کیا دین کے بغیر معنویت تک پهنچا جا سکتا هے؟

جواب کو واضح کرنے کے لئے پهلے هم معنویت کی تعریف کریں گے اور اس کے بعد جدید معنویت کی خصوصیات بیان کرکے دینی معنویت اور غیر دینی معنویت کے درمیان فرق کو واضح کریں گے ـ

لا طفیى لغت میں معنویت (spirituality) تنفس کے معنی میں هے اور زندگی کے تنفس کی طرف اشاره هے ـ اس معنی میں که هم معنویت سے اپنے دل کو وسعت بخشیں اور اپنے اندر عظمت، تقدس اور تشکر کے تجربه کی ظرفیت کو پرورش دیں، زندگی کے رنج کو محسوس کریں، وجود کے جوش و خروش کو پهچان سکیں اور اپنے سے بالاتر ایک حقیقت کے سامنے هتھیار ڈال دیںـ [1]

ایسا لگتا هے که معنویت کی یه تصویر، همارے ذهن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے موجود معنویت کی تصویر سے کافی متفاوت هےـ همارے تصور میں معنویت کا دین کے ساتھـ چولی دامن کا رابطه هےـ اور دین معارف کا ایک مجموعه هے جو ماوراے علم مادی بات کرتاهے، وه حقائق جن کی بنیاد پر، انسان خلقت کے نظام میں ایک خاص مقام رکھتا هے اور اسے اس خاص مقام کے تحفظ کے لئے ایک خاص راه کو طے کرنا چاهئے اور اس راه کے لئے خاص طرز عمل کی ضرورت هوتی هے ـ پس انسان کو بعض کام انجام دینے چاهئے اور بعض کام ترک کرنے چاهئےـ

جدید معنویت کی کچھـ خصوصیات هیں جن سے دینی معنویت سے اس کا فرق بالکل واضح هوجاتاهے:

1ـ دین کے دائره میں “معنویت” ایک ذهنی، خیالی اور مادی حقائق کی به نسبت سرشار انسانی جذبات کا نتیجه نهیں هے، بلکه ایک ایسا جذبه هے ، جس سے انسان عالم ماده سے بالاتر موجود حقائق کے بارے میں علم پیدا کرتا هے، وه حقائق جو موجود هیں اور عالم پر اثر ڈالتے هیں ـ لیکن جدید معنویت میں کسی صورت میں “حقیقت” پر بحث نهیں هوتی هے، بلکه هر موضوع کے بارے میں شدید جذباتی اور جوشیلا تجربه معنویت شمار کیا جاسکتا هے ـ اس معنویت میں اهمیت اس چیز کی هے که آپ بھڑک اٹھیں، اپنے جذبات کو عروج پر پهنجا دیں یا نام نهاد عظمت کی حس میں غرق هو جائیںـ اس میں آپ کو ایک موسیقی، ایک عاشقانه شعر اور حتی ایک آئینه کی جھلک، معنوی فضا میں پرواز کر اسکتی هے ـ

2ـ جدید معنویت میں، تکلیف (شرعی) کا نام و نشان تک نهیں هے ـ آپ کھلے دل سے هر تجربه کے پیچھے جا سکتے هیں، وه تجربه جو آپ کے لئے نقطه “عروج” حاصل کرسکےـ لیکن دینی معنویت میں، معنوی تجربه، صرف خاص دائره اور ضوابط کے تحت حاصل هونا ممکن هےـ بنیادی طور پر بعض معنوى تجربے اس وقت حاصل هوتے هیں، جب آپ بهت سے دوسرے تجربوں سے چشم پوشی کریںـ ایک گناه کا تجربه، نماز میں ایک نازک معنوی احساس کے ” حضور” کو قطعاً داغدار بنادیتا هے ـ[2]

جو همارا مطلوب هے اور اس میں دین کا بنیادی رول هے، وه دینی معنویت هے، نه جدید معنویت ـ آیئنده ذکر کئے جانے والے دلائل کے پیش نظر معلوم هوجائے گا که جدید معنویت انسان کی روحی ضروریات کو پورا نهیں کر سکتی هے ـ

