کن دلائل سے معلوم هوسکتا هے که سوره الرحمن کی آیت نمبر ٢٦ سے مراد انس و جن هے اور یا جنات زمین پر زندگی کر تے هیں اور یا. . . اس قسم کے دوسرے مسائل ، اور کن قرائن کے پیش نظر قرآن مجید کی آیات سے اس سلسله میں استفاده کیا جاسکتا هے؟

سوره الرحمن کی آیت نمبر ٢٦ کی تفسیر میں ” کل من علیها فان” سے کیسے یه سمجها جائے که ” من علیها فان” سے مراد جن وانس هے ,اور یا هم کیسے معلوم کر سکتے هیں که زمین پر جنات زندگی کرتے هیں ؟ اور دوسرے سیاروں پر دوسرے انسان زندگی نهیں کرتے هیں؟ ایک دوسری جگه پر آیا هے که “فان” مطلق نابودی نهیں هے، بلکه کائنات میں ایک قسم کی تبدیلی هے ، کس قرینه کے پیش نظر یه معنی تصور کیا گیا هے؟

ایک مختصر

١ – آیت کا ترجمه یه هے که: “ر (صاحب شعور و عقل) شخص، جو اس (زمین) پر هے، فنا هو نے والا هے اور تیرے پروردگار کی ذات(جو) صاحب جلال واکرام (جمال) هے باقی رهنے والی هے “

٢ـ سوره الرحمن کی تمام  آیات اور بعض روایتوں سے مکمل طور پرواضح هوتا هے که خدائے رحمان و رحیم ان نعمتوں کی گنتی کر رها هے ، جواس نے عقل و شعور والوں کو عطا کی هیں ـ

٣ ـ سوره الرحمن کی دوسری آیات خاص کر آیه ” فبای آلاء ربکما تکذبان ” اور آیت نمبر ٣٣ ،١٥، ١٤، ٣٥ و… کے ساتھـ آیت نمبر ٣١ میں ” ثقلان” اور اسی سوره کی آیت نمبر ٢٦ میں لفظ ” ما ” کے بجائے ” من “کا استعمال آیات، خاص کر آیه ‘ کل من علیها فان … “کی  مراد اور مخاطب کو معین کر نے کے لئے هے، کیوں که قرآن مجید میں ثقلان جن و انس کے معنی میں هے اور لفظ ” من ” صاحب عقل و فکر کے لئے استعمال هو تا هے –

٤ ـ جابر بن عبدالله انصاری نے جو روایت پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کی هے ، اس سے صاف معلوم هوتا هے که اس آیت میں جن وانس مخاطب قرار پائے هیں اور پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں سے فر مایا : “فبای آلاء ربکما تکذبان ” کی تلاوت کے وقت جنات آپ سے بهتر جواب دیتے هیں ـ

٥ ـ زمین پر جنات کی زندگی کے بارے میں بهت سے شواهد و دلائل موجود هیں ، جیسے: مختلف افراد کا جنات سے براه راست رابطه بر قرار کر نا اور انھیں د یکھنا ، حضرت سلیمان(ع ) کے توسط سے جنات کو تسخیر کر نا اور ان سے دنیوی استفاده کر نا و…  اس کے علاوه بهت سی روایا ت سے وادیوں اور کم آبادی والی جگهوں پر ان کی رهائش ثابت هو نے کے بعد واضح هو تا هے که جن اور نسناس زمین کے باشندے هیں – لیکن زیر بحث آیت میں ، زمین پر رهائش کا صرف انسان اور جنات سے مخصوص هو نے اور یا دوسرے سیاروں اور آسمانوں پر دوسری موجودات کی عدم موجود گی کی کوئی دلیل موجود نهیں هے ـ اس پر الگ سے تحقیق کر نے کی ضرورت هے-

٦ ـ اس آیه شریفه کی تفسیر اور مراد کے سلسله میں مختلف نظر یئے پیش کئے گئے هیں ،  سوال کے آخری حصه کا جواب دینے کے لئے ان میں سے بعض کے بارے میں معلومات حاصل کر نا مفید هو گا –

٧ – عالم هستی کی موجودات کا عدم و نابودی، یا عالم ماده و اجسام کی هلاکت و موت ، یا سلسله دنیا اور اس کے احکام کا خاتمه اور اٹھا لیا جانا ، اور یا موجودات کی ذاتی هلاکت اور ان کا  فنا هو جانا ، ایسے نظر یات هیں جو پیش کئے گئے هیں – اگر چه عقلی و نقلی دلائل کے پیش نظر موجودات، خاص کر مجرد مو جودات کا مطلق فنا و موت سے دو چار هو نا ایک محال اور ناممکن امر هے ـ

٨ ـ فنا کے معنی و مفهوم (نیستی ، تغیر، هلاکت، ختم اختتام، منحل اور محو هو نا، فرسودگی اور تغیر صورت اور انتفا سے خارج هو نا…) کے پیش نظر اور آیات و روایات عرفانی شهود اور عقلی بر هان ، سب کے سب تغیر وتبدل اور تجدد و تجرد اور…کے دلائل هیں که هر لمحه ایک فنا اور تولد، حر کت و سفر، آغاز و آنجام ، غروب و طلوع و… رونما هوتا هے ـ

