عباد الرحمن کون ہیں

عباد الرحمن کون ہیں

 

عباد الرحمن کون ہیں

 
 

 

 
 
 

          سات،آٹھ آیات عباد الرحمن کا تعارف اس انداز میں کروا رہی ہیں

 
 

 

 
 
 

          عبادالرحمان الذین یمشون علی الارض ھونا ۔

 
 

 

 
 
 

          اور (خدائے ) رحمان کے خاص بندے تو وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں۔(۱)

 
 

 

 
 
 

          یہ سب اللہ کے بندوں کی ایسی صفات ہیں جن کی وجہ سے انسان قرآن پرعمل کرنے والا کہلا سکتا ہے۔

 
 

 

 
 
 

           یعنی انکی ایک صفت یہ ہے کہ یہ خرچ کرتے وقت اسراف نہیں کرتے اور تنگ دل بھی نہیں ہوتے۔ انفقوا سے مراد صرف روپیہ پیسہ خرچ کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی کو صحیح طریقے پر استعمال کرنا بھی انفاق ہے اور قرآن مجید کی مراد بھی یہی دونو ں صورتیں ہیں۔یعنی جو لوگ خرچ کرنے میں اسراف نہیں کرتے اور تنگ دل بھی نہیں ہیں یہی عباد الرحمان ہیں ۔یہی ایک مسلمان کا نمونہ ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          کان بین ذلک قواما ۔

 
 

 

 
 
 

          قوام کے کاف پر زبر ہو تو اس کا معنی عدل ہے اور اگر زیر ہو تو اس کا معنی وسیلہ و استحکام ہے یہاں قوام سے مراد وہی عدل ہے جس کے بارے میں عدالت کے موضوع میں گفتگو کر رہا ہوں۔

 
 

 

 
 
 

          یہ آیت بھی اس مطلب کو بیان کر رہی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعتدال کے ساتھ خرچ کریں، انہیں فضول خرچی سے اجتناب کرنا چاہیے اور کھانے پینے کی اشیاء کو بھی ضائع نہیں کردینا چاہیے ۔

 
 

 

 
 
 

          اسی طرح اسے صرف ریاضت میں بھی نہیں لگا رہنا چاہیے ریاضت کرنے والے

 
 

 

 
 
 

لوگوں کا یہ خیال انتہائی غلط ہے کہ خداوندمتعال نے دنیاوی نعمتوں کواس دنیا کے لئے خلق نہیں فر مایا ہے۔

 
 

 

 
 
 

          مصرف کرنے کی بھی مختلف شرائط ہیں،اگرہم صحیح طورپراپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریںاور تمام لوگوں کومتوسط زندگی تک لے آئیں تواس وقت ہمارے لئے بہت سی ایسی چیزیں بھی مباح ہو جائیںگی جو آج نہیں ہیں ۔اگر اسے حالات وجود میں آئیں،جن کی وجہ سے لوگ تنگدست ہو جائیں تواس وقت خرچ کرنے کی اور شرائط ہیں۔

 
 

 

 
 
 

           پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید کا منشور بھی معاشرے سے تنگدستی کو دور کرنا تھااس وقت بھی بہت سے مباح کاموں سے سیاسی تنگدستی کی وجہ سے منع کر دیا گیا تھا۔

 
 

 

پیغمبر اسلام اور جناب سیدہ
 
 
 

          حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کسی جنگ وغیرہ سے واپس تشریف لاتے تو ان کا معمول تھا کہ پہلے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر جاتے،اس مرتبہ بھی حسب معمول بی بی کے گھر تشریف لے گئے،جناب سیدہ کے چہرے کی طرف دیکھنے کے بجائے زمین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

