کیا پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے تمام الفاظ اور کلام وحی هوتے تھے یا نهیں ؟

کیا پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے تمام الفاظ اور کلام وحی هوتے تھے یا نهیں ؟ دوسرے الفاظ میں ، کیا رسول خدا (صل الله علیه وآله وسلم) کی زبان پر جاری هونے والے تمام کلام اور اسی کے ذیل میں آپ (صل الله علیه وآله وسلم) کے تمام اعمال و کرادر الهٰی تعلیمات تھے جو وحی کے ذریعه آپ تک پهنچتے تھے یا نهیں آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) خود بھی وحی کے بغیر کلام کرتے تھے یا یه که آپ(صل الله علیه وآله وسلم) کا وه کلام جو دین و احکام سے مربوط هے اور وه کلام جو روزمره کی عام زندگی کا محاوره تھے ان دونوں میں فرق کا قائل هونا چاهیئے ؟

ایک مختصر

اس سلسله میں صاحب نظر حضرات کے نظریات مختلف هیں :

بعض سوره نجم آیت 3-4[i] کے اطلاق کے پیش نظر یه عقیده رکھتے هیں که پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کا تمام تر کلام و اعمال و کردار وحی کی بنیاد پر هے ۔

بعض کا یه بھی عقیده هے که سوره نجم کی آیت نمبر4 قرآن مجید اور آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) پر نازل هونے والی آیتوں کے بارے میں هے ۔ هر چند آپ (صل الله علیه وآله وسلم) کی سنت حجت هے اور آپ کا سکوت ، کلام اور رفتار وکردار هوا و هوس کی بنیاد پر نهیں هوتا تھا۔

ﺴﻤﺠﮭ میں یهی آتا هے که اس سلسله میں جو بات یقینی طور پر کهی جا سکتی هے وه یه هے که پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کا کوئی فعل و عمل ، وحی کے بغیر نهیں هوتا تھا جس طرح آپ (صل الله علیه وآله وسلم) کا کلام اس خصوصیت کا حمل تھا اسی طرح آپ (صل الله علیه وآله وسلم) کی روزمره کی عام زندگی میں استعمال کیئے جانے والے محاورے بھی اپنی خواهش سے خالی هوتے تھے ، حقیقت میں یه محال تھا که اس وادی میں بھی آپ کے دامن پر گناه کا دھبا لگے ۔

 

[i]  و ما ینطقُ عن الهویٰ ان هو الّا وحیٌ یوحیٰ

تفصیلی جوابات

یقیناً نبیوں (علیهم السلام) کا خداوند عالم کی ذات سے مخصوص رابطه رها هے ، جس کے ذریعه وه احکام ، قانون اور الٰهی تعلیمات کو حاصل کر کے لوگوں تک پهنچا تے تھے ۔

اس رابطه کی حقیقت و ماهیت نهایت پیچیده هے جس کے سمجھنے سے انسان عاجز هے ، البته اس کا مطلب یه نهیں هے که انسان اس موضوع کے بارے میں جاهل مطلق هے ۔ یه الفاظ دیگر وحی ان موضوعات میں سے نهیں هے جس کی گهرائیوں تک پهنچنے کی انسان طاقت نهیں رکھتا لهذا اسے یوں هی چھوڑدے ، بلکه اپنی عقل اور درک و فهم کی وسعت کے لحاظ سے وحی اور الله کے کلام کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔

وحی لغت میں :

علم و غیره کے پهنچانے کا ایک قاعده اور اصل هے ۔

وحی کے خصوصیات یه هیں : رسالت اور کتاب کی طرف سریع اشاره اور تیز اشاره ، کبھی رمزو راز کا اعلان هے ، کبھی کسی ترکیب کے بغیر بعض اعضا کی طرف اشاره، اور کبھی الهام یا راز کی بات هے ۔ لهذا پنهان هونا ،سریع اور رمزدار (راز دار) هونا وحی کے اصل رکن شمار هوتے هیں [1]

وحی کی حقیقت :

اکثر وحی علم وادراک کی صنف سے هے نه که عمل و حرکت کی جنس سے هر چند انسان عمل کے وقت فکرو نظر سے مدد لیتا هے ،علم و ادراک ایک خاص قسم کا وجود هے جو ماهیت سے پاک و منزه هے ۔ به الفاظ دیگر وحی ایک ایسا مفهوم هے جو که ((هستی)) وجود سے لیا گیا هے اسی لیئے اس کی ماهیت نهیں هے اور جنس و فصل اور حد و رسم کے ذریعه اس کی تعریف بھی نهیں کی جاسکتی ، پس وحی ماهیت کے مشهور مقوله سے پاک و منزه هے ، وحی کا مفهوم ۔ هستی (وجود) کے معنی کی طرح ﮐﭽﮭ ایسے مصداق کا حامل هے جس کے مختلف مرحلے هیں [2] ۔ لهذا وحی کے سلسله میں کی جانے والی هر تعریف شرح الاسم هے نه که حقیقی تعریف ، اس کے علاوه وحی ایک عام رابطه نهیں هے جس کا درک کرنا هر ایک کے لیئے ممکن هوجائے ۔

