کیا تمام انفال کی مالکیت کو خداوند متعال اور پیغمبر اکرم{ص} سے متعلق جاننے والی سورہ انفال کی پہلی آیت اور غنائم کے صرف پانچویں حصہ کو ان سے متعلق جاننے والی اسی سورہ کی آیت نمبر ۴۱ کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے؟

سورہ انفال کی پہلی آیت، بلا استثنا تمام انفال کو خداوند متعال اور اس کے رسول{ص} سے متعلق جانتی ہے، لیکن اسی سورہ کی آیت نمبر ۴۱ غنائم کے صرف پانچویں حصہ کو ان سے متعلق جانتی ہے اور قدرتی طور پر اس کے باقی چار حصے جنگ لڑنے والوں سے متعلق ھوں گے- آپ کی نظر میں ان دو متعارض آیات میں سے کونسی آیت صحیح ہے؟
ایک مختصر

غنائم اور انفال، منطقی لحاظ سے یکساں نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود قابل ذکر ہے کہ “وحدت” کے نظریہ کے مطابق تمام انسانوں اور پوری عالم ہستی کو پروردگار سے متعلق جانا جاسکتا ہے، لیکن “کثرت” کے نظریہ کے مطابق بعض مادی نعمتیں، خدا سے تعلق منقطع ھوئے بغیر، بظاہر انسان کی مالکیت میں قرار پائی ہیں اور ان دو کا آپس میں کوئی تعارض اورمنافات نہیں ہے-
تفصیلی جوابات

بظاہر تعارض رکھنے والی آیات حسب ذیل ہیں:

الف}:” یسئلونک عن الا نفال قل الا نفال للہ ورسولہ- – -“[1] ” پیغمبر، یہ لوگ آپ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہدیجئے کہ انفال سب اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں- – -“

ب} واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ و للرسول – – -“[2] ” اور جان لو کہ تمھیں جس سے بھی فائدہ حاصل ھو، اس کا پانچواں حصہ اللہ، رسول اور- – – کے لئے ہے- – – “

اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ: باوجودیکہ شیعوں کے تفسیری نظریہ کے مطابق” انفال” اور” غنیمت” کے درمیان مساوی ھونے کے لحاظ سے کوئی منطقی رابطہ نہیں ہے، پھر بھی مندرجہ ذیل نکتہ بیان کرکے اس قسم کے شک وشبہات کو دور کرنے میں مدد حاصل کی جاسکتی ہے:

پہلی نگاہ میں اور “وحدت” کے نظریہ کے مطابق، ہمارا پورا وجود اور جو کچھ اس سے استفادہ کرنے کی ہم طاقت رکھتے ہیں، سب ہستی بخشنے والے خداوند متعال سے متعلق ہے- اس حقیقت کی قرآن مجید کی متعدد آیات میں مخاطبین کو یاد دہانی کرائی گئی ہے، من جملہ:

۱-” للہ ما فی السموات وما فی الارض-“[3] ” جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ پروردگار سے متعلق ہے-[4]

۲ -” انا للہ وانا الیہ راجعون” ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی بار گاہ میں واپس جانے والے ہیں-“

۳-” قل لمن ما فی السموات والارض قل للہ”[5] ” ان سے کہئے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کس کے لئے ہے؟ پھر بتائیے کہ سب اللہ ہی کے لئے ہے- – -“[6]

دوسری جانب، ” کثرت” کے نظریہ کے مطابق، خداوند متعال نے انسانوں کو دنیا میں موجود بعض نعمتوں کا مالک جانا ہے اور مختلف مواقع پر، کلی طور پر اور یا ایک خاص تقسیم بندی کرکے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے-

ایک اور جگہ پر یوں اپنی ستائش کرتا ہے:” ھوالذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبھا و کلوا من رزقہ والیہ النشور-” [7]” اس نے تمھارے لئے زمین کو نرم بنا دیا ہے کہ اس کے اطراف میں چلو اور رزق خدا تلاش کرو پھر اسی کی طرف قبروں سے اٹھ جانا ہے-“

خمس[8]، وراثت[9] اور مالکیت وغیرہ جیسے مادی امور میں بھی ایسا لگتا ہے کہ پرور دگار عالم نے انسانوں کو ایک قسم کی مالکیت بخشی ہے- قدرتی بات ہے کہ مذکورہ بظاہر متفاوت دو نظریات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، اور قرآن مجید نے کیا خوبصورت انداز میں ایک آیہ شریفہ میں ان دونوں نظریات کے بارے میں اشارہ فرمایا ہے:” “وَ سَخَّرَ لَكُمْ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ جَميعاً مِنْهُ إِنَّ في ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون”؛[10]، “اور اس نے تمھارے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے، بیشک اس میں غور و فکر کرنے والی قوم کے لئے نشانیاں پائی جاتی ہیں-“

مذ کورہ نکات اور”غنیمت” و “انفال” کے درمیان فرضی اتحاد کے پیش نظر یہ کہا جا سکتاہے کہ غنائم کے پانچ حصوں کو جنگ کرنے والوں کو عطا کرنے کا سر چشمہ بھی پروردگار عالم کی بلا شرکت مالکیت ہے اور ان چیزوں کی ظاہری ملکیت ان کی حقیقی ملکیت کو کم نہیں کرسکتی ہے-

 

[1] انفال، 1.

[2] انفال، 41.

[3] بقره، 284؛ آل عمران، 109 و 129؛ نساء، 126 و …

[4] بقره، 156.

[5][5] بقره، 156.

[6] ملک، 15.

[7] انفال، 41.

[8] نساء، 12-11.

[9] نساء، 12-11.

[10] ز جاثیہ، ۱۳

 

تبصرے
Loading...