           آپ کئی ہفتوں کے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے ،جناب سیدہ نے محسوس کیا کہ با با کچھ ناراض دکھائی دیتے ہیں اسی لئے تو میرے چہرے کی بجائے زمین کی طرف دیکھ رہے ہیں تھوڑی دیر بعد حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھے اور پھر نگاہ غم زمین پر ڈالی اور اٹھ کر چل پڑے اور بی بی سے کچھ کہے بغیر ہی باہر تشریف لے گئے۔

 
 

 

 
 
 

          جناب سیدہ انتہائی پریشان ہوئیں اور سوچا کہ میں نے ایسا کون سا کام کیا ہے جس کی وجہ سے با با ناراض ہیں۔ آیا میری زندگی میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؟

 
 

 

 
 
 

          آپ اٹھیں اور اپنے گھر کی تبدیلیوں کو دیکھنے لگیں،آپ نے محسوس کیا کہ گھر میں دو تبدیلیاں ہیں،ایک تو میں نے چاندی کا دست بند پہن رکھا ہے اور دوسری تبدیلی یہ ہے کہ میرے دروازے پر ایک چھوٹا سا پردہ لگا ہوا ہے،شائد حضرت کا یہ رویہ انہی دو تبدیلیوں کی وجہ سے ہے۔

 
 

 

 
 
 

          روایت میں موجود ہے کہ حضرت،سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے جانے کے بعد کسی کے گھر نہیں گئے، بلکہ آپۖ مسجد میں تشریف لے گئے۔وہاں چند اصحاب( صفّہ) بیٹھے تھے۔ بھوک کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہو رہے تھے۔(۲)

 
 

 

 
 
 

          اسلام کے ابتدائی دنوں میںیہی طریقہ کار تھا کہ مہاجرین مدینہ کے اطراف سے آتے تھے غربت اور تنگدستی کی وجہ سے انتہائی کم سہولتوں کے ساتھ زندگی گزارتے تھے ، کچھ لوگوں کو انصار نے اپنے گھروں میں جگہ دے رکھی تھی اور بعض لوگ مسجد میں رہائش پذیر تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے۔

 
 

 

 
 
 

          حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی لئے ناراحت ہوئے کہ یہ لوگ اتنی تنگدستی میں زندگی گزاریں اور میری بیٹیکے گھرپردے لگے ہوئے ہوں۔ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا ،آپ نے دیکھاسلمان ایک گٹھڑی اٹھائے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا جب اسے کھولا گیاتو اس میں ایک پردہ، ایک دست بنداورجناب سیدہ کے گھر کا کچھ اور سامان بھی تھا،اسے دیکھ کر آپۖ کو بہت خوشی ہوئی، آپۖ نے فرمایا۔

 
 

 

 
 
 

          فداھا ابوھا۔   

 
 

 

 
 
 

          اس کا باپ اس پر قربان ہو جائے۔

 
 

 

 
 
 

بیٹی کی سوچ اور باپ کا تذکر

 
 

 

          اس کے بعد آپ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا۔ بیٹییہ خدا کی جائز نعمتیں ہیں لیکن جب مسلمانوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ ہو ، رہنے کو گھر نہ ہو اور وہ مسجد میں رہ رہے ہوںاور میری دختر کے گھر پردوں سے ُمزّین نہیں ہوناچاہیے اسےشہنشاہوں کی اولاد کے لئے چھوڑ دو ۔
 
 
 

          یہ پیغمبر اسلامۖ اور جناب سیدہ کی زندگی کا ایک چھو ٹا سا واقعہ ہے آیا اسلام ہمیں یہ اجازت دیتا ہے کہ محتاج لوگ موجود ہوں اور ہم اسلام کے نام پر جشن مناتے پھریںاور ایک ایک رات میں ہزاروں روپے خرچ کر دیں ۔

 
 

 

 
 
 

          یہ درست ہے کہ اگر ہمارا اپنا مال ہو توہم خرچ بھی کر سکتے ہیں یہ خرچ کرنا مارے لئے شرعی طور پر درست بھی ہے لیکن اسلامی اخلاق ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا،خواہ یہ اسراف میں شامل نہ ہو تب بھی ہمیںاس طرح نہیں کرناچاہئیے۔

