میرا شوہر قبلاً ہندو تھا اور میرے لیے مسلمان ہوا ہے۔ لیکن صرف بظاہر مسلمان، شرعی مسائل میں سے کسی ایک کی رعایت نہیں کرتا ہے، اس نے اپنا شغل جھوٹ بول کر حاصل کیا ہے۔ مجھے بتائیے کہ اس کے ساتھ کون سابرتاو کروں؟ کیا طلاق جائز ہے؟

جواب میں یہ کہنا ہے کہ افسوس آپ نے ازدواج کی ابتداء میں ایک غلطی کا ارتکاب کیا ہے اور ضروری تحقیق کے بغیر اپنی مشترک زندگی  ایک ایسے شخص کے ساتھ شروع کی ہے، جس کے عقیدہ اور طرز تفکر کے بارے میں آپ کوئی خاص اطلاع نہیں رکھتی تھیں، لیکن یہاں پر جو بات قابل تحسین ہے، وہ یہ ہے کہ آپ ابھی بھی اپنے دین اور اس کے دستور کی رعایت کرنے کے سلسلہ میں حساس ہیں اور اپنے قلبی ایمان کے خدشوں کا اظہار کرتی ہیں۔

آپ کی مشکل کے بارے میں کہنا ضروری ہےکہ: اسلام ، صرف شہادتین پڑھنے سے متحقق ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص ، شرعی مسائل کی رعایت نہ کرے، تو وہ گناہگار اور فاسق شمار ہوتا ہے اور حقیقت میں سچا مسلمان نہیں ہے، لیکن ہمیں جاننا چاہئیے کہ صرف روزہ نماز اور دوسرے شرعی واجبات کو ترک کرنا ہی ایک مسلمان کے مرتد، کافر اور نجس ہونے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اور جب تک نہ اس کا ارتداد  ثابت ہو جائے، دوسرے مسلمانوں کے حکم میں ہے[1]۔ اور اسی بنا پر، اسلامی احکام، جیسے مسلمان عورتوں سے ازدواج جائز ہونا اس پر لاگو ہوں گے، اور اس سلسلہ میں طلاق بھی اس کے اختیار میں ہے اور آپ قانونی طور پر اپنے مذکورہ دلائل کی بنا پر اپنے شوہر سے جدا ہونے کی اجازت حاصل نہیں کر سکتی ہیں، کیونکہ ایک طرف وہ شرعی قانون کے مطابق مسلمان ہے اور دوسری جانب یہ کہ اس کا جھوٹ بول کر شغل حاصل کرنا ، آپ کے لیے ازدواج کو فسخ کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا ہے۔

جو برتاو آپ کو اپنے شوہر کے ساتھ انجام دینا چاہئیے، وہ یہ ہے کہ ابتداء میں آرام و نصیحت سے کوشش کیجئیے تاکہ وہ اپنے کردار کو اسلامی دستور کے مطابق آراستہ کرے اور اس کا نتیجہ نہ نکلنے اور سنگین امتحان الہٰی سے دوچار ہونے کی صورت میں آپ کو اپنے دین اور اپنے بچوں کے عقیدہ کی حفاظت کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہئیے اور توجہ کرنی چاہئیے کہ مشکل ترین حالات میں بھی آپ مومن رہ سکتی ہیں، کیونکہ {فرعون کی بیوی کے مانند} ایسی خواتین بھی تھیں، جو ایک بے ایمان اور ظالم شوہر رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ایمان کے ایک ایسے مرحلہ پر پہنچا سکی ہیں کہ قرآن مجید کی طرف سے دنیا والوں کے لیے انہیں نمونہ عمل قرار دیا گیا ہے[2]۔

سرانجام، اگر آپ کا شوہر باضابطہ طور پر ارتداد کا اعلان کرے یا آپ کے لیے اس حد تک زندگی دشوار بنا دے کہ اس کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ ہو، تو آپ عدالت کے ذریعہ اپنے لیے طلاق حاصل کر سکتی ہیں، لیکن شرعی قوانین کی بنا پر صرف شوہر کا مرتد ہونا ثابت ہونے کی صورت میں نکاح باطل ہوتے ہیں اور اس صورت میں طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔

امام خمینی{رح} کی توضیح المسائل میں آیا ہے: ” جو مرد غیر مسلمان ماں باپ سے پیدا ہوا ہو اور مسلمان ہوا ہو، اگر اپنی بیوی سے ہم بستری کرنے سے پہلے مرتد ہو جائے تواس کا نکاح باطل ہوتا ہے اور اگر ہم بستری کرنے کے بعد مرتد ہو جائے، تو اس کی بیوی کو احکام طلاق میں بیان کیے گیے عدہ کی رعایت کرنی چاہئیے ، پس اگر اس کا شوہر عدہ تمام ہونے سے پہلے مسلمان ہو جائے تو نکاح باقی ہے ورنہ باطل ہوگا[3]۔”

البتہ ایک بار پھر تاکید کی جاتی ہے کہ صرف احکام شرعی پر عمل نہ کرنے، حتی ان کا انکار کرنے سے بھی کسی کو مرتد قرار نہیں دیا جا سکتا ہے مگر یہ کہ “اس حکم کے انکار کا نتیجہ خدا یا پیغمبر{ص} کا انکار ہو۔[4]

عسر و حرج پیدا ہونے کی صورت میں حاکم شرعی کی طرف رجوع کر کے آپ طلاق کی درخواست کر سکتی ہیں۔

 


[1] خامنه ای، سید علی، أجوبة الإستفتائات، ص 62.

[3] امام خمینی، توضیح المسائل، م 2450.

[4] امام خمینی، توضیح المسائل، م 2447.

 

تبصرے
Loading...