خطرے کا اعلان

خطرے کا اعلان

 خطرے کا اعلان

اگر سالار قافلہ خطرے کا اعلان کرے کہ ہماری منزل بہت دور ہے نہ آبادی ہے اور نہ ہی پانی۔ راستے میں حیوانات اور درندے موجود ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس قدر ممکن ہو خوراک و پانی اور دوسرے لوازمات اٹھائیں اور ہر شخص اپنا نگران اور ہوشیار رہے۔ اس اعلان کے ساتھ خود سالار قافلہ بھی جلدی جلدی اپنے سفر کا سامان جمع کرتا ہے اور اگلی منزل کے خوف سے اس پر وحشت طاری ہو جاتی ہے ، وہ کانپتا ہے اور گریہ کرتا ہے۔ جب سربراہِ قافلہ ، رہنمائے کاروان کی حالت ایسی ہوگی تو اس قافلے والوں کا کیا حشر ہو گا؟ اس کی پریشانی سے کاروان والوں کا پریشان ہونا لازمی امر ہے اور فطرت کا تقاضہ بھی۔
لہٰذا اس اطمینان سے قیمتی اوقات ضائع نہ کریں۔ اپنے رہنما کی پیروی کریں تا کہ میدان حشر میں حسرت بھرے دل اور آنسو بھری آنکھوں سے روبرو ہونے کی نوبت نہ آئے۔
سالار قافلہ خوف زد ہ ہے
اے ایمان و تقویٰ کے قافلو! تمہارا میرِ کارواں اور قافلے کا سالار حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سفر آخرت سے سخت ڈرتے ہیں اور اس راستے کے خطرات سے سب کو آگاہ فرماتے ہیں۔ ہر رات مسجد کوفہ میں بلند آواز سے فرماتے تھے:
تَجَھَّزُوارَحِمَکُمُ اللّٰہُ فَاِنَّ اَمَامَکُمْ عَقَبَةً کَسئُوداً ؟ وَمَنَازِلٌ مُحَوِّفَةٌ لَابُدَّمِنَ الوُرُوْدِ عَلَیْھَا وَالوُقُوْفِ بِھَا۔
“مسافرو! خدا تم پر رحم کرے ، سامان سفر باندھ لو اور تیار رہا کرو۔ بے شک تمہارے آگے بہت سی دشوار گزار گھاٹیاں اور خوفناک منازل موجود ہیں۔ ان سے گزرے بغیر اور کوئی چارہ نہیں۔”اس کے بعد مولا (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
آہ مِنْ قِلَّةِ الزَّادِ وَبُعْدِ السَّفَرِوَعَظِیْم الْمَوْدرِدِ (نہج البلاغہ)
“افسوس زادِ راہ قلیل ہے ، سفر طویل ہے اور پہنچنے کا مقام عظیم ہے۔”
افسوس کا مقام ہے کہ بے پناہ دنیوی مصروفیات اورنفسانی خواہشات کی لہروں میں پھنسنے کی بنا پر ہم حضرات آئمہٴ اطہار (علیہم السلام) سے جدا ہو کر رہ گئے ہیں۔ رابطہ منقطع ہے۔ ہم ان کے اخلاق کریمہ اور سیرت طیبہ کی پیروی سے قاصر ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس بات سے محفوظ رکھے کہ ہم ان کی محبت و ولایت کے دائرے سے باہر قدم رکھ کر شیطانی ولایت و گمراہی میں داخل ہوں۔ کیونکہ بعض گناہوں کے اثر سے گناہ گار انسان ولایت خدا اور ولایت اہل بیت (علیہم السلام) سے خارج ہو جاتا ہے اور ولایتِ شیطان میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کے وجود پر شیطان مکمل مسلّط ہو کر اس پر حکمرانی کرنے لگتا ہے۔
مومن کی اہانت کرنے پر انسان ولایت سے خارج ہو جاتا ہے
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے:
مَنْ رَوَیٰ عَلٰی مُوٴمِنٍ رَوَایَةً یُرِیْدُ بِھَاشَیْنَہ وَھَدْمُ مُرَوَّتِہِ لِیَسْقُطَ مِنْ اَعَیْنَ النَّاس اَخْرَجَہ اللّٰہُ مِنْ وَّلاَیَتِہِ اَلٰی وَلَایَةِ الشَّیْطَانِ (اصول کافی)
“کوئی شخص کسی مومن کے خلاف ایک مطلب نقل کرے جس سے مراد اس کے عیوب ظاہر کرنے ہوں یا لوگوں کے درمیان اس کی آبرو ریزی کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی سرپرستی اور یاری سے محروم کر دیتا ہے اور شیطان کی سرپرستی پر چھوڑ دیتا ہے۔”
اس موقع پر شیطان بھی اس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے:
کَمَثَل الشَّیْطٰنِ اِذْقَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ انِّیْ بَرِیءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ العَالَمِیْنَ (سورہ۵۹۔آیت۱۶)
“(منافقوں کی) مثال شیطان کی سی ہے کہ انسان سے کہا کہ کافر ہو جاؤ، پھر جب وہ کافر ہوگیا تو کہنے لگا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں۔ میں سارے جہاں کے پروردگار سے ڈرتا ہوں۔”
قتل نفس

