میں ایک شیعه نوجوان هوں اور اهل سنت کے درمیان زندگی بسر کرتا هوں، میں اپنے مذهب کو ان کے سامنے ظاهر کرنا نهیں چاهتا هوں، مجھے ان کے ساتھه کیسا برتاو کرنا چاهئیے؟

سوال میں پیش کیا گیا مسئله کئی جهات سے قابل بحث و تحقیق هے:

۱۔ ایسا لگتا هے که دوسروں کے ساتھه برتاو اور گفتگو اگر دردسری، پریشانی اور مشکل پیدا کرنے کا سبب بنے اور بے فائده بھی هو تو ضروری نهیں هے- اس کے علاوه یه بھی ضروری نهیں هے که انسان بلاواسطه یا براه راست گفتگو اور جدل سے کام لے- بلکه ممکن هے که انسان بالواسطه اور غیرمستقیم صورت میں اس قسم کی بحثوں میں شرکت کرے اور اختلافی مسائل کو اس صورت میں که اس مسئله کے بارے میں ایک گروه کا یه نظریه هے یا بعض دوسرے لوگ اس مسئله میں یه عقیده رکھتے هیں وغیره، گفتگو کی جاسکتی هے- کیونکه بهت سے مواقع پر انبیاء علیهم السلام کی سیرت اور طریقه کار بھی ایسا هی تھا- مثلاً حضرت ابراھیم علیه السلام کو جب یه موقع فراهم هوا که غیر مستقیم صورت میں گفتگو کریں اور اپنے اعتقادات کو لوگوں کے سامنے بیان کریں، تو انھوں نے براه راست گفتگو اور مجادله سے اجتناب کرتے هوئے یه کام انجام دیا- اس سلسله میں قرآن مجید کی آیات یوں بیان فرماتی هیں:

” پس جب اُن پر رات کی تاریکی چھائی اور انھوں نے ستاره کو دیکھا تو کها که کیا یه میرا رب هے؟ پھر جب وه غروب هو گیا تو انھوں نے کها که میں ڈوب جانے والوں کو دوست نهیں رکھتا- پھر جب چاند کو چمکتا دیکھا تو کها پھر یهی رب هوگا، پھر جب وه بھی ڈوب گیا تو کها اگر پروردگار هی هدایت نه دے گا تو میں گمراهوں میں هو جاوں گا- پھر جب چمکتے هوئے سورج کو دیکھا تو کها پھر یه خدا هوگا یه زیاده بڑا هے، لیکن جب وه بھی غروب هو گیا تو کها که اے قوم میں تمهارے شرک سے بری اور بیزار هوں- میرا رخ تمام تر اُس خدا کی طرف هے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا هے اور میں باطل سے کناره کش هوں اور مشرکوں میں سے نهیں هوں[1]-“

اس طرح روایتوں میں بھی آیا هے که ائمه اطهار علیهم السلام بعض مواقع پر براه راست مناقشه اور گفتگو میں دخل نهیں دیتے تھے، بلکه خاموشی اختیار کرتے تھے تاکه سازگار ماحول پیدا هو جائے اور فتنه اور جھگڑے کا احتمال نه رهے، پھر اس مسئله کے بارے میں اپنا نظریه بیان فرماتے تھے- اس مطلب کی بهترین مثال، قرآن مجید کی تخلیق کے مسئله پر حضرت امام رضا علیه السلام کا طریقه کار هے جو آپ۴ کے زمانه میں پیش آیا- حضرت۴ نے جب دیکھا که یه مسئله ایک سیاسی مسئله میں تبدیل هو چکا هے اور علمی مسئله نهیں رها هے، تو آپ۴ نے کچھه بولنے پر خاموشی کو ترجیح دی، کیونکه آپ۴ نے دیکھا که اس علمی بحث میں دخل دینا جھگڑے اور قتل کا سبب بنے گا، اس لئے بولنا فائده مند نهیں هے[2]

