کسی گناه کے مرتکب هوئے بغیر نوجوان کا حضر خضر کے هاتهوں قتل کئے جانے کی کیا توجیه کی جاسکتی هے؟کیا یه کام سنت الهی کے منافی نهیں هے؟

تفاسیر،روایات اور آیات کے سیاق کی وضاحتوں سے معلوم هو تا هے ،که غلام(تازه بالغ جوان)(1) کےقتل کا واقعه ایک اتفاقی یاغضب وکشمکش پر مبنی امر نهیں تها،بلکه حضرت خضر(ع)نے بغیر کسی مقدماتی گفتگو کے جوان کو قتل کر نے کا اقدام کیا هے(٢).اس لحاظ سے اس سلسله میں نفساتی خواهشات اور غضب کا شائبه نھیں هے اور انسان کا سوال کننده ذهن قبول کر تا هے که کسی قسم کے جذباتی اور اکسانے والے عوامل کی عدم موجود گی میں اس عمل کے انجام پانے میں یقینی طور پر کوئی حکمت اور خاص دلیل کار فرماتهی اور حضرت خضر(ع)نے اس امر میں نفسانی خواهشات کی پیروی نهیں کی هے.خاص کر جب یه عمل ایک ایسے شخص کے توسط سے انجام پایا هے که قرآن مجید ان کے بارے میں فر ماتا هے :”…عبدا من عبادنا آتیناه رحمه من عندنا وعلمناه من لدنا علما…”تو اس جگه پر همارے بندوں میں سے ایک ایسے بندے کو پایا جسے هم نے اپنی طرف سے رحمت عطا کی تهی اور اپنے علم خاص میں سے ایک خاص علم کی تعلیم دی تهی.(٣)”

اس لئے،مذکوره اشاروں کے پیش نظر یقین کیا جاسکتا هے که اس کام میں هوا وهوس کا عمل دخل نهیں تھا، لیکن اس کا فلسفه کیا تها؟اور یه کیسے باور کیا جاسکتا هے که ایسا شخص ایک تازه بالغ نوجوان کو قتل کر نے کا اقدام کرے؟اس کے لئے جواب کی ضرورت هے جس کو هم اسی بحث کے سلسله میں پیش کریں گے.

بعض روایات سے معلوم هو تا هے که حضرت موسی علیه السلام نے اس ماجرا کو دیکهـ کر انتهائی تعجب کیا،چونکه وه اس واقعه کے ظاھر کو دیکھتے ھوئے قتل کو بے جا جانتے تھے ،اس لئے حضرت خضر سے مخاطب هو کر کهتے هیں که:” آپ نے ایک پاک و بے گناه انسان کو قصاص کا مستحق هو ئے بغیر قتل کر ڈالا؟!یه قابل قبول نهیں هے اور آپ نے ایک ناشائسته کام انجام دیا هے !”اس حالت میں حضرت خضر(ع)اجمالی صورت میں اپنے کام کی وجه بیان کرتے هیں اور فر ماتے هیں :خدا وند متعال کا اراده اور حکمت هر چیز سے برتر هے اور ایک ساده اندیش انسان کی عقل خدا کے اراده اور اس کے امر کی باریک بینیوں کو نهیں سمجھـ سکتی هے ،اسی لئے عقلیں خدا کے اراده کو سمجھنے سے قاصر هیں اور اس کا امر اور اراده عقلوں کی به نسبت حاکم اور فیصله کن هے.اس بناپر آپ صرف عقل اور ظاهر پر اعتبار نه کریں اور فی الحال جو بهی کام میں انجام دوں اس کو صبر و شکیبائی سے قبول کر یں …(٤)”

هم اس حدیث پر غور وخوص کر نے کےبعد یه نتیجه پاتے هیں که :

١)امور کا ایک ظاهر هو تا هےاور ایک حقیقت .اگر برائیوں اور گناهوں سے بهری ایک حقیقت پر نیکیوں اور بے گناهیوں کا ظاهری لیبل لگا هو،تو صرف ظاهری احکام سند نھیں بنایا جاسکتا هے.

٢)کبھی خدا وند متعال فیصله کرتا هے که بعض برترمصلحتوں سے استناد اور ظاهری جزاکے حدود سے با لاتر عمل کر کے قضیه کے باطنی پهلو کے مطابق اس کے عذاب وپاداش کا اراده کرے.

