وحدت ہی واحد راستہ

وحدت ہی واحد راستہ

دنیا میں آج مسلمانوں کی پریشانی اور زبوں حالی کی بنیادی وجہ اُن کی صفوں کے درمیان انتشار و تضاد ہے، بڑی طاقتیں جس طرح مسلمانوں کو سطح عالم پر استعمال کر کے اپنا اُلو سیدھا کرتے ہیں شاید ہی کوئی دوسری ملت کا اس طرح استعمال و استحصال ہوتا ہو، ایک طرف عربی و عجمی تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے تو دوسری طرف فروعی اختلافات کو دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ گمراہ کن پروپیگنڈا کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اغیار کی ان سینہ زوریوں کا سبب مسلمانوں کی اپنی کمزوری ہے، مسلمان اس پر خون کے آنسو روتے ہیں کہ لبنان میں عیسائی اور صہیونی اُن پر حملہ کرتے ہیں، افغانستان میں استکبار و استعمار براہ راست اُن کا خون بہا رہا ہے، امریکہ کی مسلم اقلیت ظلم و تعدی کا شکار ہو رہی ہے، فلسطینی دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے مالی و جانی نقصانات پر دوسرے مسلمان غم مناتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں، لیکن جب آپس میں مسلمان ہی دست و گریبان ہوتے ہیں تو اس پر کف افسوس ملنے کی بجائے وہ عصبیت کے معرکے سر کرنے کی فکر میں لگتے ہیں۔
جس طرح سے عرب ممالک کے آپس میں فکری، نظریاتی، عقیدتی، مسلکی، جغرافیائی، لسانی اور تمدنی بنیادیں مشترک ہیں، ہمیں یورپی ممالک کے مابین ایسے محرکاتِ اتحاد و اشتراک مشکل سے میسر ہیں، لیکن ان ممالک کی آپس کی عصبیت و فکری تضاد کے نتائج پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اسرائیل کی سینہ زوری اور خلیج فارس تک امریکی و روسی تگ و تاز کے جرأت مندانہ اقدام کی ذمہ دار یہی فکری ہم آہنگی کی عدم موجودگی ہے، مسلمان پر آج کل ہر طرف سے مار پڑ رہی ہے، اس کی وجہ بھی یہی آپس کی دشمنی ہے، اگر منابع اصلی کی رُو سے بس چلتا تو شاید ملکی اور قومی مخاصمت رکھنے والے یا جزوی اختلاف کو بنیادی عقائد پر ترجیح دینے والے عناصر ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کا فتویٰ بھی صادر کرنے سے گریز نہ کرتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ممالک مجموعی طور پر، ہر اسلامی فرقہ مجموعی حیثیت سے، ہر مسلمان تنظیم مجموعی سطح پر اور ہر مسلم تحریک اجمالی زاویوں سے، جب نہ ایک بلاک سے متفق ہے نہ دوسرے بلاک سے مطمئن، پھر یہ کونسی دیوار ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں، زمانہ کے تقاضوں اور جدید مسائل کی روشنی میں ان مختلف مکاتب فکر و نظر کو وحدت فکر و عمل کے لئے ایک سطح پر لانے میں رکاوٹ بن رہی ہے، یہ ہے صرف بےعملی اور تعصب کی دیوار۔ مثلاً مجھے یہ منظور ہے کہ میں اپنے اسلامی مدارک کے اندر اندر اپنے مسلمہ عقیدہ و فقہ پر عمل نہ کروں، لیکن یہ بھی گوارہ نہیں کہ دوسرا مسلم بھائی، اسلامی مدارک کے اندر اندر اپنے مسلمہ عقیدہ فقہ پر عمل کرے، ہماری اس سطحی سوچ کو عیاشی و مفاد پرستی کے محافظ ہوا دیتے ہیں، نیز اسلام اور مسلمان کے نام پر فسق و فجور، رشوت و خیانت، زرپرستی، گروہ بندی اور شخص پرستی کے بت بنائے جائیں، تو اس سے امت کے مسائل کب حل ہوئے ہیں جب اب ہمیں ان مسائل کے حل کی بےجا امید ہے، مسلم اکثریت والے ممالک میں مسلمان کا رول کیا ہونا چاہیئے، اور مسلم اقلیت والے ممالک میں اسے اسلام نوازی کے لئے کونسا کردار اختیار کرنا چاہیئے، یہ ہم سب کے مشترکہ مسائل ہیں، جو ہمیں مل بیٹھ کر طے کرنے ہونگے۔
آج جب امت مسلمہ عدم اتحاد و وحدت کی شکار ہو رہی ہے، ایسے میں بعض استعماری و استکباری زر خرید و نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے امت واحدہ کے ساتھ خیانت ہو رہی ہے، امت کے سنجیدہ طبقات، باشعور شخصیات اور مخلص افراد کو ایسے خائنوں کو خود سے اور اپنے معاشرے سے الگ کرنا ہو گا، حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں فکری ارتقاء کی سیر کرکے اسوہ رسول (ص) میں حسن تدبر کا مشاہدہ کرکے اور اصحاب رسول (ص) و آئمہ مسلمین (ع) کی متفقہ سیرت سے استفادہ کرکے آج اور ہر دور کے مسلمان، رنگ و نسل، زبان اور قومیت کی دیواروں کو گرا کر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں، ورنہ عام طور پر مشرکانہ جاہلیت اور جماعتی عصبیت کی جھوٹی جلوہ نمائیوں سے انتشار کا مرض بڑھتا ہی جائے گا، اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے اور وحدت ہی واحد راستہ ہے جو امت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلوا سکتا ہے اور مسلمانوں کی لٹی ہوئی آبرو واپس پلٹ سکتی ہے۔
آخر ہم کہاں جا رہے ہیں، کیا ممکن ہے کہ جزوی رنجشوں کو پروان چڑھا کر ہم کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں، ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیا جانا باقی ہے، ہماری دوش پر دین مبین کی گراں قدر ذمہ داریاں ہیں، ہمارے اوپر دنیا کا رخ موڑنے کے فرائض عائد کر دیئے گئے ہیں، یہ فرائض، یہ ذمہ داریاں اور یہ واجبات اکیلے و تنہا انجام نہیں دیئے جا سکتے ہیں اسکے لئے ملت کی جمعیت، ہم آہنگی، وحدت و یگانگت لازمی ہے، ہمیں گروہ در گروہ اور جوق در جوق اللہ سے جا ملنا ہے نہ کہ خود خواہی و جلوہ نمائیوں کے ساتھ، عالمی سطح پر مسلمانوں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا ہے اور اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی سازشیں تیار کر رہی ہیں اور انہیں نیست و نابود کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، مسلم اتحاد و اتفاق وقت کا تقاضہ ہے اور مختلف تنظیمی، جماعتی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مسلم مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے، بقول امام خمینی (رہ) ہم اس بحث میں مصروف ہیں کہ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کریں یا کھول کر لیکن دشمن ہمارے ہاتھ کاٹنے کی ترکیب تلاش رہا ہے۔
 

http://shiastudies.com/ur/936/%d9%88%d8%ad%d8%af%d8%aa-%db%81%db%8c-%d9%88%d8%a7%d8%ad%d8%af-%d8%b1%d8%a7%d8%b3%d8%aa%db%81/

تبصرے
Loading...