 
 

 

 
 
 

ایران میں دو ملین بے سہارا لوگ

 
 

 

 
 
 

          آج ہمارے پاس دو ملین افرادبے گھر اور بے سہارا ہیں۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیںجن کی( خرم شہر میں) جھونپڑیاں تک بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہیں۔

 
 

 

 
 
 

          وضعدار اور شریف لوگ اب بھی اپنے سات آٹھ بچوں کے ساتھ خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں ،ایک اچھے مسلمان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اسراف کی زندگی بسر کرے اور اس کے ہم وطن بمشکل زندگی گزار رہے ہوں۔

 
 

 

 
 
 

          اسی طرح ہمارے عراقی بھائی ہیں ،اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ایرانی ہوں یا عراقی ہوں بہرحال انکی زندگی انتہائی مشکل سے گزر رہی ہے ۔آپ نے کل ٹیلی ویژن پرفلم دیکھی ہو گی کہ کس طرح انسان کی زندگی تلخ ہے ،ان حالات کا مطالعہ کرنے سے ہمیں آسائش اور اسراف سے کنارہ کشی کرنا ہوگی۔

 
 

 

 
 
 

اسلام میں مصرف کرنے کی شرائط

 
 

 

 
 
 

          جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ عام حالات میں توایک چیز کا مصرف کرنا مباح ہے لیکن مکتب اخلاق میں مصرف کی مختلف شرائط ہیں امن کے زمانہ میں ایک چیز کا مصرف ہمارے لئے درست اور جائز ہو سکتا ہے لیکن جنگ کے زمانہ میں ہو سکتا ہے کہ وہ چیز ہمارے لئے درست نہ ہو البتہ اگر سب لوگوں کے پاس موجود ہو تو اسے جنگ کے زمانہ میں بھی استعمال کر سکتے ہیں ۔

 
 

 

 
 
 

          میں یہ نہیں کہتا کہ سب آدمی برابر ہو جائیںاور پیغمبر اسلام نے بھی اس طرح نہیں فرمایا تھا جب آپ اپنی پیاری دختر کے گھر تشریف لے گئے تو انہیں یہ نہیں کہا کہ تمھارے پاس گھر کیوں ہے؟ اور اصحاب صفہ کے پاس گھر نہیں ہے اور وہ سات آدمی ایک چھوٹی سی مسجد میں رہ رہے ہیں اورتم ایک آدمی ایک کمرے میں زندگی کیوں بسر کر رہے ہو؟۔البتہ اتنا ضرور فرمایا کہ اس وقت پردے اور دست بند کی ضرورت نہیں ہے اور اسے حرام بھی قرار نہیں دیا۔ایک معتدل اسلامی معاشرے کو اسی طرح ہی ہوناچاہئیے اگر ہمارہ معاشرہ دس سال تک ایسی زندگی گزار لے توپھر ہمیں بھی کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔

 
 

 

 
 
 

          پہلی صدی کے آخر میں لوگ زکات دینا چاہتے تھے اور انہیںکوئی مستحق نہیں ملتا تھا کافی عرصہ تلاش کے بعد انہیں کوئی حقدار ملتا اور وہ اسے زکات دیتے لیکن جوں جوں زندگی بدلتی گئی حالات بھی تبدیل ہوتے گئے اور مصرف کی شرائط بھی مختلف ہوتی گئیں۔

 
 

 

 
 
 

          حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام صوفیوں سے بحث کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیںآپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ سلمان جیسے معروف ترین زاھد بھی جب اپنی تنخواہ وصول کرتے توتھوڑی سی رقم محفوظ رکھ لیتے اور باقی رقم اللہ کی راہ میںدے دیتے ۔کسی نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ کو اللہ پر توکل نہیں ہے ؟شاید کل مر جائیں اللہ کے دئے ہوئے مال کو ذخیرہ کیوں کر رہے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