٣)اس جوان کا قتل هونا،سو فیصد حکم الهی کے مطابق تها اور حضرت خضر(ع)نے خدا کے حکم کے بغیریه اقدام نهیں کیا هے ،بلکه وه خدا کے حکم کو نافذ کر نے والے هیں(٥).

اب سوال پیدا هو تا هے که:کیا خداوند متعال نے اس جوان کو قتل کر کے ،جرم سے پهلے سزا (قصاص)نهیں دی هے؟درج ذیل مطالب اس سوال کے جواب میں ھماری مدد کرسکتے هیں :

١.اگر انسان،مومن ماں باپ سے پیدا هو کر بالغ هو نے کے بعد اپنے ایمان سے انکار کرے، تو وه “مرتدفطری”کے زمرے میں آتا هےاورایساشخص مرد هو تو قتل کا مستحق هو گا .متعدد روایات میں آیا هے که:”اگر چه قرآن مجید کی صراحت کے مطابق ،اس جوان کے ماں باپ ،مومن تھے ،لیکن ان کا بیٹا کافر تها اور اس حد تک که اس کے دل میں نور کی کرن پیدا هونے کی کوئی امید باقی نهیں رهی تھی اور وه ایمان کو قبول کر نے کے سلسله میں هٹ دهرم بن چکا تھا(٦)”اس لحاظ سے،اگر چه بچوں کے ساتھ کھیل کود کے دوران ،اس کی ظاهری روش  سے کفر نمایاں نه تها(جس کی وجه سے حضرت موسی اس کے ظاهر پر بنا کر کے اسے پاک وبے گناه جانتے تهے)لیکن اس کی قلبی اعتقادی اور عملی حقیقت،اس کے کفر کو ثابت کرتی تهی (چنانچه علم الهی اور اس کے بارے میں حضرت خضر کو مطلع کر نے سے ثابت هو چکا تها)نتیجه کے طور پر ،اس کا قتل هو نا  اس کے ارتداد کو اختیار کر نے کا رد عمل تها که دنیا میں ایسے جرم کی سزا،موت کے علاوه کچھـ نهیں هے.

٢.خداوند متعال جانتاتھا که اس جو ان کے زنده رهنے کا نتیجه، اپنے باایمان والدین کو گمراه کرنے، خاندانی رشته کو توڑنے،اور خاندان و معاشره کو دنیوی برکات اور اخروی ایمان سے محروم کرنے کے معنوی و مادی نقصان کے علاوه کچھـ نهیں تھا، اس لئے اس کی زندگی کو ختم کرنے کا اراده کیا اور اس کی جان لینے کے اسباب فراهم کئے- جس طرح انسان کسی چیز کے فائده کا پله بھاری هونے تک اس کی حفاظت کرتاهے اور اس کے بعداسے اپنے هاتھوںسے ختم کردینا پسند کرتاهے! اس سلسله میں اگر چه روح کو قبض کرنے والے حضرت عزرائیل اور ان کے دوسرے خدمت گزار هوتے هیں، لیکن خداوند متعال نے اراده کیا که اس کے ارده کو ظاهری عملی جامه پهنانے(یعنی جو ان کی زندگی کو ختم کرنے) والا اس کا ایک منتخب، رحمت والا اور خصوصی علوم کا عالم بنده یعنی حضرت خضر هو.

دوسرے الفاظ میں، حضرت خضر علیه السلام کا اقدام،خداوند متعال کے اسی تشریعی یا تکوینی اراده کی بنیاد پر هے که اس جوان کی موت کے بارے میں ثابت هوا اور اس لحاظ سے یه قتل دوسری ایسی اموات کے زمرے میں هے که تصادف وغیره کے نتیجه میں رونما هوتے هیں.{اس تفاوت کے ساتھـ که تصادفات سے واقع هونے والے قتل، نظام تشریع کے نقطه نظر سے، خدا کی تائید کے مطابق نهیں هوتے هیں اور خدا ان کے بارے میں کوئی امر نهیں کرتاهے، لیکن زیر بحث قتل اور دوسرے فطری اموات تشریعی اور تکوینی زاویوں سے (فطری سبب سازی سے) خدا کے اشاره اور تائید سے ثابت هوتے هیں}

