کیا یه کهنا صحیح هے که خداوند متعال ایک انرجی هے؟

پهلے هم انر جی کا لفظی مفهوم بیان کریں گے ، اس کے بعد انر جی کی خصوصیات پر بحث کریں گے – تیسرے مرحله میں هم انرجی کی خصوصیات اور خدا کی صفات کے در میان موازنه کریں گے- (یه موازنه هم علم فزیکس کے منابع اور قرآن مجید اور استدلال عقلی و منابع کلامی سے استفاده کر کے انجام دیں گے) –آخر پر مطالب کو جمع کرکے بحث کو خاتمه بخشیں گے-

انرجی کی تعریف :

” انر جی، کام کو انجام دینے کی قابلیت کو مشخص کرتی هے – اس کی مختلف صورتیں هو سکتی هیں اور یه ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل هو سکتی هے[1]-“

انرجی کی خصوصیات :

مذکوره علمی تعریف کے پیش نظر اور منابع علمی [2]میں پیش کئےگئے نکات کے پیش نظر ، انر جی کے مفهوم کی اهم خصوصیات کو حسب ذیل بیان کیا جاسکتا هے :

١- انرجی، ماده اور اس کے ظرف کے محتوی کی ایک خاصیت هے ( مثال کے طور پر سورج کی روشنی، بعض لوگ اس کے بارے میں تصور کرتے هیں سر چشمه کے بغیر ایک ماده هے ، حقیقت میں مواد کے در میان ایک کیمیائی رد عمل هے[3])

٢- انرجی کا انرجی پیدا کر نے والا (source) هوتا هے اور همیشه فزیکس کا ایک جریان اور کیمیائی رد عمل هے-

٣- انرجی قابل اندازه گیری هوتی هے اور کیمیت رکهتی هے- هر قسم کی انر جی اس کے مولد کے پیش نظر ایک مقدار رکهتی هے اندازه گیری کے قابل هے اور اس کے ابعاد (dimention) هوا کرتے هیں –

٤- انرجی کی توانائی مشخص هوتی هے اور اس کی خاص محدودیتیں هوتی هیں –(مثال کے طور پر روشنی صرف خط مستقیم پر چلتی هے اور کبهی ایک گدلے مانع سے عبور نهیں کرسکتی هے—)

٥- سب سے اهم یه که انرجی کی صورتیں آپس میں قابل تبدیل هیں ، اس طرح که ان کی کیفیت وجنس تبدیل هوتی هے (مثال کے طورپر کشش کی انرجی سپرنگ میں ذخیره هو کر، سپرنگ کے کهلنے پر حرکت کی انر جی میں تبدیل هوتی هے یا بتڈ کے پیچهےپانی کی پوٹنشل انرجی (potential energy) بجلی کی انرجی میں تبدیل هوتی هے) بلکه حالیه دهائیوں کے دوران بڑے سائنسدانوں ، خاص کر آئنسٹا ئن نے ثابت کیا هے که ماده کو انرجی میں تبدیل کر نا اور انرجی کو ماده میں تبدیل کر نا ممکن هے[4]-“

انرجی کی خصوصیات کا صفات الهی سے موازنه :

انرجی کے بارے میں مذکوره خصو صیات اور قرآن مجید اور معتبر[5] اعتقادی کتا بوں میں موجود صفات باری تعالی کے پیش نظر هم مشاهده کرتے هیں که یه خصوصیات خداوند متعال کی صفات سے تناقض رکهتی هیں ،کیونکه خداوند متعال ، واجب الوجود، عالم ، صاحب اراده، هر قسم کی نیاز مندی، محدودیت اور نقص سے پاک ومنزه هے لیکن انرجی ایک ایسی مخلوق هے جس میں نقص، نیاز مندی، محدودیت پائی جاتی هے اور اس میں علم و اراده کا فقدان هے-

پس، خداوند متعال میں نه ماده اور نه اس کے طرف کے محتوی میں سے کوئی خاصیت پائی جاتی هے اور نه (source) اور منبع و علت اور نه کمیت و محدودیت پائی جاتی هے اور نه متغیر و تبدیل هو نے کے قابل هے-

قرآن مجید بهی خداوند متعال کو مطلق بے نیاز اور هر عیب ، نقص و محدودیت سے پاک و منزه معرفی کرتا هے-

کیونکه ایک جگه پر ارشاد فر ماتا هے : ” الله الصمد[6]” یعنی ” بے نیاز معبود” اس لئے معقول نهیں هے که وه کسی چیز کا محتاج هو ، نتیجه کے طور پر خداوند متعال کسی بهی ظرف میں قرار نهیں پایا هے، کیو نکه وه اگر ظرف میں قرار پائے تو اس ظرف کا محتاج هو گا-

کیو نکه یه آیه شریفه کهتی هے که خدا وند معلول نهیں هے اور پیدا کر نے والے کا محتاج نهیں هے بلکه پوری کائنات اس کی محتاج هے اور وه علۃ العلل هے- حضرت علی علیه السلام نے ” الصمد” کی تفسیر میں فرمایا هے : ” صمد کی تفسیر یه هے که وه نه اسم هے اور نه جسم ، نه اس کا کوئی مانند هے اور نه شبیه ، نه اس کی کوئی صورت هے اور نه تصویر اور نه حد و حدود، نه کوئی جگه هے نه مکان — نه نورانی هے اور نه ظلمانی نه روحانی هے اور نه نفسانی اور کسی مکان میں اس کی گنجائش نهیں هے[7]

مذ کوره آیت اور اس سلسله مین بیان کی گئی حدیث سے انر جی اور خداوند متعال کے در میان تفاوت بخوبی واضح هو جاتا هے اور مذ کوره عقلی استد لال کی طرف اشاره کر تا هے –