گناہ کبیرہ میں پانچواں بڑا گناہ اس شخص کا قتل ہے جس کو خداوند عالم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان سے مارنے کا حکم نہ دیا ہو۔

قتل انسان کے گناہِ کبیرہ ہونے کی دلیل وہ مستند روایات ہیں جو اس کتاب کے آغاز میں بیان کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ قاتل نفس محرّمہ کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے:

وَمَںْ یَقْتُلْ مُوْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَ اُئہُ جَھَنَّمُ خَالِداً فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہ وَاَعَدَّلَہُ عَذَاباً عَظِیْماً (سورہ۴۔آیت۹۳)

“اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے(تو غلام کی آزادی وغیرہ اس کا کفارہ نہیں بلکہ) اس کی سزا دوزخ ہے۔ اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ اس پر خدا نے اپنا( غضب ڈھایا ہے) اور لعنت کی ہے اور بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔”

اس آیہٴ شریفہ میں قتل نفس کے لیے پانچ سزائیں قرار دی گئی ہیں۔ پہلی جہنم، دوسری جہنم میں ہمیشگی، تیسری غضب خدا میں گرفتاری، چوتھی لعن خدا میں مبتلا ہونا اور پانچویں عذابِ عظیم ۔

دائمی عذاب کفار کے لیے مخصوص ہے

ہمارے مذہب کے مسلّمہ عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ کفار کے لیے ابدی عذاب مخصوص ہے۔ بایں معنی اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو تو وہ ہمیشہ عذاب میں مبتلا نہیں رہے گا اگرچہ وہ نفسِ محترم کا قاتل بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ دوسرے گناہوں میں بھی ملوّث ہو ا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آیہٴ مذکورہ کی کچھ توجیہات بھی بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ابدی عذاب کا مستحق اس وقت بنتا ہے کہ مومن کا قتل اس کے ایمان کی وجہ سے واقع ہوا ہو۔ بلاشبہ اس صورت میں قاتل کافر ہے اور ابدی عذاب کا مستحق ہے۔ چونکہ اس نے مومن کا خون بہانا حلال سمجھا۔ جبکہ مومن کو جان سے مارنا حرام ہے اور یہ حرمت ضروریات دین میں سے ایک ہے اور ضروریات دینی کا منکر کافر ہے۔

مسلمان کا خون اور مال محترم ہے

حجة الوداع کے موقع پر حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اَیُّھَا النَّاسُ لایَحِلُّ دَمُ امْرِءٍ مُسْلِمٍ وَلَا مَالُہ اِلاَّ بِطِیْبَةِ نَفْسِہِ فَلا تَظْلِمُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلَاتَرْجِعُوْا بَعْدِیْ کُفَّاراً (وسائل الشیعہ کتاب قصاص باب اوّل)

“لوگو! مسلمانوں کا خون بہانا حلال نہیں ہے۔ اسی طرح ان کی مرضی کے بغیر مال پر تصرف جائز نہیں۔ پس اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا اور میری موت کے بعد دوبارہ کفر کی طرف نہ پلٹنا۔

دوسری توجیہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ اس آیہٴ شریفہ میں خلود سے مراد لمبی مدت تک عذاب دینا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ گناہ گار ہمیشہ کے لیے ابدی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا۔

ایک قتل تمام انسانیت کے قتل کے برابر ہے

ارشاد خداوندی ہے:

 

اِنَّہُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادًا فِیْ الْاَرضِ فَکَانَمَّا قَتَلَ النّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ اَحْیَاھ۔ا فَکَانَّما اَحْییٰ النَّاسَ جَمِیْعاً (سورہ۵۔آیت۳۲)

