مغربی فلسفہ کے نظریئے کے مطابق زندگی کے معںی کیا ہیں؟

انسانی غور و فکر کی تاریخ میں ، زندگی ، کا موضوع ، مقصد اور اس کے معنی کو دو عمومی نظریات میں پیش کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک نظریہ مطلق وجود ، تقدیر اور مقدر پر عقیدہ رکھتا ہے جب کہ دوسرا نظریہ زندگی کیلئے ہر طرح کے معنی اور مقصد کی نفی کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی ایک بے معنی اور بے مقصد مظھر ہے۔

یھاں پر یہ کوشش کی جائے گی کہ اجمالی طور پر مختلف نظریات کے مطابق اس مسئلہ پر بحث کی جائے  اور آخر کار ایک نتیجہ اخذ کیا جائے ۔ اگر چہ اس سوال کی خصوصیات کو مد نظر رکھ کر یہ نتیجہ مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے اسے اور بھی پیچیدہ بناسکتا ہے۔

“زندگی کے معںی” عصر حاضر میں فلسفہ ، علم النفس )سائیکولوجی(، انسان کے دین، صنعتی دور،  علم اور ٹیکنالوجی اور ترقی کے دور  کا سب سے اھم موضوع رہا ہے۔ “جو اصلی مسائل اس موضوع کے ذیل میں قرار پاتے ہیں وہ کچھ ایسے سوالات پر مشتمل ہیں کہ کیا: زندگی با مقصد ہے؟ کیا زندگی کی کوئی قدر و قیمت ہے؟ اور کیا لوگوں کے پاس  اپنے شرائط اور روابط سے قطع نظر زندگی کرنے کیلئے کوئی دلیل موجود ہے کہ نہیں؟”[1]

نھلیزم اورپوچی )مھمل(  کے تصورکا رواج، انسانی سماجوں میں خصوصا یورپی ممالک میں، نشاۃ ثانیہ (Renaissance )کے علمی اور صنعتی انقلاب کے بعد  ہوا اور اس کے پھیلنے کی رفتار بھی تیز ہورہی ،سوسائٹی اورعلم النفس کے ماھرین مختلف امور جیسے سختیاں ، ناکامیاں، اور ان کی ایک معقول تفسیرسامنے نہ ہونا نیز  اندروںی اور سماجی مسائل  ،انسانی زندگی کے بارے میں پوچ اور مھمل تصورات  کے اھم عوامل جانتے ہیں۔ لیکن ان سب چیزوں کے علاوہ یہ بات واضح ہے کہ اس فکر کا سب سے اھم سبب ، ایمان کا سست ہونا یا بالکل ایمان نہ ہونا ہے ۔ جو انسان خدا کو فراموش کرتا ہے قرآن کریم کے مطابق اس نے اپنی حقیقت کو فراموش کیا ہے اور روشن ہے کہ جس نے اپنے آپ کو کھودیا اس کیلئے زندگی بے معنی ہی ہوجاتی ہے، والٹر ، ٹی اسٹیس اگر چہ پادریوں کے دینی عقاید کا مخالف ہے لیکن وہ  ماڈرن دنیا میں  انسان کی پریشانی اور سرگردانی کو ایمان نہ رکھنے اور خدا اور دین سے دور ہونا مانتا ہے۔ [2]

اسی لئے وہ وُلف کے اس سوال کے جواب میں ” کہ زندگی کیا ہے؟” جو اس سوال کے ساتھ جڑا ہو ہے ، کہ کیا انسان ایک عظیم مقصد کا حصہ ، یا کسی خدائی مقصد کا حصہ ہے ؟ ۔۔ وہ دینی جواب چاہتا ہے”[3]

