هم امتحان اور عذاب الهی کے در میان کیسے فرق کریں؟

انسان فطرتا ایک ایسی مخلوق هے که اگر اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور کسی خاص مشکل اور سختی سے باز پرس نه کی جائے،تو مغرور هو کر غرور وتکبر سے دوچار هو جا تا هے اوراپنے برے اعمال کے عواقب اور نتائج سے غافل بن جاتا هے ـ اس مشکل کی روک تھام کے لئے ، حکمت الهی کا تقاضا هے که انسان کی دنیوی زندگی ، کمزوریوں،مجبوریوں ، طبیعی دشواریوں اور یا اس کی خود ساخته مشکلات کے گھیرے میں رهے ـ اس لئے،بیماریاں ،موت اور نقص ، فقر وغنی ،سیلاب و زلزله ،طوفان وآتش فشان ، موذی حشرات اور درنده حیوانات وغیره جیسے حوادث نے انسان کے جسم کو گھیرا کر اس کے نفس کو ایک طرف عقل و شهوت اور الهی هدایت کر نے والوں سے اور دوسری جانب شیطانوں اور انسانی خناسوں کے علاوه دنیا میں محدو د یت اور علم وغیب پر ایمان کی ضرورت سے دوچار کر کے رکھد یا هے- انسان کا جسمانی اور نفسانی مشکلات سے مقابله کر نا اس کی شخصیت اور حقیقت کی تخلیق کا سبب بنتا هے – اندر سے عقل و فطرت اور باهر سے انبیاء و اولیائے الهی انسان کے لئے صحیح پالیسی اختیار کر نے اور انسانی کمال تک پهنچنے میں هدایت کرتے هیں اور اندر سے حیوانی شهوات طولانی آرزٶں کے رجحانات اور باهر سے شیاطین جن و انس اس کی سعادت پر ڈاکه ڈالنے والے هیں یهاں پر انسان مختار هے که اپنی راه کو خود منتخب کرے – کیونکه خدا وند متعال نے اسے اختیار بخشا هے ، انسان کے لئے اس کے سوا کوئی چاره اور راه فرار نهیں هے!

اس لئے قابل ذکر بات هے که: تمام عالم هستی اپنی تمام نعمتوں اور بلاٶں کے ساتھـ ایک مختار انسان کے لئے امتحان و ابتلا کا میدان هے اور یه سب انسان کے تابع هیں اور بلائیں و مشکلات بھی حقیقت میں نعمتیں اور انتخاب کر نے کے امکان کا سبب هیں اور اس کے نتیجه میں دنیا وآخرت میں اس کے نفس کے کمال وترقی کے ضامن هیں اور اگر یه مشکلات نه هوتیں، تو انسان کے لئے ترقی اور کمال حاصل کر نا ممکن نهیں تھا-

اس در میان میں اولیاء الله کا کردار بلاٶں کے مقابل زیاده هے ، کیونکه وه کمال اور ترقی کے لئے مستعد تر هیں – انبیاء و اولیاء کو پیش آنے والی بلاٶں کی وجه چند امور پر مشتمل هے:

١- ان کے اراده ونفوس کی تقویت ، ان کے وجود کی وسعت ، اور ان کی تکو ینی ولایت کی تقویت حاصل هو نا-

٢-آخرت کے مراحل میں ان کے درجات میں ارتقاء [1] پیدا هونا-

٣- دنیا اور اس کی تابعداری سے نفرت ، اور آخرت اور  خدا کے پاس ان کے لئے جو کچھـ مهیا هے اس کی طرف زیاده سے زیاده رغبت پیدا هونا-

٤-بار گاه الهی میں تضرع ، التماس اور التجا کی کثرت، خدا کی یاد اورآخرت کے لئے زاد راه حاصل کر نا-

البته خود اولیائے الهی بھی اپنی مرضی اور خنده پیشانی سے ان بلاٶں کا استقبال کر تے هیں اور ان مجبوریوں اور مصیبتوں سے دو چار هو نے سے ان کے یقین و ایمان اور مرضی کو تقویت ملتی هے اور ان میں خدا اور اس کی ملاقات کے لئے زیاده شوق پیدا هوتا هے – کیونکه هر امتحان کو پاس کر نے سے ان کے مرتبه میں اضافه هو تا هے اور دنیا کی یه مختصر زندگی آخرت کے مقابل میں اور یهاں کی بلا ئیں اور مصیبتیں آخرت کی پا ئیدار نعمتوں کے مقابل میں قابل موازنه نهیں هیں اگر هم سنه ٦١ هجری قمری کے حادثه کر بلا پر ایک سر سری نگاه ڈالیں تو هم اس عشق و محبت کے واضح نمو نے پائیں گے-

