کیا جس کا رابطہ خدا سے زیادہ ہو وہ زیادہ بلا و مصیبت سے دوچار ہوتا ہے؟

موضوع کی وضاحت کے لئے ہم اس سوال کا جواب چند حصوں میں پیش کرتے ہیں:
اولاً : شیطان، فرزندان آدم کا قسم خوردہ دشمن ہے کہ اس نے خدا کی عزت و جلال کی قسم کھائی ہے کہ فرزندان آدم کو ہر گز نہ چھوڑے گا یہاں تک کہ انھیں گمراہ کردے گا، صرف مخلص انسان پر تسلط کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔
[1]

اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شیطان کی ریشہ دوانیوں سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہئیے، کیونکہ اس نے جو قسم کھائی ہے، اس کے مطابق ہمیشہ انسانوں میں وسواس ڈالنے کی کوششوں میں ہوتا ہے اور قابل توجہ ہے کہ شیطان اس راہ سے داخل ہوتا ہے جہاں سے انسان کو غافل کرسکے اور بظاہر قابل توجیہ بہانوں سے مومن انسان کی عبادتوں کی راہ سے کمال تک پہچنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
ثانیاً: جیسا کہ آپ نے خود اعتراف کیا ہے کہ، روایات کے مطابق مومن انسان بلاؤں میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن قابل توجہ ہے کہ:
الف) جیسا کہ لغت شناسوں نے کہا ہے کہ بلاء امتحان و آزمائش کے معنی میں ہے۔
[2]
اس بنا پر امتحان ہمیشہ انسان کے مصیبت سے دوچار ہونے کے معنی میں نہیں ہے۔
ب) دنیا امتحان گاہ ہے
[3]
اور انسانوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جس کا امتحان نہ لیا جائے، منتہی یہ کہ امتحان شدید اور ضعیف ہوتے ہیں اور ظرفیت اور درجات کے مطابق امتحان ہوتے ہیں۔ ان طالب علموں کے مانند جو پرائمری، مڈل، ہائرسیکنڈری، کالج اور یونیورسٹی کے مراحل طے کرتے ہیں، فطری بات ہے کہ ہر ایک اپنے مرحلہ کا امتحان طے کرتا ہے، یعنی یونیورسٹی کا طالب علم  پرائمری سکول کا امتحان نہیں دیتا ہے اور پرائمری سکول کا طالب علم یونیورسٹی کا امتحان نہیں دیتا ہے۔
ج) امتحان کے مواقع میں سے ایک، مشکلات اور مصیبتوں سے دوچار ہونا ہے اور یہ صرف مومنوں سے مخصوص نہیں ہے، اگر چہ کمال کے بلند مدارج طے کرنے کی وجہ سے ان کے امتحانات سخت تر ہوں۔
[4]
لیکن اس کےیہ معنی نہیں ہیں کہ دوسرے لوگوں کا بلاؤں اور مصیبتوں سے امتحان نہیں لیا جائے گا، بلکہ ممکن ہے گناہگار انسان بھی بلاؤں سے دوچار ہو جائیں، یعنی بہت سے ایسے گناہ ہیں کہ ان کا مرتکب ہونے والا اسی دنیا میں سزا پائے گا۔
[5]

د) تقرب الہی، کمال کا ایک درجہ ہے کہ ممکن ہے بندہ اس تک پہنچ جائے، اس لحاظ سے اس کے امتحان کا مرتبہ، گزشتہ مراحل سے سخت تر اور اہم تر ہو۔
پس اگر کوئی کمال کے بلند تر درجات تک پہنچنا چاہتا ہو، تو اسے سخت تر امتحان کے لئے آمادہ رہنا چاہئیے ورنہ اسی پر اکتفاکرے جو اسے ملا ہے۔
نتیجہ یہ کہ جو کمال کے بلند درجہ پر پہنچتا ہے، اسے سخت تر امتحان کے لئے تیار رہنا چاہئے نہ عذاب اور شدید مصیبت کے لئے پس خدا پر توکل کرکے اور اس سے مدد طلب کرکے ترقی اور کمال کی راہ پر گامزن ہو کر کمال تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔
اس موضوع سے متعلق دوسرے عناوین:
جمع بین آیات و روایات نعمت های الاهی و بلاها، 4591 (سایت: 5113).
بلایای طبیعی (سیل، زلزله، طوفان و…) و عذاب الاهی، 288 (سایت: 434)

 


[1]
۔ ص، 82 و 83، ” اس نے کہا: تو پھر تیری عزت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا۔ علاوہ تیرے ان بندوں کے جنھیں تونے خالص بنایا ہے۔

[2]
۔ ابن منظور محمد بن مكرم، لسان‏العرب، ج 14،  ص  83 ،  ناشر دار صادر، بيروت، طبع: سوم‏، 1414 ق‏، بَلَوْتُ الرجلَ بَلْواً و بَلاءً و ابْتَلَيْته: اخْتَبَرْته، و بَلاهُ يَبْلُوه بَلْواً إذا جَرَّبَه و اخْتَبَره.

[3]
ملک، 2، اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ تمھاری آزمائش کرےکہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے؟”

[4]
۔ مستدرك‏الوسائل، ج 2، ص 427، حدیث، 2368-  31، وَ قَالَ النَّبِيُّ (ص) نبی اکرم (ص) نے فرمایا ہے: جب خداوند اپنے کسی بندے کو دوست رکھتا ہے اسے سختیوں اور مصائب سے دوچار کرتا ہے اگر اس نے صبر و شکیبائی کا مظاہرہ کیا اسے انتخاب کرتا ہے اور اگر خوشحال ہوا تو اسے اپنے لئے معین کرتا ہے۔

[5]
۔ کلینی، كافي، ج 2، ص 347، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365 هـ ش، حدیث 4، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ (ع) قَالَ فِي كِتَابِ عَلِيٍّ ع ثَلَاثُ خِصَالٍ لَا يَمُوتُ صَاحِبُهُنَّ أَبَداً حَتَّى يَرَى وَبَالَهُنَّ الْبَغْيُ وَ قَطِيعَةُ الرَّحِمِ وَ الْيَمِينُ الْكَاذِبَة … .

تبصرے
Loading...