مهر بانی کر کے کتّے اور سور کے نجس هو نے کے سلسله میں کوئی حدیث بیان فر مایئے؟

کتّے اور سور کے نجس هو نے کے سلسله میں جو روایتیں ائمه اطهار علیهم السلام کی طرف سے همیں ملی هیں ، وه دوقسم کی هیں – ایک وه روایتیں هیں جن میں واضح طور پر لفظ نجس استعمال هوا هے اور دوسری وه روایتیں هیں جن میں لفظ نجس واضح طور پر استعمال نهیں هوا هے ، بلکه لازمی طور پر کتّے اور سور کے نجس هو نے کوسمجها جاسکتا هے- اس قسم کی روایتوں میں امام علیه السلام سے کتّے یاسور کے جوٹھے پانی یاسور کے انسان کے لباس سے لگ جانے کے بارے میں پوچھے گئے سوالات اور ائمه علًیه السلام کی طرف سے دئے گئے جوابات کی روشنی میں کتے اور سور کے نجس هو نے کو سمجھا جاسکتا هے – یعنی امام علیه السلام سے سوال کیاگیا که : کیا جس لباس کے ساتھـ سور لگ گیا هو ، اس میں نماز پڑھـ سکتے هیں ؟ امام (ع) نے جواب میں فر مایا  : نهیں – اس جواب سے هم سمجھـتےهیں که سور نجس هے –

هم ذیل میں نمونه کے طور پر دوروایتوں کی طرف اشاره کرتے هیں اور مزید معلو مات کے لئے سوال کر نے والے کو احادیث کی کتابوں کا مطالعه کر نے کی سفارش کرتے هیں – البته روایات کو سمجھنے اور ان سے حکم شرعی کا استنباط کر نے کے لئے گوناگوں علوم کی ضرورت هوتی هے ، جس کی ذمه داری حوزه علمیه کو هے – اما روایات حسب ذیل هیں :

١- کتّے کے نجس هو نے کے بارے میں روایت : ” انه سال ابا عبدالله (ع) عن الکلب فقال رجس نجس لا یتوضا یفضله واصبب ذلک الماء و اغسله بالتراب اول مرۃ ثم بالماء”

حضرت امام صادق علیه السلام سے کتّے کے بارے میں سوال کیا گیا – حضرت (ع) نے جواب میں فر مایا : نجس هے – کتّے کے جوٹھے پانی کو پھینک دینا چاهے اور اس سے وضو نه کر نا چاهئے –  برتن کو پهلے مٹی اور پھر پانی سے دھو لینا چاهئے –

٢- سور کے نجس هونے کی روایت : اساله عن الثوب یصیبه الخمر ولحم الخنزیر اء یصلی فیه ام لا فان اصحابنا قداختلفوا فیه  فقال بعضهم صل فیه فان الله انما حر م شر بها وقال بعضهم لاتصل فیه فکتب (ع) لا تصل فیه فانه رجس”، ” میں نے امام علیه السلام سے اس لباس کے حکم کے بارے مین سوال کیا جس میں شراب گری هو یاسور سے لگ گیا هو ، اور عرض کی که کیا اس لباس میں نماز پڑهی جاسکتی هے؟ — حضرت نے جواب میں فر مایا : نهیں ، اس لباس کے ساتھـ نماز نه پڑھنا ، کیو نکه وه نجس هو گیا هے –[1]



[1] – مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو : کتاب وسائل الشیعه ، ج٣، باب نجاست کلب، ص٤١٥- ٤١٨ وباب نجاست خنزیر، ص٤١٨-٤١٩-

تبصرے
Loading...