلودہ ھوں، اور انسان كے اعمال و عقائد اور اس كا اخلاق قضا و قدر كے تابع نھیں ھے، بلكہ انسان اپنے اختیار سے سب كچھ كرتا ھے۔
قارئین كرام! انسان كی خیر و بھلائی، پاكیزگی اور پاكدامنی كے لئے دینی تعلیمات كی طرف ایك اشارہ كرنا مناسب ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایك شخص سے فرمایا:
“اِنَّكَ قَدْ جُعِلْتَ طَبِیبَ نَفْسِكَ، وَبُیِّنَ لَكَ الدّاءُ، وَعُرِّفْتَ آیَةَ الصِّحَّةِ، وَ دُلِلْتَ عَلَی الدَّوَاءِ، فَانْظُرْكَیْفَ قِیَامُكَ عَلَی نَفْسِكَ”۔ 15
“بے شك تم اپنے كو ایك طبیب كی طرح قرار دو، تمھیں مشكلات اور مرض كے بارے میں بتادیا گیا، اور صحت كی نشانیوں كو بھی بیان كردیا گیا ھے، تمھاری دوائی بھی بتادی گئی ھے، لہٰذا نتیجہ كے بارے میں غور و فكر كرو كہ كس طرح اپنی حالت كی اصلاح كے لئے قدم بڑھاسكتے ھو”۔
جی ھاں انسان اپنی حالت سے خوب واقف ھے اس كا درد باطل عقائد، شیطانی بد اخلاقی اور غیر صالح اعمال ھیں جن كی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ھوئی ھے، صحیح ایمان، اخلاق حسنہ، باطنی سكون اورعمل صالح یہ تمام چیزیں سلامتی اور صحت كی نشانی ھیں، توبہ و استغفار، تقویٰ، عفت اور گناھوں سے مقابلہ ان تمام دردوں كی دوا ھے، لہٰذا انسان كو ان تمام حقائق كے ذریعہ مدد حاصل كرتے ھوئے اپنی اصلاح كے لئے قدم اٹھانا چاہئے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اپنے آباء و اجداد علیہم السلام كے حوالے سے نقل فرماتے ھیں كہ پیغمبر اكرم نے حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا:
“یَاعَلِی، اَفْضَلُ الْجِھَادِ مَنْ اَصْبَحَ لاَ یَھُمُّ بِظُلْمِ اَحَدٍ”۔ 16
“یا علی! سب سے بھتر اور افضل جھاد یہ ھے كہ انسان صبح اٹھے تو كسی پر ظلم و ستم كا ارادہ نہ ركھتا ھو”۔
اگر انسان ھر روز گھر سے باھر نكلتے وقت كسی شخص پر یھاں تك كہ اپنے دشمن پر بھی ظلم كرنے كا ارادہ نہ ركھتا ھو اور ان كی نسبت خیر و نیكی كی نیت ھو اور لوگوں كی خدمت كے علاوہ كوئی دوسرا قصد نہ ھو تو پھر اگر یھی صورت حال رھی تو انسان كے اندر نور ایمان پیدا ھوجاتا ھے اور ظاھری اصلاح و نیكی سے مزین ھوجاتا ھے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
“مَنْ مَلَكَ نَفْسَہُ اِذَارَغِبَ، وَاِذَا رَھِبَ، وَاِذَا شْتَھَیٰ، وَاِذَا غَضِبَ، وَاِذَا رَضِیَ، حَرَّمَ اللهُ جَسَدَہُ عَلَی النَّارِ”۔ 17
“اگر انسان رغبت، خوف، خواہشات، غیظ و غضب اور خوشی و غم كے وقت اپنے كو گناہ و معصیت اور ظلم و ستم سے محفوظ ركھے تو خداوندعالم اس كے بدن كو آتش دوزخ پر حرام كردیتا ھے”۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام اكثر فرمایا كرتے تھے:
