کیا قیامت کے دن سوال و جواب عمومی ھے؟ اس دن پیغمبروں سے سوال کیا جانا کس معنی میں ھے؟

کیا قیامت کے دن سوال و جواب عمومی ھے؟ اس دن پیغمبروں سے سوال کیا جانا کس معنی میں ھے؟

قرآن مجید میں آیا ھے: “پس اب ھم ان لوگوں سے بھی سوال کریں گے اور ان کے رسولوں سے بھی سوال کریں گے۔” {اعراف:۶}
ایک دوسری جگه پر ارشاد فرماتا ھے :”اور تم سے یقیناً ان اعمال کے بارے میں سوال کیاجائے گا جو تم دنیا میں انجام دے رھے تھے۔”{نحل/ ۹۳}
مذکوره دوآیات کے بارے میں مندرجه ذیل دواھم سوال پیدا ھوتے ھیں:
۱۔ مذکوره آیات سے معلوم ھوتا ھے که قیامت کے دن سوال کیاجانا عمومی ھے اور اس میں انبیاء {ع} بھی شامل ھیں۔ اگر ایسا ھے تو، جو آیات و روایات بعض افراد کے حساب و کتاب کے بغیر بھشت یا جھن٘م میں داخل ھونے کی دلالت کرتی ھیں، کا کیسے معنی کیا جائے گا؟
۲۔ اگر بعض مومنین حساب کے بغیر بھشت میں داخل ھوں گے، تو کیا اس لحاظ سے انبیاء ان سے پست تر ھیں؟

 

زیارت عاشورا وہ زیارت‌ ہے جسے عاشورا کے دن امام حسینؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی زیارت کی خاطر پڑھی جاتی ہے۔ زیارت حدیث قدسی ہے جو امام محمد باقرؑ سے نقل ہوئی ہے۔ اس زیارت کی سند کو صحیح اور چھان بین سے بے نیاز قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے مطابق اس زیارت کے بہت سارے آثار اور برکات ہیں۔ امام صادقؑ سے صفوان نے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: جب بھی کوئی حاجت پیش آئے تو اس زیارت اور اس کے بعد دعائے علقمہ کو پڑھ کر خدا سے اپنی حاجت طلب کرو تو وہ پوری ہوگی۔

بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ اس زیارت کا وہ حصہ جو لعن پر مشتمل ہے، وہ اس زیارت کے قدیمی‌ نسخوں میں موجود نہیں تھا۔ بعض شیعہ علماء نے اس کا جواب دیا ہے۔ زیارت عاشورا کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں من جملہ ان میں ابو الفضل تہرانی کی کتاب شفاء الصدور اور سید عزالدین حسینی زنجانی کی کتاب شرح زیارت عاشورا کا نام لیا جا سکتا ہے۔

سند

زیارت عاشورا کا سب سے قدیم منبع کامل الزیارات ہے۔[1] ابن قولویہ نے اس کتاب میں زیارت عاشورا کو امام محمد باقرؑ سے نقل کیا ہے۔

تیرہویں صدی ہجری کے مجتہد، ابو المعالی محمّد کلباسی جنہوں نے زیارت عاشورا پر شرح بھی لکھی ہیں، کے بقول شیخ طوسی نے اپنی کتاب مصباح المتہجد میں اس زیارت کو کسی اور سند کے ساتھ امام باقرؑ سے نقل کیا ہے۔[2] لیکن اس کے باوجود بعض معاصر مورخین کا خیال ہے کہ شیخ طوسی نے بھی زیارت عاشورا کو کامل الزیارات سے نقل کیا ہے۔ [3] حالانکہ زیارت عاشورا کے متن میں ابن قولویہ اور شیخ طوسی کے نقل میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ اسی طرح خود زیارت عاشورا کے مضامین سے یہ بات واضح اور آشکار ہو جاتی ہے کہ یا زیارت بنی امیہ کی حکومت کے آخری ادوار میں بیان ہوئی ہے[4]

زیارت عاشورا کے بعد ایک دعاء بھی نقل ہوئی ہے جسے دعائے علقمہ کہا جاتا ہے اور اس دعا کو علقمہ نے صفوان سے اور صفوان نے امام صادقؑ سے نقل کی ہے۔[5]

فضیلت اور اہمیت

زیارت عاشورا امام حسینؑ کی سب سے معروف زیارت ہے۔ یہ زیارت حدیث قدسی ہے اور خدا کی جانب سے معصوم کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔[6] شیعیان خاص کر شیعہ علماء سال کے مختلف ایام میں انفرادی یا اجتماعی طور پر اس زیارت کی قرائت کرتے ہیں۔[7] کہا جاتا ہے کہ اس زیارت کی قرأت پر مداومت کے بہت سارے آثار و برکات ہیں۔[8] تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین میرزا ابوالفضل تہرانی کے مطابق زیارت عاشورا حاجت روائی اور دنیوی و اخروی برکات کے حوالے سے اس قدر حیرت انگیز خواص پر مشتمل ہے جو قابل شمار نہیں ہے۔[9]

صفوان بن مہران نے امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں امام فرماتے ہیں کہ آپ کے معصوم آباء و اجداد نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ جو شخص بھی اس زیارت اور اس کے بعد دعائے علقمہ کو دور یا امام حسین کے ضریح کے نزدیک سے پڑھے تو اس کی زیارت خدا کی بارگاہ میں قبول ہوگی، اس کی دعائیں مستجاب ہونگی، اس کی حاجات روا ہونگی، مورد شفاعت واقع ہوگا حتی دوسروں کی نسبت اس کی شفاعت بھی قابل قبول ہوگی اور اہل بہشت میں سے ہو گا۔[10] حدیث صفوان کے آخر میں آیا ہے کہ: اے صفوان جب بھی کوئی مشکل پیش آئے تو جہاں کہیں بھی ہو اس زیارت اور اس کے بعد دعائے علقمہ پڑھ کر خدا سے اپنی حاجت طلب کریں تو خدا کی جانب سے تمہاری حاجت پوری ہوگی۔[11]

معاصر مرجع تقلید آیت اللہ جواد تبریزی کہتے ہیں کہ اس زیارت کی فضیلت اور اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ شیعہ مایاناز علماء جیسے ابن قولویہ، شیخ طوسی، ابن مشہدی، سید ابن طاووس، علامہ حلی، شہید اول وغیرہ نے صدیوں سے اسے نقل کرتے آئیں ہیں۔[12]

تبصرے
Loading...