جهان کل است ودر هر طرفه العین   عدم گردد ولایبقی ز ما نین

٩ـ اشیاء کا نابود اور فنا هو نا اور عالم هستی اور موجودات کا فقر اس ذات لامتناهی ، جلیل و کریم کے وجود و فیض کے سوا نا قابل تلافی هے ـ اور ” فنا وموت” و “منشاء و حیات” کا ظهور، مرگ و ولادت کے سوا هستی میں تحقق نهیں پاتا هے ـ

شد مبدل آب این جو چند بار                      عکس ماه وعکس اختر برقرار

١٠ ـ سوره الرحمن کی آیات ” یسئله من فی السموات… کل یوم هو فی شان…” اسی اور دوسری آیات الهی ، مانند: ” بل هم فی لبس من خلق جدید ” اور  ” تر الجبال تحسبها جامده وهی تمر مر السحاب و …” سوال میں مذکوره تصور کے شواهد اور تائیدات پیش کر تی هیں ـ

 

تفصیلی جوابات

سوال کے جواب کے سلسله میں هم پهلے سوره الرحمن کی آیات ٢٥ اور ٢٦ کا ترجمه پیش کرتے هیں اور اس کے بعد مندرجه ذیل تین حصوں میں جواب دینے کی کوشش کریںگے:

پهلاحصه: اس حصه میں هم آیه شریفه میں موجود عبا رت ” من علیها فان” کے مراد و مقصد کو بیان کر نے والے دلائل و شواهد اور زمین پر جنات کی زندگی کے بارے میں کچهـ مطالب بیان کریں گےـ

دوسراحصه: اس حصه میں فنا     کے لغوی معنی اور سوره الرحمن کی آیت نمبر ٢٦ کے بارے میں بعض تفاسیر اور نظر یات پر روشنی ڈالیں گے-

تیسرا حصه: اس حصه میں سوال میں مذکور تفسیر و تصور (عالم کے تجدد و تغیر کے ثبوت) کے بارے میں قرائن و شواهد بیان کئے جائیں گے ـ

خدا وند متعال سوره الرحمن کی آیت نمبر ٢٥ اور ٢٦ میں فر ماتا هے ” کل من علیها فان و یبقی وجه ربک ذوالجلال والاکرام “ر(صاحب شعور و عقل) شخص ، جواس (زمین)پر هے، فنا هونے والا هے اور تیرے پر وردگار کی ذات(جو) صاحب جلال واکرام (جمال) هے، باقی رهنے والی هےـ [1]

یعنی زمیں پر موجود هر صاحب عقل و شعور جاندار ، فنا ، نابود اور هلاک هو نے والا هے اور… البته اس آیه شریفه میں واضح طور پر زمین کی بات نهیں کی گئی هے ، لیکن اس سے پهلی والی آیتوں کے سیاق سے معلوم هوتا هے که ” علیها” کی  ضمیر زمین کی طرف پلٹتی هے اور خداوند رحمان کی طرف سے صاحبان عقل وشعور کو عطا کی گئی نعمتوں کو بیان کر نے والی تمام آیتوں کے متناسب بھی هے ـ[2]

پهلاحصه : آیت میں “من علیها ” سے مراد:

زمین پر کون زندگی گزاررتے  هیں اور یه صاحبان عقل وشعور کون هیں ، اس سلسله میں ، قرآن مجید کے مفسرین کی طرف سے مختلف نظریات پیش کئے گئے هیں ـ لیکن سوره الرحمن کی تمام آیات ، خاص کر آیه شریفه ” فبای آلاء ربکما تکذبان” “پس تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاٶ گے!” اور اسی سوره کی آیت نمبر ١٤ اور ١٥ میں فر ماتا هے: “خلق الانسان من صلصال کالفخار وخلق الجان من مارج من نار” اور آیت نمبر ٣١ میں فر ماتا هے : ” سنفرع لکم ایه الثقلان” که اس میں “ثقلان” (دو بهاری اور سنگین) کی بات کی گئی هے اور قرآن مجید کی تعبیر میں ، ” ثقلین” جن وانس کو کها جاتا هے ـ[3] اور اسی طرح آیت نمبر ٣٣ اور ٣٥ …سے واضح طور پر معلوم هو تا هے که پروردگار رحمان و رحیم انسان اور جن سے مخاطب هے اور ان سے مربوط نعمتوں کی یاد دهانی کراتا هے اور اس لئے فر مایا : ” کل من علیها…” یه نهیں فر مایا ” کل ما علیها” کیونکه لفظ ” من” صاحبان عقل و شعور کی حکایت کر تا هے اور لفظ ” ما” اس قسم کی چیز (یعنی عقل و شعور) کو برداشت کر نے سے عاجز هے –

جو کچھـ بیان کیا گیا ، اس کے علاوه، جو روایت جابر بن عبدالله نے پیغمبر اسلام (ص) سے نقل کی هے ، وه مکمل طور پر اس امر کی دلیل هے که سوره الرحمن کی آیات، خاص کر آیه شریفه” فبای آلاء ربکما تکذبان” انس و جن سے مخاطب هے ـ[4]

اسی لئے اکثر مفسرین نے وضاحت سے بیان کیا هے که “من علیها” سے مراد انسان اور جنات هیں ـ [5] اور جنات کی زمین پر زندگی گزار نے کی دلیل کے طور پر ، بهت سے استناد موجود هیں ، لیکن هم نمونه کے طور پر ان میں سے بعض کی طرف اشاره کرتے هیں :

١ ـ مختلف افراد کی بڑی تعداد کا جنات سے براه راست رابطه قائم کر نا اور ان کو دیکھنا ـ