لیکن وه لوگ جن کی ظرفیت کم هے، ان کا امتحان بھی ان کی ظر فیت اور طاقت کے مطابق هو تا هے اور اگر اس امتحان سے کامیابی کے ساتھـ نکل گئے ، تو بعد والے امتحانوں کی باری آتی هے – قابل ذکر بات هے که تمام امتحانات ایک هی قسم کے نهیں هو تے هیں – کسی کا فقر سے امتحان لیا جاتا هے اور دوسرے کا دولت سے، کسی کا مصیبت سے امتحان لیا جاتا هے اور دوسرے کا نعمتوں کی فراوانی سے، کسی کا صحت و سلامتی بخش کر امتحان لیا جاتا هے اور دوسرے کا بیماری سے کسی کا علم و علمی کامیابیوں سے امتحان لیا جاتا هے اور دوسرے کا عبادت و ریا ضت کی توفیق عطا کر کے – اور ممکن هے ایک انسان کبھی اس قسم کے امتحان سے اور کبھی اس قسم کے امتحان سے آزمایا جائے – اور یه اس پر منحصر هے که اس نے خود کو کس امتحان کے لئے آماده کیا هے  – البته اس کی یه آمادگی اس کے سابقه اعمال کا نتیجه هے اور ممکن هے وه خود بھی اس کے بارے میں آگاه نه هو – جن امتحانات و ابتلا آت کا ذکر کیا گیا هے ، وه وسیع هیں اور هر انسان کسی نه کسی طرح ان سے دو چار هو تا هے اور ان سے فرار نهیں کرسکتا هے – [2] لیکن بعض آزمائیشیں انسان کی خلاف ورزیوں اور خدا کے احکام کی نافر مانی کے نتیجه میں رونما هوتی هیں تاکه اسے تنبیه کر کے اس کی خطا کی طرف متوجه کیا جائے اس قسم کی ابتلاآت صرف غیر معصوم کے لئے مخصوص هیں ، کیونکه معصوم هر قسم کے گناه سے محفوظ هیں ، لهذا ان کے گناهوں کا ایسی ازمائشوں سے تلافی کر نا بے معنی هے –

دوسروں (یعنی غیر معصوم) کے بارے میں بھی امتحانات چند قسم کے هوتے هیں :

الف) جزئی اور مختصر عذاب جو ان کی تنبیه اور ان سے غرور وتکبر کو دور کر نے اور انھیں بار گاه الهی میں تضرع، ذکر الهی اور یاد خدا کی طرف مرغوب کر نے کے لئے هو تے هیں تاکه ان پر حجت تمام کی جائے- [3]

ب) بامهلت اور تدریجی عذاب: جو لوگ ضدی هیں اور اپنے غرور و تکبر سے هاتھـ نهیں کھینچتے، یه لوگ دنیوی نعمتوں میں غرق هو کر ، خدا، قیامت، موت اور انسان کی تکریم و بزرگی کو بھول جاتے هیں- [4]

ج) بیچار گی کا عذاب: ان کے غرور وتکبر کے عروج پر عقوبت الهی انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی هے اور یکبارگی انھیں بیچاره کر کے بر زخی جهنم میں داخل کردیا جاتا هے تاکه قیامت کے دن بھی عذاب اخروی سے دو چار هو جائیں – [5]

