” لا جبر ولا تفویض بل امربین امرین” سے کیا مراد هے؟ کیا اس سے مراد جبر و تفویض کا باهم ملا جُلا هونا هے؟

” لا جبر ولا تفویض بل امربین امرین” کا جمله، اُن متعدد احادیث کا مضمون هے، جو اهل بیت اطهار علیهم السلام کی طرف سے جبروتفویض نامی دو نا درست نظریات کی تنقید میں بیان هوا هے، اور حقیقت میں یه ایک مستقل اور دقیق نظریه هے جو انسان کے اختیاری افعال کو صحیح معنوں میں بیان کرتا هے[1]– جبر و اختیار اور امر بین امرین کی بحث کلامی ، فلسفیانه اور اخلاقی مباحث کی ایک پیچیده اور مشکل بحث هے اور اس کو سمجھنے کے لئے غوروفکر کرنے کی ضرورت هے- مقدمه کے طور پر ضروری هے که چند الفاظ کی تعریف کی جائے اور اس کے بعد اصل موضوع پر بحث کی جا سکتی هے-

“جبر” کے معنی یه هیں که انسان اپنے افعال و کردار میں مجبور هو اور خود کوئی اختیار نه رکھتا هو- به الفاظ دیگر، خدا کے بندوں کے افعال صرف خداوند متعال کی طرف سے تائید و تصدیق شده هوں[2]– لیکن جبر کے مقابلے میں جو اختیار هے اور بهتر هے اسے تفویض کها جائے[3]، وه اس معنی میں هے که : زنده مخلوق، مثلاً انسان، کی ایک ایسی حالت هو که وه فعل کو انجام دینے یا اسے ترک کرنے کا خود سرچشمه هو اور اپنے علم و اراده اور مرضی سے کوئی کام انجام دے یا اسے ترک کرے اور کوئی دوسرا عامل، حتی که خداوند متعال بھی اس کے فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے میں دخل نه رکھتا هو- به الفاظ دیگر، بنده اپنے فعل میں آزاد اور مکمل طور پر خود موثر و علت تامه هو اور فعل اختیاری کا خداوند متعال سے رابطه منقطع هو[4]، یه معتزلیوں کا عقیده هے- اشعری متکلمین، انسانوں کے افعال کو خداوند متعال کی تائید پر مبنی جانتے هیں، که جمادات کے مانند بذات خود کوئی اختیار نهیں رکھتے هیں یه ان کے مکتب میں جبر کے معنی هیں- لیکن شیعوں کا نظریه، ائمه اطهار علیهم السلام کی پیروی میں یه هے که نه جبر، انسانی اعمال کی دقیق تحلیل هے اور نه تفویض، بلکه انسان کا کام جبر و اختیار کا ایک درمیانی راسته هے- انسان فعل کو انجام دینے یا ترک کرنے میں اختیار و طاقت رکھتا هے- لیکن یه طاقت اور اختیار اسے خداوند متعال نے عطا کیا هے اور انسان کی طاقت، قدرت خدا کی نفی کرنے والی نهیں هے- به الفاظ دیگر، ایک جماعت {جبرئین} {نظریه تفویض کے قائل لوگوں} نے انسان کے اراده و اختیار سے انکار کیا هے اور ایک دوسری جماعت نے خدائی اراده کا انکار کیا هے- لیکن همارے نظریه کے مطابق، انسان کا اراده، طاقت اور اختیار، خداوند متعال کے اراده و قدرت کے طول میں هے-