اس معما کو حل کرنے کے سلسله میں حضرت امام جعفر صادق علیه السلام فرماتے هیں:”خضر علیه السلام اس فکر میں تھے که ایسا نه هوکه کام کی نوعیت ایسی شکل اختیار کرے که ان کے اوران کو دئیے گئے حکم پر امر هوئے قضیه کے درمیان کوئی رکاوٹ پیدا هوجائے، اس طرح که وه خدا کے اراده یعنی نوجوان کو قتل کرنے( جس کا آغازاور انتها لطف و مصلحت الهی پر مبنی هے نه کھ انسان کے حق پر) کے ثواب سے محروم هوجائیں. خاص کر یه که اس امر کو نافذ کرنا،ایک اور سبب کو پیدا کرنے والاتھا، یعنی اس جوان کے والدین پر رحمت کی عنایت (چونکه قرآن مجید کی صراحت کے مطابق حضرت خضر جانتے تھے که خداوند متعال اس جوان کے بدلے میں، اس کے ماں باپ کو ایک ایسی بیٹی عطاکرنے والا هےجو پاک وپاکیزه اور خاندان کی یکجهتی اوررابطه کا سبب هوگی)اس کے علاوه، اس اراده الهی کا پایه تکمیل تک پھنچنا ، سبب بن جاتا تا که حضرت خضر(ع) اسرار الهی کو افشا کرنے اور حقائق اور  خدا کے خاص علوم کو حضرت موسی کے سامنے بیان کرنے کی توفیق پیدا کرتے” قابل توجه بات هے که حضرت خضر(ع) فلسفه اور حکمت بیان کرنے کے دوران فرماتے هیں:بهر صورت، همیں اس بات کا خوف تھا که جوان زنده رهنے کی صورت میں سرکشی اور ضد سے اپنے والدین کو بھی کفر کی طرف لے جاتا” یعنی حضرت خضر اس کام کی روش اور نتیجه کے بارے میں اپنے اور اپنے ذاتی اراده کا نام نهیں لیتے هیں اور فعل جمع&quotمیں” سے استفاده کرتےهیں تا که یه دکھائیں که اگر چه میں خدا کے اراده کو عمل شکل دینے والاتھا، لیکن اس کام میں، تنها نهیں تھا، بلکه اراده اور حمایت الهی اور اس کی بارگاه کا توسط، میرے ساتھـ شریک تھے. اس فرق کے ساتھـ که خداوند متعال پر خوف طاری نهیں هوتا هے لیکن خضر( ع) اور دوسرے لوگ خوف وترس سے خالی نهیں هیں(حکم کے صدور اور نفاذ میں شراکت. احکام الهی کو مکمل طور پر انجام دینے میں توفیق نھ پانے کا خصوصی ڈر)(١٧)

خداوند متعال علم رکھتا تھا که یه نوجوان مستقبل میں مرتکب جرم هوگا.لیکن (سنت الهی کے مطابق) اسے کیوں مهلت نهیں دی گئی که وه مستقبل میں اپنے برے اعمال کا گواه بن جاتا؟ کیا یه جبر نهیں هے؟

اگر چه مندرجه بالا وضاحتوں سے معلوم هوتاهے که:

الف) اصل زندگی،خدا کی ایک عنایت هے بغیر اس کے که انسان اس کا کوئی حق رکھتا هو. اس لحاظ سے، زندگی کو جاری رکھنے کےمطالبه کی کوئی گنجائش باقی نهیں رهتی هے که اس کے جاری نه رهنے کی وجه کے بارے میں سوال کیا جائے.

ب) خداوند متعال نے اراده کیا تھا که حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق اس نوجوان کی زندگی کو ختم کیا جائے،لیکن جواب میں دوسرے پھلو بھی پیش کئے جاسکتے هیں:

١. وه نوجوان دو لحاظ سے مجرم تھا: اول یه که وه مرتد فطری تھا، دوسرا یه که اس میں اپنے والدین کی اعتقادی بنیادوں کو خراب کرنے کی طاقت موجود تھی. خداوند متعال نے جو مهلت اسے دیدی، اس سے مشاهده کیا که وه اس فرصت سے اپنی اصلاح کے لئے استفاده نهیں کرتاهے اور کفرو ارتداد سے هاتهـ نهیں کھنچتا هے، اس لئے اس کو قتل کرنے کا حکم صادر کیا(٨)