البته، دینی معنویت سے همارا مراد دین اسلام کی معنویت هے ـ هم اس دین کے بارے میں بات کرتے هیں، جس میں عقل، معنویت اور عدل و انصاف آپس میں جمع هو چکے هیںـ هماری عدالت کا الهٰی شریعت کے ساتھـ چولی دامن کا رابطه هے اور شریعت کے مخالف نهیں هے ـ همارا انسانی حقوق اور هیومنزم (Humanism) ایک ایسا انسانی حقوق اور هیومنیزم هے، جو توحید پر مبنی هے ، نه ماده پرستی (Materialism) اور الحاد کی بنیاد پر ـ اسلام کی معنویت نه کی ایک قسم هے که عینی زندگی سے کوئی رابط نه رکھتی هو، اور نه امریکی معنویت و عرفان کے مانند ایک اضافی و سلیقه پر مبنی امر هے ؟

دوسری جانب سے معنویت انسان کی ان ضرورتوں کو پورا کرتى هے، جن کا وه اپنے اندر محسوس کرتا هے اور یهاں پر همیں انسان کو پهچاننے اور اس کی که حقیقی اور بنیادی ضرورتوں کو جاننے کے لئے اقدام کرنے اور بیان کرنے کی ضرورت هے که کیا جدید معنویت انسان کی ان حقیقی ضرورتوں کو پورا کر سکتی هے یا نهیں؟ کیا انسان یه قدرت رکھتا هے که دین کی مدد کے بغیر صرف اپنی عقل کے بل بوتے پر اپنی ضرورتوں سے آگاه هو جائے اور ان کو پورا کرنے کے لئے پروگرام مترب کرے ؟

اسلام کی نظر میں انسان دو ابعاد (روحانی و جسمانی) کا مالک ایک مخلوق هے که مادی دینا میں اس کی تخلیق کا مقصد ایک مقدس مقصد هے ـ یه شریف مخلوق حدوث و بقاء کے لحاظ سے خداوند غنی بالذات سے وابسته هے یعنی شریعت الٰهی کے سسٹم، جو انسان کی زمینی زندگی کا منصوبه هے، میں انسان کی ایک ایسی هویت هے، جس کے مختلف درجات اور مراتب هیں، اس حقیقت کا ایک درجه اس کا ناسوتی درجه هے، جو وهی اس کا خاکی بدن اور انسانی ڈھانچه هےـ لیکن وسیع و حقیقی مراتب جو انسان کی هویت کے درجات کو بناتے هیں وه اس ناسوتی بدن کے پس پرده هیں اور “میں” کے عنوان سے اس کا نام لیا جاتاهےـ  یه وهی نفس ناطقه یا غیبی روح هےـ آنکھـ ، زندگی اور عقل سے انسان کا “میں” اسی اصلی هویت کو تشکیل دیتا هے اور اس کے کمال کے واسائل وهی رابطه هے جو انسان اپنے بدن اور بیرونی دنیا سے رکھتا هے ـ انسان میں تحقق پانے والے تمام ادراکات اور حرکتیں انسانی عالم میں “میں” کے ذریعه هیں اور انسان کا بدن اس انسانی هویت کے کمال وسیله هے ـ

قرآن مجید، روح کی حقیقت کو، ایک امری حقیقت ، یعنی امر وملکوت عالم میں سے جانتا هے اور انسانی “میں” کے بارے میں ارشاد فرماتاهے : ” یسالونک عن الروح قل الروح من امر ربی”[3]، “اور پیغمبر یه آپ سے روح کے بارے میں دریافت کرتے هیں تو کهه دیجئے که یه میرے پروردگار کا ایک امر هے ـ ” یه امرکیا هے؟ قرآن مجید اس کے بارے میں، ارشاد فرماتاهے: ” انما امره اذا اراد شیئاً ان یقول له کن فیکون[4]” یعنی خداوند متعال کا امر، وجودی هے، اس میں تدریج کی گنجائش نهیں هے، اسے زمانه کی ضرورت نهیں هے اور یه زمانه سے بالاتر ایک حقیقت هے، یعنی جوں هی خداوند متعال نے اراده کیا، اس میں کسی قسم کی تاخیر نهیں هے ، اس کا اراده وهی اور اس کا وجود بھی وهی، جنس ملکوت سے ایک موجود هے، ازلی و ابدی هے اور ملک هستی اور طبیعی حقیقت سے نهیں هے ـ

اس بنا پر انسان جیسی مخلوق اوراس کی ضرورتوں کو پهچاننے کے لئے پروردگار عالم کی تعلیمات کو مد نظر رکھنا چاهئے، ورنه انسان کو پهچاننے کا طریقه گمراهی کی طرف چلاجائی گا اور ضرورتوں کو پهچاننے کے طریقه کار اور ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے وسائل مشکلات سے دوچار هوجائیں گے ـ