“نَبِّہْ بِالتَّفَكُّرِ قَلْبَكَ، وَجَافِ عَنِ اللَّیْلِ جَنْبَكَ، وَاتَّقِ اللهَ رَبَّكَ”۔ 18
“اپنے دل كو غور و فكر كے ذریعہ بیدار ركھو، رات كو عبادت كرو، اور زندگی كے تمام امور میں تقویٰ الٰھی اختیار كرو”۔
حضرت امام صادق علیہ السلام كا ارشاد ھے:
“اَلتَّفَكُّرُ یَدعُوا اِلَی الْبِرِّ وَالْعَمَلِ بِہِ”۔ 19
“تمام امور میں تفكر اور غور و فكر كرنے سے انسان میں نیكی اور عمل صالح كا جذبہ پیدا ھوتا ھے”۔
ایك شخص نے امام صادق علیہ السلام كی خدمت میں عرض كیا: مجھے اخلاقی كر امت اور شرافت تعلیم فرمائیں، تو اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا:
“اَلْعَفْوُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَصِلَةُ مَنْ قَطَعَكَ، وَاِعْطَاءُ مَنْ حَرَمَكَ، وَ قَوْلُ الْحَقِّ وَلَوْ عَلَی نَفْسِكَ”۔ 20
“جس نے تجھ پر ظلم كیا ھو اس كو بخش دے اور جس نے تجھ سے قطع تعلق كیا ھو اس سے صلہ رحم كر، جس نے تجھے محروم كردیا ھو اس كو عطا كر، اور حق بات كہہ اگرچہ تیرے لئے نقصان دہ ثابت ھو”۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
اگر كسی كے لئے بُرے كام یا حرام طریقہ سے شھوت بجھانے كا موقع آجائے لیكن خوف خدا كی وجہ سے اس كام سے اجتناب كرے تو خداوندعالم (بھی) اس پر آتش جہنم كو حرام كردیتا ھے، اور روز قیامت كی عجیب و غریب وحشت سے نجات دیدیتا ھے، اور اپنی كتاب میں دئے ھوئے وعدہ كو وفا كرتا ھے كہ جھاں ارشاد ھوتا ھے: “جو شخص اپنے پروردگار سے ڈرتا ھے اس كے لئے دو جنت ھیں”۔
جان لو! كہ اگر كسی شخص نے دنیا كو آخرت پر ترجیح دی تو روز قیامت اس حال میں خدا سے ملاقات كرے گا كہ عذاب الٰھی سے نجات دلانے والی كوئی نیكی اس كے پاس نہ ھوگی، لیكن اگر كوئی آخرت كو دنیا پر ترجیح دے اور فنا ھونے والی دنیا كو اپنا معبود قرار نہ دے تو خداوندعالم اس سے راضی و خوشنود ھوجاتا ھے اور اس كی برائیوںكو بخش دیتا ھے۔ 21
راوی كھتا ھے كہ میں نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے عرض كیا:
“قَوْمٌ یَعْمَلُوْنَ بِالْمَعَاصِی وَ یَقُولُونَ :نَرْجُو، فَلاَ یَزالُونَ كَذَلِكَ حَتَّی یَاتِیَھُم الْمَوتُ !فَقَالَ:ھٰوٴُلاَءِ قَومٌ یَتَرَجَّحُوْنَ فِی الْاَمَانِیَّ، كَذَبُوا، لَیْسُوا بِراجینَ، اِنَّ مَنْ رَجَا شَیْئاً طَلَبَہُ، وَمَنْ خَافَ مِنْ شَیْءٍ ھَرَبَ مِنْہُ”۔ 22
