غیر واجب حکم

غیر واجب حکم

غیر واجب حکم

 

 

خدا نے جو کچھ فرمایا ہے اس کے خلاف حکم دینا گناہ ہے اور اس گناہ کے بڑے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ خدا نے ایسا حکم دینے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق کہا ہے اور سورة مائدہ کی آیات ۴۴، ۴۵ اور ۴۷ کے آخر میں فرماتا ہے: “اور خدا نے جو نازل فرمایا ہے جو لوگ اس کا حکم نہیں دیتے وہ کافر ہیں، ظالم ہیں اور فاسق ہیں۔” اور ان جملوں سے وہ ان کے کفر، ظلم اور گناہ کی تصدیق کرتا ہے۔

تفسیر المیزان میں لکھا ہے کہ یہ تینوں آیتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہیں دیتے اور جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے : “یہ لوگ کافر، ظالم اور فاسق ہیں۔” یہ ایسی عمومی آیات ہیں جو کسی قبیلے یا گروہ سے مخصوص نہیں ہیں اگرچہ اس مقام پر یہ اہلِ کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) پر صادق آتی ہیں۔

مفسرین نے “اس شخص کا کفر جو خدا کے نازل کیے ہوئے کے مطابق حکم نہیں دیتا” کے معنی میں اختلاف کیا ہے۔ اس قاضی کے متعلق جو اس کے مطابق فیصلہ نہیں دیتا جو خدا نے نازل کیا ہے، اس حاکم کے متعلق جو اس کے خلاف حکم دیتا ہے جو خدا نے نازل فرمایا ہے اور اس بدعتی کے متعلق جو غیر الہٰی قوانین کو ماننا ہے کیا حکم ہے؟

بے شک یہ فقہ کا ایک مسئلہ ہے اور تحقیق یہ ہے کہ کسی حاکم شرعی کی مخالفت یا ہر اس حکم کی مخالفت جو دین میں ثابت ہے اگر دین میں اس کے ثابت ہونے کا علم ہونے کے باوجود کی جاتی ہے اور اس حکم کو رد کیا جاتا ہے تو اس سے کفر لازم آتا ہے اور اگر اسے رد نہ کیا جائے اور صرف عمل میں اس کی مخالفت کی جائے یعنی ا کے خلاف عمل کیا جائے تو یہ فسق کا سبب ہے اور جب یہ نہ معلم ہو کہ یہ حکم شرع میں ثابت ہے یا نہیں تو پھر اسے رد کرنے کے باوجود نہ وہ کفر کا بعث ہے نہ فسق کا کیونکہ وہ ایسا قصور ہے جس میں انسان معذور ہے بجز اس صورت کے جبکہ اس کا علم حاصل کرنے میں کمی اور زیادتی کی گئی ہو (فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے)۔

اس بارے میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “جو شخص صرف دو درہم کی سی حقیر رقم کے بارے میں بھی خدا کے حکم کے خلاف حکم کرتا ہے خدا کی قسم وہ کافر ہے۔” (وسائل الشیعہ کتاب قضا باب۵)

حضرت امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “جو شخص لوگوں کو اس چیز کے بارے میں فتویٰ دے جس کا اسے خدا کی طرف سے عِلم نہیں ہے اور جس کا اسے سراغ بھی نہ ملا ہو تو رحمت اور عذاب کے تمام فرشتے اس پر لعنت کریں گے اور جس شخص نے اس کے فتویٰ پر عمل کیا اس کی ذمہ داری اسی پر ہو گی۔” (وسائل الشیعہ کتاب قضا باب۴)

اس بارے میں بہت سی روایتیں ملتی ہیں کہ ایسے شخص کی طرف رجوع کرنا جو حکم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا گویا طاغوت کی طرف رجوع کرنا ہے اور اگر اس کے حکم سے کچھ مال اس کے ہاتھ لگ جائے تو چاہے وہ حق پر ہی ہو سحت ہے۔

http://shiastudies.com/ur/412/%d8%ba%db%8c%d8%b1-%d9%88%d8%a7%d8%ac%d8%a8-%d8%ad%da%a9%d9%85/

تبصرے
Loading...