٢. اگر وه جوان زنده رهتا، تو وه اپنے مخفی قصد و نیت(دوسروں کو کفر کی طرف کھینچنے) کو عملی جامه پهناتا اور اس صورت میں اس کے زیاده نقصانات تھے. اس لئے ان نتائج اور دوسرے ناگوار عواقب کو روکنے کےلئے، اس کی زندگی کو ختم کرنے کا حکم صادر هوا. اس کے علاوه ظاهر آیات سے معلوم هوتاهے کے یه جوان زیاده فائده بخش نهیں تھا بالغ هونے کے بعد تھوڑی هی مدت میں بعض امور اور جرایم کا مرتکب هو گیا تھا اور اپنے ماں باپ کو گمراه کرنے کے سلسله میں ایک قسم کے اقدامات کررهاتھا.

٣. چنانچه سوره کهف کی آیت نمبر٨١ سے معلوم هوتا هے که خداوند متعال نے مقدر فرمایا تھا که اس جوان کے والدین کے ایمان اور صبر کے نتیجے میں اس گمراه جوان کے بدلے انھیں ایک مثالی فرزند عطا کرے. اس سے معلوم هوتاهے که جوان کے قتل نه هونے سے صرف اس کےوالدین کے گمراه هونے کا سبب بن جاتا اور اپنے کفر و ارتداد کی سزا بھی نه پاتا، اس طرح اپنے ماں باپ کے لئے ایک اور خیر و نیکی پهنچنے میںرکاوٹ بن جاتا. روایات میں اس نکته کی مکمل طور پر وضاحت کی گئی هے که خداوند متعال نے اراده کیا تھا که اس جوان کے بدلے میں، انھیں ایک بیٹی عنایت کرے گا جس کی نسل سے ایک بیٹا پیدا هوگا اور یکے بعد دیگرے چند نسلوں تک وه خداوند متعال کے بلند مقام یعنی نبوت پر فائزه رھیں گےاس طرح که اس بیٹی کی نسل سے ستر انبیاء هوجائیں گے(٩)

نتیجه کے طور پر، اس نوجوان کو مهلت نه دینے کی دوسری  حکمتوں میں سے یهی باعظمت انبیاء کی نسل کی مصلحت بھی تھی.

یه بدیهی بات هے که انبیاء کے والدین کا باایمان هونا سنت الهی هے. اسی وجه سےا گر بیٹا زنده رهتا تو اپنے والدین کے کفر کا سبب اور اس سنت الهی کی راه میں رکاوٹ بن جاتا. اس لئے یه سوال بیکار هوتاهے که یه جوان کیوں زنده نه رها اور نسل پیغمبر بھی وجود میں نه آتی؟

کیا یه نوجوان اپنے مومن والدین کی وجه سے خدا کے لطف و عنایت  کا حقدار قرار پائے گا کیونکه وه اپنے برے اعمال انجام دینے سے پهلے اس دنیا سے چلاگیا، اس لئے اس پر عذاب نهیں هوگا؟ یا یه که چونکه خداوند متعال جانتا تھا که وه مستقل میں مرتکب جرم هوگا، اس لئے اس کو سزا نهیں ملے گی؟

مذکوره وضاحتوں اور بیانات اور بعد میں آنے والے مطالب کے پیش نظر، یه استنباط هوتاهے که قتل کا یه اقدام، مقتول(بیٹے) کے لئے بھی اور قاتل (حضرت خضر(ع)) کے لئے بھی اور مقتول کے والدین کے لئے بھی رحمت کا سبب تھا.

الف) مقتول کو حاصل هونے والے فائدے حسب ذیل هیں:

١. اپنے ارتداد کی دنیوی سزا کو پاچکا اور شائد یهی امر اس کی اخروی سزامیں تخفیف کا سبب بن جائے.

٢. زنده رهنے کی صورت میں، وه اپنے والدین کو کافربناتا اوران کے کفر و ارتداد کا گناه بهی اس کے سر چڑھتا-

٣. اعتقادی کفر اس جوان کو کج روی ، قانون شکنی اور مرتکب گناه هونے پر مجبور کرتا او اس کے قتل سے اس کے متوقع جرایم کی فائل همیشه کیلئے بندهوگئی اور قیامت کے دن وه ان تمام گناهوں سے بچ گیا جو وه زنده رهنے کی صورت میں انجام دیتا.