“ایك گروہ، گناھگار اور اھل معصیت ھے لیكن وہ لوگ كھتے ھیں كہ ھم ان گناھوں كے باوجود بھی امید وار ھیں، اور اسی طرح زندگی بسر كرتے ھیں اور اسی حالت میں مرجاتے ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ لوگ امید كے اھل نھیں ھیں، كیونكہ كسی چیز كی امید كرنے والا شخص اس سلسلہ میں كوشش كرتا ھے اور جس چیز سے ڈرتا ھے اس سے دور بھاگتا ھے”۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے درج ذیل آیت كے بارے میں فرمایا:
(( وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ))۔ 23
“مَنْ عَلِمَ اَنَّ اللهَ یَرَاہُ، وَ یَسْمَعُ مَایَقُولُ، وَیَعْلَمُ مَا یَعْمَلُہُ مِنْ خَیْرٍاَوْ شَرٍّ، فَیَحْجُزُہُ ذَلِكَ عَنِ الْقَبِیْحِ مِنَ الاَعْمَالِ، فَذَلِكَ الَّذِی خاَفَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الھَویٰ”۔ 24
“جو شخص جانتا ھے كہ خدا مجھے دیكھتا ھے اور جو كچھ میں كھتا ھوں اس كو سنتا ھے، اور جو نیكی یا برائی انجام دیتا ھوں اس كو دیكھتا ھے، چنانچہ یھی توجہ اس كو برائیوں سے روكتی ھے، اور ایسا شخص ھی عظمت خدا سے خوف زدہ اور اپنے نفس كو ھوا و ھوس سے روكتا ھے”۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے عمرو بن سعید سے فرمایا:
“اُوصِیكَ بِتَقَوی اللهِ وَالْوَرَعِ وَالاِجْتِھادِ، وَاعْلَمْ اَنَّہُ لاَ یَنْفَعُ اِجْتِھادٌ لاَ وَرَعَ فِیْہِ”۔ 25
“میں تم كو تمام امور میں تقویٰ الٰھی، گناھوں سے دوری، عبادت میں كوشش، اور خدمت خلق كی سفارش كرتا ھوں، جان لو كہ جس كوشش میں گناھوں سے دوری نہ ھوں اس كا كوئی فائدہ نھیں ھے”۔
امام صادق علیہ السلام كا فرمان ھے:
“عَلَیْكَ بِتَقْوَی اللهِ، وَالْوَرَعِ، وَالاِجْتِھَادِ، وَ صِدْقِ الْحَدِیْثِ، وَاَدَاءِ الاَمَانَةِ، وَ حُسْنِ الْخُلْقِ، وَحُسْنِ الْجِوَارِ، وَكُونُوا دُعاةً اِلَی اَنْفُسِكُمْ ِبغَیْرِ اَلْسِنَتِكُمْ، وَكُونُوا زَیْناً وَلاَتَكُونُوا شَیْناً، وَعَلَیْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ، فَاِنَّ اَحَدَكُمْ اِذَااَطالَ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ ھَتَفَ اِبْلِیْسُ مِنْ خَلْفِہِ وَقاَلَ:یَا وَیْلَہُ، اَطَاعَ وَ عَصَیْتُ، وَسَجَدَ وَاَبَیْتُ”۔ 26
“تمام امور میں تقویٰ الٰھی اختیار كرو، گناھوں سے بچو، عبادت خدا اور خدمت خلق میں كوشش كرتے رھو، صداقت و امانت كا لحاظ ركھو، حسن خلق اپناؤ، پڑوسیوں كا خیال ركھو، اپنی زبانوں كے علاوہ اپنی نفسوں كے ذریعہ بھی دین حق كی دعوت دو، دین كے لئے باعث زینت بنو، دین كے لئے ذلت كا
باعث نھیں، نمازوں میں اپنے ركوع و سجود طولانی كرو، ایسا كرنے سے شیطان فریاد كرتا ھے: ھائے افسوس! یہ شخص اطاعت كررھا ھے، اور میں نے خدا كی مخالفت كی، یہ سجدہ كررھا ھے اور میں نے نھیں كیا!
