تجسس و عيب جوئى

تجسس و عيب جوئى

تجسس و عيب جوئى اپنے سے بے خبرىانسا ن کي ايک ايسى سب سے بڑى اخلاقى کمزورى جو ناقابل علاج ھے وہ اپنے سے بے خبرى ھے ۔زيادہ تر گمراھى و تباھى اسى بے خبرى و جھالت کى وجہ سے ھوتى ھے اس لئے کہ بھت سے صفات اور نا پسنديدہ ملکات اسى بے خبرى کي بنا ء پر مسکن دل ميں بيٹھ جاتے ھيں اور انسان کى بد بختى کى بنياد کو مضبوط کر ديتے ھيں ۔ اور جب انسان اپنے سے بيخبرى کى بناء پرخود سے غافل ھو جاتا ھے ۔ تو اس کى روحانى فضيلت مر جاتى ھے ۔ اور وہ اپنے جذبات و خواھشات کا اسير ھو کر جاودانى سعادت سے محروم ھو جاتا ھے اور جب انسان اس منزل پر پھونچ جاتا ھے تو پھر کسى بھى قسم کي اخلاقى ھدايت و نصيحت اس کے لئے بيکار ھو جاتى ھے ۔اصلاح نفس کى سب سے بڑى شرط اپنے نفسانى عيوب کا ادراک کرنا ھے کيونکہ آگاہ و مطلع ھونے کے بعد نا پاکى اور رذائل کى زنجيروں کو توڑا جا سکتا ھے ، اور برى صفتوں کے خطرناک نتائج سے نجات حاصل کي جا سکتى ھے ۔ تربيت نفس کے لئے نفسانى خصوصيات کے بارے ميں غور و فکر کرنا بھت اھميت رکھتا ھے ۔ اس لئے کہ انسان اپنے کمال معنوى و اخلاقى تک صرف اسى راستہ سے پھونچ سکتا ھے اور يھى مطالعہ نفس انسان کو اس بات پر متمکن کر ديتا ھے کہ وہ نفس کے نقائص و کمالات کا ادراک کر سکے اور مختلف صفات کے انبوہ سے شيطانى صفات کو دور کر سکے اور نفس کے آئينہ کا اساسى تصفيہ کرکے اسے گناھوں کے گرد و غبار سے پاک کر سکے۔اگر ھم نے اپنے اعمال کے آئينہ ميں سھل انگارى کى بنا پر اپني واقعى صورت کو نھيں ديکھا تو اس عدم توجہ کى بناء پر ھم نے ايک ايسے جرم کا ارتکاب کيا ھے جو معاف کئے جانے کے لائق نھيں ھے۔ سب سے پھلے ھمارا فريضہ ھوتا ھے کہ اپنے ذاتى خصوصيات کى تحقيق کريں اور نفسانى صفات کى نوعيت کو بر ملا ديکھيں تاکہ اپنے سے بے خبرى کے عالم ميں ھمارے اندر جن عيوب نے نشو ونما پائى ھے اور انھوں نے اپنى جڑوں کو مضبوط کر ليا ھے ان کو سعى مسلسل کے ذريعہ بيخ و بن سے اکھاڑ پھينکيں اور اپنى زندگى ميں ان کو سر نہ اٹھانے ديں،نہ يہ کہ ان کو بے لگام چھوڑ ديں تاکہ وہ ھم کو جس قعر مذلت ميں چاھيں ڈھکيل ديں ۔اس ميں شک نھيں ھے کہ نفس کى اصلاح کوئى معمولى چيز نھيں ھے اور نہ آسانى کے ساتھ اس کا م کو انجام ديا جا سکتا ھے ، بلکہ اس کے لئے طويل مشقتوں کو بر داشت کرنے کى اور استقامت و پائدارى کى ضرورت ھے ۔ برى عادتوں کو ختم کر کے ان کى جگہ اچھى اور نئى عادتوں کو متمکن کرنے کے لئے عيوب کى معرفت کے ساتھ ساتھ ايک ايسے مضبوط و غير متزلزل ارادہ کى بھى ضرورت ھے جو انسان کو مقصد تک پھونچا سکے ۔ ھم اپنے اعمال کو جس قدر منظم کريں گے ۔ھمارے افکار ميں بھي اسى قدر نظم و ترتيب پيدا ھوتى جائے گى اور ھر قدم کا نفع بخش اثر انجام کار کے بعد روشن ھوجائے گا ۔مشھور دانشمند پروفيسر کارل لکھتے ھيں : رفتار زندگى کو عاقلانہ بنانے کے لئے سب سے بھتر طريقہ يہ ھے کہ روزانہ صبح کو اس دن کے اعمال کے بارے ميں غور و فکر کر کے ايک مکمل پروگرام بنا ليں ۔ اور ھر شب ان اعمال کے نتائج پر غور کر ليا کريں اور جس طرح ھم پھلے ھي سے سوچ ليتے ھيں کہ ھمارا کام کس وقت شروع ھو گا اور کس وقت ختم ھو گا اور ھم کو کن لوگوں سے ملاقات کرنى ھے ۔ آج کيا کھانا ھے کيا پينا ھے اور آج ھم کو کتنا نفع ملے گا اسى طرح ھم کو پھلے ھى سے يہ بھى طے کر لينا چاھئے کہ دوسروں کي کيا مدد کرنى ھے اور کس طرح سے کاموں ميں اعتدال پيدا ھو سکے گا ۔برى عادتيں بعينہ جسم کے ميل کى طرح ھيں ، لھذا جس طرح جسم کے ميل کچيل کو دھونا اور صاف کرنا ضرورى ھے اسى طرح برى عادتوں کو دور کرنا بھى ضرورى ھے ۔ بعض لوگوں کى عادت ھوتى ھے کہ سونے سے پھلے اور بيدار ھونے کے بعد معمولى کسرت کرتے ھيں ۔ تاکہ عضلات ميں نرمي پيدا ھوجائے ۔ اسى طرح اس سے کم اھميت اس بات کي نھيں ھے کہ روزانہ تھوڑى دير اپنے اخلاق و افکار و ارواح کى بھى تربيت کريں کيونکہ روزانہ يہ سوچنے سے کہ کون سا طريقھٴ کار اختيار کريں اور کيا کريں جس سے رفتار زندگى متوازن رھے ھم ميں يہ قدرت پيدا ھو جائے گى کہ اپنى عقلوںاور اپنے ارادوں کو تقويت عطا کر سکيں ۔ اور اس ترتيب سے عمل کرنے پر ھمارے شعور کي گھرائى ميں ايک مخفى آئينہ پيدا ھو جائے گا جس ميں ھر شخص اپنے چھرے کو بے نقاب ديکہ سکے گا ۔ ھمارے اصول زندگى برتنے کى توفيق مکمل طريقہ سے ھمارى باطنى زندگى سے مرتبط ھے ۔ اس لئے جس طرح ھوشيار تاجر آمدنى و خرچ کا رجسٹر رکھتا ھے اور دانشمند اپنے تجربات کى کتاب کے اوراق کو منظم رکھتا ھے اسى طرح ھم ميں سے ھر فرد کے لئے ضرورى ھے ۔ خواہ وہ فقير ھو يا مالدار ھو ، جوان ھو يا بوڑھا ، عالم ھو يا جاھل ۔ کہ روزانہ کى اچھائيوں اور برائيوں کو منضبط رکھے ۔ اب اگر کسى نے بڑے صبر و ثبات کے ساتھ اس روش کو اپنا ليا تو اس کى روح ميں ھى نھيں بلکہ جسم ميں بھى تغير پيدا ھو جائے گا ۔ايک متين و معقول شخص اپنى طاقتوں اور کوششوں کو ھميشہ شائستہ چيزوں ميں صرف کرتا ھے ۔ جس کى شخصيت جتنى محترم ھوتى ھے وہ دوسروں کي شخصيت کا بھى اسى قدر احترام کرتا ھے اور وہ ان تمام چيزوں سے پرھيز کرتا ھے جس سے دوسروں کے جذبات کو ٹھيس لگتى ھو ۔ کيونکہ ھر انسان کا تعارف اس کے روزانہ کے ان افعال سے ھوتا ھے جو وہ اپنے معاشرے ميں دوسروں کے ساتھ برتتا ھے ايک بزرگ سے پوچھا گيا : سب سے مشکل چيز کيا ھے اور سب سے آسان کام کيا ھے ؟ اس نے جواب ديا سب سے مشکل چيز يہ ھے کہ انسان اپنے کو پھچان لے اور سب سے آسان کا م يہ ھے کہ دوسروں کى عيب جوئى کرے ۔