قابل توجه بات هے که حضرت ابراھیم علیه السلام کی یه روش مشرکین اور بت پرستوں کے ساتھه تھی- جبکه اهل سنت همارے دینی بھائی هیں، اولاً: هم ان کے ساتھه اور وه همارے ساتھه، اهم ترین دینی اعتقادات اور اصول عقائد، جیسے: توحید، نبوت اور معاد میں مشترک هیں-

ثانیاً: همارے اهل بیت رسول ص اور اور ائمه معصومین علیهم السلام نے همیشه همیں اخلاقی اور علمی فضائل کی تاکید کی هے تو ضروری هے که هم اُن کے فرمودات پر عمل کریں- ان کی چاهت یه تھی که هم علم، اخلاق، پرهیزگاری، تقویٰ وغیره میں نمونه عمل بنیں تاکه اپنے عمل سے { که صرف زبان سے} لوگوں کو حق اور اچھائی کی دعوت دیں-

مرحوم کلینی رح نے اس سلسله میں بهت سی روایتیں نقل کی هیں، هم یهاں پر ان میں سے دو روایتوں کو نمونه کے طور پر ذکر کرنے پر اکتفا کرتے هیں:

۱۔ اسامه کهتا هے: میں نے امام صادق۴ سے سنا که انهوں نے فرمایا: آپ کے لئے تقوائے الهیٰ ، پرهیزگاری، کوشش، سچ کهنا، امانت داری، نیک اخلاق اور همسایوں سے نیکی کے ساتھه پیش آنا ضروری هے- لوگوں کو بیان و زبان کے علاوه اپنے  مذهب کی دعوت دیں { یعنی آپ شیعوں کا کردار ایسا هونا چاهئیے که آپ کے مخالفین آپ کے مذهب پر فریقته هو جائیں} آپ همارے لئے زینت بن جائیں اور همارے لئے ذلت کا سبب نه بنیں- رکوع طولانی بجا لائیں- کیونکه جب آپ میں سے کوئی رکوع و سجود طولانی بجا لاتا هے، تو شیطان اس کے پیچھے، فریاد بلند کرتا هے اور کهتا هے: ” افسوس ؛ که اس نے اطاعت کی اور میں نے نافرمانی کی اور اس نے سجده کیا اور میں نے سرکشی کی { جب مجھے آدم۴ کے سامنے سجده کرنے کا حکم هوا}[3]

۲۔ علی بن ابی زید نے اپنے باپ سے نقل کرکے کها: میں امام صادق۴ کی خدمت میں تھا که عیسی بن عبدالله آپ۴ کی خدمت میں حاضر هوا اور آپ۴ کی خدمت میں خوش آمدید کها- امام۴ نے اسے اپنے پاس بٹھا کر فرمایا : ” اے عیسی بن عبدالله؛ وه شخص هم میں سے نهیں هے جو ایک لاکھه سے زائد آبادی والے شهر میں زندگی بسر کر رها هو اور ان میں سے ایک آدمی بھی اس {همارے حامی} شخص سے پرهیزگار تر هو، یعنی مذهب شیعه کے مخالفین میں سے، کیونکه {همارا} شیعه ایسا هونا چاهئیے جو سب پر برتری رکھتا هو[4]-“

اگر هم ایسے هوں تو دنیا والوں کے سامنے اسلام اور مکتب اهل بیت۴ کا ایک خوبصورت چهره پیش کر سکتے هیں- اس لئے توقع یه کی جاتی هے که همیں اپنے آپ کو اخلاق، علم، عقیده اور تهذیب و تمدن وغیره سے مربوط تمام میدانوں میں ائمه اطهار علیهم السلام کی سفارشات اور چاهت کے مطابق آراسته اور هم آهنگ کرنا چاهئیے-

ثالثاً: هم حقیقی اور واقعی تشیع کو پهچاننے کی ضرورت هے- حقیقی تشیع کو پهچاننا وهی مکتب اهل بیت علیهم السلام کے مطابق اسلام کو پهچاننا هے- جب هم تشیع کو اس طرح پهچان لیں تو هدایت کی راه اور حقیقت کا طریقه هم پر واضح هوگا، اس وقت هم مختلف زاویوں سے دین کی پهچان حاصل کریں گے-