٢- حضرت سلیمان علیه السلام کے توسط سے جنات کو تسخیر کر نا (سوره نمل /١٧) اور ان کے لئے تخت بلقیس کو لے آنا(سوره نمل / ٣٨ و ٣٩) اور بعض جنات کا ان کے سامنے کام کر نا (سوره سباء/١٢) اور بعض شیاطین کی غواصی اور معماری کا کام کر نا (سوره ص/ ٢٧)اور شیطان جنات میں سے هے [6] اور جنات کا الله کی وحی اور قرآن مجید کو سننا (سوره جن/ ١، احقاق / ٢٩، ٣١و ٣٢و …)

٣ ـ ایسی بهت سی روایات موجود هیں ، جن سے واضح طور پر ثابت هوتا هے که جنات زمین پر ، خاص کر وادیوں اور کم آبادی والی جگهوں پر رهائش کرتے هیں اور جنات اهل زمین هیں ـ من جمله امام محمد باقر علیه السلام سے ایک مفصل روایت هے که امیرالمٶمنین حضرت علی(ع) سے حضرت آدم سے پهلے زمین کی مخلوقات کے بارے میں نقل کرتے هیں ، اس کے ایک حصه میں آیا هے: ” فلما کان من خلق الله ان یخلق آدم… ثم قال للملائکه : انظروا الی اهل الارض من خلقی من الجن والنسنا س هل ترضون اعمالهم و طاعتهم لی…”[7] اس میں واضح طور پر جن اور نسناس کو اهل زمین شمار کیا گیا هے ـ [8] اور چند دیگر روایات واضح اور روشن صورت میں جنات کی مخصوص وادیوں میں رهائش پر دلالت کرتی هیں ، بحث کے طولانی هو نے کے پیش نظر هم ان کے ذکر کر نے سے اجتناب کر تے هیں ـ ان کی تفصیلات معلوم کر نے کے لئے جنات سے متعلق به کثرت روایتوں کے مجموعوں کا مطالعه کیا جاسکتا هےـ [9]

قابل ذکر بات هے که یه آیه شریفه کسی قسم کی موجودات کے دوسرے سیاروں میں هونے یا نه هو نے کی کوئی دلالت پیش نهیں کرتی هے، [10] اگر چه هلاک و فنا کا وسیع سایه عالم هستی کی تمام موجودات کو اپنی لپیٹ میں لے گا ـ

دوسرا حصه : آیت کے معنی:

لغت میں ” فنا” دگر گونی کے معنی میں آیا هے جیسے: نابود هو نا ، نیستی ، تباهی ، هلاکت، تمام هو نا ، منقطع هو نا، منحل هو نا ، خاتمه ، موت ، محو هونا، زودگزر، فرسوده هو نا، بوڑھا پا، تغیر، دوسری صورت اختیار کر نا ، ایک چیز کا ایک صفت سے خارج هو نا جس صفت سے وه قابل استفاده هو ، و… ـ [11]

آیه شریفه ” کل من علیها فان” کی تفسیر اور مراد کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے گئے هیں، ان میں سے هر ایک کو بیان کر نے اور ان پر تنقید کر نے کی یهاں پر گنجائش نهیں هے، لیکن سوال کے آخری حصه کا جواب دینے کے پیش نظر ، ان میں سے بعض نظریات کی طرف اشاره کر نا ضروری هےـ

الف) آیت تمام موجودا ت (من جمله اجسام اور  زنده موجودات ) خاص کر انسان و جنات کی بالکل نابودی وعدم کی خبر دیتی هے ، خواه یه موجودات زمین پر زندگی گزارتے هوں یا دوسرے سیاروں اور آسمانوں پراور زندگی کے زمین تک محدود اور مخصوص هو نے کی کوئی دلیل موجود نهیں هے ، جیسے مندرجه ذیل آیات:

” کل نفس ذائقه الموت” “ر نفس(روح) کو موت کا مزه چھکنا هےـ” [12] ، هو الاول والآخر” ” وه (وجود میں ) اول هے اور (وجود میں ) آخر هے ” [13] ” کل شیء هالک الا وجھھ ـ ” ” هر چیز هلاک (فانی) هو نے والی هے سوائے اس کی ذات کے “[14] ” وهو الذی یبدا الخلق ثم یعیده ـ” ” اور وهی وه هے جو خلقت کی ابتدا کرتا هے اور پھر دوباره بھی پیدا کرے گاـ “[15]، ” کما بدا نا اول خلق نعیده ” ” جس طرح هم نے تخلیق کی ابتدا کی هے اسی طرح انهیں واپس بھی لے آئیں گے ـ” [16]

اور چند روایات جیسے : عن الصادق (ع) : انه سئل عن المیت یبلی جسده ؟ قال: نعم ، حتی لا یبقی لحم ولا عظم الا طینه التی خلق منها فانها لاتبلی بل تبقی فی القبر …”

مر حوم طبرسی نے ” الاحتجاج” میں ، ایک زندیق کے امام صادق (ع) سے چند سوالات کے ضمن میں ذکر کیا هے : امام (ع) نے زندیق کے اس سوال کے جواب میں که: کیا روح بدن سے نکلنے کے بعد نابود هوتی هے یا باقی رهتی هے ؟ فر مایا : “بل هو باق الی وقت یوم ینفع فی الصور ، وعندک ذلک تبطل الا شیاء وتفنی…” بلکه روح صور کے پھونکنے جانے کے دن تک باقی رهے گی ، پھر اس وقت آشیاء باطل اور فنا هوں گی…” [17]