٤. وه اپنے ماں باپ کے حقوق کو ادا نهیں کرسکتا اور والدین کو یهی اذیت پهنچانا اس کے گناهوں میں اضافه هونے کا سبب بن جاتا اور عاق والدین (نفرت والدین) سے دوچار هوتا.

ب) مقتول کے والدین کو حاصل هونے والے فائدے حسب ذیل هیں:

١.ان کا ایمان محفوظ رها.

٢.اس قسم کے بیٹے کے مقابله میں استقامت کا میاب نهیں هوتی، باپ کاجذبه اورماںکی رحمت انھیں نرم رویه اختیار کرنے پر مجبور کرتی اور ان کا عقیده خراب هوجاتا، لهذا وه ذهنی کشمکش سے بھی محفوظ رهے.

٣. رضائے الهی کے امتحان میں صبر و شکیبائی سے کامیاب هوئے.

٤. ایک بدکردار بیٹے کے بدلے میں انھیں ایک پاک و پاکیزه اور با برکت بیٹی عطا کی گئی.

٥. انهیں ستر انبیاء کے جد بننے کی توفیق حاصل هوئی اور ان کے ثواب و مغفرت سے بهره مند هوئے.

ج) قاتل (حضرت خضر علیه السلام ) کو حاصل هونے والے فائدے حسب ذیل هیں:

١. قانون الهی ( اراده خدا) کو نافذ کرنے کی توفیق پائی.

٢. مومن خاندان پر برکت نازل هونے کا سبب بنے.

٣. حضرت موسی علیه السلام کے سامنے وحی کے اسرار، علم غیب اور باطنی حقائق بیان کرنے کی توفیق حاصل کی .

حضرت امام جعفر صادق علیه السلام نے ان نعمتوں کی یوں توصیف فرمائی هے:”خداوند متعال جانتا تھا کھ اگر یه جوان زنده رهے گا ، تو اپنے ماں باپ کو کافر بنانے کا باعث بن جائے گا اور سب کے لئے فتنه وفساد کا سبب ھوگا. اس لئے حضرت خضر(ع) کو مامور کیا گیا  ملی که اسے قتل کرنے کا اقدام کریں  اور  وه سب ( قاتل، مقتول اور مقتول کے والدین) سرانجام الطاف الهی سے مستفید هوجائیں .(١٠)

 

حاشیے:

١. غلام :وه نوجوان جس کی موچھیں تازه نمودار هوئی هوں( معجم مقایس اللغه)/

٢. فقتله من غیر ترو واستکشاف حال(صافی، ج٢، ذیل آیه) و،بظاهر” فقتله” میں فاء کے عطف کی جگه پر هے. اس کا مطلب یه هے که حضرت خضر (ع) نے کسی مقدمه کے بغیر اس کے قتل کا اقدام کیا.

٣.کهف/٦٥.

٤. فیض کاشانی، صافی، ج٣، ص٢٥٣، روایت امام صادق(ع).

٥. ملاحظه هو: نورالثقلین، ج٣، ص٢٨٤-٢٨٣(در ضمیر جمع فخشینا).

٦. تفسیر مجمع البیان: نورالثقلین،ج٣، ص٢٨٦: تفسیر عیاشی: علل الشرایع: تفسیرصافی، ج٣، ص٢٥٥.

٧.علل الشرایع: نورالثقلین، ج٣، ص٢٨٤( حدیث حضرت امام صادق(ع)).

٨. البته ارتداد فطری کابیان اوریه که حضرت خضر نے حکم واقعی کے مطابق عمل کیا هوگا(اگر چه اسی زمانه میں اس قسم کی تشریع کا وجود نه هو) صرف بعض لوگوں کے نظریه کے مطابق هے جسے پیش کیا گیاهے.

٩. نورالثقلین، ج٣، ص٢٨٦، ح ١٧٣ تا١٧٠.

0.     علل الشرایع: تفسیر صافی، ج٣،ص٢٥٦.

 

 

تبصرے
Loading...