کیا بنی اسرا ئیل کے ذریعہ گائے کو ذبح کرنے کے بارے میں ، خدا وند متعال مقتول کو ایک قربانی کی درخواست کے بغیر زندہ نہیں کرسکتا تھا؟

سوال کا جواب دینے سے پہلے، کچھ نکات بیان کرنا ضروری ہیں:

۱-چونکہ خداوند متعال حکیم ہے اور بنیادی طور پر حکیم و دانا شخص سے کوئی بیہودہ کام انجام نہیں پاتا ہے، اس لحاظ سے شیعوں کا اعتقاد ہے کہ صاحب شریعت سے صادر ھوئے تمام احکام و افعال مصلحتوں اور مقاصد کے تابع ھوتے ہیں،اس سلسلہ میں آپ ہماری اسی سائٹ کے عنوان :”منابع بیان حکمت احکام و مخلوقات” سوال: ۲۶۰۸{ سائٹ: ۲۷۴۸} کی طرف رجوع کرسکتے ہیں-

اس بنا پر، قطعا اس امر میں بھی کوئی حکمت مضمر ہے، اگر چہ انسان اس سے نا واقف ہیں-

۲-آیات وروایات سے معلوم ھوتا ہے کہ بنیا دی طور پر زیادہ سوالات {غیر مربوط  سوالات} کرنا پسندیدہ کام نہیں ہے، ممکن ہے اس کام کی کوئی سزا بھی ھو-

راوی{ احمد بن محمد} کہتا ہے: حضرت امام رضا {ع} نے میرے نام تحریر فرمایا: تم کیوں زیادہ سوال کرتے ھو؟ اور زیادہ سوال کرنے سے پرہیز نہیں کرتے ھو؟ تم سے پہلے ایک گروہ کے افراد زیادہ سوال کرنے کی وجہ سے ہلاک اور نابود ھوئے ہیں- خداوند متعال نے بھی ارشاد فرمایا ہے: یا ایھا الذین آمنوا لا تسئلوا عن اشیاء”[1]

۳-بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ کرنے کے لئے پہلے حضرت موسی{ع} نے صرف گائے کا تقاضا کیا تھا، لیکن بنی اسرائیل کی طرف سے اس مسئلہ کو سنجیدہ تلقی نہ کرنے اور بہانہ تراشی کرنے اور پے در پے اور بے جا سوالات کرنے کی وجہ سے حضرت موسی {ع} اس مشخص گائے کو لانے کے لئے مامور ھوئے- [2]گائے کو ذبح کرنے اور مقتول لڑکی کو زندہ کرنے کے سلسلہ  میں نازل ھوئی آیات کے ذیل میں بہت سے سوالات ابھرے ہیں، کہ ان میں سے بعض کو اس سوال میں پیش کیا گیا ہے اور بعض کو پیش نہیں کیا گیا ہے، ہم خلاصہ کے طور پر لیکن جامع صورت میں ان کو پیش کرتے ہیں:

۱-خدا وند متعال نے حیوانات میں  سے صرف گائے کو ذبح کرنے کے لئے بنی اسرائیل کو مامور کیوں کیا اور اس سلسلہ میں گائے میں کون سی خصوصیت تھی؟

چونکہ بنی اسرائیل سالہا سال تک مصریوں کے تسلط میں تھے، ہر دوسری محکوم اور بے بس قوم کے مانند خواہ نخواہ مصریوں کی توہم پرستی اور اعتقا دات ان پرمسلط ھو چکے تھے-

مصریوں کے مقدسات میں سے ایک گائے تھی- گویا ہندوستان کے مانند مصریوں  میں گائے کا احترام اور تقدس زیادہ تر زمینداروں اورمال مویشی پالنے والوں میں تھا- چونکہ بنی اسرائیل ملک کے اس اکثر یتی طبقہ کے ساتھ میل جول رکھتے تھے، اس لئے گائے کے تقدس اور پرستش نے ان پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ وہ اپنے آبا و اجداد کی یکتا پرستی کو بھول گئے تھے، اور چونکہ گائے پرستی ان ہی طبقات میں رائج تھی، اس لئے تاریخ میں یہ عقیدہ مصر کے حاکم طبقہ کے خداوں کے برابر شہرت حاصل نہ کرسکا- شائد بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے اور بیابانوں میں گائے پرست قبائل کے ساتھ لمبی مدت تک معاشرت کرنے کی وجہ سے گائے پرستی ان میں بھی رائج ہوچکی تھی- جس طرح بھی ھو، گائے اور گوسالہ پرستی ان میں سرایت ہوچکی تھی اور گائے اور گوسالہ پرستی کی محبت ان کے دلوں میں رچ بس چکی تھی- چنانچہ اسی سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۸۸ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:” اور ان کے دل، گوسالہ کی محبت کے ساتھ آمیختہ ھوئے ہیں-” اس بنا پر حضرت موسی {ع }کے چند دن غایب ھونے کی وجہ سے ان کی گوسالہ پرستی ان کی غفلت کی وجہ سے اور ناگہانی نہیں تھی بلکہ اس کا سرچشمہ اس پرستش کے ساتھ ان کی دلچسپی اور باطنی رجحان تھا-  بنی اسرائیل میں خالص توحید کو سمجھنے کا شعور نہیں تھا ، اس لئے ان کے لئے ضروری تھا کہ اپنے لئے ایک محدود و محسوس معبود کا انتخاب کریں-

