کیا حضرت علی اکبر﴿ع﴾ نے شادی کی تھی یا نہیں؟ اور اگر انھوں نے شادی کی تھی تو ان کی شریک حیات کا نام کیا تھا اور ان کی اولاد کیا تھی؟ میں صرف اس حد تک جانتا ھوں کہ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ امام سجاد﴿ع﴾ سے بڑے تھے اور امام سجاد﴿ع﴾ کا ﴿ کربلا میں﴾ ۴ سال کا ایک بیٹا ﴿ امام محمد باقر﴿ع﴾ تھا، لیکن کہیں پر حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی شریک حیات کا ذکر نہیں آیا ہے، جبکہ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی عمر ﴿ کربلا میں﴾ ۲۴ سال سے زیادہ تھی ﴿یہ مطالب میں اپنی ایک تحقیق کے مطابق جانتا ھوں اور میں اس تحقیق پر کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں رکھتا ھوں﴾

حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کے والد گرامی[1] حضرت امام حسین بن علی بن ابیطالب ﴿ع﴾ اور ان کی والدہ محترمہ لیلی بنت ابو مرة بن عروة بن مسعود ثقفی ہیں۔[2]
حضرت علی اکبر﴿ع﴾ ایک نامور اور شریف قبیلہ، بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے اور اس طرح در حقیقت پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ حضرت فاطمہ زہراء ﴿س﴾، امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب اور اپنے والد گرامی امام حسین﴿ع﴾ کے قبیلہ ﴿بنی ہاشم﴾ کے چشم و چراغ تھے۔
حضرت علی اکبر﴿ع﴾ نے عاشورا کے ماجرا میں فعالانہ کردار ادا کیا ہے اور تمام حالات میں اپنے والد گرامی حضرت امام حسین﴿ع﴾ کے دوش بدوش دشمنوں کے ساتھ مبارزہ اور جنگ کر رہے تھے۔ وہ عاشورا کے دن بنی ہاشم اور آل ابیطالب کے پہلے شہید تھے۔[3]
حضرت علی اکبر﴿ع﴾ صاحب ہمسر و اولاد تھے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں دو نظریات پائے جاتے ہیں:
پہلا نظریہ یہ ہے کہ بعض اشخاص نے کہا ہے کہ وہ صاحب اولاد  نہیں تھے، ایسے افراد نے ان کی شریک حیات کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔[4]
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ اشخاص نے  کئی دلائل کی بناء پر حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کے صاحب ہمسر و اولاد ھونا ثابت کیا ہے ۔ ان دلائل میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
١۔ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی جو زیارت ابو حمزہ ثمالی نے حضرت امام جعفر صادق ﴿ع﴾ سے نقل کی ہے، اس میں ایک ایسی عبارت پائی جاتی ہے کہ جس سے معلوم ھوتا ہے کہ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ صاحب اولاد تھے،جیسے زیارت کی یہ عبارت:“۔ ۔ ۔ صلی اللہ علیک یا ابا الحسن ثلاثا۔ ۔ ۔ ”[5] « صلى الله علیك و على عترتك و أهل بیتك و آبائك و أبنائك و أمهاتك الأخیار الأبرار الذین أذهب الله عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا»؛ اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ: اگر چہ مذکورہ زیارت کے پہلے اقتباس کو حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کے صاحب اولاد ھونا ثابت کرنے کی اطمینان بخش دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، لیکن اس زیارت کا دوسرا حصہ قطعی طور پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ صاحب خاندان و اولاد تھے، کیونکہ لفظ“ ابنائک” جمع ہے اور لفظ “عترتک”، کسی کی عترت اس کی ذریت اور اولاد شمار ھوتی ہے۔
۲۔ بز نطی کہتے ہیں:“ میں نے حضر امام رضا ﴿ع﴾ سے پوچھا: کیا کوئی کسی عورت اور اس عورت کے باپ کی صاحب اولاد  کنیز کے ساتھ ازدواج کرسکتا ہے؟ حضرت ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے۔ میں نے کہا: میں نے آپ ﴿ع﴾ کے والد گرامی سے سنا ہے کہ، انھوں نے فرمایا کہ امام سجاد ﴿ع﴾ نے امام حسن﴿ع﴾ کی بیٹی سے ازدواج کرنے  کے علاوہ، آپ ﴿ع﴾ کی ام ولد ﴿صاحب اولاد کنیز﴾ سے بھی ازدواج کی تھی۔ ۔ ۔امام ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا: جیسا تم کہتے ھو، ویسا نہیں ہے، بلکہ امام سجاد ﴿ع نے امام حسن ﴿ع﴾ کی بیٹی سے ازدواج کی اور اس کے علاوہ اپنے بھائی علی بن الحسین ﴿ع﴾ کی ام ولد ﴿صاحب اولاد کنیز﴾ سے ازدواج کی ہے، جو کربلا میں قتل ﴿شہید﴾ کئے گئے۔[6]
سند کے لحاظ سے اس روایت میں موجود شخصیتیں ثقہ ہیں [7]اور محتوی کے لحاظ سے بھی اس روایت سے معلوم ھوتا ہے کہ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی ایک کنیز سے اولاد تھی۔
پس مذکورہ بیان کے مطابق، حضرت علی اکبر﴿ع﴾ صاحب ہمسر و فرزند تھے، لیکن جو تحقیق ہم نے اس سلسلہ میں انجام دی حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی ہمسر کے نام اور تفصیلات کے بارے میں کچھ معلوم نہ ھوسکا۔

