کیا معاشره کا دین قابل تغییر هے؟

مذکوره سوال کے جواب کے سلسله میں پهلے ضروری هے که سوال کی مراد واضح هو جائے – کبھی ممکن هے ، معاشره کے دین میں تغییر کی مراد ، ایک معاشره میں قبول کئے گئے ، اصل دین الهی و حق میں تغییر هو ، اس فرض کی بناپر ، عناصر دینی کے ثبات وعدم ثبات اور معرفت دینی کے مسئله اور اس کی محدودیت و وسعت پر بحث هو گی ، که شاید ، لفظ “دین” پر ” معاشره” کو اضافه کر نے کے پیش نظر ، سوال کر نے والے کی مراد یه نه هو اور اس پر بحث کر نے کے لئے ایک اور فرصت کی ضرورت هے-[1]

اور کبھی، معاشره کے افراد کے باور اور اعتقادات اور ان کے نظریات و رجحانات میں تغییر مراد هو تی هے ، اس فرض کی بناپر ، اجمالی طور پر کها جاسکتا هے که: جی هاں، قابل تغییر هے ، اور اس کے تفصیلی جواب سے پهلے، اس مطلب کو بیان کر نا ضروری هے که “دینی معاشره” سے کا مراد کیا هے اور اس کی کیا خصوصیات هیں؟ ایک معاشره کو رسمی ، صنعتی ، دیهاتی ، شهری اور دینی معاشره جیسی چیزوں سے سجانا ، اس معاشره کے اجتماعی روابط اور مناسبات کی تشکیل کے طریقه کار کا نتیجه هو تا هے- مثال کے طور پر ایک جا گیر دارانه معاشره ایک ترقی یافته معاشره سے اسی رابطه کے لحاظ سے متمائز هے-

جب تک اجتماعی روابط کی مختلف شکلیں اور نمو نے دین کے مطابق منظم نه هوں اور اپنے اجتماعی مناسبات کی نسبت کو دین کے مطابق نه تولا جائے ، تو دینی افراد کا جمع هو نا ، دینی معاشره کے وجود میں آنے کا سبب نهیں بن سکتا هے-

” دینی معاشره” ،ایک ایسا معاشره هے جس میں حکمیت، دین کو حاصل هو اور اس کے افراد همیشه اپنے آپ کو دین سے هم آهنگ کریں – دینی معاشره کو دین کا احساس هو تا هے اور دین کے ساتهـ اپنے آپ کو هم آهنگ کر نے کی ضرورت خیال اور  احساس ، انسان کے صرف انفرادی وعبادتی امور اور ذاتی اخلاق تک هی محدود نهیں هے ، بلکه دین اور تمام امور کے در میان نسبت اور اجتماعی روابط کو تولا جانا چاهئے اور اجتماعی روابط کے تمام خطوط اور زاویوں پر دین کی حاکمیت نافذ هونی چاهئے- اس کے  یه معنی نهیں هیں که دینی معاشره تمام چیزوں کو دین سے هی اخذ واقتباس کرے، اور انسان کی عقل و دانش اور تجربه جیسے منابع کی کوئی اهمیت اور ضرورت نه هو، نهیں ،ایسا نهیں هے- [2]

سوال کے جواب کے سلسله میں، یه مطلب قابل ذکر هے که، خلقت کا نظام حق کی بنیاد پر استوار هے اور اس میں باطل کی کوئی گنجا ئش نهیں هے ، اور هر رسم جو حق کے مطابق نه هو وه زوال سے دو چار هو گی اور کوئی رسم وسنت، حق کے ساتھـ مقابله کر نے کی  طاقت نهیں رکھتی هے اور ناقابل شکست وزوال سنت، وهی حق کی فتح اور باطل کی شکست و نابودی هے اور یه سنت نظام خلقت کا عام اور لافانی اصول هے-