دنیوی زندگی کا اختتام یا موت کا واقعہ ، جو مصائب اور آلام دنیاوی زندگی میں انسان کو پھنچتے ہیں۔ وہ ایسے حقایق ہیں جن کا نہ سمجھنا یا ان کی صحیح تفسیر نہ کرنا ، ماڈرن انسان کو جو مڈرنیزم کے لذات میں ڈوبا ہوا ہے، غیر معنوی دلدل میں ٹھونس دیتے ہیں، لیکن مومن اور خدا پر اعتقاد رکھنے والے کیلئے ہہ دو باتیں ، اس کی زندگی کو معںی دار بنا دیتی ہیں۔ کیوںکہ دیندار انسان ایک طرف اپنی ازلی بقا کو دیکھتا ہے اور موت کو زندگی کی انتھا ںہیں بلکہ دوسری زندگی کا آغاز جانتا ہے جس میں وہ  دنیا میں بوئے ھوئے اپنی نعمتوں سے بہرہ مند ہےاور مصائب اور آلام جتنے سخت بھی ہوں اسے مہملیات کی طرف نھیں لے جاتے ھیں، کیوںکہ ایک طرف یہ سب مصائب خداوند متعال کی طرف سے ظاھری طور پر مقرر ہوئے ہیں نہ کہ طبیعت کی اندھی آنکھوں سے پھنچے  ہیں۔ اور دوسری جانب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے خلق کرنے کا مقصد اس کو مقام قرب الھی تک پھنچانا ہے۔ اسی لئے اس دنیا میں جو کچھ اس کو اس  ھدف تک پھنچا دے وہ نہ صرف بُرا نہیں ہے بلکہ خوبصورت اور بھت ہی پسندیدہ ہے۔ اسی لئے مومن انسان کبھی بھی اپنی زندگی میں احساس خلا نھیں کرتا۔ لیکن اگر انسان مذھبی اور خدائی سھارا سے ہاتھ دھو لے، تو وہ اپنی زندگی کے صحیح معنی نھیں پا سکتا ہے۔ مگر یہ کہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے اور کوئی اور معنی اپنے زندگی کیلئے بنائے۔ ولف کے بقول:

“یہ لوگ )جو دنیا کو بے احساس جانتے ہیں(  دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر چہ ہماری زندگی کے کوئی معنی نھیں ہیں لیکن ایسے زندگی بسر کرنی چاھیئے  جیسے زندگی  کچھ معنی رکھتی ہے[4]

اسٹیس ، بشری سعادت کو توھمات پر مبنی زندگی میں جانتا ہے اور علمی طاقت اور حقیقت طلبی کو  توھمات کا دشمن ، لھذا سعادت کا بھی دشمن مانتا ہے وہ کھتا ہے چونکہ حقیقت کے ساتھ جینا مشکل ہے ، پس اس بات کی کوئی دلیل نھیں ہے کہ ان بہت سارے توھمات، جن سے  ہماری زندگی چلتی ہے، ان سے ہم اپنے ہاتھ کھینچ لیں۔وہ زندگی کو در حالیکہ کہ وہ بے معنی ہے ، معنی دار بنانے کیلئے  یہ نصیحت کرتا ہے کہ”ہمیں سیکھنا چاھیئے کہ کس طرح اس بڑے وھم کے بغیر ، یعنی ایک خیرخواہ ، مھربان اور ھدف دار دنیا میں رھنا ہے “[5]

بعض جیسے البرٹ کامو، تامس نیگل، ریچارڈ تیلور، کا یہ عقیدہ ہے  کہ اگر ایک بڑی چیز اور اندرونی لحاظ سے ہماری جانوں  سے زیادہ قیمتی، جس سے ہم شدت سے وابستہ ہیں وہ موجود ہی نھیں۔  تو ایک اہم اعتبار سے  زندگی بے معنی ہے۔[6]