 


[1]   ۔ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں ملاحظہ ھو عنوان: «تاریخ ولادت حضرت علی اکبر(ع)»، سؤال 5660 (سایٹ: 5889)
[2]  ۔ طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج 5، ص 446، دار التراث، بیروت، طبع دوم، 1387/1967؛ یعقوبی، احمد بن أبى یعقوب بن جعفر بن وهب، تاریخ الیعقوبی، ج 2، ص 246 و 247، دار صادر، بیروت، بی تا.
[3]  ۔ الاعلام، ج 4، ص 277؛ بلاذری، أحمد بن یحیى بن جابر، انساب الاشراف، ج 3، ص 200، دار الفكر، بیروت، چاپ اول، 1417ق؛ تاریخ الطبری، ج 5، ص 446؛ کوفی، أبو محمد أحمد بن اعثم‏، الفتوح، ج 5، ص 115 (پاورقی)، دارالأضواء، بیروت، طبع اول، 1411ق.
[4]  ۔ تاریخ الیعقوبی، ج 2، ص 246؛ مقریزی، تقى الدین أحمد بن على‏، إمتاع الأسماع، ج 5، ص 365،  دار الكتب العلمیة، بیروت، طبع اول، 1420ق؛ تاریخ الطبری، ج 11، ص 520؛ هاشمی بصری، محمد بن سعد بن منیع‏، الطبقات الکبری، ج 5، ص 163، دار الكتب العلمیة، بیروت، طبع اول، 1410ق؛ اصفهانی، ابو الفرج على بن الحسین‏، مقاتل الطالبیین، ص 86، دار المعرفة، بیروت، بی تا.
[5] ۔ ابن قولویه قمی، کامل الزیارات، ص 240، انتشارات مرتضویه، نجف، 1356ق.
[6]  ۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 46، ص 163 و 164، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ق.
[7]  ۔ در سند این روایت، ابن عیسی معروف به ابی عقیل عمانی و بزنطی قرار دارند که هر دو ثقه هستند و به روایاتشان اعتماد می شود. (ابن أبی عقیل  العمانی، الحسن بن علی بن أبی عقیل الحذّاء، حیاة ابن ابی عقیل و فقهه، ص 18، مركز معجم فقهی‏، قم، چاپ اول، 1413ق؛ طوسی، أبو جعفر محمد بن الحسن،‏ الفهرست، ص 54 و 194، المكتبة الرضویة، نجف اشرف؛ خوئی، سید أبو القاسم، ‏معجم رجال الحدیث، ج 6، ص 25 – 27؛ دانشوروں کی ایک جماعت، تأریخ الفقهاء و الرواة، الوسائل، ج 30، ص 309، جمع آوری شده از برنامه های جامع فقه اهل بیت مؤسسات تحقیقات کامپیوتری نور، قم).
تبصرے
Loading...