چونکه فتح و کامرانی حق کی هوتی هے اور باطل زوال پذیر هو تا هے ، اس لئے کوئی بھی معاشره تب کامیاب هو گا، جب حق کو پهچاننے میں خطا نه کرے اور حقیقت تک پهنچ جائے اور حق پر عمل کر نے میں بھی کامیاب هو، یعنی اعتقادی بنیادوں کے لحاظ سے، مکمل ایمان کا حامل هو، اس کے علاوه احکام اسلامی کے لحاظ سے بھی صحیح اور قابل عمل پرو گرام رکھتا هو- [3]

قرآن مجید اور اسلامی روایات کے مطابق ، فکری اور اعتقادی قلمرو میں کامیابی یا شکست کا کلیدی رول هو تا هے – چونکه ثقافتی یلغار میں شکست کے خطرات نظامی حملوں کے بر خلاف لوگوں کے دینی اعتقادات و تفکر کو لاحق هو تے هیں، اس لئے غفلت کی صورت میں مسلمانوں کی دنیا وآخرت کی انسانیت و سعادت خطره میں پڑتی هے – قرآن مجید نے بھی غیر معمولی اهمیت کے ساتھـ اس کی طرف اشاره کیا هے ، اور اس سلسله میں وه خبردار کر تا هے ، اور دین میں فتنه اور ثقافتی یلغار کو فوجی حمله سے زیاده خطر ناک جانتا هے – مسلمانوں کو اس سلسله میں غفلت برتنے سے خبردار کر تا هے اور فوجی فتنه اور حمله کو اس کے مقابله میں کم اهمیت وکم خطر جانتا هے – سوره بقره کی آیت نمبر ١٩١ میں فر ماتا هے :” اور ان مشرکین کو (جو هر قسم کا ظلم روا رکھنے میں کوئی کسر باقی نهیں رکھتے) جهاں پاٶ قتل کردواور جس طرح انهوں نے تم کو (مکه سے) آواره وطن کر دیا هے تم بھی انهیں نکال باهر کردو اور فتنه پرداری (بت پرستی) تو قتل سے بھی بد تر هے- “

پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے ایک حدیث کے ضمن میں ، دنیا پرستوں کی طرف سے دین میں ایجاد کئے جانے والے فتنوں میں سے تین قسم کے فتنوں کی طرف اشاره فر مایا هے ، جو عبارت هیں: ١- اموال میں فتنه ٢- اعتقادی فتنه ٣- جھوٹی توجیهات- [4]

جیسا که اشاره هوا، فتنوں میں سے ایک فتنه ، اعتقادی مسائل کے سلسله میں لوگوں کے ذهنوں میں شبهه کر نا هے – اس طرح که یه کام اعتقاد و نظریه میں پیچیده مسائل کے بارے میں شبهه  کر نے سے شروع کرتے هیں اور اس کے بعد اقدار واهداف پر حمله کر نے اور روشوں کو سوالیه قرار دینے اور نتائج سے مایوس کر نے اور شکست و ناچار گی کو یقینی بنانے کے ذریعه ، پلٹنے ، مغلوب هونے اور باطل کے سامنے سر تسلیم خم هونے اورذلت کو قبول کر نے کو آسان بناتے هیں – فتنوں میں کمزوریوں ، طمع ، ترس ، دهمکیوں… دلکش جلوؤں، اور احتمالی و یقینی مشکلات اور تصادم سے استفاده کرتے هیں – اس روش سے ، ایسی حالت بناتے هیں که معاشره کے لوگ “دین وسنت” سے دست بردار هوجاتے هیں اور بدعت وانحرافات کو اپناتے هیں اور ان میں شیطانوں اور طاغوتوں کو برداشت کر نے کی کیفیت پیدا هوتجا ی هے اوروه خدا، اس کے رسول(ص) اور اولیائے الهی کے جاں نثار نهیں هو سکتے هیں…اور انسان شبهه اور ابهام کے ذریعه جلدی شکار هو تے هیںاور تاریکی اور ابهام میں ، قدریں جلدی هی ظاهرداری  اور دین فروشی کی شکل اختیار کرتی هیں-

