کیا حضرت ولی عصر عج الله تعالی فرجه الشریف کی والده معصوم هیں؟

لغت میں ، عصمت، محفوظ هو نے کے معنی میں هے اور اصطلاح میں ، خطا ،لغزش اور گناه سے محفوظ هو نے کے معنی میں هے- گناه اور خطا سے یه تحفظ دو صورتوں میں قابل فرض هے:

الف: کلی تحفظ اور معصومیت، زندگی کے تمام ادوار میں ( پیدائش سے آخر تک) دین الهی کو یاد کر نے، تعلیم دینے اور نفاذ کر نے کے سلسله میں تمام سهو و خطا ، بهول چوک اور گناه سے مکمل طور پر محفوظ اور معصوم هو نا- یه امر صرف انبیاء اور ائمه علیهم السلام میں متحقق هو اهے – ( فرشتوں کے علاوه) دوسروں کے بارے میں اس کے متحقق هو نے کی همارے پاس کو ئی دلیل موجود نهیں هے – [1]لیکن نسبتی عصمت شد ت وضعف کے قابل اور مختلف افراد میں متفاوت اور متغیر هے- دین کے امور میں ممکن هے تلاش وکوشش، ریاضتوں اور متعدد تهجد کے نتیجه میں کسی حد تک اس قسم کی عصمت کسی کو فراهم هو جائے اور ان هی کے ذریعه محفوظ رهے بغیر اس کے که آخر عمر تک اس کے تحفظ کی کوئی ضمانت هو – اس لئے نسبتی عصمت کو اس کی شدت اور ضعف کے پیش نظر دوسروں سے نسبت دی جاسکتی هے –عام افراد میں پیدا هو نے والی اس حالت کو ” ملکه عدالت” سے یاد کیا جاتا هے،یعنی شخص کی حالت ایسی هو تی هے که اس میں جان بوجھ کر لغزش اور گناه کبیره نهیں دیکھا جاتا –

شیعه ، انبیاء اور اهل بیت عصمت علهیم السلام (حضرت زهراء اور ١٢ اماموں) کے علاوه کسی کے لئے کلی عصمت کے قائل نهیں هیں – باوجودیکه امام زادوں ، ان سے وابسته بزرگوں ، اور متقی اور فاضل علما کے بارے میں شیعھ کافی احترام کے قائل هیں اور ان سے کسی قسم کے گناه یا ناپسندیده اعمال کی نسبت دینا جائز نهیں جانتے هیں-

لهذا دوسرے لوگوں کی کلی عصمت کی نفی کر نا، ان سے گناه یاکسی قسم کے الزام کی نسبت دینے کے معنی میں نهیں هے-

ائمه (ع) کی ماٶں ، بهنوں اور ان کے دوسرے بهائیوں کے بارے میں بھی ایساهی هے، یعنی ،کلی عصمت کی ان سے نسبت نهیں دی جاتی هے ، اور ان سے گناه و گمراهی کی نسبت دینا بھی جائز نهیں هے – ائمه(ع) کی ماٶں،من جمله امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف کی والده کے بارے میں بهی یهی امر جاری هے ، کیونکه، تاریخ کے مطابق وه ایک کنیز تھیں که ایک روایت کے مطابق : ” ملیکه “(صیقل) بنت یشوعا بن قیصر روم تھیں اور ان کی والده شمعون بن حمون بن صفا،{وصی عیسی(ع)}کی نواسی تهیں ، اور اسیر کی حیثیت سے ، ام هادی (ع) کے توسط سے امام عسکری علیه السلام کے لئے خریدی گئی تھیں -“ایک دوسری روایت کے مطابق :” حکیمه بنت علی الهادی(ع) کے گهر میں ایک کنیز تهیں ، اس بهن (حکیمه) نے اسے اپنے بهائی {امام هادی(ع) }کو بخش دیا –”بهر حال ان  کی عمر کا ایک حصه مسلمان کی حیثیت سے  نهیں گزرا هے اور اسیر هو نے کے بعد وحی کے گهر میں داخل هو کر مسلمان هوئی هیں اور اسلامی تر بیت پاچکی هیں اور شرک کی ناپاکی سے پاک هو چکی هیں اور معصوم کی شریک حیات بننے ، ان سے حامله هو نے اور ایک معصوم کی پیدائش کی لیاقت و شائستگی پیدا کر چکی هیں –