حضرت علی(ع) فر ماتے هیں : ” هوالمفنی لها بعد وجودها حتی بصیر موجود ها کمفقود ها ولیس فنا ء الدنیا بعد ابتدا عها باعجب من انشا ئها واختر عها ” وه اشیاء کو ان کے وجود کے بعد نابود کر نے والا هے یهاں تک که ان کا وجود ان کے مفقود کے مانند هو جائے (گویا کوئی موجود نهیں تھا) [18]

ب) مذکوره آیت میں ” فنا” (اور هلاک ، سوره قصص کی آیت ٨٨ میں فر ماتا هے : کل شیء ھالک الا وجهه ) ، (بدن کی) موت اور انتفا سے خارج هو نا هے ” [19]

اگر چه یه آیات ارواح اور مجردات پر مشتمل نهیں هیں ، اگر ان پر مشتمل بھی هو ں ، وه اس حکم (فنا و موت) سے خارج هوں گی، کیو نکه عقلی اور نقلی دلائل ، ارواح اور … جو کچھـ خدا کے پاس هے اس کی بقا کی حکایت کرتے هیں ـ [20] اس کے علاوه اس دعوی کے فلسفیانه برا هین اور نقلی دلائل حکایت کرتے هیں که ” موجود کبھی نابود هو گا ” ـ

ج) آیت یه بیان کرتی هے که دنیا کا سلسله منقطع اور ختم هونے والا هے اور اس کے آثار و احکام اٹها لئے جائیں گے اور یه عالم هستی میں رهنے والے صاحبان شعور کے فنا و نابودی سے متحقق هو گا ، اور اس فنا اور غروب کے بعد آخرت کا مرحله طلوع هو گا اور دنیا سے عقبی میں منتقل هو نے کا سلسله انجام پائے گا اور لفظ ” فان” مستقبل کا ظهور رکھتا هے ، اس معنی میں که کائنات کی عمر اور جو کچھـ اس میں هے کا خاتمه مستقبل میں هو گاـ [21]

اس لئے ـ اس فنا کی حقیقت ، دنیا سے آخرت میں منتقل هو نا اور خدا کی طرف رجوع کر نا هے ، جیسا که بهت سی آیات میں فنا کے مذکوره منتقل هو نے کی تفسیر کی گئی هےـ [22]

د) آیه شریفه میں ” فنا”کے اس کے مشتق “فان” کی صورت میں استعمال هو نا ، اس معنی میں نهیں هے که مستقبل میں فنا هوں گے ، کیونکه لفظ مشتق “فان” کا ایسی موجودات پر اطلاق، جو بعد میں فنا هوں گی ، یقینا مجازی هے اور جو علم اصول کے دانشوروں کے لئے اختلاف کا سبب بنا هے ، مشتق کا ان مواقع پر استعمال کر نا اس معنی میں هے که کوئی چیزماضی میں کسی صفت اور مبدا کی مالک تھی اور اس وقت اس میں اس صفت کا فقدان هے ، مثال کے طور پر ایک شخص ماضی میں طبیب تھا اور اس وقت اپنے تمام علم کو فراموش کر چکا هے اور طبابت کی مهارت سے کوئی فائده نهیں اٹھا سکتا هے- کیا اس قسم کے شخص کو طبیب کها جاسکتا هے ؟ لیکن جو انسان مستقبل میں طبیب بننے والاهو ، اسے طبیب کهنا مسلم طور پر مجازی اور غیر حقیقی هےـ[23]

اس لئے ، آیت کے حقیقی معنی، آیه” کل شیء ھالک الا وجهھ”[24] کے هم پله هون گے ، اس طرح که : ” جوبھی زمین پر هے (اس وقت ، بالفعل) فانی، هلاک اور نابود هو نے والا هے ـ

دوسرے الفاط میں ، زمین کی صاحب عقل و شعور مخلوقات ، چونکه ممکن الوجود هیں اور هستی بخشی پروردگار کی محتاج هیں، اپنی ذات کی حد میں ، فنا اور هلاک هونے والی هیں اور موت اور عمومی فنا کے بادل ان پر منڈ لا تے رهتے هیں ـ[25] اور یه نقص ، نیاز مندی اور نحوست ان سے کبھی جدا هونے والی نهیں هےـ

اسی لحاظ سے محمود شبستری نے، حدیث شریف ” الفقر سواد الوجه فه الدارین”[26] سے الهام حاصل کر کے کیا خوب کها هے:

سیه روئی ز ممکن در دوعالم                     جدا هرگز نشد والله اعلم [27]

البته اس قسم کی فنا و هلاکت ، صرف باشعور موجودات (انسان و جن) تک محدود و مخصوص نهیں هے بلکه صاحب جلال و کرام پر وردگار عالم کی ذات اور اس کے خاص اولیاء کے علاوه سب پر شامل هےـ

چنانچه متعدد آیات میں اس فنا وهلاکت کی خبر دی گئی هے : ” کل شیء ھالک الا وجھھ” ” اس (خدا) کی ذات کے علاوه هر چیز هلا هو نے والی هےـ[28] ” یا ” ونفح فی الصور فصعق من فی السموات ومن فی الارض الا من شا ء الله …” ” اور جب صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان کی تمام مخلوقات بیهوش هو کر گر پڑیں گی ، علاوه ان کے جنھیں خدا بچانا چاهے…” [29]