حقیقت میں اس روش کی سند حدیث ثقلین هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنے بعد امت کے سامنے اس راه کا خاکه کھینچا هے تاکه لوگ آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد گمراهی سے دوچار نه هوں- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے اس سلسله میں فرمایا هے: ” بیشک میں آپ لوگوں سے ایسی حالت میں جدا هو رها هوں جبکه میں آپ کے درمیان دو گراں قدر چیزیں امانت کے طور پر چھوڑ رها هوں، اگر آپ ان سے تمسک پیدا کریں گے تو میرے بعد هرگز گمراهی سے دوچار نهیں هوں گے- ان دو چیزوں میں سے ایک چیز دوسری چیز سے قابل قدر اور باعظمت تر هے- ان میں سے ایک خدا کی کتاب {قرآن مجید} هےجو ایک رسی کی مانند آسمان سے زمین کی طرف کھینچی گئی هے اور دوسری چیز میری عترت اور اهل بیت هیں- یه دونوں هرگز ایک دوسرے سے جدا نهیں هوں گے، یهاں تک که حوض کوثر پر مجھه سے ملیں گے، دیکھئے آپ کیسے ان کی قدردانی کرتے هیں[5]-“

رابعاً: ضروری مسائل میں سے ایک، مختلف مذاهب کے درمیان مشترک نکات کی پهچان حاصل کرنا هے اور اسی طرح ان چیزوں کے بارے میں بھی پهچان حاصل کرنا هے، جو افتراق و جدائی کا سبب بنتے هیں- خواه یه علل و اسباب سیاسی هوں یا مذهبی تعصب پر مبنی هوں یا اجتهادی عمل کی بنیاد پر هوں- بهرحال اس بنا پر اگر هم نے اختلافات کے اسباب و عوامل کو پهچان لیا تو هم ان کے علاج اور طریقه کار کو دقیق صورت میں پا سکیں گے-

مثال کے طور پر هم سوال میں ذکر کئے گئے دو نمازوں کو ایک ساتھه پڑھنے کے بارے میں اشاره کئے گئے مسئله کو هی لیتے هیں:

جو کچھه مذکوره سوال کے متن سے معلوم هوتا هے، وه یه هے که آپ اس مسئله کے بارے میں اهل سنت کا نظریه نهیں جانتے هیں- اگر آپ اس مسئله کے بارے میں اهل سنت کا نظریه اور ان کی نقل کی گئی روایتوں کو جانتے هوتے تو؛ اس وقت آپ اپنے همدرسوں سے کهتے که یه مسئله { جمع بین صلاتین} صرف شیعوں کا نظریه نهیں هے، بلکه اس موضوع کے بارے میں اهل سنت کی قابل اعتبار کتابوں میں دسیوں روایتیں نقل هوئی هیں اور یه روایتیں تائید کرتی هیں که رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کسی عذر کے بغیر فراغت کے وقت دو نمازوں کو ایک ساتھه بجا لائے هیں-

یهاں پر هم صرف ایک روایت کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے هیں: “ابن عباس سے نقل کیا گیا هے که رسول خدا {صلی الله علیه وآله وسلم}  نے کسی خوف اور سفر کے بغیر ظهروعصر اور اسی طرح مغرب و عشا کی نماز کو ایک ساتھه پڑھا هے[6]-“

اس کام کی علت کے بارے میں ابن عباس کهتے هیں: ” پیغمبر ص کے اس کام کو انجام دینے کا سبب یه هے که آپ ص کے پیروکاروں میں سے کوئی بھی مشکل اور حرج سے دوچار نه هو جائے[7]-” اسی طرح جب هم آیه شریفه: ” اًقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الیٰ غسق الّیل و قرآن الفجر انّ قرآن الفجر کان مشھودا[8]” { آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی اور نماز صبح کے لئے گواهی کا انتظام کیا گیا هے} کی تفسیر پر نظر ڈالتے هیں تو هم مشاهده کرتے هیں که اهل سنت کی ایک بزرگ شخصیت اس آیت کی تفسیر میں کهتے هیں که: ” اس آیت نے نماز کے اوقات کو تین اوقات میں تقسیم کیا هے نه که پانچ وقت میں[9]-“