وحی کی تعریف :

علامه طباطبائی وحی کی تعریف میں فرماتے هیں که ((وحی پیغمبروں (علیهم السلام) کے اندر ایک مخصوص درک و فهم اور شعور کا نام هے جسے سمجھنا لوگوں میں سے اکا دکا افراد ، جو مشمول عنایت پروردگا عالم هیں ، کوهی نصیب هے ))[3] ۔

موصوف دوسرے مقام پر لکھتے هیں ((وحی باطنی و معنوی ادراک کی قسم سے ایک غیر معمولی امر هے ایسا رمز دار شعور هے جو ظاهری حواس سے پنهاں هے [4] ۔

مذکوره سوال کے جواب میں یه کهنا چاهیئے :

علمائے اسلام نے آیات و روایات سے استفاده کرتے هوئے مختلف اور متفاوت نظرئے پیش کیئے هیں ۔ عبد الرزاق لاهیچی اس بارے میں لکھتے هیں : اگر کوئی شخص یه خیال کرتا هے که پیغمبر(صل الله علیه وآله وسلم) نے وحی کا انتظار کیئے بغیر کسی امر کو اپنی مرضی سے انجام دیا هے اگر چه وه نبوت و نبی کی حقیقت سے جاهل کیوں نه رهاهوں ایسے شخص کا عقل کے نزدیک دین سے خارج هونا قریب ترهے ، خاص کر جب که یه قرآنی نص کے مخالف هے ( وماینطق عن الهویٰ [5] ، ان هو الّا وحیٌ یوحیٰ[6]) اور اسے بعض امر سے مخصوص کرنا بڑی پست اور رکیک بات هے ، اس لیئے که دین سے متعلق تمام امور ، اذن الٰهی اور وحی ربانی کے محتاج هونے میں مساوی هیں اور جب پیغمبر(صل الله علیه وآله وسلم) اپنی رائے پر عمل نهیں کرسکتے تو دوسرے کو اپنی رائے پر عمل کرنے کا کیا حق [7] ۔

تفسیر نمونه سے بھی یهی مطلب حاصل هوتا هے که ارشاد قرآن((ان هو الّا وحیٌ یوحیٰ )) صرف قرآنی آیات کے بارے میں هے بلکه گذشته آیتوں کے قرینے کے ذریعه پیغمبر(صل الله علیه وآله وسلم) کی سنت کو بھی شامل هے ۔ آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) کی صرف گفتار هی نهیں بلکه رفتار و کردار بھی الٰهی وحی کے مطابق هوتے هیں اس لیئے که سوره نجم کی آیت نمبر 3 ، 4 میں صراحت کے ساﺘﮭ بیان کیا هے : وه (پیغمبر(صل الله علیه وآله وسلم) ) هوا اور هوس کی بنیاد پر کلام نهیں کرتے جو بھی کهتے هیں وه وحی هے [8] ۔

علامه طباطبائی آیت(( وماینطق عن الهوی)) کی تفسیر کے ذیل میں لیکھتے هیں: (( ماینطق)) مطلق هے اور اس اطلاق کا تقاضا یه هے که پیغمبر (صل الله علیه وآله وسلم) کے تمام تر کلام سے هوائے نفس کی نفی هوئی هو لیکن چوں که ان آیات میں ((صاحبکم ))[9] خطاب مشرکین سے هے [10] ۔ لهذا قرینه مقامی کی بنیاد پر یه کهنا بهتر هوگا که اس کا مطلب یه هے که آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) مشرکوں کو جس چیز کی طرف دعوت دے رهے هیں یا وه آیتیں جن کی وه ان لوگوں کے سامنے تلاوت کررهے هیں وه وحی هے جو آپ پر نازل هوئی هے [11] ۔

یعنی یه آیت ، کائنات و ارشاد سے متعلق مسائل نه که دنیا کے جزئیات سے مربوط پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کی هر دینی و مذهبی [12] گفتگو کو وحی ثابت کرتی هے [13]۔

البته یه احتمال بھی غیر قابل قبول هے که آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) کے انفرادی و خانواری امور میں بولے جانے والے الفاظ اور امر و نهی جیسے وه اپنی بیوی سے فرمائیں که اس پانی کے ظرف کو همیں دو وغیره هوائے نفس کی بنیاد پر هوں [14] ۔ پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم)کو اس طرح کی گفتگو میں بھی عصمت کی پشت پناهی حاصل تھی اور آپ خطا یا غلطی کے مرتکب نهیں هوتے تھے [15] ۔

لهذا اس موضوع سے مربوط آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) کی گفتار و کردار [16] سے بھی اس امر کے جائز هونے اور اس کے خدا کی مرضی کے خلاف نه هونے کا ستفاده ، اس لیئے اگر ان اعمال میں کوئی مضائقه هوتا تو آنحضرت (صل الله علیه وآله وسلم) اسے انجام نه دیتے ۔

