مسائل کلامی کا معیار کیا هے ؟

ایک کلامی بحث کی بهت اهم خصوصیت (مکلفین کے خارجی عمل سے براه راست مربوط نه هونے کےعلاوه) اس کا عقلی هونا هے لیکن کیا هر عقلی مسئله جو خارجی عمل سے مربوط نه هو وه کلامی مسئله هے؟ کیا هر کلامی مسئله ضرورتاً عقلی هے؟ اصولی طور پر ان مباحث میں عقل سے مراد کیا هے؟

ان سوالات کے جوابات کے لیئے تین نکتوں کی طرف توجه دینے کی ضرورت هے:

1- کسی مسئله کے صرف عقلی هونے کا مطلب یه نهیں هے که وه کلامی هو بلکه یه ممکن هے که کسی علم میں جیسے منطق میں کوئی عقلی بحث شمار هو لیکن وه ایک کلامی مسئله نه تسلیم کیا جائے اور دینی معرفت کے دائره میں نه آئے [1] ۔

2-ان مباحث میں کسی مسئله کے عقلی هونے سے مراد ،هر وه استدلال هے جس میں نصوص شرعی اور ادله نقلی سے دلیل اصلی کے عنوان سے مدد نه لی گئی هو اور اس کی اسا سی مستند ،نقل نه هو[2]۔ اس لحاظ سے جو ﮐﭽﮭ اس تعبیر میں مورد نظر هے عقل اپنے وسیع معنی میں هے یعنی هر وه چیز جس کی سند اصلی ،نقل نه هو چاهے اس پر منطقی یا فلسفی اصطلاح کی عقل کا اطلاق نه هو سکے [3]۔

3- علم کلام کی روش شناسی میں بیان کیا جاتا هے که اس علم عقلی و نقلی دو طریقوں سے استفاده کرتا هے تو اس مطلب کو پیش نظر رکھتے هوئے اب سوال کی اهمیت مزید بڑھ جاتی هے که کیا هر کلامی مسئله ،عقلی هے ؟ اور یه بات میں تردید پیدا هو جاتی هے که کلامی مسئله کی سب سے اهم خصوصیت اس کا عقلی هونا هے۔

 

جواب یه هے که علم کلام مین اصل مقصد یه هوتا هے که مخالفین کے افکار کے حملوں کے مقابله میں دینی عقائد کا دفاع کیا جائے اور یه کام اس وقت تک ممکن نهیں هو سکتا جب تک که اس دین کے نقلی ادله پر دلیل اصلی کے عنوان سے تکیه نه هوا اور عقل کو اس کے وسیع معنی کے ساﺗﮭ ( جو متقابل افکار کے درمیان مشترک آله هے ) بروئے کار نه لایا جائے۔ اس کا مطلب یه نهیں هوا که هر کلامی مسئله میں براه راست عقل کو حاکم قرار دیا جائے لیکن ایسا بھی نهیں هے که ایک کلامی مسئله میں عقل کو مکمل طور سے معزول سمجھا جائے ، کبھی ایسا هوتا هے که ایک کلامی بحث مین ایک واسطه یا کئی واسطوں کے ذریعه عقل سے استناد کیا جا سکتا هے بعض موارد میں پهلی مستند ظاهری طور پر ایک نقلی دلیل هے لیکن در حقیقت وه نقلی دلیل ایک عقلی دلیل پر انحصار کرتی هے ۔ اس لحاظ سے تمام کلامی مسائل آخر کار عقل هی سے مستند هوتے هیں ۔ یه بات که ایک مسئله کے کلامی هونے کی تمام خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کا عقلی هونا هے بڑی معقول و مقبول هے۔ دوسری طرف بغیر کسی شک و شبهه کے ایک کلامی مسئله ،فقهی یا اصول نهیں هے۔ ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے هوئے اس کی تعریف اس طرح کی جا سکتی هے:

&quotر مسئله جو دین سے مرتبط هو اور وه متدین افراد کے خارجی عمل سے مربوط نه هو اگر فقهی یا اصولی نه هو اور نقل پر تکیه کئے بغیر ثابت هو وه ایک کلامی مسئله هے۔”

