معراج کیا ہے؟ کیا حضرت محمد مصطفی {ص] کے علاوہ دوسرے انبیاء {ع} بھی معراج پر گئے ہیں؟

مذکورہ سوال کے جواب کے سلسلہ میں، ہم اس کے مختلف حصوں کو مشخص کرنے کے بعد ترتیب سے ان کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے:
۱-معراج کے معنی کیا ہیں؟ اور اسلامی کتابوں میں اس لفظ کو کیسے استعمال کیا گیا ہے؟
۲-کیا پیغمبراسلام {ص} کے علاوہ دوسرے انبیاء {ع} بھی معراج پر گئے ہیں؟ یا یہ موضوع صرف پیغمبر اسلام {ص} سے ہی مخصوص تھا؟
۳-پیغمبر اسلام {ص} کے لئے، معراج کا موضوع کتنی مرتبہ واقع ھواہے؟
۴-معراج، کس تاریخ پر واقع ھوئی ہے؟
۵-پیغمبر اسلام {ص} نے معراج میں کن امور کا مشاہدہ کیا ہے؟
۶-پیغمبر اسلام {ص} معراج سے کیسے لوٹے اور واپسی کے بعد کونسے کام انجام دئے؟
۱-عربی زبان میں” معراج” ایک وسیلہ کے معنی میں ہے، جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جاسکتا ہے اور اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ” معراج” کہا جاتا ہے-[1]
قرآن مجید نے سورہ اسراء کی پہلی آیت میں اعلان کیا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} نے مسجد الحرام سے بیت المقدس اور مسجد الاقصی تک کا طولانی سفر معجزانہ طور پر ایک رات کے اندر طے کیا، کہ آپ {ص} کی یہ مسافرت، طولانی تر مسافرت، یعنی آسمانوں میں گردش کرنے اور خدا کی آیات و نشانیوں کا مشاہدہ کرنے کا پیش خیمہ بنی ہے- اس سفر کے دوسرے مرحلہ کی عکاسی بھی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں کی گئی ہے-
اس کے پیش نظر جاننا چاہئیے کہ قرآن مجید میں لفظ ” معراج” سے استفادہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ روایات اور مذکورہ آیتوں کی تفسیر میں اس رات کو ” لیلۃ المعراج” کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور شائد اس نام گزاری کی وجہ پیغمبر اسلام {ص} کے ایک ایسے مرکب سے استفادہ کرنا ھو، جس کا نام ” براق” تھا[2] کہ آنحضرت {ص} کا سفر اور آسمانوں کی طرف روانہ ھونا اسی مرکب { براق} پر انجام پایا ہے-
بہرحال، اس وقت جب ہم اس لفظ کو سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پیغمبر اسلام {ص} کے اس معجزہ نما سفر کا تصور پیدا ھوتا ہے-[3]
۲-لیکن اس معجزہ کے پیغمبر اسلام {ص} سے مخصوص ھونے یا نہ ھونے کے بارے میں قابل بیان ہے کہ عقل اور دینی معیاروں کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دوسرے انبیاء {ع} بھی خدا کی مدد سے، ایک معجزانہ رفتار سے زمین و آسمانوں میں گردش کریں اور خداوند متعال کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں، لیکن جو کچھ قرآن مجید کی آیات اور قابل اعتبار روایتوں سے استنباط کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس کیفیت کے ساتھ پیغمبر اسلام {ص} معراج پر تشریف لے گئے اور اس کے بعد لوگوں میں واپس آگئے اور اپنی تبلیغ کو جاری رکھا اور اپنے مشاہدات کو لوگوں کے سامنے پیش کیا، کسی دوسرے پیغمبر کے بارے میں ایسے سفر کے بارے میں بیان نہیں کیا گیا ہے-
