محترم مہینوں میں جنگ کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟

محترم مہینوں سے مراد وہ مہینے ہیں جن کا ،  خدا وند حکیم نے احترام کرنا مومنین کے لئے واجب قرار دیا ہے – حضرت ابراھیم {ع} اور حضرت اسماعیل {ع} کے زمانہ سے ان مہینوں میں جنگ کرنا نا مناسب کام سمجھا جاتا رہا ہے – یہ سنت اسلام کے ظہور تک عربوں میں ایک عملی سیرت کے عنوان سے قابل احترام شمار کی جاتی تھی، قرآن مجید نے بھی اس کی تائید کرتے ھوئے محترم مہینوں کے احترام کو ضروری سمجھا ہے- چنانچہ خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے :” بیشک، مہینوں کی تعداد اللہ کے نزدیک کتاب خدا میں اس دن سے بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے – ان میں سے چار مہینے محترم ہیں اور یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے، لہذا خبر دار، ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرنا اور تمام مشرکین سے اسی طرح جہاد کرنا جس طرح وہ تم سے جنگ کرتے ہیں اور یاد رکھنا کہ خدا صرف متقی اور پرہیز گار لوگوں کے ساتھ ہے-“[1] محترم مہینے عبارت ہیں: ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم  اور رجب – ان  مہینوں کا احترام ایک فلسفے اور فائدے پر مبنی ہے کہ اس میں جنگوں کے خاتمہ کے احتمال اور جنگ کرنے والوں کو غور و فکر کرنے کاموقع  ملنے کے احتمال اور صلح و صفائی کی دعوت اور مناسک حج بجا لانے اور تجارت وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے-

لیکن [2]اسلام محترم مہینوں{ ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب} میں جنگ کو نہ صرف جائز نہیں جانتا ہے بلکہ ایک طرح سے ان کے بارے میں شدت سے بیان کرتا ہے تاکہ کوئی شخص ان مہینوں کے دوران  جنگ کا ذہن میں خیال تک بھی پیدا نہ کر سکے، یہاں تک کہ مذکورہ آیہ شریفہ میں محترم مہینوں کے دوران جنگ کو گناہ کبیرہ شمار کیا گیاہے اور غیرعمدی قتل کے دیہ کو بھی اضافہ کیاگیا ہے –[3]

چونکہ مشرکین مکہ اس مسئلہ سے ناجا ئز فائدہ اٹھا کر محترم مہینوں میں مسلمانوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے{  وہ خیال کرتے تھے، کہ مسلمان ان مہینوں میں مقابلہ نہیں کریں گے} اس لئے خداوند متعال نے حکم دیا کہ اگر انھوں نے محترم مہینوں میں اسلحہ اٹھا یا، تو مسلمانوں کو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے- اس سلسلہ میں ارشاد ھوتا ہے :” شہر حرام کا جواب شہر حرام ہے-“[4]

یعنی اگر دشمنوں نے ان مہینوں کے احترام کو پامال کیا اور ان میں آپ کے ساتھ جنگ کی، تو آپ بھی مقابلہ مثل کا حق رکھتے ہیں-” کیونکہ حرمتوں کا قصاص ہے-“[5]

اس بنا پر اگر چہ اسلام نے محترم مہینوں میں جنگ نہ کرنے کی سنت { جو حضرت ابراھیم کے  زمانہ سے عربوں میں رائج تھی } کی تائید کی ہے، لیکن دشمنوں کی طرف سے اس کا نا جائز فائدہ اٹھانے کے پیش نظر، اس قانون کے لئے ایک استثنا قرار دیا ہے اور اس سلسلہ میں اللہ نے فرمایا ہے:” پیغمبر، یہ آپ سے محترم مہینوں کے جہاد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہد یجئے کہ ان میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے اور راہ خدا سے روکنا خدا اور مسجدالحرام  کی حرمت کا انکار ہے اور اہل مسجدالحرام کا وہاں سے نکال دینا خدا کی نگاہ میں جنگ سے بھی بد تر گناہ ہے[6]-”

اس کے بعد اضافہ کرتا ہے:” اور فتنہ{ لوگوں کو دین سے گمراہ کرنا} تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے-“

کیونکہ وہ انسان کے جسم پر ظلم ہے اور یہ انسان کی روح و جان اور اس  کے ایمان پر ظلم ہے اس کے بعد سلسلہ کو یوں جاری رکھتا ہے  کہ:” مسلمانوں کو مشرکین کے گمراہ کن پرو پیگنڈے کے اثر میں نہیں آنا چاہئیے، کیونکہ وہ مسلسل تمھارے ساتھ  جنگ کرتے تھے تاکہ تمھیں اپنے دین سے منحرف کرسکیں-” پس ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور محترم مہینوں وغیرہ کے بارے میں ان کے وسوسوں پر توجہ نہ کرنا-[7]

محترم مہینوں کا احترام ان لوگوں کے لئے ہے کہ و ہ ان مہینوں کو محترم جانیں، لیکن جو لوگ مسجد الحرام کی حرمت، محترم مہینوں کی حرمت اور حلال و حرام کی حرمت کو پامال کرتے ہیں ، ان کے لئے ان مہینوں کے احترام کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے اور ان کے ساتھ حتی کہ محترم مہینوں اور مسجد الحرام میں بھی جنگ کرنی چاہئیے  تاکہ اس کے بعد محترم مہینوں کی حرمت کو پامال کرنے کا خیال تک بھی ان کے ذہنوں میں پیدا نہ ھو –[8]

 


[1] – توبه،36:”إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِى کِتَـبِ اللَّهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَـوَ تِ وَالأَْرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَ لِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلاَ تَظْـلِمُوا فِیهِنَّ أَنفُسَکُمْ وَقَـتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَآفَّةً کَمَا یُقَـتِلُونَکُمْ کَآفَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ “

[3]  طوسی، تهذيب الأحكام، ج 10، ص 215، تهران: دارالکتب الاسلامیة، 1365هـ . ش 16-  بَابُ الْقَاتِلِ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحَرَمِ، 1-  الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ أَيُّوبَ عَنْ كُلَيْبِ بْنِ مُعَاوِيَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) يَقُولُ مَنْ قَتَلَ فِي شَهْرٍ حَرَامٍ فَعَلَيْهِ دِيَةٌ وَ ثُلُثٌ و … .

[4] بقره، 194.:” يَسَْلُونَكَ عَنِ الشهَّْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ  قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ  وَ صَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَ كُفْرُ  بِهِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ إِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبرَُ عِندَ اللَّهِ  وَ الْفِتْنَةُ أَكْبرَُ مِنَ الْقَتْلِ  وَ لَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتىَ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ  وَ مَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَأُوْلَئكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فىِ الدُّنْيَا وَ الاَْخِرَةِ  وَ أُوْلَئكَ أَصْحَابُ النَّارِ  هُمْ فِيهَا خَلِدُون

[5] تفسير نمونه، 31 و 32.

[7]تفسير نمونه، ج 2، ص 111 و  112 و 113.

[8] أنوار العرفان في تفسير القرآن، ج 3، ص 557.

تبصرے
Loading...