مزید مطالعه و تحقیق کے لیئے مذکوره مأخذ کی طرف رجوع کریں:تأملات در علم اصول فقه/سلسله درس ھاے خارج علم اصول ، کتاب اوّل ، دفتر پنجم ، مبادی صدوری سنت/ مرتبه و دامنه عصمت ، ص 34-67 ، استاد مهدی هادوی تهرانی۔

 

[1]  راغب اصفهانی ، مفردات الفاظ قرآن ، ماده وحی

[2]  مزید معلومات کے لیئے مذکوره منابع کی طرف رجوع کریں : وحی و نبوت در قرآن ، جوادی آملی / مبانی کلامی اجتهاد در برداشت از قرآن کریم ، هادوی تهرانی ، صص77- 78 ۔

[3]  طباطبائی ، محمد حسین ،المیزان ( فارسی ترجمه) ج 2،ص159

[4]  طباطبائی ،محمد حسین ، المیزان (ترجمه فارسی) ، ج 2 ، ص160/ اسی طرح مزید معلومات کے لیئے مذکوره کتابوں کی طرف رجوع کریں : مبانی کلامی اجتهاد در برادشت از قرآن کریم ، استاد هادوی تهرانی ، صص77-78 / قلمرو دین ، خسرو پناه ، عبد الحسین ، صص170-130 اور سوال نمبر 88

[5]  سوره نجم /3

[6]  سوره نجم /4

[7]  فیاض لاهیجی ، عبد الرزاق ، گوهر مراد ، ص461

[8]  تفسیر نمونه ، ج 22 ، ص481

[9]  سوره نجم/ 10

[10]  وه مشرک جو پیغمبر (صل الله علیه وآله وسلم) کی دعوت اور قرآن کو جس کی آپ (صل الله علیه وآله وسلم) ان کے سامنے تلاوت کرتے تھے خدا پر افتراء سمجھتے تھے ۔

[11]  المیزان( فارسی ترجمه) محمد حسین طباطبائی ، ج 19 ، ص42 ؛ مهر تابان ، سید محمد حسین حسینی تهرانی ، صص212- 213 ۔

[12]  ایک دینی عنصر وه عنصر هے جو انسان کی واقعی و حقیقی سعادت میں اهم کردار ادا کرتا هے ۔

[13]  تفسیر موضوعی قرآن، سیره رسول اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) در قرآن ، جوادی آملی ، عبد الله ، ج 8 ،ص32 ۔

[14]  غور کیجئے هماری گفتگوان لوگوں کے کلام سے بالاتر هے جو یه کهتے هیں که رسول خدا (صل الله علیه وآله وسلم) کی شخصیت رسالت اور وحی کی خصوصیت کے علاوه اپنے زمانه میں ایک ممتاز و باتجربه شخصیت تھی لهذا آپ (صل الله علیه وآله وسلم) کے کلام دو قسم کے هوسکتے هیں : الف۔ وحی والا کلام جیسے قرآن مجید اور حدیث قدسی ۔ ب۔ عقلی و حکیمانه کلام جس کا سرچشمه آپ (صل الله علیه وآله وسلم) کی باشعور و ممتاز شخصیت هے ۔

[15]  اگر چه اس کے مذهبی و دیدنی هونے کو ثابت نهیں کیا جا سکتا اور نه هی ان دونوں کے درمیان تلازم قائل هوا جا سکتا ، یعنی یه کها جائے که معصوم کسی بھی وقت غفلت ، خطا و نسیان اور گناه کا مرتکب نهیں هوتا چاهے اس کی رفتار و گفتار ایک دینی امر کے تعلق هو یا غیر دینی امر هو ،لهذا اگر معصوم کوئی ایسی حقیقت بیان کرے جو دینی نه هو مثلاً ایک علمی بات بتائے تو یقیناً اس کی یه بات واقع کے مطابق هوگی جس طرح اگر وه کوئی شرعی یا دینی مطلب بیان کرتا هے تو اس کی اس بات میں کوئی غلطی نهیں هوتی (تأملات در اصول فقه ، کتاب اوّل ، دفتر پنجم ، مبادی صدور سنت ، مرتبه و دامنه عصمت ، ص 35 ۔

[16] آیه (( وما ینطق عن الهویٰ ))سے یه استفاده هوتا هے که پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) کے اقوال کے علاوه ان کا کردار و اعمال بھی کبھی بھی اذن وحی کے بغیر نهیں رهاهے اگر بالفرض اتنے وسیع مطلب کو آیت سے استنباط نه کر سکیں تو کم از کم دیگر آیتوں مثلاً سوره انعام آیت 5 وغیره سے یه مطلب ظاهر هوتا هے ، جوادی آملی ، عبد الله ، تفسیر موضوعی قرآن سیره رسول اکرم در قرآن ، ج 8 ، ص33 ۔

تبصرے
Loading...