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا:
“ثَلاثَةٌ مَنْ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِھِنَّ فَھُومِنْ اَفْضَلِ النَّاسِ :مَن اَتَی اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ بِمَا افْتَرَضَ عَلَیْہِ فَھُوَ مِنْ اَعْبَدِ النَّاسِ، وَمَنْ وَرِعَ عَنْ مَحارِمِ اللّٰہِ فَھُوَمِنْ اَوْرَعِ النّاسِ، وَمَنْ قَنَعَ بِمَا رَزَقَہُ اللّٰہُ فَھُوَ مِنْ اَغْنَی النَّاسِ۔ثُمَّ قالَ:یا عَلِیُّ! ثَلاثٌ مَنْ لَمْ یَكُنَّ فِیہِ لَمْ یَتِمَّ عَمَلُہُ:وَرَعٌ یَحْجُزُہُ عَنْ مَعاصِی اللّٰہِ، وَخُلْقٌ یُداری بِہِ النَّاسَ، وَحِلْمٌ یَرُدُّ بِہِ جَھْلَ الْجاھِلِ – اِلیٰ اَنْ قَالَ – یَاعَلِیُّ!الِاسْلامُ عُرْیانٌ، وَلِباسُہُ الْحَیاءُ، وَ زِینَتُہُ الْعِفافُ، وَمُرُوَّتُہُ الْعَمَلُ الصّالِحُ، وَعِمادُہُ الْوَرَعُ”۔ 27
“جو شخص تین چیزوں كے ساتھ خدا سے ملاقات كرے گا وہ بھترین لوگوں میں سے ھوگا، جو شخص اپنے اوپر واجب چیزوں پر عمل كرے گا، وہ بھترین لوگوں میں سے ھوگا، اور جو شخص خدا كی حرام كردہ تمام چیزوں سے پرھیز كرے گا وہ بندوںمیں پارسا ترین شخص ھوگا، اور جو شخص خدا كی عطا كردہ روزی پر قناعت كرے گا، وہ سب سے بے نیاز شخص ھوگا، اس كے بعد فرمایا: یا علی! جس شخص میں یہ تین چیزیں نہ ھوں اس كا عمل تمام نھیں، انسان میں ایسی طاقت نہ ھو جس كو گناھوں كی ركاوٹ میں لگاسكے، اور ایسا اخلاق نہ ھو جس سے لوگوں كے ساتھ نیك سلوك كرسكے، اور ایسا حلم اور حوصلہ نہ ھو جس سے جاھل كے جھل كو خود اس كی طرف پلٹادے، یھاں تك آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: یاعلی! اسلام برہنہ اور عریان ھے اس كا لباس حیاء، اس كی زینت عفت و پاكدامنی، اور اس كی شجاعت عمل صالح اور اس كے ستون ورع اورتقویٰ ھيں”۔حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ھیں:
“اِنَّ اَفْضَلَ الْعِبَادَةِ عِفَّةُ الْبَطْنِ وَالْفَرْجِ”۔ 28
“بے شك شكم و شھوت كو (حرام چیزوں) سے محفوظ ركھنا بھترین عبادت ھے”۔
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں:
“اِنَّمَا شِیعَةُ جَعْفَرٍ مَنْ عَفَّ بَطْنُہُ وَ فَرْجُہُ، وَاشْتَدَّ جِھادُہُ وَعَمِلَ لِخالِقِہِ، وَرَجا ثَوابَہُ، وَخَافَ عِقابَہُ، فَاِذا رَاٴَیْتَ اٴُولٰئِكَ، فَاٴُولٰئِكَ شِیعَةُ جَعْفَرٍ”۔ 29
“بے شك جعفر صادق كا شیعہ وہ ھے جو شكم اور شھوت كو حرام چیزوںسے محفوظ ركھے، راہ خدا میں اس كی سعی و كوشش زیادہ ھو، صرف خدا كے لئے اعمال انجام دے، اس كے اجر و ثواب كا امیدوار اور اس كے عذاب سے