ایک مثال کے ذریعه شاید بحث واضح تر هو جائے: فرض کرین که کسی شخص نے ایک بچے کی بچپن سے تربیت کی هے اور اس کے لئے رفاه اور تعلیم کے تمام امکانات مهیا کئے هیں- جب وه ازدواج کی عمر کو پهنچتا هے تو اپنی بیٹی کو اس کے عقد میں دے دیتا هے اور اسے ایک مناسب گھر اور کام بھی مهیا کرتا هے لیکن اس کے ساتھه یه شرط لگاتا هے که جب تک وه زنده هے، وه اس کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرے گا اور اس کی حمایت کرے گا، اور اس کی سرپرستی کے تحت زندگی بسر کرے گا- اگر هم یه کهیں که اس جوان کا اس زندگی میں کوئی رول نهیں هے اور اس کی پوری زندگی اور اس کے گھر کے اخراجات اور گھر جو اسے عطا هوا هے، اس نیکوکار شخص سے متعلق هے، تو هم نظریه جبر کے طرفدار هوئے هیں- اور اگر یه کهیں که یه نیکوکار مرد اپنی دادودهش کے بعد اپنی مالکیت سے چشم پوشی کر کے اپنی ملکیت سے معزول هوا هے اور اس کا داماد مطلق مالک بن گیا هے تو هم نے نظریه تفویض کی طرف رجحان پیدا کیا هے- لیکن اگر هم یه کهیں که وه شخص اور اس کا داماد دونوں مالک هیں، اس طرح که مرد صاحب مالک و مالک خانه هے اور داماد اس شخص کی ملکیت میں محدود طور پر دخل و تصرف کا اختیار رکھتا هے، تو هم امر بین امرین کے قائل هوئے هیں اور اس صورت میں هم نے قبول کیا هے که داماد کی مالکیت نیکوکار شخص کی مالکیت کے طول میں هے، لیکن یه اختیار کبھی اصلی مالک کو اس ملکیت میں دخل و تصرف سے معزول نهیں کرتا هے-

واضح رهے که امر بین امرین کا نظریه اس لئے بهت دقیق اور گهرا هے که مذکوره مثال اس کی وضاحت کر سکے- اس وجه سے اس عمیق مطلب کی وضاحت کے لئے کچھه فلسفیانه مقدمات کی ضرورت هے- لیکن خلاصه کے طور پر بیان کیا جاتا هے که هر موجود و مظهر کی هستی، خداوند متعال کی شان و هستی کی ایک کرن هے اور دنیا کا کوئی ذره ایسا  نهیں هے جو نور الهٰی کی روشنی سے محروم هو، اسی طرح مخلوقات سے صادر هونے والا هر کام اور فعل، خدا کا فعل و اثر هے- پس ، جس طرح انسان کی هستی، حالات، حواس اور خصوصیات خدا کی طرف سے هیں، اسی طرح حقیقت میں اس کا فعل و عمل اور اثرات بھی خداوند متعال سے متعلق هیں- اس بیان پر غور کرنے سے معلوم هوتا هے که جبرو تفویض والے دونوں نظریات صحیح نهیں هیں، کیونکه انسان حقیقت مین ایک موجود هونے اور اس کی هستی اس سے متعلق هونے کے باوجود، اس کی هستی خداوند متعال سے متعلق هے اور اس نے اس هستی عطا کرنے والی ذات الهٰی سے اپنی هستی حاصل کی هے- اس طرح انسان سے صادر هونے والا هر فعل و عمل، حقیقت میں اس کا اپنا فعل و عمل هے اور اس وجه سے وه خداوند متعال سے متعلق هے، کیونکه اس کی پوری هستی خداوند متعال کی طرف سے عطا شده هے اور اس کے وجود کے تمام حالات، جیسے : اس کے اختیاری افعال خداوند متعال سے متعلق هیں-

اس بنا پر، انسان کے اختیاری افعال، حقیقی طور پر، نه که مجازی طور پر، خود انسان سے متعلق هیں اور درحقیقت خداوند متعال سے متعلق هیں- انسان کے اختیاری افعال، اس لئے انسان سے متعلق هیں، کیونکه وه اس کی طاقت اور اراده کی بنا پر اس کے عزم و اراده، فیصله و انتخاب کے تحت انجام پاتے هیں- اور خداوند متعال سے اس لئے متعلق هیں که ، انسان کی هستی اور اس کے تمام وجودی اثرات {من جمله اس کے افعال} کا معلول خداوند متعال هے اور یه اس سے متعلق هیں[5]

لهٰذا امر بین امرین اس معنی میں هے که انسانی فعل و عمل کا انسان سے تعلق هونے کے باوجود ذات الهٰی کے اراده سے بھی تعلق هے- لیکن انسان کا اراده و اختیار خداوند متعال کے اراده و اختیار کے عرض میں نهیں هے که اراده الهٰی میں شریک بن جائے، بلکه مذکوره بالا بیان کے مطابق انسان کا اراده و اختیار خداوند متعال کے اراده و اختیار کے طول میں هے، یعنی انسان کا اراده، اختیار و طاقت، اس کے اختیاری افعال کی علت تامه کا ایک جزو هے- پس انسان مجبور نهیں هے، کیونکه اس کے اندر اختیار کا معیار ، یعنی اس کا اراده، اختیار اور طاقت موجود هے اور اس کے باوجود وه مطلق اختیار نهیں رکھتا هے، کیونکه اس کے فعل و عمل کے مقدمات اس کے هاتھه میں نهیں هیں- یه وهی امر بین امرین کے معنی هیں که انسان سے صادر هونے والے تمام افعال پر حاکم هے[6]– پس امر بین امرین کا نظریه، انسان کے اختیار کا ثبوت، اس کی علت و معلول کے ارتباط کا خدا کے اراده سے متعلق هونے کے پیش نظر هے اور جبرو تفویض کے دونوں نظریات کی تحلیل میں ناتوانی کے مقابلے میں انسان کے اختیاری افعال کو بیان کرتا هے-