چون نبودی فانی اندر پیش من                   فضل آمد مرترا گر دن زدن

کل شیء هالک جز وجه او             چون نه ای دروجه اوهستی مجو

هر که اندر وجه ماباشد فنا             کل شیء هالک نبود جزا[30]

یه نکته قابل ذکر هے که زیر بحث آیه شریفه کے بارے میں کئی اور تفسریں بھی کی گئی هیں مگر هم یهاں پر ان کی طرف اشاره کر نے سے صرف نظر کرتے هیں ـ[31]

تیسرا حصه :دلائل و شواهد

گزشته مطالب پرغور کر نے سے ، معلوم هوتا هے که فنا سے مراد ، مطلق اور بالکل فنا نهیں هے اور آیه شریفه مخلوقات خاص کر انسان کی ابتداء اور ان کی حر کت کی انتها اور تکامل اور ارتقائی سفر کو بیان کرتی هے – اور آیه شریفه تمام مخلوقات کے اپنی جزئی حقیقت سے فنا اورخارج هو کر خداوند متعال کی طرف پلٹنے اور تمام فروعات کا ان کے اصل کی طرف رجوع کر نے اور عالم بقاکے سورج کا عالم فنا کے مغرب سے طلوع کر نے اور عالم ماده کے درجه و مرتبه سے عالم تجرد کی طرف پرواز کر نے کی حکایت کرتی هےـ

یه حرکت اور سفر ، ولادت و نمو ، طلوع و وصول ، انکشاف وشد ت ، ظهور ، ارتقاء ، ترقی اور تجلی حق… قید وبند کو توڑنے ، حدود و قیود کے نابود هو نے ، نقص سے کمال کی طرف عروج کر نے ، اپنی اصلی فطرت کی طرف پلٹنے ، رهائی پانے ، عالم فنا اور دنیا کے رشتوں کے نابود هو نے اور اس میں موجود هر چیز کے زوال (کل من علیها فان) کے بغیر ممکن نهیں هےـ[32]

جس کا دل یقین کے نور سے منور هوا هو ، اس کے لئے ادنی سے اعلی تک توجه کا مشاهده کر نا ، فروعات سے اصل کی طرف رجوع کر نا ، صورت کا حقیقت اور معلول کا علت کی طرف پلٹنا ،کوئی مشکل کام نهیں هے اور اس کے لئے اجزائے عالم کے تغیر وتبدل کو سمجھنا مشکل نهیں هو گا اور اس کے لئے ” فصعق من فی السموات والارض”[33] کے معنی کو سمجھنا آسان هو گا ـ[34]

هر نفس نو می شود د نیا و ما                   بی خبر از نوشد ن اندر بقا

عمر همچون جوی نونومی رسد                  مستمری می نماید در جسد  [35]

نفس کا اپنی فطرت اور جبلت تک پهنچنا اور عالم دنیا سے عالم آخرت میں منتقل هو نا اور حق میں جذب هو نا اور عالم ارواح میں داخل هو نا اور ظلمتوں اور جسمانی پردوں سے پرییز کر کے جوار حق کا قرب حاصل کر نا “… فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر” اور زندان سے رهائی پاکر عالم نور میں داخل هو نا ، وهی تغیرو تبدل ذاتی (حرکت جو هر ذاتی) هے که پروردگار عالم نے اسے اپنے بندوں کے فائده کے لئے رکھا هے اور اس کا ایک دوسرا مرتبه دوسری مخلوقات کی فطرت میں عطا کیا هےـ

ماده و حر کت کا مقام ، حادث هو نے ، موت، نابودی، فنا، ترک، تجدد اور انقضا کا مقام هے، اس لئے پروردگار عالم نے فر مایا :” کل من علیها فان ویبقی وجه ربک ذوالجلال و الاکرام ” اس کی ذات، خا لص طهارت و نورانیت اور اس کے جلال وجمال کا ثبات و دوام هے، جوذات باقی رهنے والی اور ناقابل فنا هےـ

گرچه آن وصلت ، بقا اندر بقاست                 لیک دراول فنا اندر فنا ست [36]

یهی وجه هے که فنا کو “تولد” کها جاتا هے اور یه تولد، گزشته موت اور فنا کے مرحله سے گزرنے کے بعد محقق هو تا هے اور اگر کوئی اس شهد کا مزه نه چھکے، تو اسے انبیاء و اولیائے الهی کے کلام کی طرف توجه کر نا چاهئے اور ان کے کلام کی تصدیق کرنی چاهئے – اگر چه اس کے لئے قرآن مجید کا انکشاف هوچکاهو، اس نے عرفان کے آفتاب کا مشاهده کیا هو اور برهان کا تحقق اسے حاصل هوا هوـ

” کمابدانا اول خلق نعیده وعدنا علینا انا کنا فاعلین”[37] اور” بل هم فی لبس من خلق جدید”[38]اور” ترالجبال تحسبھا جامده وهی تمر مر السحاب” “اور تم د یکھو گے تو سمجھـ لو گے که جیسے پهاڑ اپنی جگه پر جامد هیں حالانکه یه بادلوں کی طرح چل رهے هوں گےـ[39]” اور ان حرکات و تحولات (ایک بلند تر مرحله کو پانے کے لئے ایک مرحله کوکھو دینے[40] ) کا مقصد خداوند متعال هے-[41]