خوف زدہ رھے، اگر ایسے لوگوں كو دیكھو تو كھو وہ جعفرصادق كے شیعہ ھیں”۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كا فرمان ھے:
“لاَ تَزالُ اُمَّتِی بِخَیْرٍ ما تَحابُّوا وَ تَھادَوْا وَاَدُّواالاَمانَةَ، وَاجْتَنبُوا الحَرامَ، وَ قَرَوُالضَّیْفَ، وَاَقامُوا الصَّلاةَ، وَآتُواالزَّكاةَ، فَاِذَا لَمْ یَفْعَلُواذٰلِكَ ابْتُلُوبِالْقَحْطِ وَالسِّنینَ”۔ 30
“جب تك میری امت میں یہ اعمال باقی رھيں گے اس وقت تك ان پركوئی مصیبت نازل نہ ھوگی: ایك دوسرے سے محبت كرنا، ایك دوسرے كو ہدیہ دینا اور دوسروں كی امانت ادا كرنا، حرام چیزوں سے پرھیز كرنا، مھمان كی مھمان نوازی كرنا، نماز قائم كرنا، زكوٰة ادا كرنا، لیكن ان چیزوں كے نہ ھونے كی صورت میں میری امت قحط اور خشك سالی میں مبتلا ھوجائے گی”۔
قارئین كرام! گزشتہ احادیث كے مطالعہ كے بعد یہ نتیجہ نكلتا ھے كہ اصلاح كا راستہ ھمیشہ ھر شخص كے لئے كھلا ھے، اور اس نورانی راستہ پر چلنا ھر شخص كے لئے ممكن ھے، انسان اپنے عمل، اعتقاد اور اخلاق میں مجبور نھیں ھے، انسان اپنے اختیار سے پاك نیت اور مصمم ارادہ كے ذریعہ مذكورہ بالا احادیث میں بیان شدہ خوبیوں سے مزین ھوسكتا ھے، ان تمام برائیوں اور شیطانی صفات كو چھوڑتے ھوئے ان تمام خیر و نیكی اور معنوی خوبیوںسے آراستہ ھوسكتا ھے، اور اپنے ھاتھوں سے البتہ خدا كی نصرت و مدد كے ساتھ ساتھ اخلاقی برائیوں اور برے اعمال كو ظاھری و باطنی نیكیوں میں تبدیل كرے، كیونكہ جوشخص بھی اصلاح كا راستہ اپناتا ھے تو خداوندعالم بھی اس كی برائیوں كو نیكیوں میں تبدیل كرنے میں مدد كرتا ھے، اور جب برائیوں كی جگہ نیكیاں آجاتی ھیںتو پھر اس كی تمام گزشتہ برائیاں بخش دی جاتی ھیں۔
((إِلاَّ مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاٴُوْلَئِكَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّئَاتِھم حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَحِیمًا))۔ 31
“علاوہ اس شخص كے جو توبہ كر لے اور ایمان لائے اور نیك عمل بھی كرے تو پروردگار اس كی برائیوں كو اچھائیوں سے تبدیل كردے گا اور خدا بھت زیادہ بخشنے والا اور مھربان ھے”۔
((إِلاَّ مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوءٍ فَإِنِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ))۔ 32
“ھاں كوئی شخص گناہ كر نے كے بعد توبہ كر لے اور اپنی برائی كو نیكی سے بد ل دے، تو میں بخشنے والا مھربان ھوں”۔
اصلاح نفس سے متعلق مسائل كے عناوین
تمام لوگوں كی نسبت خیرو نیكی كی نیت ركھنا، رغبت، خوف، خواہش، خوشی اور غم كے وقت پرھیزگاری كرنا۔