پهلی قسم بذات خود نعمت الهی هے اور انسان کے لئے اس کی ایمانی عمر کے دوران بیداری و هوشیاری کا سبب بنتی هے اور ان نامناسب حالات پر انسان کا صبر اور اس کا استغفار ، تضرع اور توبه جیسے امور،اس کے گناهوں کے محو هو کر حسنات میں تبدیل هو جا نے اورخدا کے هاں ان کے درجه کو ترقی ملنے کا سبب بن جاتے هیں اور غفلت و لاعلمی کو اس سے دور کر تے هیں- اور سر انجام اسے خدا وند متعال کے اخروی قهر و غضب سے نجات دلاکر قرب الهی میں داخل کرنے کا باعث بن جاتے هیں – لیکن دوسری دو قسمیں عذاب الهی هیں جن سے دنیا میں باغی اور عنادی افراد دو چار هو تے هیں – اگر چه وه بظاهر انتهائی خوشحال زندگی بسر کرتے هیں ، لیکن ان کی یه حا لت ان کے عذاب میں شدت پیدا هو نے کا سبب بنے گی اور انھیں اس کا کوئی فائده نهیں ملے گا-[6] قرآن مجید کی تعبیر میں : “انسان خود بھی اپنے نفس کے حالات سے خوب باخبر هے اگر وه عذر و بهانه سے کام نه لے-” [7] اور انسان اپنی نیت و مقاصد اور اعمال کے بارے میں دوسروں سے بهتر آگاه هے اور اگر انصاف کی نگاه سے دیکھے اور بهانوں اور دوسروں کو قصور وار اور ذمه دار ٹھرا نے سے اجتناب کرے تو وه اپنے صحیح یاغلط هو نے سے آگاه هوسکتا هے – اس لئے اگر وه کسی گناه کے قصد و اراده کے نتیجه میں کسی بلا سے دو چار هوا، تو یه اس بات کی علامت هے که خداوند متعال نے اس پر عنایت کی هے اور اس طرح اس کو مهلت دی هے که وه هوش میں آجائے اور بد نیتی اور  ناشائسته عمل سے هاتھ  کھینچ لے، اور اگر اس نعمت (بلا و تنبیه) کا شکر بجا لاکر برائیوں سے اجتناب کرے تو اس پر خدا وند متعال کی رحمتوں اور نعمتوں کی بارش هو گی اور خدا وند متعال کی هدایات  اور الهامات اسے بری راه سے آگاه کر کے ناپسند اعمال سے بچا لیں [8]  لیکن اگر خدا وند متعال کے اوامر و نواهی کے بارے میں غفلت اور خدا کی تنبیهات اور حجتوں کے بارے میں لا پروائی سے کام لے، تو خدا وند متعال بھی اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا هے اور اس کو تنبیه کر نے سے محروم کر دیتا هے اور آرام و آسا ئش میں غرق کر دیتا هے اور وه رفته رفته مکمل طور پر خداوند متعال اور اس کی رحمت سے دوری اختیار کر کے دائمی عذاب کا مستحق بن جاتا هے – (استدراج)- خلاصه یه که : دنیا ، مادیات اور اس کا زرق وبرق اور تمام حوادث انسان کے بارے میں امتحان و ابتلائے الهی هیں که وه اس کی شخصیت اور حقیقت اور اس کی انسانیت کو ترقی بخشنے کا سبب بن جائیں ، بشرطیکه ان سے مناسب طریقه پر استفاده کیا جائے اور انبیاء علیهم السلام کی راهنما ئیوں سے بهره مندی حاصل کی جائے تاکه پھر ان کے مقابل میں مثبت رد عمل کا مظاهره کیا جائے ، لیکن اگر غلطیوں کا مرتکب هو جائے ، توچند بار اس کی تنبیه کی جاتی هے تاکه ضد اور عناد سے هاتھـ کھینچ لے، اس کے باوجود اگر متنبه نهیں هوا تو تباهی و بربادی کے عذاب میں مبتلا هو گا یا تدریجی عذاب سے دو چار هو گا-

منابع و ماخذ:

١- قرآن کریم –

٢- تفاسیر مختلف حواشی میں مذکور آیات کے ذیل میں –

٣ـ موسوی الخمینی رحمهم الله ، روح الله، شرح چهل حدیث ، مٶ سسه تنظیم و نشر آثار ، طبع تهران ١٣٧٦، ص٥٨٩ و ٢٣٦ تا ٢٤٦-

٤- مصباح یزدی ، محمد تقی ، معارف قرآن ( راه و راهنما شناسی ) ، ج٥-٤ مٶ سسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی رحمهم الله ، طبع اول ، ١٣٧٦ ، قم ص ١١٥تا ١٥٣-



[1]  اشاره … سوال نمبر ١٢٨( معنای ولایت)-

[2]  سوره محمد (صلی الله علیه وآله اسلم)، ٣١، انبیا، ٣٥، بقره ١٥٥ و…-

[3]  سوره اعراف ، ٦٨و٩٤تا ٩٠-

[4]  سوره مٶمنون ، ٥٣ تا ٥٦، اعراف ، ١٨٢ تا١٨٣-

[5]  سوره فصلت، ٥٠ و ١٦ و٢٧-

[6]  سوره مدثر،٣٨ تا ٥٥-

[7]  سوره قیامه ،١٤ تا ١٥-

[8]  سوره انفال ، ٢٦، عنکبوت، ٦٩، بقره ٢٨٢-

تبصرے
Loading...