چونکہ غیر خدا کو پرستش کی حد تک مقدس ماننا اور ان سے محبت کرنا، خدا پرستی کے فطری  شعور کو مسلسل چھپاتا ہے، اس لئے انسان کے شعور وضمیر کو بیدا رکرنے کے لئے انبیاء {ع} کا پہلا اقدام ، بتوں اور طاغوتوں کے ساتھ منطقی و عملی  مبارزہ کرنا اور ان رکاوٹوں کو انسانی عقل کی راہ سے ہٹانا تھا-

اس حقیقت کے پیش نظر، یہودیوں کو اجتماعی طور پر گائے کشی اور گا ئے کشی کا جشن     { یا عید خون} منانے کا براہ راست حکم دیا گیا تھا، کہ سب لو گوں کو ایک  گائے کا انتخاب کرنا چاھئے اور اس کی خرید اور اس کو ذبح کرنے میں شریک ھو جائیں – یہ گائے کشی،  قربانی یا قصابی کے لئے نہیں تھی ، بلکہ اس لئے تھی کہ اس عمل سے، ان کے ذہنوں سے گائے کا تقدس مٹا دیا جائے اور اس اجتماعی عمل کا اثر ان کے بڑوں اور چھوٹوں کے ذہنوں میں باقی رہے- عظیم پیغمبروں کا یہی طریقہ کار تھا اور یہ اصلاح اور نفوس کو  احیا کرنے کا شیوہ تھا اس لحاظ سے حضرت موسی{ع} نے سامری کے توسط سے بنائے گئے سونے کے گوسالہ  کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اسے نذر آتش کردیا اور اس کی راکھ کو پانی اور ہوا میں بکھیر دیا- لیکن اس گوسالہ کی تصویر ان کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ تھی اور ان کے دلوں میں اس کی محبت باقی تھی اور ان کے اعمال و افعال میں اس گوسالہ کی پرستش کے آثار نمایاں تھے-

قتل کے حادثہ نے تمام بنی اسر ائیل کو ہلا کررکھ دیا تھا اور انہوں نے شور مچایا تھا، اس حادثہ نے گویا حضرت موسی {ع} کے لئے ایک موقع فراہم کردیا کہ یہ حکم صادر کریں ، اگر چہ یہودیوں کو اس پر عمل کرنا بہت سخت گزرا تھا، اسی لئے اس کے بارے میں گونا گوں اعتراضات اور سوالات کرتے تھے کہ شائد اس حکم کو روکا جائے-[3]

اس بنا پر، چونکہ بنی اسرا ئیل نے ایک مدت تک گائے پرستی کی تھی، مقصد یہ تھا کہ گائے کو ذبح کر نےسے اس کی عظمت ختم ھو جائے، جس کے وہ ماضی میں معتقد تھے اور گائے کی پرستش کے قابل ھونے کی صلاحیت ختم ھو جائے-[4]

۲-خدا وند متعال نے کیوں ایک دوسرے جاندار کو قتل کرکے مقتول کو دوبارہ زندہ کیا؟

بنیادی طور پر خداوند متعال کی بے انتہا قدرت کی بارگاہ میں ایسے مسائل میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر خداوند متعال کا ارادہ کسی چیز کو پیدا کرنے کے سلسلہ میں اس چیز سے تعلق پیدا کرے تو  وہ چیز پیدا ھوتی ہے،[5] لیکن جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ احکام الہی مصلحتوں کے تابع ھوتے ہیں، اس لحاظ سے بعض افراد نے اس سوال کے جواب میں کہا ہے کہ: خداوند متعال اپنی مکمل قدرت  کو زیادہ سے زیادہ واضح کرنےنے کے لئے کسی چیز کی پیدائش  کو اس کی ضد کی راہ سے ظاہر کرتا ہے-[6]