اسٹیس اور داستایفسکی اور کی یرکگور کی کھانیاں بھی ایک جیسی ہیں، جو کھتے ہیں کہ آسمان سے خدا کے غائب ہوجانے سے سب چیزیں بدل گئی ہیں ، اور ماڈرن انسان کی پریشانی اور سرگردانی ایمان کے فقدان اور خدا اور دین سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی وجہ سے ہے۔البتہ بعض جیسے تدئوس متز کھتے ہیں کہ انسان اور دنیا کی خلقت میں خداوند متعال کا با مقصد ہونا ، انسان کی زندگی کو معنی دار نھیں بنا سکتا ہے”[7]

اس بات کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ “زندگی کے معنی”  کا مسئلہ “خلقت کے ھدف” سے مختلف ہے۔اور زندگی کا مقصد اس کے معنی کے ساتھ یکسان نھیں ۔جب زندگی کے مقصد کے بارے میں بحث ہوتی ہے، تو ہماری نظر  اس کی غایت کو سمجھنے پر ہے ، اور نظام خلقت کا غایت مند ہونا ایک حقیقی اور عینی مسئلہ ہے جو زندگی کے بارے میں انسان کی ذھنیت سے بالکل مختلف ہے۔ جب کہ “زندگی کا بامعنی ” ہونا ایک ذھنی اور نفسیاتی  مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ زندگی کے با معنی  ہونے کے بارے میں انسان کے نظریہ سے جڑا ہوا ہے۔ ایک فرد کو اپنی زندگی بامعنی  بناںے کیلئے زندگی کے معنی کا ادراک کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ دونوں مسئلے آپس میں مربوط ہیں اور وجود اور انسانی کی صحیح تفسیر  زندگی کو بامعنی بنادیتی ہے، البتہ صرف زندگی کا سمجھنا اس کے با معنی بننے کیلئے کافی ںہیں ہے۔ بلکہ زندگی کے مختلف حصوں کا آپس میں ھم آھنگ اور مربوط ہوںا چاھیئے۔ زندگی کوبا معنی بنانے کیلئے ھمیں یہ سمجھنا چاھیئے کہ زندگی کی مختلف سطحیں ہیں اور ہر سطح کو اپنے خاص کردار میں سمجھنا ہے۔[8]

مارکسیزم کا نظریہ

مارکسیزم جو اپںے آپ کو  انسانی فطرت میں تغیر اور رھائی کا پرچم دار سمجھتا ہے  اس کے نظریہ کے مطابق زندگی اپنے آپ میں ایک مقصد ہے ، کارل مارکس اس سلسلے میں اعلان کرتا ہے کہ :” انسان کے فطری استغناء کو اوپر لے جانا اپنے آپ میں ایک مقصد ہے” مارکسیزم زندگی کی اس پیچیدگی کو حل کرنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کو بے ثمر جانتا ہے مگر اس صورت میں جب یہ کوشش  علمی ،سماجی، انسانی وجود کے سلوک اور اس کے حیات کے مطالعے پر منحصر ہو،اس کے علاوہ انسانی زندگی کے تکامل اور  کرہ ارض اور پورے عالم خلقت کے ساتھ روابط میں تغیر پر منحصر ہو ۔