ایک دوسری جگه پر ارشاد هوا هے : ” اور الله هر شے پر احاطه رکهنے والا هے[8]– ” اس لئے کوئی چیز خدا وند متعال کی اندازه گیری کا وسیله نهیں بن سکتی هے، کیو نکه وه هر شے پر احاطه رکهنے والا هے –

مزید ارشاد هے : ” تو یقیناً هر شے پر قدرت رکهنے والا هے [9]” اس آیه شریفه سے استدلال کیا جاسکتا هے که خداوند متعال میں کسی قسم کی محدودیت نهیں هے-

دوسری جگه پر ارشاد هوتا هے : ” خدا کا طریقه کار کبهی نه بدلنے والاهے نه اس میں کسی طرح کا تغییر هو سکتا هے [10]–” کیو نکه ثابت اور نا قابل تغییر طریقه کار صرف ایک ثابت اور نا قابل تغییر وجود سے صادر هو تے هیں –

ایک اهم نکته :

بیان کیاگیا که نور انر جی کی ایک قسم (صورت) هے، دوسری جانب سے قرآن مجید میں ” نور” کی خداوند متعال سے نسبت دی گئی ، ” الله آسمانوں اور زمین کا نور هے[11]-” اب دیکهنا چاهئے که معتبر تفاسیر میں اس آیت کی کیا تفسیر کی گئی هے :

تفسیر المیزان میں آیا هے که ” نور” کا مراد ” منور” یعنی (آسمانوں وزمین کو) وجود میں لانے والاهے-

” خداوند متعال کا نور وه هے که سب نور اس سے پیدا هو تے هیں اور یه وهی خدا وند متعال کی عمومی رحمت هے[12]-“

تفسیر نور میں آیا هے : نور کا مراد روشنی بخشنا اور هدایت کر نا هے، یعنی خداوند متعال چونکه ایک لا محدود نور هے ، اس لئے کا ئنات کی هدایت کر نے والا اور راهنمائی کر نے والا هے- کیونکه آیه شریفه کے آخر پر ارشاد فر مایا هے: یهدی الله بنوره—[13]

ایک دوسرے بیان میں اس طرح آیا هے که یه خدا هے جس کے وجود کی کرنیں زمین وآسمانوں کو روشنی اور حیات بخشتی هیں اور اگر وه اپنے لطف وکرم میں دریغ کرے تو تمام چیزیں زوال ، خاموشی اور تباهی میں ڈوب جائیں گی اور حتی اگر نور کو ” هر وه چیزجس کی ذات ظاهر و آشکار هے وه غیر کو ظاهر کر نے والی هے ” کی تعریف سے بیان کیا جائے ، پهر بھی خداوند متعال نور مطلق کا مصداق هے[14]

در نتیجه ، انر جی اور خداوند متعال کی صفات سے موازنه کر نے میں عمیق تناقض پایا جاتا هے اور انرجی کو اس کی محدود یتوں ، نواقص اور کمزوریوں کے پیش نظر خدا سے نسبت نهیں دی جاسکتی هے ، کیو نکه پروردگارعالم ، مطلق کمال، قدرت اور علم کا مالک هے، لیکن انر جی کی تمام قسمیں کمزور هیں اور اس کی کوئی قسم خداوند متعال سے قابل موازنه نهیں هے اور اگر انرجی کی کسی قسم کے ساتھـ خدا کی نسبت دی جائے تو مذ کوره  نکات کے پیش نظر اس کی تو جیه کر نا ضروری هے-



[1] – دایرۃ المعارف جهانی (encyclopedia international( ج٦،ص٤٣٢-

[2] – ملاحظه هو :هالیدی کی فزیکس ص١٦٣-١٤٨کار وانرزی-

[3] – سورج کی گرمی کی انرجی، هائیڈروجن ( H   ) کے ایٹموں کے درمیان فیوجن( fusion ) کی وجه سے هائیڈروجن کے مالیکیول(H2) تشکیل پانے کا نتیجه هے- ٢ اس فارمولا کے نتیجه میں (جرمx انرجی)E=mC C*

[5] – مثال کے طور پر نهج البلاغه فیض ص ١٤ والاسفارچ ٦ص ١٣٩ میں حضرت علی علیه السلام سے نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا هے — من قرنه فقد ثناه ومن ثناه جزئه ومن جزئه فقد جهله—،جس نے خدا کو کسی چیز کے مشابه قرار دیا اس نے دوخدا بنائے هیں اور یه اس کی نادانی هے —لیکن اکثر بهی مرکب بهی هے اور قابل مشابه بهی اور یه خصوصیت خدا وند متعال کی صفات سے تناقض رکهتی  هے –مزید مطا لعه کے لئے ملاحظ هو، القول السدید فی شرح التجرید ص ٢٧٤ به بعد-

[6] – سوره توحید،٢-

[7] – بحار الانوار ج٣ص ٢٣٠-

٢- و کان الله بکل شیی محیطا-سوره نساء١٢٦-

[9] – انک علی کل شیی قدیر- تحریم ،٨-

[10]-سوره فا طر/٤٣-

[11]– ” الله نور السماوات ولارض —“-سوره نور،٣٥-

[12] – نوره تعالی من حیث یشرف منه نور العالم الذی یشیر به کل شیی وهو الرحمۃ العامه ، المیزان ،ج١٥،ص١٢٢-

[13] – تفسیر نور ج٨ ص ١٨٥با تصرف وتغییر-

[14] – تفسیر نمو نه ،ج٣ص ٢٩٧شرح آیه ٣٥ سوره ی نور-

تبصرے
Loading...