اسی طرح امام حسین علیه السلام کی تحریک کا مسئله بھی ایسا هی هے- پس جب هم امام حسین علیه السلام کے قیام عاشورا کی قدروقیمت کو جان لیں اور هم امام حسین علیه السلام کی تحریک کے اصلاحی رول کے بارے میں آگاهی حاصل کریں اور یه بھی جان لیں که همیں قیام عاشورا کو کیسے متعارف کرنا چاهیئے اور اس کا صحیح معنوں میں کیسے دفاع کرنا چاهیئے، تو اس وقت معلوم هوگا که امام حسین علیه السلام کا مسئله صرف سینه زنی کا مسئله نهیں هے، کیونکه حقیقت میں امام حسین علیه السلام کے قیام کا یه مقصد نهیں تھا- بلکه امام حسین علیه السلام کے لئے سینه زنی اور عزاداری امام حسین علیه السلام کی تحریک اور قیام کو زنده رکھنے کا ایک وسیله هے- البته شیعوں کے نزدیک امام حسین علیه السلام کے قیام عاشورا کو زنده رکھنے کا کام صرف سینه زنی اور عزاداری هی تک محدود نهیں هے- بلکه قیام حسینی کو زنده رکھنے کے لئے دسیوں اور سینکڑوں طریقے اور وسیلے موجود هیں- لیکن افسوس کے ساتھه کهنا چاهئیے که شیعوں کے خلاف کچھه پنهان سازشیں اور ریشه دوانیاں انجام پا رهی هیں که شیعوں کو صرف اسی صورت میں پیش کیا جائے اور یه الزام هرگز صحیح نهیں هے- اگر آپ جانتے هوتے که شیعوں نے امام حسین علیه السلام کے مکتب و تحریک کے سلسله میں تین هزار جلد سے زیاده کتابیں، مقالات اور رسالے شائع کئے هیں اور بهت سے علمی موسسات تاسیس کئے هیں، تو آپ آسانی کے ساتھه اس قسم کے شبهات اور سوالات کا جواب دے سکتے تھے[10]

لیکن جو آپ نے کها که: وه {سُنیّ} اس مسئله کا ادراک نهیں کرتے هیں، البته یه امر فطری هے، کیونکه یه سنسرشده فضا اور مکتب اهل بیت سے فاصله اور دوری اختیار کرنے کی وجه سے هے-

همیں آپ سے یه امید نهیں هے که آپ اپنے هم جماعتوں اور دوستوں میں کوئی تبدیلی لا سکیں گے، بلکه ممکن هونے کی صورت میں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھا لیجئے اور اپنے شیعه هونے کا اظهار نه کیجئیے- اس مسئله کو اپنے درس کے مکمل هونے تک چھوڑ رکھئیے تاکه آپ اپنے اعتقادات کے بارے میں کافی فرصت سے اچھی طرح مطالعه کر کے صحیح ڈھنگ سے دفاع کر سکیں-



[1] انعام، 79-76.

[2] اس سلسله میں “خلق قرآن” کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا هے-

[3] کافی، ج 2، ص 78، ح 9.

[4] ایضاً، ح 10

[5] اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں، ترمزی نے اپنی سنن میں، احمد حنبل نے اپنی مسند میں نقل کیا هے- اسی طرح اهل سنت کی دسیوں معتبر کتابوں میں نقل هوئی هے-

[6] صحیح مسلم، ج 2، ص 151، کتاب الطلاق، باب جمیع بین دو نماز در حضر.

[7] ایضاً

[8] اسراء، 78.

[9] ملاخطه هو: تفسیر فخر رازی، ذیل آیه 78.

[10] ملاخطه هو: معجم ما کتب عن الرسول (ص)، واهل بیته، ج 7 و 8، الرفاعی، عبدالجبار.

تبصرے
Loading...