عيب جو گروہکچھ لوگوں ميں ايک منحوس عادت يہ ھوتى ھے کہ وہ ھميشہ دوسروں کي لغزشوں اور بھيدوں کى تلاش ميں رھا کرتے ھيں تاکہ ان لوگوں پر نقد و تبصرہ کريں ان کا مذاق اڑائيں ان کى سر زنش کريں ، حالانکہ خود ان لوگوں کے اندر اتنے عيوب ھوتے ھيں اور اتنى کمياں ھوتى ھيں جو کم و کيف کے اعتبار سے ان کے فضائل پر غالب ھوتى ھے ليکن اس کے باوجود يہ لوگ اپنے عيوب سے غافل ھو کر دوسروں کے عيوب تلاش کرتے رھتے ھيں ۔ ياد رکھئے ! لوگوں کے عيوب کى تلاش ايسى منحوس صفت ھے جو انسان کى زندگى کو آلودہ کر ديتى ھے اور اس کى اخلاقى شخصيت کو گرا ديتى ھے ۔جو چيز انسان کو دوسروں کى عيب جوئى پر ابھارتى ھے وہ احساس کمترى و پست فطرتى ھے اور غرور و تکبر ، خود پسندى سے اس صفت کو تقويت ملتى ھے۔ اسى کى ھى وجہ سے انسان اپني زندگى ميں بڑى اور زيادہ غلطيوں کا مرتکب ھوتا ھے ۔ اس عيب جوئى کى وجہ سے انسان کے اخلاق اور اس کي روحانيت ميںجو تغيرات پيدا ھوتے ھيں وہ انسان کو بڑے غلط اور نامعقول قسم کى غلطيوں پر جرى بنا ديتے ھيں ۔عيب جو حضرات اپنے افکار کو ايسى چيزوں ميں صرف کرتے ھيں جو کسى بھى طرح عقل و خرد کے نزديک اور شرع کى نظر ميں بھى پسنديدہ نھيں ھيں، کيونکہ يہ لوگ اپنے جانے پھچانے دوستوں کے اعمال کے تجسس ميں لگے رھتے ھيں کہ دوسروں کى کوئى بھى کمزورى ان کے ھاتہ لگ جائے تو اسى کو لے اڑيں اور دوستوں پر نقد وتبصرہ کے ساتھ ان کو بد نام کرتے پھريں اور جس قدر بھى ممکن ھو دوستوں کو لوگوں کى نظروں ميں ذليل و رسوا کريں ۔ اور چونکہ يہ لوگ دوسروں کي عيب جوئى ميں لگے رھتے ھيں لھذا ان کو اتنى فرصت بھى نھيں ملتى کہ اپنے عيوب کو تلاش کرسکيں اور اسى لئے اس قسم کے لوگ زندگى کى ھدايت و اصلاح کي دوڑ ميں پيچھے رہ جاتے ھيں ۔ اصولا ً اس قسم کے لوگ بز دل ھوتے ھيں ۔ شجاع نھيں ھوتے ۔ لھذا يہ کسي قيد و بند کو بھى قبول نھيں کرتے اور نہ دوسروں کى عزت و حرمت کا احترام ان کى نظروں ميں ھوتا ھے ۔ يہ لوگ اپنے سے قريب ترين شخصوں کے ساتھ بھى خلوص نھيں برت سکتے ۔ اسى لئے جھاں يہ لوگ دور کے لوگوں کے عيوب بيان کرتے ھيں وھاں موقع ملنے پر قريب ترين دوستوں کى بھي برائى بيان کرنے لگتے ھيں اور يھى وجہ ھے کہ ايسے لوگوں کو ايسے سچے دوست نھيں مل پاتے جو واقعى دوست ھوں اور اس کى محبت کے زير سايہ وہ اپنے جذبات کو سکون عطا کر سکيں ۔