تمام امور اور انجام كار كے بارے میں غور و فكر كرنا، عبادت كے لئے شب بیداری، تقویٰ و پرھیزگاری اختیار كرنا، ظلم و ستم كرنے والے سے چشم پوشی كرنا، جس نے قطع تعلق كرلیا ھو اس سے صلہ رحم كرنا، جس نے احسان نہ كیا ھو اس كے ساتھ احسان كرنا، گناھوں كو ترك كرنے كے ساتھ ساتھ خوف خدا اس دنیا كے ظاھر و باطن پر خدا كی حفاظت پر توجہ ركھنا، ( كس طرح خدا انسان یا دوسری مخلوق كی حفاظت فرماتا ھے) عفت اورپاكدامنی، عبادت خدا اور خدمت خلق میں كوشش كرنا، صداقت، ادائے امانت اور خوش عادت ھونا، پڑوسیوں كا خیال ركھنا، خوبیوں اور نیكیوں سے آراستہ ھونا، طولانی ركوع اور سجدہ كرنا، حلال روزی پر قناعت كرنا، اپنی رفتار و گفتار میں نرم رویہ پیدا كرنا، حلم و حوصلہ، حیاء اور عفت سے كام لینا، نیك اور صالح عمل انجام دینا، شكم اور شھوت كے میدان باعفت رہنا، رضائے الٰھی كے لئے نیك عمل انجام دینا، ذات خدا سے امیدركھنا، عذاب الٰھی سے خوف زدہ رہنا، ایك دوسرے سے محبت كرنا، ایك دوسرے كی ہدایت كرنا، برائیوں سے دور رہنا، مھمان كی عزت كرنا، نماز قائم كرنا اور زكوٰة كا ادا كرنا۔
البتہ یہ عناوین گزشتہ احادیث میں بیان ھونے والے اصلاح كے راستہ سے متعلق ھیں جن كی فھرست ھم نے یھاں بیان كی ھے، اگر ھم اپنی، اھل خانہ اور معاشرہ كی اصلاح كے سلسلہ میں بیان ھونے والی تمام احادیث سے عناوین كو جمع كریں تو واقعاً ایك ضخیم كتاب بن جائے گی۔
اگر انسان اپنے ارادہ و اختیار سے خود كو ان تمام نیكیوں سے مزین اور آراستہ كرلے اور برے صفات خصوصاً مال حرام، مقام حرام اور شھوت حرام سے محفوظ كرلے تواس كو دنیا و آخرت میں فائدہ ھی فائدہ نصیب ھوگا۔
اس سلسلہ میں متقی و پرھیزگار افراد كو زندگی كے بعض پھلوؤں میں ھونے والے عظیم الشان فائدوں كی طرف اشارہ كیا جائے تو ممكن ھے خیر و سعادت حاصل كرنے والوں كے لئے ہدایت كا سبب بن جائے۔
ابن سیرین اور خواب كی تعبیر
ابن سیرین كا نام محمد بن سیرین بصری ھے، وہ خواب كی تعبیر كے سلسلہ میں ایك عجیب و غریب طاقت كا مالك تھا اس كی تعبیر خواب كا سر چشمہ ذوق سالم اور بلند فكر تھی۔
خواب كو انسان سے مطابقت كرتا تھا، اور خواب كی تعبیر میں قرآن مجید اور احادیث سے الھام لیتا تھا۔
اس كے بارے میں لكھا گیا ھے كہ ایك شخص نے اس سے معلوم كیا: خواب میں اذان كہنے كی تعبیر كیا ھے؟ تو اس نے كھا: حج سے مشرف ھونا، دوسرے شخص نے اسی خواب كی تعبیر پوچھی تو كھا: چوری كرنا، لیكن جب اس سے ایك خواب كی دو مختلف تعبیروں كے بارے میں سوال كیا گیا تو اس نے كھا: میں نے پھلے شخص كو دیكھا تو وہ ایك نیك اور صالح شخص دكھائی دیاتو اس كے خواب كی تعبیر كو اس آیت سے حاصل كیا: (( وَاٴَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَج۔۔۔))۔ 33 لیكن دوسرے شخص كا چھرہ صحیح نھیں تھا لہٰذا اس كے خواب كی تعبیر میں اس آیت سے الھام لیا: (( اٴَذَّنَ مُؤَذِّنٌ اٴَیَّتُھا الْعِیرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ))۔ 34