کیا عقل، دین حق، جو ایک سے زیاده نهیں هے[5] سے مدد حاصل کئے بغیر انسان کی معنوی ضرورتوں کے لئے منصوبه اور قوانین پیش کر سکتی هے؟  اس سوال کے جواب میں کهنا چاهئے: اگر چه دین اسلام نے انسان کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کا کام، عقل و تجربه کو سوپنا هے[6]، لیکن یه اپنی جگه پر ثابت هوچکا هے که[7] ، تعریف شده انسان ، اولاً: تمام بنیادی اور حقیقی ضرورتوں کو پیدا کرنے اور اصلی و فرعی ضرورتوں کے درمیان فرق معلوم کرنے کی طاقت نهیں رکھتا هے اور یهاں پر اسے دین کی ضرورت پڑتی هے[8] ـ ثانیاً: انسان کے هاتھـ مین موجود وسائل اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے سے عاجز هیں، لهذا دین کو میدان عمل میں قدم رکھنا چاهئے[9]ـ

دینی والٰهی تعلیمات، قوانین کا ایک مجموعه هے، جسے پروردگار عالم نے، انسان کی حقیقت و مقام، مصلحتوں، منافع اور اس کی بنیادی ضرورتوں اور اس کے حقوق کو پورا کرنے لئے تدوین کرکے ایک مجموعه کی صورت میں دین کے نام پر پیش کیا هےـ یعنی دین کا زیاده حصه، جو چاهئے اور نه چاهئے پر مشتمل، ایک مجموعه هے، جو انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے هے ـ “انجام دینا” حقوق اور بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے طریقه اور”ترک کرنا” ، حقوق کو پورا کرنے کی راه کی رکاوٹوں کی نشاندهی کرنے والے هوتے هیں[10] اور ان “انجام دینا” کے طریقتوں سے انسان حقیقی معنویت تک پهنچ سکتا هے اور انسان کی معنوی ضرورتوں کو پورا کر سکتا هے ـ

ایک شخص نے حضرت امام باقر علیه السلام سے سوال کیا که: شراب، مردار، خون، اور سور کا گوشت جیسی چیزیں کیوں حرام هیں؟

امام (ع) نے جواب میں فرمایا: “حلال و حرام اور”انجام دینا ” اور”ترک کرنا” حلال چیزوں کے بارے میں خداوند متعال کی رغبت اور حرام چیزوں کے بارے میں اس کی نفرت کی بنیاد پر نهیں هے، خداوند متعال نے انسان کو پیدا کیا هے اورجانتا هے که اس کے بدن کو قوت بخشنے والی اور اس کی مصلحت میں کو نسی چیزیں هیں ، اس لئے ان چیزوں کو حلال قرار دیا هے اور جانتا هے که کونسی چیزیں انسان کے لئے مضر هیں، اس لئے انھیں حرام قرار دیا هے”[11] ـ

لهذا دین میں “انجام دینا” اور”ترک کرنا” (تکلیف) کوئی اضافی بوجھـ نهیں هے جسے انسان کے کاندھوں پرڈالا گیا هے، تا که کسی تیسرے شخص کو فائده پهنچےـ بلکه یه خود انسان کو حق تک پهنچنے اور حق کی راه میں موجود رکاوٹوں کوهٹا نے کے لئے هےـ [12]

البته یه اس معنی میں نهیں هے که قوانین اور تکالیف الٰهی کو سمجھنے میں عقل کا کوئی رول نهیں هے،بلکه “انجام دینا” اور” ترک کرنا” (یعنى وهى تکالیف الهىٰ) عقل سے موجود هونے کی صورت میں تین حصوں میں تقسیم هوتے هیں:

1ـ وه تکالیف حو دین کی موجودگی کے بغیر عقل کے لئے قابل قبول تھے اور دین نے ان کی تائید کی هے اورانھیں الهىٰ روپ بخشا هے، جیسے: صداقت، عدالت که عقل، دین کے بغیر انھیں قبول کرتى هے ـ

2ـ وه تکالیف، جن کو تجزیه و تحلیل کرنے کى قدرت عقل رکھتى هے، جیسے: صانع و خالق کے وجود کى ضرورت یا خالق کے لئے عدالت کى ضرورت اور فروع دین وغیره کے کلیاتـ