البتہ کچھ ایسی آیتیں پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ھوتا ہے کہ حضرت سلیمان {ع} معجزہ نما رفتار کے ساتھ زمین کے مختلف جگہوں پر سفر کرتے تھے اور ہوا کی طاقت سے استفادہ کرتے تھے[4]، یا یہ کہ حضرت ادریس {ع}[5] اور حضرت عیسی {ع}[6] جیسے پیغمبروں نے آسمان کی طرف عروج کیا ہے- لیکن مذکورہ بیان کے مطابق ان میں سے کسی پیغمبر کا سفر، پیغمبر اسلام {ص} کی معراج کے مانند نہیں تھا- کیونکہ حضرت سلیمان {ع} کا سفر صرف زمین پر انجام پاتا تھا اور حضرت ادریس {ع} اور حضرت عیسی {ع} کا آسمانوں کی طرف عروج بھی وہاں سے لوٹنے کے بغیر تھا- شیعہ روایتوں کے مطابق حضرت ادریس {ع} نے آسمانوں پر وفات پائی ہے[7] اور حضرت عیسی {ع} بھی آسمانوں پر حضرت مھدی {عج} کے ظہور اور ان کی مدد کرنے کے انتظار میں ہیں-[8]
۳-اس کے باوجود کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو خداوند متعال اپنے کسی بندے یا اپنے رسول کو اس قسم کے معجزہ کی قدرت عطا کرسکتا ہے وہ اسے بارہا دہرا بھی سکتا ہے، لیکن جو قرآن مجید کی آیات اور تقریباً تمام روایتوں سے معراج کے بارے میں معلوم ھوتا ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام خصوصیات کے ساتھ معراج کا سفر پیغمبر اسلام {ص} کی زندگی میں صرف ایک بار واقع ھوا ہے-
لیکن دوسری جانب سے، ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن سے معلوم ھوتا ہے کہ معراج کئی بار واقع ھوئی ہے، من جملہ اس روایت کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جس کی بنا پر، پیغمبر اکرم {ص} دو بار معراج پر گئے ہیں[9] اور ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرت {ص} کی معراج کی تعداد ۱۲۰ تک بتائی گئی ہے-[10]
ان روایتوں کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: اولاً: ان روایتوں کی تعداد بہت کم ہے اور ان کے مقابلے میں بے شمار ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جو ضمنی طور پر اور حتی صراحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت {ص} صرف ایک بار معراج پر تشریف لے گئے ہیں-
ثانیاً: یہ کم تعداد میں پائی جانے والی روایتیں بھی قابل اعتبار سند کی حامل نہیں ہیں- مثال کے طور پر پہلی روایت کی سند کے سلسلہ میں علی بن ابی حمزہ ضعیف ہے-[11] اور قاسم بن محمد بھی واقفی ہے-[12] دوسری روایت کی سند کے سلسلہ میں سلمۃ بن الخطاب جیسا شخص ہے کہ علم رجال کے علماء نے اسے روایت نقل کرنے میں ضعیف شمار کیا ہے-[13]
ثالثاً: اس کے پیش نظر معلوم ھوتا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} صرف ایک بار جسمانی معراج پر تشریف لے گئے ہیں، لیکن روحانی معراج ان کے لئے متعدد بار واقع ھوئی ہے، اور جو روایتیں معراج کی تکرار بیان کرتی ہیں، ان میں ان ہی روحانی معراجوں کی طرف اشارہ ہے، کہ ممکن ہے پیغمبراسلام[ص} کے علاوہ نچلے درجے کے افراد کے لئے بھی واقع ھوئی ہوں، اور ہم جانتے ہیں کہ ایسی روایتیں بھی ہیں جن میں با ایمان افراد کی نماز کو معراج کے مانند قرار دیا گیا ہے-[14]
۴-قابل توجہ بات ہے کہ بہت سے تاریخی واقعات کے بارے میں، حادثہ کی تاریخ سے زیادہ خود حادثہ، اس کی تعلیمات اور عبرت پر دقت کرنے کی اہمیت دی گئی ہے اور حد سے زیادہ اس کے جزئیات، جیسے زمان و مکان کو جاننا اصلی ماجرا سے ایک قسم کا انحراف شمار ھوتا ہے اور شائد یہی وجہ ھو کہ خداوند متعال نے بہت سے انبیاء اور ان کی زندگی کی داستانوں کو قرآن مجید میں بیان کیا ہے، لیکن صرف ایک مورد کے علاوہ کسی کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں اشارہ نہیں کیا ہے-[15] اس کے علاوہ ان انبیاء میں سے کسی ایک کی پیغمبری کی مدت بیان نہیں کی گئی ہے-