انسان کى شرافت و بزرگى خود اس کے ھاتہ ميں ھے جو شخص دوسروں کى شخصيت کو مجروح کرے گا اس کى شخصيت بھى قھرى طور سے مجروح ھو جائے گى ۔يہ ممکن ھے کہ عيب جو اپنے عمل کے نتيجہ سے بے توجہ ھو ليکن وہ بھرحال اپنے اس عمل کى وجہ سے لوگوں کى بد گوئى سے محفوظ نھيں رہ سکتا کيونکہ عيب جو اپنى اس حرکت کى وجہ سے لوگوں کے دلوں ميں حسد کينہ بغض کا جو بيج بو چکا ھے اس کا بھگتان اسے بھگتناھى ھو گا ۔ اور اس کو اپنے اس فعل کے نتيجہ ميں ندامت و پشيمانى کے علاوہ کچھ ھاتہ نھيں آئے گا ۔ اس لئے کہ عيب جو بقول بزرگان ، کبوتر کى طرح نھيں ھے کہ اگر آشيانہ سے اڑ جائے تب بھى دوبارہ واپسى کي اميد منقطع نھيں ھوتى ۔جو شخص لوگوں کے ساتھ زندگى بسر کرنا چاھتا ھے اس کى ذمہ دارى ھے کہ اپنے فرائض پر عمل کرے يعنى ھميشہ لوگوں کى خوبيوں پر نظر رکھے ، ان کے نيک اعمال کو اپنے ذھن ميں رکھے اور ان کے اچھے اخلاق و اچھے کردار کى قدر دانى کرے ۔ جن عادتوں يا صفتوں سے دوسروں کى شخصيت مجروح ھوتى ھو اور جو باتيں اصول کى مخالف ھوں ان سے اجتناب کرے ۔ کيونکہ محبت کو دوام محبت ھى سے ملتا ھے اور بقائے احترام طرفين سے ھوا کرتا ھے ۔پس جو شخص اپنے دستوں کے عيوب پر پردہ ڈالنے کا عادى ھو گا اس کى محبت باقى رھے گى اور اس کى محبت کو دوام حاصل ھو گا ۔ لھذا اگر کسي دوست ميں کوئى کمزورى ديکھو تو اس کے پيٹھ پيچھے اس کى برائى بيان کرنے کے بجائے کسى مناسب موقع پر اس کو اس بات کى طرف بھت خوش اسلوبى سے متوجہ کر دو ۔يہ بات بھي قابل توجہ ھے کہ اگر دوست کى کسى کمى پر اس کو متوجہ کرنا ھے تو اس ميں بھى بڑى مھارت کى ضرورت ھے اس کو ايسي خوش اسلوبى سے متوجہ کيجئے کہ اس کو تکليف نہ پھونچے اس کے احساسات و جذبات کو ٹھيس نہ لگے ۔ ايک مربى اخلاق کا کھنا ھے : تمھارے لئے يہ ممکن ھے کہ اپنے مخاطب ( دوست ) کو اشارے يا کسى ، حرکت کے ذريعے اس کى غلطى پر متوجہ کردو، اس سے گفتگو کرنے کى ضرورت نھيں ھے ۔ کيونکہ اگر تم نے اپنے دوست سے يہ کھہ ديا کہ تمھارے اندر يہ کمى ھے تو کسى قيمت پر تم اس کو اپنا ھم عقيدہ نھيں بنا سکتے کيونکہ تم نے ڈائريکٹ يہ بات کھہ کر اس کى عقل و فکر پر حملہ کيا ھے اس کى خود پسندى کو مجروح کيا ھے ۔ آپ کے اس طريقھٴ کار سے وہ اپنى ضد پر اڑ جائے گا ۔ اور اپنے عمل ميں کوئى تغير نھيں کرے گا ۔ آپ چاھے افلاطون و ارسطو کى سارى منطق اس پر صرف کر ديں ليکن اس کا باطنى عيقدہ نھيں بدل پائيں گے ، کيونکہ آپ نے اس کے پندار کو زخمى کر ديا ھے ۔ گفتگو کرتے وقت کسى صورت ميں اس سے اس طرح گفتگو کى ابتداء نہ کيجئے : ميں آپ کى غلطى کو ثابت کردوں گا ميرے پاس اس کے لئے مضبوط دليليں ھيں ! کيونکہ اس قسم کى گفتگو کا مفھوم يہ ھے کہ آپ اس سے زيادہ عقلمند ھيں ۔ لوگوں کے افکار کى اصلاح عام حالات ميں دشوار ھوتى ھے ، چہ جائيکہ جب اس کے سامنے بند باندہ ديا جائے۔ اگر کسى نکتہ کو ثابت ھى کرنا چاھتے ھوں تو پھلى بات يہ ھے کہ اس پر کسى کو مطلع نہ کيجئے اور اتنى ھوشيارى و مھارت سے اس کام کو انجام ديجئے کہ کوئى سوچ بھى نہ سکے کہ آپ کا مقصد کيا ھے اس سلسلہ ميں شاعر کى اس نصيحت پر عمل کيجئے ” لوگوںکو اس طرح تعليم دو کہ کوئى تم کو معلم نہ سمجھے “۔
مذھبى تعليم کى تحقيققرآن مجيد عيب جو حضرات کوبرے انجام سے ڈراتے ھوئے ان کى اس برى عادت کا نتيجہ بتاتا ھے ؛” ويل لکل ھمزة لمزة ” (۱ ) ھر طعنہ دينے والے چغلخور کے لئے ويل ھے ۔اسلام نے معاشرہ کى وحدت کى حفاظت کے لئے زندگى کے اندر اصول ادب کي رعايت کو ضرورى قرار ديا ھے اور عيب جوئى جو تفرقہ کا سبب اور دوستانہ روابط کے قطع کرنے کى علت ھے ، کو حرام قرار ديا ھے ۔ مسلمانوں کا فريضہ ھے کہ ايک دوسرے کے احترام کو باقى رکھيں ! اور کسى کى اھانت نہ کريں ! امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ھيں : ايک مومن کو دوسرے مومن سے اس طرح سکون ملتا ھے جس طرح پياسے کو ٹھنڈے پانى سے سکون ملتا ھے ۔ ( ۲)امام محمد باقر عليہ السلام فرماتے ھيں : ايک انسان کے اخلاقى عيب کے اثبات کے لئے يھى بات کافى ھے کہ وہ دوسروں کے جس عيب کو ديکھتا ھے اسى عيب کو اپنے يھاں نھيں ديکہ پاتا ۔ يا يہ کہ دوسروں کو جس کام پر سر زنش کرتا ھے وھي کام خود بھى کرتا ھے يا اپنے دوست کو لا يعنى باتوں سے آزار پھونچاتا ھے ۔ ( ۳)حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں : خبر دار ! لوگوں کے عيوب تلاش کرنے والوں کى صحبت سے پرھيز کرو کيونکہ ان لوگوں کا ھم نشين بھى ان کى عيب جوئى سے نھيں بچ سکے گا ۔ ( ۴)اس سلسلہ ميں حضرت على عليہ السلام نے بھت اچھى بات فرمائى ھے : تمھارے نزديک سب سے بر گزيدہ ترين اس شخص کو ھونا چاھئے جو تم کو تمھارے نقص و عيب کى طرف متوجہ کرے اور تمھارى روح و جان کى مدد کرے ۔ويل کارنگي کھتا ھے : ھميں اور آپ کو بڑى خوشى کے ساتھ اپنے خلاف ھونے والے نقد و تبصروں کو قبول کر لينا چاھئے ۔ کيونکہ ھم اس سے زيادہ کى توقع نھيں کر سکتے کہ ھمارے اعمال و افکار کا ۳/۴ حصہ صحيح و درست ھو ۔ حد يہ ھے کہ عصر حاضر کا عميق ترين مفکر” آنسٹائن “بھى اس بات کا معترف ھے کہ اس کے سو ميں ننانوے استنتاجات مبنى بر اشتباہ تھے ۔ جس وقت بھى کوئى دشمن ھم پر نقد و تبصرہ کرتا ھے اگر ھم متوجہ نہ ھو ں تو بغير يہ جانے ھوئے کہ ھمارا مخاطب ھم سے کيا کھنا چاھتا ھے خود بخود ھمارے اندر دفاع کي حالت پيدا ھو جاتى ھے ۔ ھم ميں سے ھر شخص اپنے اوپر نقد و تبصرہ سن کر چيں بہ جبيں ھو جاتا ھے اور تعريف و تحسين سے خوشحال ھو جاتا ھے بغير يہ سوچے ھوئے کہ ھمارى جو تنقيد يا تحسين کى جار ھى ھے وہ غلط ھے يا صحيح ؟در اصل ھم استدلال و منطق کى مخلوق نھيں ھيں بلکہ ھم احساسات و جذبات کي مخلوق ھيں ۔ ايک گھرے و تاريک و متلاطم سمندر ميں جس طرح ايک چھوٹى سى کشتى ادھر ادھر اچھلتى رھتي ھے اسى طرح ھمارى عقل و منطق بھى ھے ھم ميں سے اکثر لوگ اپنے بارے ميں بھت زيادہ خوش فھمى ميں مبتلاء ھوتے ھيں ۔ ليکن جب چاليس سال پيچھے کى طرف ديکھتے ھيں تو اپنى موجودہ حالت پر ھنسى آتي ھے۔حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا : اگر کوئى دوسروں کے عيوب تلاش کرتا ھے تو اس کو پھلے اپنى ذات سے ابتدا ء کرنى چاھئے ۔( ۵)ڈاکٹر ھيلن شاختر کھتا ھے : دوسروں کى رفتار و گفتار پر بے جا اعتراض کرنے سے بھتر يہ ھے کہ ان کى مدد کريں ۔جاھل شخص اپنے عيوب کو دور کرنے کے بجائے اس کے چھپانے کى کوشش کرتا ھے ۔حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں : انسان کى خود فريبى و نادانى کے لئے يھى کافى ھے کہ دوسروں کے عيوب کا مشاھدہ کرتے ھوئے اپنے عيوب کو چھپانے کى کوشش کرتا ھے ۔ (۶)ڈاکٹر آويبورى کھتا ھے : ھم اپنى جھالت کى وجہ سے اپنے بھت سے عيوب سے چشم پوشى کرتے ھيں ،اور ان عيوب پر غفلت و تجاھل کا پردہ اس لئے ڈالتے ھيں تاکہ اپنے نفس کو دھوکہ دے سکيں ۔ سب سے زيادہ اس پر تعجب ھے کہ ھم اپنے عيبوں کو تو لوگوں کى نظروں سے چھپانے کى کوشش کرتے ھيں ليکن ان کے اصلاح کى طرف بالکل نھيں سوچتے اور اگر ھمارا کوئى ايسا عيب ظاھر ھو جائے جس کے چھپانے پر ھم قادر نہ ھوں تو ھزاروں ايسے عذر پيدا کر ليتے ھيں جس سے اپنے نفس کو راضى کر سکيں اور دوسروں کو بيوقوف بنا سکيں جس کا مقصد صرف يہ ھوتا ھے کہ لوگوں کى نظروں ميں اس عيب کى اھميت کم کر سکيں ، حالانکہ ھم اس حقيقت سے غافل ھوتے ھيں کہ عيب چاھے جتنا ھلکا ھو وہ مرور ايام کے ساتھ ثقيل ھو تا جاتا ھے ۔جيسے بيج رفتہ رفتہ بھت بڑا درخت بن جاتا ھے ۔ ( ۷)آج علمائے نفس کے يھاں يہ بات پايھٴ ثبوت کو پھونچ چکى ھے کہ نفس کى بيماريوں اور اس کے علاج کا صرف ايک ھي طريقہ ھے کہ نفس کا مطالعہ کيا جائے اور اس کے بارے ميں غور و فکر کى جائے ۔حضرت على عليہ السلام نے بھى نفساني بيماريوں کا علاج اسى طرح بيان فرمايا ھے چنانچہ ارشاد فرمايا : ھر عقلمند پر لازم ھے کہ اپنے نفس ( کي بيماريوں ) کا احصاء کرے اور ايمان و عقيدہ و اخلاق و آداب کے سلسلہ ميں نفس و روح کے مفاسد و رذائل کو حاصل کر لے يا ان کو اپنے سينے ميں محفوظ کر لے يا کسي ڈائرى ميں لکہ لے اس کے بعد ان کو جڑ سے اکھاڑ پھينکنے کے لئے اقدامات کرے ۔ ( ۸)