مارکسیزم کے نقطہ نظر میں افراد اور شخصیات نہ صرف فردی عنوان سے بلکہ پورے انسانی سماج کے جزء کے طور پر پھنچانے جاتے ہیں۔ مارکسیزم اس بات کی تاکید کرتا ہےکہ انسان دو طرح کی ، فردی اور نوعی زندگی رکھتاہے زندگی کے یہ دو پھلو اگرچہ صرف آپس میں جڑے ہوئے ہی نھیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں لیکن ان میں باہمی تضاد بھی موجود ہے ان ہی تضادوں میں ایک تضاد یہ ہے کہ انسان اپنی فردی زندگی میں کبھی بھی اپنی نوعی زندگی کے اھداف تک  نہیں پھنچ سکتا مثال کے طور پر اگر نوع انسانی کی بلندی ، جنگ ، بیماری ، فقیری، اور ظلم و ستم اور ماحولیاتی آلودگی جیسی زنجیروں سے نجات حاصل کرنے پر موقوف ہو  تو یہ مقاصد صرف افراد کی کوششوں اور ان کی فردی زندگی کے دوران متحقق نھیں ہوسکتی ہیں۔ اگرچہ ایک فرد اپنی زندگی میں ظاھرا بہت کامیاب شخص بھی ہو۔ اسی لحاظ سے انسان کبھی بھی اپنے آپ کو ایک مکمل موجود ںہیں بنا سکتا ہے وہ ہمیشہ اپنی موجودہ حالت سے ناراض رہتا  ہے۔ یہ کمی اور اپنی زندگی سے راضی نہ ہونا اس کے انسانی تحرک اور قوت تخلیق کا سبب ہے۔ ” زندگی اپنے آپ میں ایک اسلوب کی صورت میں ظاھر ہوتی ہے”  زندگی کے معنی اور اس کے مقصد کے بارے میں اضطراب اور پریشانی انسان کے ایک متفکر اور جستجو گر ہونے کی خصوصیات میں سے ہے۔ دنیا کے باقی موجودات اپنی طبیعی زندگی کی راہ کو ابتدا سے لیکر انتھاء تک بغیر چون و چرا طے کرلیتے ہیں، یہ انسان کی عظمت اور شاید بد قسمتی کی علامت بھی ہے کہ پوری تاریخ میں انسان نے ہر دم  ، اپنے اور دوسروں کیلئے یہ سوال اٹھایا ہے اور اپنے وجود کے ہونے کو مورد سوال ٹھہرایا ہے۔ داستایوفسکی  مشہور روسی مصنف  اس سلسلے میں کہتا ہے کہ:” انسان کے وجود کا راز یہ ہے کہ اسے “اکیلے” اور سادگی کے ساتھ  زندگی نھیں  بسرکرنی چاھیئے  بلکہ اس کو یہ دریافت کرنا  چاھیئے کہ اس کو کیوں زندگی بسرکرنی ہے”

ایکزیزٹنسالیسٹوں (Existentialists) کا نظریہ

ایکزیزٹنسالیسٹس نے اس موضوع کو “دنیا کے بے مقصد ہونے” کے نظریہ کے مطابق مورد بحث قرار دیا ہے اسے  نہ موت کے بعد کی زندگی پر عقیدہ ہے اور نہ خود اور خود کے علاوہ کسی اور ذات پر، اس کے نظریہ کے مطابق انسان ایک ایسا “اکیلا” موجود ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اور آسمان سے کسی طرح کی مدد اس کو نھیں پہونچتی ہے۔ زندگی صرف وہی چیز ہے جسے ہم ہر دن دیکھتے ہیں ، انسان کی ذات اور ماھیت اس کے وجود سے مقدم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پھلے موجود ہوتے ہیں اور اپنے اعمال اور کردار میں اپنے لئے ایک خاص تعریف قرار دیتے ہیں اور اپنی ذات اور زندگی کو معین کرتے ہیں۔

مشہور اکزیسٹانشیلسٹ “موریس مرلوپونتی”کا نظریہ یہ ہے کہ انسان تخلیق سے پہلے، پوچ اور عدم تھا اور مرنے کے  ساتھ ہی دوبارہ ختم ہوجائے گا ۔ لھذا انسان کچھ خاص وقت کیلئے وجود پاتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی چارہ ںہیں ہے کہ متحرک اور فعال رہے ، ایگزیسٹانشلیسٹوں کی نظر میں  انسان ہی اپنی زندگی کیلئے اھداف اور مقاصد کو معین کرتا ہے اور اس کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اور اپنی خلقت اور اپنی طبیعت کے تغیر کے ضمن میں  اپنی زندگی کو معںی بخشتا ہے ۔ اگر انسان ایک بلند مقصد کیلئے جس کو وہ خود معین کرتا ہے زندگی نہ کرے ، تو اس کی زندگی کو عدم  اور غیر معنویت  کھا ڈالے گی ، اور وہ ناامیدی اور پریشانی میں ڈوب جائے گا۔