ایک جانب سے، معراج ایک ایسے زمانہ میں واقع ھوئی ہے کہ ابھی اسلام کی بنیادیں مستحکم نہیں ھوئی تھیں اور اسلام کی تاریخ لکھنے کا رسم بھی نہیں تھا اور اسی وجہ سے، معراج واقع ھونے کی تاریخ کے بارے میں اسلام کے مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، بعض نے اسے بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی رات کو لکھا ہے اور بعض مورخین نے بعثت کے بارہویں سال رمضان المبارک کی ۱۷ویں شب درج کیا ہے اور بعض نے اسے اوائل بعثت ذکر کیا ہے-[16] اس لئے اگر آپ معراج کے بارے میں کوئی سالانہ جشن منانا چاہتے ھو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ مذکورہ ایام میں سے کسی ایک دن یا حتی کسی دوسرے دن معراج کا جشن منائیں اور اس دن معراج کے مسئلہ پر بحث و تحقیق کریں، اگر چہ حقیقت میں معراج کسی دوسری تاریخ پر واقع ھوئی ھو-
۵-سورہ اسراء کی پہلی آیت کی بنا پر، معراج کا مقصد، پیغمبر اسلام {ص} کو خداوند متعال کی آیات و نشانیاں دکھانا تھا- دوسری جانب سے ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی صراحت کے مطابق جو کچھ آسمانوں اور زمین میں موجود ہے، من جملہ خود انسان، سب کے سب خداوند متعال کی نشانیاں ہیں-[17]  اس بنا پر، ظاہر ہے کہ خداوند متعال معراج میں اپنے پیغمبر {ص} کو عام نشانیاں نہیں دکھانا چاہتا تھا، بلکہ اس طرح وہ پیغمبر{ص} کو عظیم نشانیاں دکھانا چاہتا تھا، جنھیں صرف پیغمبر اسلام {ص} ہی ادراک کرسکتے تھے- ان نشانیوں کے سلسلہ میں خداوند متعال نے”آیات ربہ الکبری” کی تعبیر سے اپنی بڑی نشانیاں بیان کی ہیں-“[18]
بیشک، جو کچھ معراج کے دوراں پیغمبر اسلام {ص} نے مشاہدہ کیا، وہ سب قابل بیان نہیں تھا اور ہم میں اس کو ادراک کرنے کی طاقت نہیں ہے- لیکن بہت سی روایتوں میں، اس رات میں واقع ھونے والے حالات کے ایک خلاصہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے- لیکن، افسوس کہ احادیث درج کرنے کے سلسلہ میں بے جا وققہ پیدا ھونے کی وجہ سے، تمام مسلمانوں کی طرف سے معراج کے اصلی واقعہ کو قبول کرنے کے باوجود، اس سلسلہ میں مختلف اور کبھی متعارض روایتیں ملتی ہیں- اسی وجہ سے شیخ طبرسی نے اس سلسلہ میں نقل کی گئی روایتوں کو چار بنیادی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک قسم کے لئے ایک مثال پیش کی ہے اور کہا ہے کہ ان میں سے ہر قسم سے متعلق روایتوں کے بارے میں ہمیں ایک نظریہ رکھنا چا ہئیے، اس طرح کہ:
پہلی قسم کی روایتیں: وہ روایتیں ہیں، جو متواتر ہیں اور ان کے صحیح ھونے کے بارے میں ہمیں یقین ہے، مثال کے طور پر وہ روایتیں جن میں بنیادی طور پر پیغمبر اکرم {ص} کے معراج کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے جزئیات بیان نہیں کئے گئے ہیں- قدرتی طور پر ایسی روایتوں کو قبول کرنا چاہئیے-