بیشک ، امتحان اور فتنے وجود میں آنے کے میدان میں ، جو لوگ خدا پر ایمان اور اس کی ضروریات کے سلسله میں خاص طور پر قوی نهیں هیں اور مناسب صورت میں ان کے قلب وروح میں ایمان نے رسوخ نهیں کیا هے ، وه نفسانی خواهشات اور خدا کی مرضی اور دینی اقدار کے درمیان تعارض کی صورت میں ، دین اور دینی اقدار کی طرف رجحان نهیں رکھتے اور روحانی لحاظ سے احکام اور دینی اقدار کی اپنی مرضی کے مطابق نفسانی خواهشات کے زاویه  سے تفسیر وتوجیه کر نا چاهتے هیں اور اگر دین وقرآن کی تفسیر ان کی نفسانی خواهشات کے مطابق انجام دینا جائز هو تو، اس گروه کے لئے خوش آئند هو تا هے-

حضرت علی علیه السلام ، اس سلسله میں ، نهج البلاغه میں یوں پیشگوئی کرتے هیں :” وانه سیئاتی علیکم من بعدی زمان لیس فیه شئی اخفی من الحق…”[5] میرے بعد ایک ایسا زمانه آئے گا که اس زمانه میں حق سے زیاده کوئی چیز مخفی نهیں هوگی اور باطل سے زیاده کوئی چیز مشهور نهیں هوگی- اس زمانه میں خدا اور اس کے پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم پر جھوٹ اورافترا، باندھنا سب سے زیاده رائج هو گا جس سے( عالم نما جاهل اور دنیا پرست منافق) اپنے مقاصد کے لئے استفاده کریں گے-“

حضرت علی علیه السلام فتنوں  سے مقابله کر نے کے لئے یوں راهنمائی فر ماتے هیں : ” پس سعی و کوشش کر نا که تم لوگ فتنوں کے پرچم اور بدعتوں کی علا متیں نه بن جاٶ اور جس چیز سے امت اسلامیه کا رشته استوار هے اور اطاعت کی بنیادیں اس پر پائدار هیں ، اپنے لئے ضروری قرار دینا اورخدا کے لئے مظلوم نما بن جاٶ نه که ظالم اور شیطانی پھندوں میں پھنسنے اور دشمنوں کے نرغه میں گھر جانے  سے پرهیز کر نا اور لقمه حرام کو اپنے شکم میں داخل هو نے سے روکنا- تم لوگ خدا کے حضور میں قرار پائے هو ، که جس نے گناهوں کو حرام قرار دیا هے اور اطاعت و بندگی کی راه کو آسان فر مایا هے-“[6]

چنانچه اس سے اشاره ملا هوا که هر زمانه میں اهل باطل اور دین کے دشمن مختلف روشوں اور وسائل سے اهل حق اور دین کے ساتھـ مقابله کر نے اور ان پر کاری ضرب لگانے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رهے هیں ، خاص کر عصر حاضر میں ، جبکه هم سیکو لرزم[7] اور دینی تفکر کے درمیان مقابله کا مشاهده کرتے هیں اور دیکھتے هیں که سیکو لرزم مختلف وسائل سے دین کے ساتھـ مقابله اور معارضه اور  دشمنی کر رها هے ، من جمله:١- دین کے اصولوں میں شک وشبهه کر نا ٢- انحرافی تحریکوں کی حمایت کر نا ٣- مختلف صورتوں میں دین کے ساتھـ معارضه اور مقابله کر نا، جیسے: حجاب پر ممانعت ، فحشا وفساد کی ترویج اور دینی پابندیوں، حد بندیوں میں تحریف اور… اس کے علاوه هم مشاهده کر رهے هیں که دنیا کی سامراجی طاقتیں سیکو لرزم کے اصولوں پر بھروسا کرتے هوئے گونا گون حر بوں سے ثقافتی تبدیلی لانے اور دین کو ختم کر نے کی کوششیں کرتی هیں، ان میں سے بعض کی طرف هم ذیل میں اشاره کرتے هیں:

١لف) ثقافتی اور تعلیمی نظام کے سسٹم میں نفوذ کر نا اور تاثر پذیر عناصر کو جذب کر نا –

ب) دین کے ساتھـ مقابله کر نا اور دینی قدروں کو نابود کر نے کی کوشش کر نا ، اسلام اور دین محوری (جو دینی معاشره کی حقیقت هے) سے دشمنی کرنا-