          جناب سلمان نے کہا یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میں زندہ رہوںاسی لئے معمولی سی رقم اپنی ضروریات کے لئے رکھ لیتا ہوں اور باقی رقم اللہ کی راہ میںخرچ کر دیتا ہوں۔

 
 

 

 
 
 

           دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر انسان کے پاس روز مرہ کی ضروریات کے مطابق رقم نہ ہو تو وہ اچھی طرح عبادت خداوند بھی نہیں کر سکتااور اس کا ذہن عبادت کے لئے صحیح طور پر آمادہ بھی نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ میں سکون سے اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔

 
 

 

 
 
 

          جناب ابوذر جیسے مشہور و معروف زاہد کے پاس ایک تعداد بکریاں اور اونٹ موجود رہتے تھے،جب کوئی مہمان آ جاتا آپ اس کے لئے بکری ذبح کر لیا کرتے تھے یا دودھ سے اس کی پذیرائی کرتے تھے ۔

 
 

 

 
 
 

          کچھ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے تم اکیلے آدمی ہواور خدا بھی ہر جگہ سے روزی عطاکرتا ہے تو پھر ان جانوروں کو کس کے لئے رکھا ہے؟۔

 
 

 

 
 
 

          جناب ابوذر نے جواب دیا۔

 
 

 

 
 
 

           مدینہ میں ہماری ابتدائی زندگی کافی سخت گزری ہے ،اب اللہ کا لطف وکرم ہے کہ ہماری زندگی بہت آرام دہ ہے،مزید یہ کہ زندہ رہنے کے لئے کسی نہ کسی چیز کی ضرورت بھی تو ہے لہذاایک مناسب مقدار مال ہمارے پاس ہر وقت موجود ہوناچاہئیے۔

 
 

 

 
 
 

          یہی وجہ ہے کہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے مسافروں کے لئے ایک مہمان خانہ بنوایا ہواتھا جسے کہیں جگہ نہ ملتی وہ آپ کے مہمان خانہ میں چلا آتا۔

 
 

 

 
 
 

مختلف شرائط میں اسلامی معاشرہ کی طرز زندگی

 
 

 

 
 
 

          مختلف شرائط اور حالات میں اسلامی معاشرہ کی طرز زندگی میں فرق آ جا تا ہے ،لوگوں کوچاہئیے کہ اپنے مال سے خمس اور زکات ادا کریںبلکہ اگر ممکن ہو تو ضرورت کے موقع پر اضافی مدد بھی کریں ۔

 
 

 

 
 
 

          کچھ لوگ تو میدان جنگ میں سخت زندگی بسر کر رہے ہیںاور ہم ان کے مقابلے میں تہران جیسے بڑے شہر میں عیش سے زندگی گزاریں تو یہ انتہائی نا مناسب بات ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          مجھے ایک دن خط ملا،جب میں نے اسے پڑھا تو میں کافی دیر تک روتا رہا ، یہ خط ایک پانچویں جماعت کے طالب علم نے لکھا تھااس خط کے ساتھ اس نے دو سو دس تومان رقم بھی ارسال کی تھی ۔

 
 

 

 
 
 

          اس نے لکھا کہ میں جنگ میں شریک ہونا چاہتا تھا لیکن میرے والدین نے مجھے اجازت نہ دی اس کے بعد میں نے بسیجیوں (یہ جذبہ ایمانی سے سرشار عوامی لوگ ہیں اور رضاکارانہ طور پر جنگ میں شریک ہوتے ہیں) سے رابطہ کیالیکن پھر بھی مجھے نہ جانے دیا گیا ۔ میں نے جو یہ معمولی سی رقم آپ کی خدمت میں ارسال کی ہے یہ میرے والد کی کمائی سے نہیں ہے بلکہ اس مرتبہ جب سکول میں تعطیلات ہوئیں تو میں سڑکوں سے برف صاف کرتا رہا وہاں سے دو سو دس تومان رقم کمائی ہے میں اس نیک کام کے لئے اپنے ہاتھ سے کمائی ہوئی رقم ارسال کر رہا ہوں ۔