ازجمادی مردم و نامی شدم                       وزنما مردم زحیوان سرزدم

مردم از حیوانی وآدم شدم             پس چه ترسم کی زمردن کم شدم

حمله ای دیگر بیمرم از بشر                        تابرآرام از ملایک با ل و پر

بار دیگر از ملک قربان شوم             آنچه اندر وهم ناید آن شوم

پس عدم گردم عدم چون ازغنون                 گویدم انا الیه راجعون[42]

دوسری عبارت میں ، تکوینیات میں انسان کا آغازاور اس کے ناسوتی ماده ، جمادی حالات میں مرنے کے بعد نباتاتی صورت اختیار کر تا هے اور اگر مقام جمادات میں آگاه هو تا تو نباتاتی کمال کے مرحله تک نهیں پهنچتا اور نباتاتی مرحله میں بھی آگاه نه هوا اور حیوانی مرحله میں داخل هوا ، اور حیوانی مرحله میں بھی نھیں ٹھرا نهیں بلکه انسانی مرحله میں داخل هوا –

اور انسانی مرحله میں بھی بے شمار مقامات اور درجات هیں اور هر درجه و مقام میں اگر توقف نه کرے تو اسے بلند تر مقام حاصل هو تا هے اور نقص سے کمال کے مقام تک پهنچتا هے اور نقص کے مرحله میں مرنے سے، کم نهیں هوتا هے بلکه زیاده هو تا هےـ

غرض یه که اگر هر ناقص اپنے نقص و محدودیت میں نه مرجائے، تو وه مکمل حیات تک نهیں پهنچ سکتا هے ـ کسی بھی جگه پر رکنا نهیں چاهئے تاکه جو هے وهی رهے ، اگر قابل ، مکمل قابلیت میں هو ، عطا کیاگیا کمال اور نفوس کے قوه سے فعل میں داخل هو نے کا مخرج ، فاعلیت تام میں هے اور بخل وکنجوسی کے لئے وهاں پر کوئی گنجائش نهیں هے –

هرچه دراین راه نشا نت دهند                     گر نستانی به آنت دهند

دانے اور نقطے اگر اپنی حد میں نه مرجائیں ، تو وه فعلیت کے مقام پر نهیں پهنچ سکتے هیں اور اگر سفر نه کریں گے تو ، پخته نهیں هوں گے ـ کافی سفر کرنا چاهئے تاکه ایک خام پخته هو جائے – خواه تکامل جسمانی کا صوری سیر و سفر هو یا تکامل انسانی کا روحانی سیر وسفر ـ

تن زجان نبود جداعضوی از اوست                جان جدا نبود زکل جزوی از اوست[43]

اسی لئے ارواح مجرد کلی کا آفتاب اور جزئی ابدان میں ا رواح مقید عالم کا سورج ماده کے مغرب سے طلوع کر کے متحقق هو تا هے اور مشرق و مغرب کے پروردگار کی طرف توجه کرتا هے اور تعینات ، اجساد و مواد کی بنیادیں تحلیل هو کر رهتی هیں ـ

تعین مرتفع گرددزهستی               نماند در جهان بالا وپستی

اجل چون در رسد درچرخ وانجم                   شود هستی همه در نیستی گم

چو موجی بر زند گردد جهان طمس  یقین گردد ” کان لم تغن بالامس”

خیال ازپیش برخیزد به یکبار                        نماند غیر حق در داردیار

کمال مطلق اور موجودات کے اپنے مبدا اعلی کی طرف سیر وعروج کی طرف فطری وجبلی توجه کے بعد “الاالی الله تصیر الامور[44]” و”الی الله ترجع الامور[45]” کے نظام ربانی اور احسن ربوبی کے حکم کی بنیاد پر ، آیات الهی اور نصوص دینی سے واقف کسی فرد پر پوشیده نهیں هے اور جس کا دل یقین کے نور سے منور هوا هے ، وه عالم میں رونما هو نے والے تغیر و تبدل کا مشاهده کرتا هے –چنانچه خدا وند عالم نے، سوره الرحمن میں اشیاء کے فنا هو نے ” کل من علیها فان” کا بیان کر نے کے بعد فر مایا : ” یسئله من فی السموات والارض کل یوم هو فی شان” جو کچھـ زمین و آسمانون میں هے اسے اپنی طرف بلاتا هے وه هر روز شان اور  کام میں مشغول هے ـ[46] کیو نکه اشیاء کی نابودی و فنا اور مخلوقات کا فقر اور عالم هستی کی هلاکت کی، اس کے فیض و احسان اور اس کی جلیل و کریم ذات کے علاوه کسی سے تلافی نهیں هوسکتی هے ـ لمحات میں سے هر لمحه میں لفظ ” المفنی المیت” اور ” المنشی المحیی” کا ظهور عالم سیال و جاری متحقق هو تا هے اور پوری کائنات پانی کی طرح جاری اور حر کت میں هے اور سورج کی جو تصویر اس پانی میں برقرار وثابت هے، وه وجه الله کے مقام پر هے (ویبقی وجه ربک …)

شد مبدل آب این جوچندبار            عکس ماه وعکس اختر بر قرار

آشیاء کے جوهر اور ان کی ذات میں لمحه تغیر و تبدل هوتا رهتاا هے اور زبان حا ل و قا ل اور استعداد ، نیاز مندی اورچشم امید سے اس صاحب شان و مهر ومحبت کی طرف رواں دواں هیں اور (تمام امورمیں ) حاجتوں کی درخواست اس سے کرتے هیں اور اس کے جود و سخا کا دامن پکڑ تے هیں (انتم الفقراء الی الله والله هو الغنی) [47]