ج) کٹھـ پتلی روشن فکری کو تقویت بخشنا-[8]

قابل ذکر بات هے که، اس روش کے متحقق هو نے کے نتیجه میں دینی تفکر، دینی اعمال، اور دینی تنظمیں اپنی اجتماعی اهمیت اور رول کو کهو دیں گی اور معاشره، ثقافت ،فن، تعلیم وتر بیت ، حکو مت ، ایڈ منسٹر یشن اور سیاست وغیره میں دین کا زوال ھوگا اور اس کے رول میں کمی نمایاں هوگی-

دین و ثقا فت کے بارے میں امام خمینی (رح) کا نظریه:

امام خمینی(رح)، اسلامی انقلاب اور  سابقه شهنشاهی حکو مت کے درمیان مخالفت کی وجه  کے بارے میں دو بنیادی رکن بیان کرتے هیں :

١- اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی ابعاد میں شاه کی غداری –

٢-اس ملک کے مذهب اور ثقافت کے ساتھـ اس کی خیانتیں –

ان کی نظر میں ثقافتی اصلاح ، ملتوں کی نجات کی بنیادی راه هے-[9]

اسی سلسله میں رهبر انقلاب حضرت آیت الله خامنه ای نے یوں فر مایا هے: ” معاشره کو ثقافتی بنانابهت اچھی بات هے اور میں نے بھی اس معنی کو ثقافتی مسائل کے سلسله میں کئی بار دهرا یا هے لیکن ابھی هم ابتدائی مرحله میں هیں اور همارا معاشره ثقافتی فطرت پر هے، لیکن بالفعل نهیں هے ، هم کیوں کهتے هیں که ثقافتی فطرت هے؟ کیو نکه همارا معاشره ایک مذهبی اور دینی معاشره هے اور دینی معاشره کی فطرت یه هے که ایک ثقافتی آرزو رکھتا هو، دنیوی معاشره کے بر عکس، جس میں صرف زندگی کے مسائل پر غور کیا جاتا هے اور اس معاشره میں بھی ثقافت هو سکتی هے اور بالکل نهیں بھی هوسکتی هے-“[10]

نتیجه میں کها جاسکتا هے که معاشره کا دین قابل تغییر هے،کیو نکه قرآن و روایات اور دوسری اسلامی کتابوں سے استفاده کیا جاسکتا هے حالانکه اهل باطل اور دین کے دشمن مسلسل اس کوشش میں هیں که دینداروں اور اهل حق سے مقابله و مبارزه کر کے ان کے دین اور اعتقاد کو متزلزل و نابود کریں اور اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامه پهنانے کی راه میں هر قسم کے وسیله ، اوزار، نقشه اور روش سے مدد حاصل کریں  – اس لئے قرآن مجید اس سلسله میں خبر دار کرتا هے که اگر مٶ منین اور امت اسلامیه قرآن مجید کی رهنمائی اور قوانین الهی پر عمل نه کریں گے اور اپنے ایمان ودین کو تقویت نه بخشیں گے تو دشمن کی  گوناگون سازشوں اور فتنوں ، خاص کر شیاطین کے وسوسوں اور شبهه افکنی کے مقابلے میں شکست کھا کر ، اعتقادی لحاظ سے متزلزل هو جائیں گے اوررفته رفته دینی اقدار کو فراموش کردیں گے اور اس طرح دشمن اور نفسانی خواهشات اور شیطان کے دام میں گرفتار هوں گے اور سر انجام دین الهی اور قوانین خدا وند متعال کے مقابل کھڑے هو کر اپنے انحرافات کی توجیه کریں گے اور تدریجا ، غیر شعوری طور پر شیطان اور طاغوت کی تولیت میں جاکر مندرجه ذیل آیه شریفه کے واضح مصداق بن جائیں گے : “والذین کفروا اولیائهم الطاغوت یخرجون من النور الی الظلمات…”[11]

مطا لعه کے لئے منابع و ماخذ:

١- پل تپلیش ، الهیات فر هنگ ، مترجم، مراد فرهاد پور، فضل الله پاکذاد-

٢-تفکر د ینی درقرن بیستم ، ترجمه عباس شیخ شجاعی ومحمد محمد رضایی-

٣- جامعه و فرهنگ،ج١-

٤- جوادی آملی ، عبدالله بنیان مرصوص-

٥- جوادی آملی ، عبدالله ، شریعت در آینه معرفت، طبع ١٣٧٢-

٦- خسرو پناه ، عبدالحسین ، کلام جدید طبع دوم-

٧- دشتی، محمد، المعجم المفهرس لالفاظ نهج البلاغه-

٨- دین پزوهشی ، میر جا الیاده ترجمه بهاء الدین خرمشاهی ـ

٩- روز نامه کیهان ، مورخ ١٣/ ١٢/ ١٣٨٣-(٣/ ٣/ ٢٠٠٥ء)

١٠-شعرانی ، میرزا ابوالحسن ، نثر طوبی یا دایره المعارف لغات قرآن-

١١- کاشفی ، محمد رضا دین وفرهنگ-

١٢- لاریجانی ، صادق، قبض و بسط درقبض و بسطی دیگر-

١٣- لاریجانی ،صادق، معرفت دینی-

١٤- مصباح یزدی ، قرآن در آئینه نهج البلاغه-

١٥- مفردات راغب اصفهانی ـ

١٦- مناسبات دین وفرھنگ در جامعه ایران، ج١ وج ٢-

١٧- نفوذ و استحاله ، طبع ١٣٧٨، دفتر نمایندگی ولی فقیه-

١٨- واعظی ، احمد، تعریف جامعه دینی و جامعه مدنی ، طبع ١٣٨١-

١٩- هادوی تهرانی ، مهدی ، باورها وپرسشها-

٢٠- هادوی تهرانی ، مهدی، مبانی کلامی اجتهاد-

٢١- هادوی تهرانی ، مهدی ، ولایت و دیانت –( اردو، ترجمه: سید قلبی حسین رضوی)



[1] ـ ملاحظه هو: اشاره : دین و تحول ، اسلام و تجدد ، دین و پلو رالیسم ، دین کی ضرورت –اس کے علاوه ملاحظه هو : مطهری ، مرتضی، اسلام و مقتضیات زمان – جوادی آملی ، عبدالله، شریعت در آینه معرفت- هادوی تهرانی ، مهدی ، منابی کلامی اجتهاد و

ها دوی تهرانی ، باور ها و پرشش ها و هادوی تهرانی ، ولایت و دیانت ( اردو تر جمه : سید قبلی حسین رضوی- ) معرفت دینی ، صادق لاریجانی ، قبض و بسط در قبض و بسطی دیگر ، صادق لاریجانی …-

[2] – احمد واعظی ،تعریف جامعه دینی وجامعه مدنی ، طبع ١٣٨١صفحه٩٠- ٨٩-

[3] – جوادی آملی، عبدالله، بنیان مرصوصءص ٢٢-

[4] – ” یا علی ان القوم سیفتنون باموالهم…” بحار الانوار، ج ٣٢ ، ص٢٤١-

[5] – نهج البلاغه، خطبه ،١٤٧ـ

[6] – المعجم المفهرس لا لفاظ نهج البلاغه، خطبه ١٥١-

[7] – ملا حظه هو: هادوی تهرانی ، باور ها و پرسش ها ، صص، ٤٠- ٣٧- هادوی تهرانی ،

لایت و دیانت ، ( اردو تر جمه: سید قلبی حسین رضوی )صص، ٤٧-٤٠ و…-

[8] – نفوذ استحاله ،معاونت سیاسی نمایندگی ولی فقیه در قرار گاه ثارالله ، تهران، طبع١٣٧٨-

[9] – کیهان مورخ ، ١٣/١٢/١٣٨١- ( ٢٤ / ١١/ ١٩٩٣ ء)

[10] – نفوذ و استحاله،٢٢٦،سخنان رهبر معظم انقلاب در٤ / ٩ /١٣٧١-

[11] -بقره/ ٢٥٧-

تبصرے
Loading...