 
 

 

 
 
 

          یہ ایک انسان تھا ، بلکہ ایک فرشتہ تھا اور ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ ہے ۔ہمارے معاشرے کی اکثریت متوسط اور غریب طبقہ پر مشتمل ہے ان میں سے کچھ لوگ تو فرشتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چوریاں کرتے ہیں اور نہ جانے کیسے کیسے غلط کام کرتے ہیں معاشرے میں یہ لوگ بھیڑئیے ہیں اور وہ لوگ فرشتے ہیں ۔البتہ خوش قسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسے فرشتہ صفت انسانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔

 
 

 

 
 
 

چالیس ہزارافراد کی جنگ کیلئے تیاری

 
 

 

 
 
 

          گزشتہ دنوں جب سپاہ پاسداران نے کہا کہ ہمیں جنگ کے لئے رضاکارانہ طور پر چند افراد کی ضرورت ہے۔

 
 

 

 
 
 

           اس اعلان کی پہلی رات ہی اہواز کے محترم امام جمعہ آقای جزایری نے مجھے فون کر کے اطلاع دی کہ چالیس ہزار رضاکار ہمارے پاس جنگ کرنے کے لئے آمادہ بیٹھے ہیں اس کے علاوہ بھی ہمارے پاس کافی افراد ہیں لیکن ہم انہیں اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکتے ہیں۔ ہم نے جواب دیا کہ بہرحال ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے ،کمبل،پلیٹیں اور ضروریات کی دوسری چیزیں کم ہیں اس لئے ہمیں اور افراد کی ضرورت نہیں ہے۔

 
 

 

 
 
 

          یہ نوجوان کون ہیں جنہوں نے عین جوانی میں خود کو حقْ اور حقیقت کے لئے آمادہ کیا ہوا ہے جب کہ دوسری طرف بھیڑیا صفت انسان بھی اس ملک میں موجود ہیں جن کی وجہ سے انسانیت کو شرم آتی ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          البتہ ہمیں یہ حْق نہیں ہے کہ ہم کسی کو بُری نگاہ سے دیکھیں یا کسی کو بُرا بھلا کہیں، لیکن بعض لوگ اپنی بُری خصلتوں کی وجہ سے مومنین کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

           ان لوگوں کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ جتنا بھی ممکن ہو مال ودولت جمع کر لیں تاکہ اس ملک کے دوسرے لوگ بھی ہمیں دیکھ کر حریص بن جائیں اور مال و دولت کے پیچھے لگ جائیں۔

 
 

 

 
 
 

          میں نے ایک اچھی خبر سنی ہے کہ قم میں حضرت آیت اللہ العظمٰی آقائے سید محمد رضاگلپائیگانی نے اپنے خطاب میں اس پارلیمنٹ کی تائید فرمانے کے ساتھ ساتھ ہمیں نیصحت بھی کی ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          انہوں نے مجھ سے اور میرے ساتھ دوسرے پارلیمنٹ کے ممبران سے تقاضا کیاہے کہ امام خمینی نے جو حق ولایت نامزد فرمایا ہے ہم اس کے متعلق کافی دقّت سے کام لیں اس کے متعلق خوب مطالعہ ،اور غور وفکر کریںہر فیصلہ کرتے وقت خوب دقت کریں مسائل پر ہماری اچھی طرح گرفت ہونی چاہئیے۔

 
 

 

 
 
 

          واقعاً ان کی سب باتیں حق ہیں ،ہمیں کوئی فیصلہ بھی غور و فکر کے بغیر نہیں کرناچاہئیے جلد بازی اور دقت کے بغیر کئے گے فیصلے ہمیشہ ناپائیدار ہوا کرتے ہیں ۔