جهان کل است ودر طرفه العین                    عدم گردد ولا یبقی زمانین

اور وه وهی هے جو هر لمحه ایک نئی تخلیق کرتا هے اورشئون میں سے ایک شان میں مشغول هے (کل یوم فی شان) اگرچه ” لا یشغله شان عن شان” هےـ

عالم هستی کی تخلیق صرف دنیا کی صورت میں انجام نهیں پائی هے ، بلکه هر لمحه ایک نئی خلقت اور آغاز هے ، اسی لئے اسلام و تشیع کے بعض بڑے مفکرین نے قرآن مجید سے استفاده کرکے ” کل من علیها فان ، یسئله من فی السموات والارض ، کل یوم هو فی شان و…” اور شهود وعرفان سے مدد حاصل کر کے اور برهان کی پیروی اور استفاده کر کے اشیاء کی جوهری وذاتی حرکت کو ثابت کیا هے اگر چه اس سلسله میں مطالب بهت زیاده هیں لیکن گنجائش کم هے- مولانارومی نے اولیائے الهی کی حق کی طرف حرکت کے بارے میں یوں نغمه سرائی کی هے:

هرکس رویی به سویی برده اند                   وآن عزیزان روبه بی سو کرده اند

هر کبوتر می پرد در مذهبی                       وین کبوتر جانب بی جانبی

مانه مرغان هوا نه خانگی                          دانه ی مادانه ی بی دانگی

زآن فراخ آمد چنین روزی ما                         که دریدن شد قبا دوزی ما[48]

 

[1] ملاحظه هو: علامه طباطبائیI ، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج١٩، ص١٠٠، شهید مطهری، مرتضی، آشنایی باقرآن ، تفسیر سوره الرحمن، ص٨٠، جوادی آملی ، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن کریم ، معاد در قرآن ، ج٤، ص١٩٣، تحریر تمهیدالقواعد ، ص٧٧٨، طالقانی ، مولانظر علی ، کاشف الاسرار ، ج١، ص٣٣٥، سایر ترجمه های قرآن کریم (ترجمه محمد مهدی فولادوند، تفسیر نمونه….) ـ

[2]  ملاحظه هو: المیزان ،ج ١٩، ص١٠٠ ، مجمع البیان ، ج ٩، ص ٣٠٥، تفسیر صافی، ج٢ ، ص ٦٤١، تفسیر قمی ، تفسیر نمونه و …ـ

[3]  مطهری، مرتضی، آشنا یی باقرآن ، تفسیر سوره الرحمن، ص٤٧ ـ

[4] علامه طباطبائی ، محمد حسین، تفسیر المیزان، ج ١٩، ص ١٠٣، فیض کاشانی، تفسیر صافی ، ج ٢، ص ٦٤٠، مجلسی، بحار الانوار، ج ١٨، ص ٧٨، ج ٦٣، ص ١١٧ـ

[5]  ملاحظ هو: تفاسیر المیزان، صافی، مجمع البیان، نمونه …

[6]  ملاحظه هو: اشاره ـ١- شیطان، فرشته یاجن ٢ـ توانای شیطان و جن و…ـ

[7]  بحار الانوار ، ج ٥٧، ص ٣٢٤ ـ

[8]البته بعض دوسری روایتوں میں ، شیطان کی رهائش گاه کو هوا بتایا گیا هے (نه آسمان اور نه زمین )ملاحظه هو : مفاتیح الغیب ،    ج ١، ص٢٦٤، ٢٦٥ـ

[9]  ملاحظه هو: بحار الانوار، ج ١٨ ، ص ٩٣- ٩١، ٨٧، ٨١ ـ٨٦، ج ٣٩، ص ١٦٩، ١٧٥، ١٧٦ و… ـ

[10]  البته یه که کیا جن ایک مادی مخلوق هے یا مجرد (برخی اور مثالی تجرد کے معنی میں )اگر مجرد هو، تو اس کا کوئی مکان نهیں هو گا ، اگر چه مختلف صورتوں میں ظاهر بھی هو جائے ، اس مسئله پر الگ سے تحقیق و بحث کر نے کی ضرورت هے ، چونکه سوال کر نے والے کے سوال میں اس مسئله کو بیان کر نے کا اشاره نهیں کیا گیا هے ، لهذا هم اس کو بیان کر نے سے صرف نظر کرتے هیں – اسی طرح شیا طین کا آسمانوں پر جانا ، آسمانوں کو لمس کرنا اور سننا و …کے بارے میں طویل بحث هے – یهاں پر اس بحث کو چھیڑ نے کی گنجائش نهیں هے ، ملاحظه هو: مصباح، محمد تقی، معارف قرآن ، ١- ٣، ص٣١٢- ٣٠٨ ـ  

[11]  ملاحظه هو: کتب لغت ( مقاییس الغھ، ، لسان العرب، المنجد، قاموس قرآن ، فرھنگ بزرگ جامع نوین و …) و تفاسیرـ