۳-اگر یہ گائے زرد نہ ھوتی، لاغر اور بو ڑھی ھوتی، تو کیا خدا کی قدرت کو کوئی نقصان پہنچتا؟

بیشک”سوال” مشکلات کو حل کرنے کی کلید اور جہالت و نادانی کو دور کرنے کا سبب ھوتا  ہے- لیکن ہر چیز  کے مانند اگر سوال بھی اپنے معیار اور حد سے تجاوز کرے اور یا بیہودہ ھو، تو گمراہی اور نقصان کا سبب بن جاتا ہے، جیسا کہ ہم نے اس واقعے میں اس کی مثال کا مشاہدہ کیا-

بنی اسرا ئیل گائے کو ذبح کرنے پرمامور تھے، بیشک اگر اس گائے کے لئے کوئی قید و شرط ھوتی تو اس کو بیان کرنے میں ہر گز تاخیر نہ ھوتی اور خدائے حکیم اسی لمحہ، جب انھیں حکم دیا تھا، اسے بھی بیان فرماتا – اس بنا پر اس سلسلہ میں قید و شرط رکھنا ان کا فریضہ نہیں تھا، اسی لئے لفظ ” بقرہ” یہاں پر ” اسم نکرہ” کی صورت میں بیان کیا گیا ہے-

لیکن بنی اسرائیل نے اس مسلم اصول کی پرواہ کئے بغیر، گونا گوں سوالات کرنا شروع کئے، شاید اس لئے کہ وہ چاہتے تھے کہ حقیقت سے پردہ نہ اٹھایا جائے اور قاتل معلوم نہ ھوجائے، اور بنی اسرائیل میں یہ اختلافات جاری رہیں، جملہ” فذبحوھا وما کادوا یفعلون[7]” ان ہی معنی کی طرف ایک اشارہ ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ:” انھوں نے گائے کو ذبح کیا لیکن وہ اس کام کو انجام دینا نہیں چاہتے تھے؛-“

اسی واقعے کی آیت نمبر ۷۲ کے ذیل سے بھی یہی معلوم ھوتا ہے کہ کم از کم ان میں سے ایک گروہ کے لوگ قاتل کو پہچانتے تھے، اور اصل قضیہ سے آگاہ تھے، اور شاید یہ قتل ان کی سابقہ سازش کے تحت انجام پایا تھا، لیکن وہ اس سے انکار کرتے تھے، کیونکہ اسی آیہ شریفہ کے ذیل میں ہم پڑھتے ہیں کہ: ” واللہ مخرج ما کنتم تکتمون”[8] ” جس چیز کو تم لوگ پنہان کرتے ھو، خداوند متعال اسے آشکار کرتا ہے-“

اس کے علاوہ ہٹ دھرم اور خود خوا ہ افراد غالبا باتونی اور زیادہ سوال کرنے والے ھوتے ہیں اور ہر چیز کے سلسلہ میں بہانہ تراشی کرتے ہیں-

آثار و قرائن سے معلوم ھوتا ہے کہ بنیادی طو ر پر وہ نہ خدا کے بارے میں مکمل معرفت رکھتے تھے اور نہ حضرت موسی {ع} کی حیثیت کے بارے میں آگاہ تھے، لہذا، انھوں نے ان تمام سوالات کے بعد کہا:” الآن جئت بالحق”[9]، ” اب آپ نے حق بات کہی ہے؛” گویا جو کچھ اس سے پہلے کہا گیا تھا، وہ سب باطل تھا’-

بہرحال، جس قدر انھوں نے سوال کیے، خداوند متعال نے بھی ان کی تکلیف کو سخت تر کیا، کیونکہ اس قسم کے افراد اسی سزا کے مستحق تھے-[10] چنانچہ ہم روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ خداوند متعال کے منشاء  میں ہرمورد پر خاموشی اختیار کرنی چاھئے اور چون و چرا نہیں کرنا چاھئیے، کیونکہ بے شک اس میں کوئی نہ کوئی حکمت اور مصلحت تھی[11]، لہذا حضرت امام علی بن موسی الرضا{ع} کی ایک ر وایت میں یوں آیا ہے کہ اگر وہ { بنی اسرائیل} ابتداء میں ہی ایک گائے کو منتخب کرکے ذبح کرتے تو کافی تھا،” ولکن شدوا فشدد اللہ علیھم” لیکن انھوں نے سخت گیری کی اور خداوند متعا ل نے بھی سختی سے کام لیا-[12]