البته کسی مسئله کے فقهی یا اصولی نه هونے کے کیا معنی هیں؟ اس کے فصاحت کے لیئے اس نکته کی طرف توجه دینا ضروری هے که مجتهد ایک فقهی نتیجه تک پهنچنے کے لیئے ﮐﭽﮭ مقدمات کو ایک دوسرے کے ساﺗﮭ ضمیمه کرتا هے اور ان سب کو منظم کرکے ایک فقهی نتیجه نکالتا هے ایسے قیاس کو اصطلاح میں “قیاس استنباط” کهتے هیں[4] ۔

مجتهد جن مقدمات کو بروئے کار لاتا هے ان کے دو قسمیں هیں:

1- وه مقدمات سے جو فقه کے کسی ایک خاص باب یا کئی ابواب سے مربوط هیں اس طرح کے مقدمات کو اصطلاح میں “عناصر مختص” یا “عناصر فقهی” کهتے هیں جیسا که “صلوٰۃ” جو نماز یا دعا کے معنی میں هے که ماده سے فقه کے بعض ابواب جیسے باب صلوٰۃ میں اور اس کے علاوه دیگر ابواب جن میں یه عنوان استعمال هو اهے استفاده کیا جا سکتا هے۔

2- وه مقدمات جو فقه کے کسی خاص باب سے اختصاص نهیں رکھتے اس قسم کے مقدمات کو اصطلاح میں “مقدمات مشترک” یا “مقدمات اصولی” کهتے هیں جیسے یه مقدمه که”امر کا صیغه ،وجوب میں ظهور رکھتا هے” یا “خبر واحد” حجت هے۔

مذکوره توضیحات کو پیش نظر رکھتے هوئے ایک کلامی مسئله ( جس کی هم تعریف بیان کرنا چاهتے هیں) کی تعریف یه هے:

” هر مسئله جو دین سے مرتبط هواور به راه راست مکلفین کے عمل سے کوئی ربط نه هو، رکھتا هو اورقیاس استنباط میں عنصر مشترک کے عنوان سے یعنی اصولی یا عنصر مختص یعنی فقهی طور پر بروئے کار نه لایا جائے اور عقلی طریقه سے (اس کے وسیع مفهوم کے ساﺗﮭ ) اثبات هو تو وه مسئله کلامی هوگا[5] ۔

مزید مطالعه کے لیئے رجوع فرمائیں:

مبانی کلامی اجتهاد،تالیف: مهدی هادوی تهرانی، مؤسسه فرهنگی خانه خرد قم،طبع اوّل ۱۳۷۷ھ ۔ ش



[1]  منطقی تعبیر یوں هے: مسئله کا کلامی هونا اس کے عقلی هونے سے اخص هے۔

[2]  بنابرایں دلیل عقلی هر رقم کے قیاسی ،استقرائی و تجربی استدلال کو شامل هے ۔

[3]  پهلے اور دوسرے نکته کو پیش نظر رکھتے هوئے یه بات واضح هوجاتی هے که مسئله کے کلامی اور عقلی هونے کے در میان به

معنی خاص کلمه ،عمومی و خصوص من وجه کی نسبت پائی جاتی هے ۔

یه نکته قابل ذکر هے که یه قیاس وه قیاس نهیں هے جس کا شیعه مذهب مخالف هے۔ اس سے مراد وه منطقی قیاس هے جو همیں ایک [4] فقهی نتیجه تک پهنچا تا هے جب که شیعه مذهب جس قیاس کو ممنوع جانتا هے در حقیقت وه منطقی تمثیل هے جس سے ایک فقهی حکم کو اثبات کیا جائے اسی لیئے اس اشتباه کو دور کرنے کے لیئے مطلوبه قیاس کو “قیاس استنباط” کهتے هیں مثلاً مجتهد ایک ایسی روایت کو دیکھتا هے جس میں ایک لفظ ، صیغه امر کی صورت میں جیسے صلِّ موجود هوتا هے وه کهتا هے صلِّ امر کا صیغه هے اور امر کا صیغه ،وجوب میں ظهور رکھتا هے پس لفظ صلِّ نماز کے واجب هونے پر دلالت کرتا هے۔

[5]  مبانی کلامی اجتهاد: مهدی هادوی تهرانی،ص22-24 ۔

تبصرے
Loading...