 
 

 

 
 
 

          الحمد اللہ ہمارا معاشرہ اب صحیح سمت جارہا ہے اسی طرح ہماری پارلیمنٹ، عوام راہ راست کے راہی ہیں ۔

 
 

 

 
 
 

          حضرت امام خمینی ہی اس کا محور ہیں ہم سب ، ہمارے علمائ، بزرگ شخصیتیں اور دوسرے سب لوگ اس بات کی طرف متوجہ ہیں اور سب اس معاشرہ کو صحیح اسلامی جہت کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

کام سب سے افضل عبادت ہے

 
 

 

 
 
 

          خواتین و حضرات! اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ جنگ ہے محاذ جنگ اپنے مقام پر بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن اسلام میں کام کا اپنا مقام ہے جیسا کہ روایت میں ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          افضل الاعمال احمزھا۔

 
 

 

 
 
 

          اسلام کام کو عبادت سمجھتا ہے اور بہترین کام وہ ہے جو زیادہ مشکل ہو ۔

 
 

 

 
 
 

          البتہ جنگی محاذ پر لڑنے والے لوگ ہم سے زیادہ بہادر اور ہم سے زیادہ مسلمان ہیںہمیںچاہئیے کہ ہم بھی جنگی محاذ کی طرح ملک کے باقی حصوں میں اپنی قوم کے لئے کام کریںیعنی ہماری قوم جنگی محاذ میں شرکت کے ساتھ ساتھ ،کام کو بھی اہمیت دے۔

 
 

 

 
 
 

          صدام ہمارے بہترین عزیزوں کے ساتھ جنگ کر رہا ہے ،ہمیں تو ان لوگوں پر تعجب ہے حکومت کے ملازمین جو اپنے اداروں میں بیٹھ کر لوگوں کو اس انقلاب سے مایوس کر رہے ہیں یہ بھی صدام کی مدد کر رہے ہیں۔اسی طرح ایسے کارخانہ دار بے سبب میں شور مچا تے ہیں تاکہ لوگ تولید نہ کر سکیں تو یہ بھی صدام کے شریک ہیں۔

 
 

 

ذخیرہ اندوزی دشمن کی مدد ہے
 
 
 

           اس طرح جولوگ اس ملک میں اس لئے تحزیب کاری کرتے ہیں کہ فدا کار لوگ صحیح راستہ پر نہ چل سکیں۔ ایسے افرادحق اور حقیقت کے خلاف قدم اٹھا رہے ہیں اور اسلامی محاذ کے خلاف عمل کر رہے ہیں یہ سب ایک جیسے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ ایک تو صدام کی طرح بد بخت ہے جو لوگوں کو تباہ کر رہاہے اور دوسرا اس قدر بد جنس ہے کہ کار خانے کی مشینوں کو روکے ہوئے ہے تاکہ تولید نہ ہو سکے یا وہ کسی ادارہ کو برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          جنگ کے زمانہ میں ذخیرہ اندوزی کرنا ،یا ضرورت کی چیزوںکا با لکل بازار میں نہ آنے دینا ،اور اس طرح کی مالی مشکلات پیدا کرنا دشمن کی مدد کرنے کے مترادف ہے ۔قرآن مجیدمسلمانوں سے کہتا ہے ۔

 
 

 

 
 
 

          و ما کان المومنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منھم طائفة لیتفقھوا فی الدین ۔(۳)        

 
 

 

 
 
 

          جنگ کی حالت میں سب کے لئے ضروری نہیں ہے کہ نکل کھڑے ہوں اور رسولۖ خدا کوتنہا چھوڑ دیںپس ایک گروہ جنگ کے لئے جائے اور دوسرا گروہ رسولۖ خدا کی خدمت میں بیٹھ کر علم حاصل کرے۔ضروری نہیں ہے کہ سب لوگ جنگی محاذ پر جائیں بلکہ کچھ لوگ جا کر درس پڑھیں درس پڑھنے کے بعد ان لوگوں کے لئے کام کریں یا لوگوں کی علمی اور فنی مشکلات کو حل کریں ۔

