مجھے ایک تحقیقی کام اور کچھ مسائل ثابت کرنے کے لئے، حضرت علی اکبر ﴿ع﴾ کی تاریخ ولادت کے سلسلہ میں موثق دلیل اور تاریخی اسناد کی ضرورت ہے۔ حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی تاریخ ولادت کس دلیل کی بنا پر ١١شعبان کو قطعی طور پر معین کی گئی ہے؟ اس کو کس نے معین کیا ہے؟ یہ تاریخ کن بنیادوں اور شواھد پر معین کی گئی ہے؟ آپ کی روزمرہ توفیق کی آرزو کے ساتھ.

“ طبقات ابن سعد“[1] اور“ تاریخ طبری”[2] جیسے تاریخ کے ابتدائی منابع اور شیخ عباس قمی کی کتاب“ نفس المھموم”[3] میں حضرت علی بن الحسین ﴿ع﴾ کی سوانح حیات بیان کی گئی ہے، لیکن ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔
لیکن بعض مورخین جیسے، “ابن ادریس” نے “ سرائر” میں، حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی تاریخ تولد، خلیفہ سوم، عثمان کی خلافت کے آخری برسوں میں واقع ھونا لکھا ہے۔[4]
علامہ عبدالرزاق مقرم، بھی اس نظریہ کو اہمیت دیتے ھوئے حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی تاریخ ولادت ۳۳ ہجری قمری جانتے ہیں جو ابن ادریس [5]کے نظریہ کے مطابق ہے۔
اس بنا پر حضرت علی اکبر ﴿ع﴾ عاشورا کے دن ۲۷ سال کے تھے اور اس طرح عاشورا کے دن ان کا امام سجاد ﴿ع﴾ سے بڑا ھونا ثابت ہے، جو ۲۲ سال کے تھے اور اس پر تمام دانشوروں کا اتفاق ہے۔
حضرت علی اکبر﴿ع﴾ کی ولادت کے دن کے بارے میں صرف علامہ عبدالرزاق مقروم نے اپنی کتاب “ مقتل الحسین” اور کتاب “ علی اکبر”[6] میں لکھا ہے کہ : حضرت علی اکبر﴿ع﴾ ١١شعبان سنہ ۳۳ہجری قمری کو پیدا ھوئے ہیں۔[7]
اس کے بعد جن لوگوں نے بھی حضرت علی اکبر ﴿ع﴾ کی تاریخ ولادت ذکر کی ہے، انھوں نے ان ہی مذکورہ دو کتابوں سے استفادہ کر کے نقل کیا ہے۔
علامہ مقرم نے بھی اس تاریخ کو سید محمد عبدالحسین جعفری حائری کی مخطوط کتاب “ انیس الشیعہ” سے نقل کیا ہے ۔ بظاہر معلوم نہیں ہے کہ صاھب “انیس الشیعہ” نے اس مطلب کو کس منبع سے نقل کیا ہے۔
کتاب “ الذریعہ الی تصانیف الشیعہ” کے مؤلف کتاب “ انیس الشیعہ” کی خصوصیات بیان کرتے ھوئے کہتے  ہیں:
“ اس کتاب کو مؤلف نے سنہ ١۲۴١ ہجری قمری میں، قمری مہینوں کی ترتیب کی بنا پر ماہ ربیع الاول کے مہینہ سے شروع کرکے تالیف کیا ہے۔ [8]
اس بنا پر حضرت علی اکبر ﴿ع﴾ کی پیدائش کے دن کے بارے میں قرون اولیہ کی تاریخی کتابوں میں کوئی چیز بیان نہیں کی گئی ہے اور ان کی ولادت کے دن کے بارے میں صرف علامہ مقروم پر اکتفا کیا گیا ہے۔

 


[1] ۔ الطبقات الکبری، ج 5، ص 163،
[2]  ۔ طبری، تاریخ طبری ، ج 11، صفحۀ 520  و 629،  بیروت، دار التراث،  1387هجری قمری.
[3]  ۔ نفس المهموم”[3] ، ص 394(انتشارات مسجد جمکران)
[4] ۔ سحاب رحمت،ص 449
[5]  ۔ مقرم، عبدالرزاق، مقتل الامام الحسین، ص 256، انتشارات المکتبة الحیدریة، قم ، 1383.
[6]  ۔ مقرم، علی اکبر، ص 12
[7]  ۔ مقرم، عبدالرزاق، مقتل الامام الحسین، ص 256.
[8] ۔ تهرانی ،آقا بزرگ، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج2،ص 458، نشر اسماععیلیان، قم، 1408.
تبصرے
Loading...