قابل توجه بات هے که جو تکالیف انسان کی عقل کے حدود میں هیں اور انسان ان کو سمجھنے کی طاقت رکھتا هے، ان کے ادراک، تجزیه و تحلیل کے لئے، مهارت اور کاف یمعلومات کی ضرورت هوتی هے اور جب تک کافی معومات اور ضروری مهارت نه هو، انسان کی کوشش کا نتیجه نهیں نکلتا هےـ لیکن ماورائے عقل سے مربوط مسائل میں ، حتی ادراک کے مرحله میں بھی عقل کو اپنے سے بالاتر قدرت کی ضروت هوتی هےـ

3ـ وه تکالیف جو ماورائے عقل هیں، جیسے: بعض فروع دین (حج یا نماز کے مختلف احکام)

مذکوره بیان سے واضح هوا که جدید معنویت حقیقی انسان شناسی پر مبنی نهیں هے اور انسان کی روحی ضرورتوں کو پورا کرنے کی ایک مناسب روش نهیں هے اور یه اس صورت میں هے که انسان کی عقل انسان کو سعادت تک پهنچانے کے لئے کافی طاقت نهیں رکھتی هے اور نتیجه کے طور پر اس سلسله میں جامع اور وسیع پروگرام و منصوبه سے فاقد، هے اس لئے ایک ایسے سسٹم کی ضرورت هے، جو انسان کے تمام وجودی منازل پر حاوی هو اور ایسے طریقه کار کو مشخص کرے جو اس کی سعادت و شقاوت کا سبب بنے تا که انسان موت کے بعد والے منازل یعنی برزخ و آخرت کا مشاهده کرسکےـ اس لئے خداوند متعال نے وحی اور انبیائے الٰهی (ع) (جو عالم مخلوقات اور ان کے آثار پر حاوی هیں) کو عقل کی مدد کے لئے بھیجا هے ـ پس مناسب هے که انسان دینی احکام میں غور و فکر کرکے یا دین کے ماهرین کی طرف رجوع کرکے اپنا شرعی فریضه معلوم کرےـ جس طرح قرآن مجید بھی آگاه اور مطلع افراد سے سوال کرنے کی تاکید فرماتاهے ـ

اس سلسله میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجه ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا هے [13]:

Heart of Islam تالیف: ڈاکٹر حسین نصر فارسی ترجمه ” قلب اسلام” مترجم: شهر آیینی

2ـ ” آفتاب و سایه ھا” تالیف: محمد تقی فعالی

3ـ ” حق و تکلیف” تالیف: جوادی آملی، عبدالله

4ـ ” فطرت در قرآن” تالیف: جوادی آملی، عبد الله



[1]  Psychology Today, Sep 1999- Spritualitiy Auther: David N, Elkins

[2]  ملاحظه هو: سایٹ مجمع تشخیص مصلحت نظام، به نقل از مقالھ ڈاکٹر ڈیوڈ، این، الکینز، (David N, Elkins) ماهر نفسیات اور معنویت کے بارے میں یونیورسٹى پروفیسر

[3]  اسراء، 85.

[4]  یسن ء، 82.

[5]  ملاحظه هو عنوان: پلورالیسم دینی و قرائت ھای مختلف از دین، سوال 118 (سایٹ: 1738)

[6]  ملاحظه هو: خسروپناه، عبدالحسین، گستره شریعت، صص 74ـ76.

[7]  ملاحظه هو: 1. عنوان: عق و گستره فعالیت آن، نمبر 227 (سایٹ:1866) 2ـ عنوان: اسلام و عقلانیت سوال 50(سائٹ 286) ، 3. عنوان: نقش منابع دینی در اخلاق، سوال 562 (سایٹ 615)

[8]  اس بحث کی تفصیل کو عبدالحسین خسروپناه کى کتاب ” انتظار بشر از دین” ص 124ـ120 پر ملاحظه کر سکتے هیں ـ

[9]  نصر، محمد، شیوه ھای تبیین انتظار از دین، مجله نقد و نظر، شماره 6.

[10]  ملاحظه هو: طباطبایی، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج 2، ص 149.

[11]  وسائل الشیعه، ج 24، ص 100، علل الشرایع، ج 2، ص 483.

[12]  جوادی آملی، عبدالله، حق و تکلیف، ص 38.

[13]  نحل، 43 ” فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون”.

تبصرے
Loading...