ابن سیرین كھتا ھے:بازار میں میری كپڑے كی دكان تھی، ایك خوبصورت عورت كپڑا خریدنے كے لئے میری دكان پر آئی، جبكہ میں یہ نھیں جانتا تھا كہ یہ عورت میری جوانی اور جمال كی عاشق ھوگئی ھے، تھوڑا كپڑا مجھ سے خریدا اور اپنی گٹھری میں ركھ لیا، اور اچانك كہنے لگی: اے كپڑا فروش! میں گھر سے پیسے لانا بھول گئی، یہ گٹھری لے كر تم میرے گھر تك چلو وھاں پر اپنے پیسے بھی لے لینا! مجھے مجبوراً اس كے گھر تك جانا پڑا، گھر كی چوكھٹ پر مجھے بلایا اور جیسے ھی میں نے اندر قدم ركھا اس نے فوراً دروازہ بند كرلیا، اس نے اپنے كپڑے اتار پھینكے اور اپنے جمال و خوبصورتی كو میرے لئے ظاھر كردیا، او ركھا: ایك مدت سے تیرے جمال كی عاشق ھوں، اپنے وصال كے لئے میں نے یھی راستہ اختیار كیا ھے، اس وقت یھاں پر تیرے اور میرے علاوہ كوئی نھیں ھے، لہٰذا میری آرزو پوری كردے ورنہ تجھے ذلیل كردوں گی۔
میں نے اس سے كھا: خدا سے ڈر، اور زنا سے دامن آلودہ نہ كر، زنا گناہ كبیرہ ھے، جو جہنم میں جانے كا سبب ھے۔ لیكن میری نصیحت كا كوئی فائدہ نہ ھوا، میرے وعظ كا كوئی اثر نہ ھوا، اس موقع پر میں نے بیت الخلا جانے كی اجازت مانگی، اس نے سوچا واقعاً قضائے حاجت كے لئے جارھا ھے لہٰذا اس نے چھوڑدیا۔ میں بیت الخلاء میں گیا اور اپنے ایمان اور آخرت اور انسانیت كو محفوظ كرنے كے لئے نجاست كو اپنے پورے بدن پر مل لیا، جیسے ھی اس حالت میں بیت الخلاء سے نكلا، فوراً ھی اس نے گھر كا دروازہ كھولا اور مجھے باھر نكال دیا، میں ایك جگہ گیا اور نھایا دھلا، میں نے اپنے دین كی خاطر تھوڑی دیر كے لئے بدبو دار نجاست كو اپنے بدن پر ملا، اس كے بدلے میں خداوندعالم نے بھی میری بُو كو عطر كے مانند كردیا اور مجھے تعبیر خواب كا علم مرحمت فرمایا۔ 35
خداداد بے شمار دولت اور علم
عظیم الشان اصولی فقیہ، علم و عمل اور عبادت میں مشھور شخصیت حجة الاسلام شفتی سید كے نام سے مشھور، اپنی ابتدائے تعلیم كے دوران نجف اشرف میں زندگی بسر كیا كرتے تھے، بھت زیادہ غربت اور پریشانی كی زندگی تھی، اكثر اوقات ایك وقت كے كھانے كے لالے پڑجاتے تھے، نجف اشرف میں رہنا ان كے لئے مشكل تھا، لیكن تمام تر مشكلات كے باوجود تحصیل علم كے لئے

http://shiastudies.com/ur/122/%d8%aa%d9%82%d9%88%db%8c%d9%b0-%d9%88-%d9%be%d8%b1%da%be%db%8c%d8%b2%da%af%d8%a7%d8%b1%db%8c-%d9%83%db%92-%d9%81%d9%88%d8%a7%d8%a6%d8%af/