۴-یہ سب اوصاف کس لئے تھے؟

مفسرین نے یہاں پر یاد دہانی کرائی ہے کہ یہ  گائے اس علاقہ میں بے مثال تھی اور بنی اسرائیل نے اسے گراں قیمت پر خریدا تھا-

کہا جاتا ہے کہ اس گائے کا مالک ایک نیک انسان تھا اور وہ اپنے باپ کا کافی احترام کرتا تھا ، ایک دن اس کا باپ سویا ھوا تھا ، اس کے لئے ایک سود مند معاملہ فراہم ھوا، لیکن اس نے صندوق کی چابی  لینے کے لئے اپنے باپ کو نیند سے بیدار نہ کیا تاکہ اسے تکلیف نہ  ھو، نتیجہ کے طور پر اس منافع بخش معاملہ سے صرف نظر کیا-

بعض مفسرین کے بقول” بیچنے والا اس چیز کو سترہزار میں بیچنے پر آمادہ تھا، اس شرط پر کہ اسے نقد قیمت دی جائے، ا ورنقد پیسے دینے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے باپ کو نیند سے بیدار کرکے صندوق کی چابی اس سے لےلے، لیکن اس جوان نے کہا کہ اسے اسی{۸۰} ہزار میں خریدے گا، لیکن پیسے اس وقت دے گا جب اس کا باپ نیند سے بیدار ھو جائے گا، آخر کار یہ معاملہ انجام  نہیں پایا-

خداوند متعال نے اس جوان کے معاملہ کی تلافی کے طور پر، اس کے لئے ایک دواسرا منافع بخش معاملہ فراہم کیا-

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ:” نیند سے بیدار ھونے کے بعد باپ اس قضیہ کے بارے میں جب آگاہ ھوا تو اپنے بیٹے کے اس عمل کے بدلے میں وہ گائے اسے بخش دی اور سر انجام اسے کافی نفع ملا-“

پیغمبر اسلام {ص} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ” انظروا الی البر ما بلغ باھلہ” ” نیکی کو دیکھ لو کہ نیکو کار کے ساتھ کیا برتاو کرتی ہے-“[13]

 


[1] عطاردى، عزيز الله، مسند الإمام الرضا (ع) ، ج‏1، ص 352 (ترجمه عزیز الله عطاردی، اخبار و آثار حضرت امام رضا (ع)) ناشر: آستان قدس( کانفرنس)، چاپ مشهد، 1406 ھ ، طبع اول‏.

[2] محدث نوری، مستدرك‏الوسائل، ج 15، ص 212، طبع مؤسسۀ آل البیت قم، 1408 هـ .

[3] طالقانى،  سيد محمود، پرتوى از قرآن (با تلخیص)، ج‏1، ص 191  – 194، شركت سهامى انتشار، تهران‏، 1362 ھ ش‏، طبع چهارم‏.

[4] طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان في تفسير القرآن، ج ‏1، ص 267، با استفاده از ترجمۀ آن، ج‏1، ص 211، ناشر: انتشارات ناصر خسرو، تهران، 1372 ھ ش، طبع سوم‏.

[5] إِنَّما أَمْرُهُ إِذا أَرادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُون‏، یس، 82.

[6] طبرسی، فضل بن حسن، ترجمه مجمع البيان في تفسير القرآن، ج‏1، ص 212 – 214.

[11] ا میرالمومنین حضرت علی{ع}نے لوگوں میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:بیشک خداوند متعال نے حدود کو مقرر فرمایا ہے اور اس سے تجاوز نہ کرنا اور کچھ اعمال کو واجب قرار دیا ہے انھیں ناقص اور نامکمل نہیں چھوڑنا اور بعض امور کو حکم کے بغیر چھوڑا ہے اور وہ فراموشی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ مصلحت کی بناء پر ہے ، پس تم لوگ ان امور کے بارے میں اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالنا اوراسے خدا وند متعال نے اپنی رحمت و مہر بانی سے تمھارے لئے حکم کے بغیر چھو ڑا ہے پس اس کی رحمت کو اپنی آغوش میں لے لو-من لا یحضرہ ا لفقیہ، ج۴،ص۷۵

[12] شيخ صدوق، ‏عيون‏أخبارالرضا(ع) ج 2، ص 13، نشر جهان، تهران، 1378 ھ‏،  طبع اول‏.

[13] عيون أخبار الرضا (ع) ، ج‏2، ص: 14؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج‏1، ص 310.

 

تبصرے
Loading...