“اگر کوئی دوسرے کو (ناحق) قتل کر ڈالے بغیر اس کے کہ وہ قصور وار ہو یا ملک میں فساد پھیلا دیاہے جیسے لٹیرے، زانی(محصنہ)، شوہردار عورت کے ساتھ بد فعلی کرنا وغیرہ، جن کو جان سے مارنا جائز ہے تو گویا اس سے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کر دیا گویا اس نے سب آدمیوں کو زندہ کر دیا۔

چونکہ حقیقت میں تمام مومنین آدم کے بیٹے اور ایک ہی نفس کا حکم رکھتے ہیں ۔ قاتل نے لوگوں کے درمیان قتل جیسی بُری چیز کی تعلیم دی ہے اور سب کو قتل پر اُکسایا ہے۔

خود کشی بھی قتل کے برابر ہے

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلَاتَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً وَمَنْ یَفْعَلَ ذٰلِکَ عُدْوَناً وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَاراً ط وَکَانَ ذٰلکَ عَلٰی اللّٰہِ یَسِیْراً (سورہ۴۔آیت۲۹)

“تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو کیونکہ خدا ضرور تمہارے حال پر مہربان ہے۔ (قتل نفس سے اس لیے منع کیا گیا ہے کیونکہ تمام مومنین ایک نفس کا حکم رکھتے ہیں۔ لہٰذا فرمایا کہ تم اپنی جانوں کو مت مارو)۔ دوسری عبارت میں تم اپنے آپ کو بتوں پر قربان نہ کرو یا غیظ و غضب کے وقت خودکشی نہ کرو۔ اور جو شخص ظلم و جور سے ایسا کرے گا تو (یاد رکھو)ہم بہت جلد اس کو آگ میں جھونک دیں گے۔ اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے۔”

تمام لوگوں کو زندہ کرنے کے برابر

ارشاد ربانی ہے:

وَمَنْ اَحْیَاھا فَکَانَّمَا اَحْیَیٰ النَّاسَ جَمِیْعًا

“اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ کر دیا۔”

چنانچہ اگر کوئی کسی نفس محترم کی بقا کا سبب بنے جیسے کہ عفو کرے یا قصاص چھوڑ دے یا انتقام سے اپنے آپ کو باز رکھے یا کسی کو ہلاکت سے نجات دے یا دلائے تو یہ سب لوگوں کو نجات دینے کے برابر ہے اور وہ شخص اسی قدر ثواب کا مستحق بھی قرار پائے گا۔

بعبارت دیگر قتل نفس پروردگارِ عالم کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کے لیے سخت ترین عذاب کا وعدہ ہے۔ اسی طرح کسی نفس محترم کی حمایت و حفاظت بھی سب سے بڑی عبادت ہے۔

قاتل مسلمانی کی حالت میں نہیں مرتا

کسی کا قتل گناہ کبیرہ ہونے کے بارے میں احادیث کی طرف اشارہ ہوتا ہے:

عَنْ اَبِیْ عَبْدِاللّٰہِ فِی رَجُلٍ قَتَلَ رَجُلاً مُوٴمناً؟ قَالَ عَلَیْہِ السَّلامُ یُقالُ لَہ مِتْ اَیَّ مَیْتَةِ اِنْ شِٴْتَ یَھُوْدِیَّا وَاِنْ شِئَتَ نَصْرَانِیّاً وَّاِنْ شِئْتَ مَجُوْسِیّاً (کافی)

“حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے کسی مرد مومن کے قاتل کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ قاتل کے مرتے وقت اس سے کہا جاتا ہے کہ جس حالت میں مرنا چاہو، مر جانا۔ اگر تم چاہو یہودی بن کر یا مسیحی کی موت مرو، یا مجوسی کی موت مرو۔”

دوسری حدیث:

لَایَزالُ الْمُوٴْمِنُ فِیْ فسحَةٍ مِنْ دِیْنِہِ مَالَمْ یُصِبْ دَمَّا حَرَاماً۔ وََقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَایُوَفَقِ قَاتِلُ الْمُوٴْمِنُ مِتَعَمِّداً لِلَتَّوْبَةِ (الوسائل کتاب قصاص۔ ص۴۶۲)