 
 

 

 
 
 

مصرف کا معیار

 
 

 

 
 
 

          ان تین بحثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تولیدی سلسلہ میں جتنا زیادہ اقدام کیاجائے بہتر ہے شرعی نقطہ نظر کو مدنظر رکھ کے آمدنی میں اضافہ معیوب نہیں ہے۔

 
 

 

 
 
 

           البتہ مصرف کرنے میں اعتدال سے کام لیا جائے کیونکہ اخلاق اسلامی کی بنا پر زیادہ مال ودولت زیادہ شہوت لے آتی ہے اور انسان کو منحرف کر دیتی ہے زیادہ فقر بھی انسان کو صحیح طور پر زندگی گزارنے سے روکتا ہے انسان اپنے مال کا صحیح مصرف کرے اور اسراف سے پرہیز کرے۔

 
 

 

 
 
 

           مصرف میں شرائط وحالات فرق کرتے ہیں صرف یہ نہیں ہے کہ انسان فقط حلال و حرام کو مدنظر رکھے بلکہ اسے معاشرہ کی شرائط اور احتیاج کو بھی ملاحظہ کرنا چاہیے جب لوگ تنگ دست نہ ہوںتو بہت سی چیزیں درست ہوتی ہیں اور اگر لوگ محتاج ہوںتو کم سے کم تفریح بھی صحیح نہیں ہے اسے انجام دینے سے پرہیز کرناچاہئیے۔

 
 

 

 
 
 

دنیا دار لوگ اور آخرت

 
 

 

 
 
 

           مولا علی علیہ السلام سے نہج البلاغہ میں ایک روایت ہے میں نے اس بحث کیلئے اس کو نوٹ کیا ہے۔ یہ دنیااور اس کی نعمتوں سے استفادہ کے متعلق ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ انسان دنیا سے کس طرح استفادہ کریں۔

 
 

 

 
 
 

          واعلموا عباداللہ ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا واجل الاخرة۔

 
 

 

 
 
 

           وہ لوگ جو صاحب تقویٰ ہیں اور صحیح ہدف کو زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں انہیں خیر کثیر ملی ہے یعنی دنیا ملی ہے اور آخرت انہی کی ہے۔

 
 

 

           فشار کوا اھل دنیا فی الدنیا
 
 
 

           ہم دنیا داروں کے سا تھ ان کی دنیا میں شریک ہیں اچھے انسان دنیاوی لذات حاصل کرنے کیلئے اہل دنیا کے ساتھ شریک ہو جا تے ہیں۔

 
 

 

           ولم یشارکوا اھل الدنیا فی آخرتھم۔
 
 
 

           لیکن اہل دنیا آخرت کیلئے ان کے ساتھ شریک نہیں ہیں ۔

 
 

 

 
 
 

          دنیا طلب لوگ آخرت میں حصہ دار نہیں ہیں اور وہاں اکیلے ہیں۔

 
 

 

           اباح اللہ لھم الدنیا ما کفا ھم۔
 
 
 

           خدا وند متعال نے دنیا کو ان کیلئے اس قدر مباح کیا جتنی ان کیلئے کافی ہے۔

 
 

 

 
 
 

           اچھے کپڑے ،اچھا گھر، اچھی خوراک ،اچھی زندگی ،اچھی سواری اور یہی سب چیزیں معمولی حالات میں مومن کیلئے ہیں۔

 
 

 

           من سعادةالرجل سعةدارہ
 
 
 

           اباح اللہ لھم الدنیا ما کفا ھم بہ واغنا ھم

 
 

 

 
 
 

          قال اللہ عزوجل قل من حرم زینتة اللہ التی اخر ج لعبادہ۔

 
 

 

 
 
 

دنیا میں نیک لوگوں کے لئے ہی دنیا کے مظاہر ہیں

 
 