[12]  آل عمران ، ١٨٥، انبیاء ، ٣٥، عنکبوت، ٥٧ ـ

[13]  حدید ٣ـ

[14]  قصص ، ٨٨ـ

[15]  روم ، ٢٧ ـ

[16] انبیاء ١٠٤ ـ

[17]  ملاحظه هو: شبر، سید عبدالله، حق الیقین، ص ٩٨- ٩٩، علامه مجلسی، ،حق الیقین، ص ٤١٨- ٤١٩ـ

[18]  نهج البلاغه ، خطبه ای ١٨٦، تر جمه نهج البلاغه ، محمد دشتی، ترجمه ی خطبه ی ١٨٦-

[19]  سید عبدالله شبر ، حق الیقین ، ص٩٨ـ

[20] ملاحظه هو: دخان ، ٩٣ ، آل عمران ، ١٦٩ و ١٧٠ و ١٨٥، ، نحل ٩٦، اسفار ج ٨، ص٣٨٠ به بعد ، اسفار ج ٩، ص ٢٣٧ به بعد و ٢٧٩، مفاتیح الغیب ج٢، ص٦٢٣- ٦٤٠ـمعارف قرآن ، ج ١- ٣ ص ٤٤٥ و، … ـ

[21]  المیزان، ج١٩، ص ١٠١ نیز ملاحظه هو: اسفار، ج٩، ص٢٨٢، ٢٧٩، ٢٦٦ـ

[22]ـ  ترجمه تفسیر المیزان ، ج ١٩، ص ١٦٨

[23] ملاحظه هو : جوادی آملی ، عبدا لله ، تفسیر مو ضوعی قرآن کریم ، ج ٤ص ١٩٤ـ

[24] قصص، ٨٨ –

[25]  ملاحظه هو: علامه طباطبائی ، محمد حسین، المیزان J ١٦، ص٩٠ـ ٩١، جوادی آملی، عبدالله ، تفسیر موضوعی قرآن کریم معاد در قرآن ج ٤ ،ص ١٩٤، حاجی سبزواری ، شرح الاسماء، ص٢٠٧٢٥٤، ٧٢٠ و …ـ

[26]  فقر دونوں جهان (دنیا و آخرت) میں ایک سیاه صورت هے ملا حظه هو: صدر المتالمین ، اسفار ، ج١، ص٦٩، شرح الاسماء ، ص ٢٠٧ـ

[27]  محمود شبستری, گلشن راز, بیت ١٢٦

[28] قصص/ ٨٨

[29] زمر/ ٦٨

[30] مولوی ، مثنوی معنوی ، دفتر اول ، آیه شریفه ” کل شیء هالک الا وجھھ” کے بارے میں بحث کر نا یهاں پر ممکن نهیں هے اس کے لئے ایک فرصت کی ضرورت هے ـ

[31] ملا حظه هو: شرح الاسماء ص ٧٢٠، ٣٦٤، ٢٩٦، ٢٥٣، ٢٤١، و…، شرح منازل السائرین، عبدالرزاق کاشانی ، ص ٥٨٠، ٥٨٤، ٤١٠، الرسائل التو حیدیه ، علامه طبا طبا ئی، ا٢٩، تحریر مهید الوقعد، جوادی آملی ، ص ٧٧٠ ، ٣٧٤، ٧٧٨، مصباح الهدایه و مفاتح الکفایه ، عزالدین محمود کاشانی ، ص٤٢٦، اوصاف الاشراف ، خواجه نصر الدین طوسی ، ص٩٩، مراحل اخلاق، جواد ی آملی، ٤٠١- ٤١٢، اسفار، ج٩، صص٢٧٩، ٢٧٧، ٢٦٦، ٢٨٠،…، مقد مات قیصری بر فصوص الحکم ، فصول نهم و پانز دهم و…ـ

[32] ملاحظه هو: اسفار ، ج ٩، ص٢٨١ـ ٢٦٦، مقدمات قیصری بر فصوص الحکم ، فصول نهم و یازدهم ـ

[33] زمر، ٦٨ـ

[34] ملاحظه هو: شواهد الربوبیه ، ج ١، ص٢٩٨- ٢٩٩

[35] مثوی معنوی ، مولوی ـ

[36] مثوی معنوی ، مولوی ـ

[37] انبیا/ ١٠٤

[38] ق/١٥

[39] نمل /٨٨

[40]  اگر چه کھونے کی تعبیر ایک صحیح تعبیر نهیں هے اور حر کت جوهری کے مطابق کوئی موجود کسی چیز کو نهیں کھوتی هے اور اپنے گزشته تمام کمالات کی حامل هوتی هے ـ

[41]  ملاحظه هو: اسفار ، ج٣، ص١١٠ به بعد ، ج٩، ص٢٦٦، ٢٧٩، ٢٨٠، مفاتیح الغیب ، ج٢، ص٧١٣، شواهد الربوبیه ، ج ١، ص ٢٩٨- ٢٩٩ــ

[42] مولوی، مثنوی معنوی

[43] حسن زاده آملی ، حسن، معرفت نفس، ج٢، ص٣١٩ـ ٣٢٠ـ

[44] الرحمان/٢٩

[45] شوری/٥٣

[46]  ملاحظه هو : شرح السما, ص ٢٦٠-٢٦١, اسفار, جلد ٣, ص ١١٣- ١٠٨

[47] فاطر ١٥, ملاحظه هو; المیزان, جلد ١٩, ص ١٠٢

[48] مثنوی معنوی, مولوی, دفتر پنجم, ابیات ٣٥٠- ٣٥٣.

تبصرے
Loading...