“مومن اپنے دین کی وسیع فضا میں آزاد ہوتا ہے جب تک کسی کے حرام خون سے اپنے ہاتھوں کونہ رنگا ہو۔” مزید فرمایا: “جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرنے والے کو توبہ و انابہ نصیب نہیں ہوتی۔”
قتل کے شرکاء بھی قاتل ہیں
تیسری حدیث بھی امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے کہ جناب رسول خدا سے عرض کیا گیا کہ ایک شخص مسلمان مارا گیا ہے اور اس کی لاش گلی میں پڑی ہوئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور اصحاب وہاں پہنچے تو سوال کیا : اس کا قاتل کون ہے؟ عرض کیا: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہمیں معلوم نہیں۔ آپ نے تعجب کے ساتھ فرمایا : کوئی مقتول مسلمانوں کے درمیان پڑا ہو اور اس کے قاتل کا کسی کو پتہ نہ ہو۔ اس خدا کی قسم جس نے مجھے پیغمبری کے لیے منتخب فرمایا، اگر تمام آسمان اور زمین میں رہنے والے ایک مسلمان کے خون میں شریک ہو جائیں اور اس سے سب خوش ہوں تو ضرور اللہ تعالیٰ ان سے کو بلا تفریق عذاب میں مبتلا کرے گا اور جہنم میں ڈال دے گا۔
اس حدیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قاتل اور شرکاءِ قتل کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں کسی کو پیش کریں گے ۔ اس کے ساتھ تھوڑا ساخون ہو گا(جتنا کہ حجامت سے نکلتا ہے)۔ وہ شخص کہے گا خدا کی قسم میں نے کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی کسی کے قتل میں شریک ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا درست ہے لیکن کسی ایک دن تم نے میرے مومن بندے کا ذکر کیا اور یہی ذکر اُس کے قتل کا سبب بنا اس لیے اس کا خون تمہارے ذمے ہے۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ اگر کوئی مشرق میں مارا جائے اور مغرب میں رہنے والا اس قتل پر راضی ہو جائے تو گویا وہ اس قتل میں شریک ہے۔
لَکَانَ الرَّاضِیْ عِنْدَ اللّٰہِ شَرِیْکُ الْقَاتِلِ(وسائل باب۵ ص ۴۹۱)
حمل گرانا بھی حرام ہے
جو بچہ ماں کے پیٹ میں ہو اس کو کسی طریقہ سے ضائع کرنا یا مارنا حرام ہے۔ ایسی صورت میں مثل قاتل دیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
جنین(ناقص الخلقت بچہ) اور بڑے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر چہ مارنے والے اس کے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔ جیسے ماں ایسی دوائی استعمال کرے جو حمل ساقط ہونے کا سبب بن جائے تو اس صورت میں اُن تمام سزاؤں کی مستحق ہو گی جو قاتل کے لیے معین ہیں۔ یعنی کسی نفس محترم کے قتل پر ایک ہزار مثقال سونا ادا کرنا واجب ہے۔
قاتل اگرچہ ماں باپ ہی ہوں پھر بھی اس دیہ سے ارث نہیں ملتی بلکہ ان کے سوا دوسرے ورثاء اس دیہ کے حق دار ہوں گے۔
عمداً نطفہ ضایع کرنا حرام ہے
مذکورہ بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دین اسلام کی شرعِ اقدس کس قدر انسانی زندگی اور اسکی حیات کی اہمیت کی قائل ہے۔کسی دوسرے موضوع کے بارے میں اس قدر تاکید و سفارش نہیں فرمائی جتنی نفس محترم کے لیے فرمائی ہے۔
یہاں تک کہ تکوینِ انسانی کا مادہ یعنی نطفہ رحم مادر میں ٹھہرنے کے بعد ضائع کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اور اس کے لیے دیہ بھی مقرر کر دیا ہے۔ جس کی تفصیل یوں ہے:
اگر نطفہ ضائع کیا گیا ہے تو ساٹھ مثقال سونا،اگر ہڈی پید اہو گئی تھی تو اسی مثقال سونا،اگر جنین (رحم مادر میں نا تمام بچہ) کے گوشت و اعضاء نمودار ہو گئے تھے لیکن روح داخل نہیں ہوئی تو سو مثقال سونا، اگر روح داخل ہوگئی تھی اور وہ لڑکا تھا تو ہزار مثقال سونا، اور لڑکی تھی تو پانچ سو مثقال سونا۔
اگر حاملہ عورت مر جائے تو اس کا پیٹ چاک (آپریشن) کر کے بچے کا نکالناواجب اور غفلت برتنا حرام ہے۔
اگر تاخیر کی بنا پر بچہ ضائع ہو جائے تو جس کی غفلت سے بچہ ضائع ہوا، اس پر دیہ واجب ہے۔

http://shiastudies.com/ur/273/%d8%ae%d8%b7%d8%b1%db%92-%da%a9%d8%a7-%d8%a7%d8%b9%d9%84%d8%a7%d9%86/

تبصرے
Loading...