خود شناسى کے اصول1بيٹھ جاؤ اور گھر والوں سے کھہ دو کہ کوئى بھى مجھے ڈسٹرب نہ کرے جگہ جتنى پر سکون و آرام دہ ھو اور تم بھى جس قدر آرام سے ھو کسى قسم کى جلدى نہ ھو اتنا ھى بھتر ھے جب تم کسى کام کو کرنا چاھو تو اس کى بنياد ى شرط يہ ھے کہ تمھارا ذھن بھت پر سکون ھو کوئى شور وغل نہ ھو ، حواس جمع ھوں ، تمھارا ذھن کسى بھي جسمانى ضرورت کا محتاج نہ ھو ۔ اس کے ساتھ ھى اپنے پاس ( گندمى رنگ کا ) کافى مقدار ميں کم قيمت کاغذ اور فاوٴنٹن پن بھى رکہ لو ، ھم نے کم قيمت کا غذ کو اس لئے کھا تاکہ اس کے خرچ کرنے ميں تم کو تکليف نہ ھو اور تم احتياط سے نہ کام لينے لگو اور فاؤنٹن پن کى قيد اس لئے لگائى ھے کہ اس وقت ھزاروں روحانى و نفسانى عوامل آپ کو گھيرے ميں لئے ھوں گے تاکہ تم اپنے مقصد يعنى مطالعھٴ نفس سے منصرف نہ ھو جاؤ !!! اس کے بعد تمھارے ذھن ميں آج ياگزرے ھوئے کل کے سلسلہ ميں جتنے بھى احساسات و جذبات رھے ھوں ان کى ايک فھرست بنا ڈالو ۔ فھرست مکمل کرنے کے بعد ان جذبات کو ايک ايک کر کے سوچو اور ھر فکر کى مناسبت سے جو بھى خيالات تمھارے ذھن ميں آئيں ان سب کو لکھتے جاؤ چاھے وہ جتنے طولانى ھوں ۔جب تم اس دن کے اپنے اعمال و افکار و احساسات کو بتائے ھوئے طريقے کے مطابق لکہ چکو تو اپنے سامنے حب نفس ،گوشہ نشينى تکبر اور ۔ ۔ ۔ کو رکھو اس کے بعد اپنى نظر کے سامنے ايک ايک کر کے تمام اعمال ، افکار ، احساسات کو لاؤ اور پھر اپنے نفس سے سوال کرو :يہ عمل ان احساسات کے ساتھ کس وجہ سے تھا ؟ کس نے اس کے لئے ابھارا تھا ؟اور اس مطالعہ نفس کا اصلى مقصد يہ ھے کہ مريض کى روحانى شخصيت ميں اتنا تغير پيدا کر ديا جائے جتنے سے اس کى زندہ روحانى طاقت اس کو اس کے عصبى حالات سے نجات دلا سکے اور اس کے نفسياتي تضاد کو دور کر سکے اور وہ اپنے اندر جديد شخصيت کا احساس کر سکے ۔ اور اپنى زندگى ميں نئے مقاصد و معانى پيدا کر سکے ۔ يعنى مختصر طور سے اس طرح سمجھئے کہ اپني زندگى ميں اپنى ذات کے لئے نئے طريقے ايجاد کر سکے ۔ جو سابق طريقوں سے مختلف ھوں ۔ ( ۹)
حوالے۱۔سورہ ھمزہ/۱۲۔کافى ج /۲ ص/ ۲۴۷۳۔کافى ج/۲ ،ص/ ۴۵۹۴۔غرر الحکم ص/ ۱۴۸۵۔غرر الحکم ص/ ۶۵۹۶۔ غرر الحکم ص/ ۵۵۹۷۔در جستجو ئے خوش بختى۸۔غرر الحکم ص /۴۴۸۹۔کتاب روانکاوى
 

http://shiastudies.com/ur/853/%d8%aa%d8%ac%d8%b3%d8%b3-%d9%88-%d8%b9%d9%8a%d8%a8-%d8%ac%d9%88%d8%a6%d9%89/

تبصرے
Loading...