کیا “کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” کوئی روایت یا حدیث هے؟ اور اس کی سند و اعتبار کس حد تک صحیح هے؟

کیا “کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” کوئی روایت یا حدیث هے؟ اور اس کی سند و اعتبار کس حد تک صحیح هے؟

حدیث کی کتابوں میں ہمیں ایسی کوئی سند نهیں ملی[1]، جس سے ثابت ہوجائے کہ: “کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” کسی معصوم کی حدیث ہے[2]-

لیکن یہ عبارت، کربلا کے واقعہ اور امامت سے متعلق احادیث کے مجموعہ کے مفاهیم کی عکاسی کرتی ہے اور اس میں ایک سبق آموز اور خوبصورت پیغام ہے، کیونکہ اگرچہ عاشورا جیسا دن رونما نہیں ہوگا، لیکن ہمیشه ظالموں کا ظلم اور مظلوموں پر ستم جاری ہے اور یہ ظلم وستم قائم آل محمد{عج} کے ظهور تک جاری رہے گا اور وہی ظهور کر کے اس ظلم وستم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکیں گے۔ لیکن زمان و مکان پر جاری عاشورا کی ثقافت اور کربلا، مقصد کی راه میں ظلم و ستم اور بے انصافی سے مبارزه اور استقامت کی علامت ہے۔ ہمارے ائمہ اطهار علیهم السلام نے ہمیں ظالم سے مقابلہ کرنا سکھایا ہے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے اور عاشورا ایک زمان و مکان کی محدودیت میں بند نہیں ہو سکتا ہے۔

“کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا” کا جملہ ہر زمان و مکان میں حق و باطل کی جنگ کے جاری رہنے کی طرف اشاره ہے۔ عاشورا اور کربلا اس طولانی زنجیر کی واضح ترین کڑی ہے۔ حق و باطل ہمیشه ایک دوسرے کے مقابلے میں برسر پیکار ہوتے ہیں اور آزاد انسانوں کا فریضہ حق کی پاسداری اور باطل سے پیکار کرنا ہے اور حق و باطل کے اس معرکہ سے دامن بچا کر گزر جانا، بے دینی ہے۔

حضرت امام خمینی{رح}، جو امام حسین علیه السلام کے حقیقی پیرو تھے اور اسلامی جمهوریہ کے بانی اور عصر حاضر کے ظالموں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے مبارز ہیں، اس جمله کو ایک “عظیم کلام ” سے یاد کرتے ہیں اور عاشورا کے معنی کی حفاظت کرنے اور کربلا کے درس کو عملی جامہ پهنانے کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” یه جمله { کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا} ایک عظیم جملہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ہماری قوم کو ہر دن کی یہی تفسیر کرنی چاہئیے که آج عاشورا ہے اور ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے اور یہیں پر کربلا ہے اور ہمیں کربلا کے کردار پر عمل کرنا چاہئیے، یہ صرف ایک سرزمین تک محدود نہیں ہے۔ ایک ہی قسم کے افراد میں محدود نہیں ہے۔ کربلا کا قضیہ صرف ستر سے زائد افراد اور ایک سرزمین کربلا تک محدود نہیں، تمام زمینوں کو یہ کردار ادا کرنا چاہئیے[3]-“

حقیقت میں امام خمینی{رح} نے اپنے اسلامی انقلاب کو حسینی تحریک کی بنیادوں پر قرار دیا اور وه یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ سید الشهداء امام حسین علیه السلام کا قیام اور آپ {ع} کی شہادت کو مسلمانوں کے اجتماعی طور پر کام کرنے کا معیار قرار دیا جانا چاہئیے۔ اس سلسلہ میں امام خمینی{رح} فرماتے ہیں:” جو کام سید الشهداء {ع} نے انجام دیا، اور جو نصب العین وه رکھتے تھے اور جس راه پر وه چلے اور کامیابی انہیں شہادت کے بعد حاصل ہوئی وه اسلام کے لیے حاصل ہوئی۔ یہ سبق آموز عبارت فریضہ بھی ہے اور خوشخبری بھی، فریضہ اس لحاظ سے که مستضعفین پر فرض ہے که وه کیل کانٹے سے لیس سامراجی اور شیطانی طاقتوں کے خلاف، سید الشهداء{ع} کے مانند قیام کریں۔ اور خوشخبری اس لحاظ سے ہے که ہمارے شہیدوں کو کربلا کے شہیدوں میں شمار کیا گیا ہے۔”

اس رہبر عظیم الشان نے جنگ کے دوران فرمایا:” کربلا کی جنگ اگرچہ زمانہ کے لحاظ سے سب سے مختصر {نصف دن کی} جنگ تھی، لیکن ایک لحاظ سے یہ ظلم و باطل سے طویل ترین جنگ ہے اور جب تک ہر تمنا رکھنے والا یہ آرزو کرے کہ کاش میں بھی کربلا میں ہوتا اور سید الشهداء کی مدد کرتے ہوئے شہادت پر فائز ہوتا {یا لیتنا کنا معکم‏ فـنفوز فوزاً عظیماً [4]} اس کے لیے کربلا کا محاذ گرم اور عاشورا کا معرکہ جاری ہے[5]-“

بہتر الفاظ میں، جس طرح امام حسین علیه السلام، آدم، ابراھیم، نوح {علیهم السلام} اور محمد مصطفٰے {صلی الله علیه وآلہ} کے وارث ہیں، اسی طرح عاشورا کے پیرو بھی خط سرخ شہادت کے وارث ہیں اور وه کربلا کے پرچم کو زمین پر گرنے نہیں دیتے اور سیاسی پہلو میں یہی تشیع کا جوہر ہے، چنانچہ خود امام حسین علیه السلام فرماتے ہیں: فلکم فیّ اسوۃ، میرا کام، آپ لوگوں کے لیے مثال ہے[6]-“

یہ نظریہ، اس نظریہ کو مسترد کرتا ہے، جو کربلا اور حسین علیه السلام کے قیام کو صرف امام{ع} تک محدود فریضہ جانتے ہیں، جس کی پیروی نہیں کی جا سکتی ہے۔

ایک مصنف لکھتا ہے:” ہمیں یقین ہے که اگر امام حسین علیه السلام ہمارے زمانہ میں ہوتے، تو قدس، جنوب لبنان اور مسلمانوں کے اکثر علاقوں میں دوسرا کربلا برپا کرتے اور وہی موقف اختیار کرتے، جو انهوں نے معاویہ اور یزید کے مقابلے میں اختیار کیا تھا-“

 حواله

[1] البتہ بعض لوگوں نے مزکوره جملہ کو مدرک و ماخذ کے بغیر امام صادق{ع} کی زبان سے نقل کیا ہے، ملاخطہ ہو: پیام عاشورا، عباس عزیزی،ص28؛ فرهنگ عاشورا، جواد محدثی، ص371..

[2] البته کچھ لوگوں نے ایسے قرائن بیان کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ معصومین کی حدیث نہیں ہے، ملاخطہ ہو: مجلہ ی علوم حدیث، شماره 26..

[3] صحیفہ نور،ج 9،ص 202.

[4] زیارت عاشورا.

[5] صحیفہ نور،ج 20،ص 195.

[6] تاریخ طبری،ج 4،ص 304.

[7] ابیاتی از مثنوی:«شیعه نامه‏»،محمد رضا آقاسی (کیهان 12/6/71).

تبصرے
Loading...