بعض دوسرے ائمه اطهار(ع) کی ماٶں کی داستانیں بھی ایسی هی هیں –[2]

اس کے باوجود اس میں کوئی شک و شبهه نهیں هے که معصوم کی ماں هو نے کے لئے کافی شائستگی کا هونا بذات خود ایک عالی امتیاز هے بلکه رحم مادر کی طهارت بھی ، ائمه اطهار(ع) کے امتیازات میں سے ایک هے- اس لئے هم ائمه اطهار علهیم السلام کی زیارت میں شهادت دیتے هیں که:” خدا وند متعال نے آپ(ع) کو اپنی عنایتوں کی بدولت مطهر و پاک اصلاب سے منتقل کیا هے اور پاک ارحام سے پیدا کیا هے ، اس طرح که جاهلیت کی ناپاکیاں اور خود پرستی کے فتنے آپ کو آلوده نه کر سکے – آپ پاک منزه هیں ، آپ لوگوں کا سر چشمه (آپ کے والدین) بھی پاک و منزه هے…”[3]

امام زمانه عج الله تعاله فرجه الشریف سے مخصوص زیارت نامه، سامرا،میں یوں آیا هے:

“سلام هو امام کی والده پر اور اسرار الهی کو امانت کے طور پر حاصل کر نے اور شریف ترین انسانوں کو حمل کر نے والی پر ، سلام هو تجھـ پر اور تیری قابل رضایت راستگوئی پر… سلام هو تجھـ پر اے پاکیزه و پرهیز گار… میں شهادت دیتا هوں تو نے امام مهدی (عج)کی کفالت کو احسن طریقه پر انجام دیا هے اور امانت کو ادا کیا هے …پس خدا وند متعال تجھـ سے راضی هو اور تجھے راضی کرے اور بهشت کو تیرے لئے منزل قرار دے ، پس جو عطا یا و عنایات تجھے خدا وند متعال کی طرف سے حاصل هوئی هیں وه تجھے مبارک هوں-“[4]

خلاصه یه که حضرت حجت (عج) کی والده گرامی، چوده معصومین(ع) کے مانند معصوم نهیں تھیں ، بلکه امام حسن عسکری (ع) کے گهر میں داخل هو نے کے بعد نسبتی عصمت کی حامل هو گئی هیں اور امام عصرعجل الله تعالی فرجه الشریف کو حمل کر نے ، دودھ پلانے اور ان کی کفالت کر نے کی قابلیت پیدا کر چکی هیں اور اس طرح دوسری عورتوں پر فضیلت و شرافت پاچکی هیں اور ائمه اطهار علیهم السلام اور شیعون کی نظر میں قابل احترام اور خصوصی مقام کی حامل هیں-

مطالعه کے لئے منابع و ماخذ:

١- مصباح یزدی، محمد تقی، معارف قرآن(راه و راهنماشناسی)، ج٤و٥،ص٢١٢- ١٤٧-

٢- مصباح یزدی، محمد تقی،آ موزش عقاید ،ج٢و ١، ص٢٦٠-٢٣٢، درس ٢٤- ٢٦

٣- قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان-

٤- قمی، شیخ عباس، منتهی الاما ل،ص٩٤٠-١٠٤٤-١٠٥٠-



[1] – ملاحظه هو: مصباح یزدی ، معارف قرآن ،ج٤و ٥ (راه راهنما شناسی) ،ص٢١٢-١٤٧ ونیز آموزش عقاید، ج٢،ص٢٦٠- ٢٣٢، درس ٢٦-٢٤-

[2] – قمی ،شیخ عباس، منتهی الامال،ص١٠٥٠-١٠٤٤ وص٩٤٠ و…-

[3] – قمی، شیخ عباس ،مفاتیح الجنان ،زیارت ائمه بقیع(ع)نیز سایر زیارات-

[4] قمی ، شیخ عباس، مفاتیح الجنان ، زیارت والده حضرت قا ئم(عج)-

تبصرے
Loading...