کیا امام حسین (ع) نے یزید کے تجارتی کاروان کو ضبط کیا تھا؟

جو کچھ تاریخ میں آیاہے اس سے معلوم ہوتا ہے ہے ، کہ یزید کے تجارتی کاروان کا مال ایک بار امام حسین (ع) کے ذریعہ ضبط کیا گیا ہے اور یہ واقعہ عراق کے راستہ پر انجام پایا ہے اور یہ تجارتی کاروان یمن سے شام کی طرف جا رہا تھا اس میں یزید کے لئے قیمتی چیزیں تھیں۔ جب امام حسین(ع)  کی اس کاروان سے تنعیم کے پڑاو  پر مڈ بھیڑ ہوئی ، امام حسین (ع) نے اس کاروان کے مال کو ضبط کیا تا کہ یزید کے حامیوں کے لئے راستہ نا امن بن جائے ، امام (ع) نے کاروان کے افراد سے فرمایا: کہ کوئی بھی شخص ہمارے ساتھ عراق آنا چاہے  اس کا پورا کرایہ دیا جائے گا اور اس کے ساتھ اچھا برتاو کیا جائے گا اور جو بھی جدا ہونا چاھے اس کا یہاں تک کا کرایہ ہم دیدیں گے بعض لوگ جدا ہوئے اور بعض افراد نے امام (ع) کا ساتھ دیا اور آپ (ع(  کے ہمراہی ہوئے امام حسین(ع)  نے اس اقدام سے یزید پر اقتصادی ضرب لگادی اور دشمن کے افراد کو بھی متوجہ کیا[1] لیکن اس کاروائی کی دلیل و فلسفہ کے بارے میں کہنا چاہیئے کہ معاویہ کے ذریعہ  یزید کو اس کا جانشین مقرر کرنے کے سلسلے میں عھد شکنی  (جو امام حسین(ع)  کے ساتھ کئے گئے صلح نامہ کے خلاف تھی)  کے پیش نظر امام حسین(ع)  یزید کی حکومت کو غیر شرعی اور ناجائزجانتے تھے اور اس عھد شکنی کے خلاف قیام کرنے کو اپنا فریضہ جانتَے تھے اور امام نے ان ہی دنوں سے یزید کی حکومت کے خلاف اعتراضات کی تحریک شروع کی اور مکہ کی طرف تشریف لے گئے جب امام حسین (ع) اس سازش سے آگاہ ہوئے کہ یزید کے جاسوس حضرت کو قتل کرکے مکہ کی بے حرمتی کرنا چاھتے ہین امام اپنے حج کو نامکمل چھوڑ کر مکہ سے عراق کی طرف روانہ ہوئے حقیقت   میں اسی زمانہ سے امام حسین  (ع)  اور یزید کے خفیہ جاسوں کے درمیان جنگ شروع ہوئی تھی ، امام (ع)  عراق کی طرف جاتے ہوئے جب تنعیم کے پڑاو پر پہنچے تو آپ نے یزید کے تجارتی کاروان کے مال کوضبط کرنے کا حکم دیا اور امام (ع)  نے اس عمل سے یزید کے ناجائز  حاکم ہونے کا عام اعلان کیا [2]

البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ” ارشاد ” جیسی کتابوں میں مال کو ضبط کرنے کی بات نہیں کہی گئی ہے صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ امام حسین (ع( نے تنعیم کے پڑاو پر اس کاروان کے اونٹوںکو کرایہ پر لیا تھا۔

 


[1] – تاريخ طبرى، ج4، ص 289؛ حياةالامام الحسين، ج3، ص 59؛ كامل، ابن اثير، ج2، ص 547. (انساب الاشراف، ج 3، ص 164؛ اخبار الطوال، ص 245؛

[2]  ارشاد، ج 2، ص 68،  جامع الاحادیث سافٹ ویر۔

 

تبصرے
Loading...