 

 
 
 

          حضرت امیر المومنین اس سے استد لال کرتے ہیں۔ کون ہے جو خدا کی زینت کو خود پر حرام کرے؟۔طبعیت کے عایشان مظاہر اللہ کے بندوں کے لیئے ہیںاور اللہ کی زینت آپ کے لیئے ہے۔

 
 

 

 
 
 

           قل ھی للذین آمنوافی الحیاة الدنیا خالصة یوم القیامة۔

 
 

 

           یہ چیزیں اچھے لوگوں کے لیئے ہیں۔
           الطیبات للطیبین والطیبون للطیبات ۔
 
 
 

          اللہ تعالی نے طبعیت کے عالیشان مظاہرکو کفار کے لیئے تو خلق نہیں کیا بلکہ اپنے اچھے بندوں کے لیئے خلق فرمایا ہے البتہ ہم خودہی اس نعمت کو ضائع کرتے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

          سکنوا الدنیا بافضل ما سکنت۔

 
 

 

 
 
 

           یہ دنیا میں بہترین حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اور اس میں لفظ افضل ہے یعنی ایک عالیشان قسم کی رہائش کے مالک ہیں۔

 
 

 

           واکلوھا بافضل ما اکلت۔
 
 
 

           ان کا کھانا بھی بہترین ہوتا ہے اس میں اسراف کا عمل دخل نہیں ہوتا اور وہ ان کی احتیاج کے مطابق ہوتا ہے۔

 
 

 

 
 
 

           اصابو لذة زھد الدنیا فی دنیا ھم وتیقنوا انھم جیران اللہ غدا۔

 
 

 

 
 
 

           اس دنیا میں ہی دنیا کوپاتے ہیں اور آخرت میں اللہ کے ہمسائے ہیں۔

 
 

 

 
 
 

           اگرہم چاہیں تو ایسا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ایران کو مستقبل میں ہم ایسا بنائیں کہ معلوم ہو کہ ایران میں موجود تمام امکانات ،سہولیات خداوند متعال نے عطا فرمائی ہیں۔اتنی وسیع زمین ،عظیم معادن ،زیادہ پانی ، موسم کی ہوائیں رہبر عزیز اور عظیم ( امام خمینی ) اور بزرگ علماء ، ہمارے نوجوان صاحب فضیلت اور ایثار سب کچھ اللہ کا عطا کردہ ہے۔ یہ سب کچھ ہماری اصل اور اساس ہے ،اور اسلام ،قران، اور تشیع ، کا مجموعہ اللہ ہی کی نعمتوں کا ثمرہ ہے اس سے ہم ایک اچھا ملک بنا سکتے ہیں حضرت امیر کی روایت میں جس جس چیز کا تذکرہ ہے۔ وہ سب ہمارے لیئے ہے تاکہ ہم ایک ایسا معاشرہ وجود میں لائیں جو دنیا میں عمدہ زندگی گزارے اور آخرت میں خدا کا ہمسایہ قرار پائے لیکن اگر ہم نے دنیا کو پسند کیا تو یہ ہمارے لیئے بہت برا ہے اور ہم اس سورہ کے مصداق بن جائیں گے ایک بہترین سبق ہونے کے عنوان سے اکثر میں نے اس کی تلاوت کا شرف حاصل کیا ہے۔

 
 

 

حوالہ جات
(۱) فرقان:٦٣
 
 
 

(۲) سورہ بقرہ کے آخر میں ایک آیت ہے جو اصحاب صفہ کی توصیف بیان کرتی ہے ۔

 
 

 

(۳)سورہ توبہ: ١٢٢

http://shiastudies.com/ur/411/%d8%b9%d8%a8%d8%a7%d8%af-%d8%a7%d9%84%d8%b1%d8%ad%d9%85%d9%86-%da%a9%d9%88%d9%86-%db%81%db%8c%da%ba/

تبصرے
Loading...