منفی گرا

اس قسم کے مفکرین ، زندگی کو منفی اور بد بختی جانتے ہیں۔ یا  بے بنیاد ، اور بے معنی جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر شوپنھاور ، جرمنی کے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے فلسفی ، کا نظریہ یہ تھا کہ کائنات پر ایک پاگل، اندھی اور سیاہ روح  حاکم ہے، یہ روح طبیعی اور سماجی قوانین کو واپس لیتی ہے اور ہر طرح کی علمی پہچان اور تاریخی تبدل کو ناممکن بنا دیتی ہے ، زندگی بدبختی کی طرف رواں دواں ہے اور انسان کے لئے کسی طرح کا آیندہ ںہیں ہے۔

نظریہ نھیلیزم

نھیلیزم بھی ایک اور نظریہ ہے جو زندگی کو مطلق طور پر خالی اور بے چیز جانتا ہے  اور زندگی کے بارے میں ہر طرح کے مثبت نظریہ کو باطل جانتا ہے۔ جرمن فلسفی “نیچہ” “اقدار کی دوبارہ قیمت معین کرنے ” پر تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی معیاروں ، اور ان پیمانوں کا جس نے انسانی ثقافت کو عدل و انصاف کے میدان  میں بدل ڈالا  ، باطل جانتا ہے۔

نتیجہ

زندگی کے معنی پانے کیلئے ضروری ہے کہ زندگی کے معنی کا متلاشی سب چیزوں سے پھلے انسانی ذات اور اس کی فطرت کو سمجھ لے، لیکن یہ بھی انسانی وجود کے معنی کو سمجھنے کیلئے کافی ںہیں ہے۔ انسان عالم طبیعت میں اکیلا موجود ںہیں ہے اور ہم باقی موجودات کے بغیر انسان کی حقیقت کا ادراک نھیں کرسکتے ، جیسا کہ پہلے بیان ہوا انسان کو باقی موجودات کے ساتھ ساتھ اور زمین میں اس کے مقام و منزلت کے ساتھ ساتھ دوبارہ پھچان لینا چاھیئے ، چونکہ یہ پھچان  مختلف زمانوں  اور مکاںوں میں اور زندگی کے مختلف اجتماعی ، اقتصادی اور ثقافتی شرایط اور افراد میں مختلف ہیں ، لھذا مختلف مفکروں کیلئے زندگی کے معںی مختلف رہے ہیں۔



 [1] سوزان ولف ، معنای زندگی ، ترجمہ ، حمید شہریاری ، نقد ونظر ، آٹھواں سال ، نمبر ۱ ، ۲ ، ص ۹۶

[2]  والٹر ، ٹی ، اسٹیس، ،”در بیمعنایی معنا ھست”، ترجمہ ، اعظم پویا، نقد و نظر ، آٹھواں سال، نمبر ۱، ۲، ص ۱۰۹۔

[3]  سوزان ولف معنای زندگی، ص ۲۹۔

[4]  سوزان ولف ، معنای زندگی ص ۲۹

[5]  والٹر ، ٹی ، اسٹیس، ،در “بیمعنایی معنا ھست”، ترجمہ ، اعظم پویا، ص ۱۲۳

[6]  سوزان ولف معنای زندگی، ص ۲۹۔

[7]  تدئوس منز ، “آیا ھدف خداوند میتواند شر چشمہ معنای زندگی باشد؟” مترجم ، محمد سعیدی ، مھر ، نقد و نظر ، سال ھشتم ، نمبر ۱۔۲ ص ۱۵۰

[8]  محمد لگنھاوزن ، “اقتراح، نقد و نظر” ، سال ھشتم ، شمارہ ۱۔۲ ، ص ۷،۸

تبصرے
Loading...