دوسری قسم کی روایتیں: وہ روایتیں ہیں، جن میں معراج کے بعض جزئیات بیان کئے گئے ہیں، جو عقل اور دین کے بنیادی معیاروں کے منافی نہیں ہیں، مثال کے طور پر، پیغمبر اسلام {ص} نے آسمانوں کی سیر کی اور وہاں پر دوسرے انبیاء {ع} کے ساتھ ملاقات کی اور عرش، سدرۃ المنتہی، بہشت اور جہنم کا مشاہدہ کیا- ان مطالب کو بھی ہم قبول کرتے ہیں اور انھیں پیغمبر اکرم {ص} کی بیداری سے متعلق جانتے ہیں، نہ یہ کہ { بعض افراد کے مانند } کہیں کہ یہ قضایا آنحضرت {ص} کے لئے خواب میں واقع ھوئے ہیں-
تیسری قسم کی روایتیں: وہ روایتیں ہیں، جو بظاہر مذکورہ روایتوں سے منافات رکھتی ہیں، لیکن توجیہ کرکے ان منافات کو دور کیا جاسکتا ہے- مثال کے طور پر وہ روایتیں، جن میں بیان کیاگیا ہے کہ آنحضرت [ص} نے کچھ لوگوں کو بہشت میں نعمتوں سے مالا مال اور کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب میں مبتلا دیکھا{ یہاں پر یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ ابھی قیامت متحقق نہیں ھوئی ہے، تو کیسے افراد بہشت و دوزخ میں ھوں گے؟ کہ اس کی توجیہ میں کہا جاسکتا ہے کہ یا یہ بہشت و دوزخ بر زخی تھے، یا یہ کہ ان میں خود وہ افراد موجود نہیں تھے، بلکہ وہاں پر ان کے نام، صفات یا مثالی جسم تھے} اس قسم کی روایتوں کو بھی تاویل کے بعد قبول کرنا چاہئیے-
چوتھی قسم کی روایتیں: یہ ایسی روایتیں ہیں جو بظاہر صحیح اور معیاروں کے مطابق نہیں ہیں، اور ان کی تاویل بھی بہت مشکل ہے، مثال کے طور پر، پیغمبر اسلام {ص} خداوند متعال کے ساتھ ایک سلطنتی تخت پر بیٹھے وغیرہ، کہ ہمیں اس قسم کی احادیث کو مسترد سمجھنا چاہئیے[19]
اس بناپر اس موضوع کے بارے میں بے شمار احادیث کے پیش نظر، اس مختصر مقالہ میں ان تمام احادیث پر بحث و تحقیق کرنے کی گنجائش نہیں ہے- لیکن اگر آپ چاہیں تو اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے اس موضوع کے بارے میں تالیف کئے گئے مقالات اور کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں-[20] اور کوئی خاص روایت آپ کے لئے مبہم اور نا قابل فبہم ھو، تو اس روایت کے بارے میں پھر سے سوال کرسکتے ہیں- تاکہ ہم خدا کی مدد سے اس کا جواب آپ کو ارسال کریں گے –
۶-بالآخر یہ کہ پیغمبر اسلام {ص} معراج سے کیسے واپس لوٹے اور اس کے بعد آپ {ص} نے کونسے کام انجام دئے ہیں؟ اس سوال کے بارے میں قابل بیان ہے کہ بعض روایتوں کی بنیاد پر، آپ {ص} آسمانوں سے براہ راست شہر مکہ کی طرف لوٹے اور جناب ابوطالب سے ملاقات کی، جو آپ {ص} کے بارے میں فکر مند تھے-[21] اس کے بعد معراج کی خبر کو قریش تک پہنچا دیا- اور ان کی طرف سے کئے جانے والے مشکوک سوالات کا جواب دیا- مثال کے طور پر انھوں نے آنحضرت {ص} سے شہر بیت المقدس[22] کی خصوصیات کے بارے میں سوال کیا اور اس کے علاوہ اس راہ پرروانہ ہئے قریش کے ایک کاروان کے بارے میں پوچھا-[23] اور آنحضرت {ص} نے ان سوالات کے مناسب جوابات دئے-
کچھ ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت {ص} اس کے بعد لوگوں میں معراج کے دوران اپنے بعض مشہدات کو بیان فرماتے تھے- ان روایتوں میں ” اسری بی” یا ” عرج بی” جیسی اصطلاحات پائی جاتی ہیں کہ علوم اسلامی کی سافٹ ویر میں ان عناوین کے تحت معراج سے متعلق بہت سی احادیث مل سکتی ہیں-
تبصرے
Loading...