کیا تفویض کا اعتقاد﴿ یعنی دنیا کے امور کی تدبیر ائمہ اطہارعلیھم السلام کو سونپا جانا﴾ جو بعض احادیث میں نقل کیا گیا ہے، قابل قبول ہے؟

توحیدی نظریہ کے مطابق، خداوند متعال کی ذات کے علاوہ کوئی مخلوق مطلق آزاد و مختار نہیں ہے۔
ذات باری تعالی کے علاوہ تمام مخلوقات اسی ذات کے مظہر اور تجلی ہیں جو اپنی ذات و صفات میں اسی ذات سے وابستہ ہیں۔ اور وہ سب مخلوقات ذاتی طور پر خداوند متعال کے محتاج ہی۔ اس بناپر کائنات میں تدبیر امور کے مانند ذاتی طور پر ہر قسم کی مداخلت اور موثر ھونا خداوند متعال سے مخصوص ہے اور ان صفات الہی کو صرف مظہر و تجلی کے عنوان سے مخلوقات سے نسبت دینا جائز ہے اور سوال میں ذکر کی گئی روایات بھی اسی نکتہ کی طرف تاکید کرتی ہیں۔
دوسری جانب سے فلسفہ اور عرفان کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ: انسان کامل، خداوند متعال کا بلند ترین مظہر ہے اور وجود کی جامعیت کی وجہ سے یہی انسان کامل ھستی کے بلند مقام پر فائز ھونے کے سبب، اپنے سے نچلے درجہ کی مخلوقات کے بارے میں خلق و پرورش کے سلسلہ میں ربوبی اور واسطہ کا رول ادا کرتا ہے۔ کیونکہ انسان کامل مخلوقات کے لئے خداوند متعال کے فیض کا واسطہ اور وسیلہ ھوتا ہے۔[1]
اس کے علاوہ ، امام صادق ﴿ع﴾ کے بیان کے مطابق ، انسان جس قدر ذات الہی کی عبودیت کی راہ میں فنا فی ا للہ ھونے کی کوشش کرتا ہے، اسی قدر ربوبیت کی تجلی کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔[2]
اس لحاظ سے تفویض اور مخلوقات کے امور کو ائمہ اطہار﴿ع﴾ کو سونپے جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ خداوند متعال کے فیض کا واسطہ ہیں، نہ یہ کہ وہ خداوند متعال سے الگ اور آزادانہ طور پر کوئی کام انجام دے سکیں، کیونکہ خدا کے علاوہ کسی کو معمولی حد میں بھی آزاد اور مستقل سمجھنے کا اعتقاد  شرک اور خلاف توحید ہے۔

 


[1] گرامی، محمد علی، لولا فاطمه، ص22، دار الفکر، طبع اول، 1381ش.
تبصرے
Loading...