مولانا رومی نے اس سلسله میں کیا خوب فرمایا هے:

اختیاری هست مارا بی گمان                          حس را منکر نتانی شد عیان

بیشک همارے لئے ایک اختیار هے، تو اس سے انکار نهیں کر سکتا هے کیونکه یه بات واضح هو گئی هے-

سنگ را هرگز نگوید ھین بپر                        ———————-

کوئی پتھر سے نهیں کهتا که تو اُڑ جا، ڈھیلے سے کوئی وفاداری کی توقع نهیں رکھتا هے-

کس نگوید سنگ را دیر آمدی                       یاکه چوبا تو چرا برمن زدی؟

پتھر سے کوئی نهیں کهتا هے که تو دیر سے آیا یا کوئی لکڑی سے نهیں کهتا هے تو نے مجھے کیوں مارا-

امرو نهی و خشم و تشریف و عتاب                 ——————–

امرو نهی، غصه، ستائش اور سزا صاحب اراده و مختار کے علاوه کسی سے متعلق نهیں هے-

اختیاری ھست درما ناپدید                           چون دو مطلب دید آید در مزید

همارے اندر اختیار پنهان اور مخفی هے، جب مطلب پیش آتا هے تو یه اختیار ظاهر هوتا هے-

اوستادان کودکان را می زنند                        آن ادب سنگ سیه را کی کنند

استاد بچوں کی پٹائی کرتے هیں، وه سیاه پتھر کا ادب کب کرتے هیں-

هیچ گوئی سنگ را فردا بیا                          ور نیایی من دهم بد را سزا

تو کبھی پتھر سے نهیں کهتا که کل آجانا، اگر نه آیا تو تجھے بری سزا ملے گی؛

هیچ عاقل مر کلوخی را زند                         هیچ با سنگی عتابی کس کنند

کوئی عقلمند ڈھیلے کو نهیں مارتا هے، کوئی کسی پتھر کو سزا نهیں دیتا هے-

اینکه فردا این کنم یا آن کنم                         این دلیل اختیارات است ای صنم

یه جو هم کهتے هیں که کل یه کریں گے وه کریں گے، یه اختیار کی دلیل هے اے دوست-

و آن پشیمانی که خوردی زآن بدی                ز اختیار خویش گشتی مھتدی[7]

تو جو اپنی کی هوئی برائی سے پشیمان هوا، تو تونے اپنے اختیارات سے هدایت پائی-



  [1] ملاخطه هو: بحار الانوار، باب اوّل و دوم از ابواب العدل، ج، 5 ص، 2 – 84

[2] الجرجانى، السید على بن محمد، التعریفات، تحقیق و تعلیق الدکتور عبدالرحمن عمیرة، ص، 106، عالم الکتب، بیروت 1407؛ سجادى، سید جعفر، فرهنگ علوم عقلى، ص،189، انجمن اسلامى حکمت و فلسفه ی ایران، 1361.

 [3] اختیار: همارے سامنے درپیش کام کے انجام یا عدم انجام کی توانائی کو اختیار کهتے هین اور به قدرت ضروریات میں سے هے- یه جمله: این که گوئی این کنم یا آن کنم :- خود دلیل اختیارات ای صنم    قابل اعتبار فلسفیانه دلیل سے انسان کے اختیار کو ثابت کرتا هے اور امر بین امرین کا عقیده اس چیز کو بیان کرتا هے- لیکن تفویض کا نظریه جو معتزله بیان کرتے هیں، انسان کے بارے میں مطلق اختیارات ثابت کرتا هے، اس طرح فعل کا خداوند متعال سے رابطه منقطع هوتا هے-

[4] فرهنگ علوم عقلى ص، 37.

[5] ملاخطه هو: استاد جعفر سبحانى؛ جبر و اختیار – نگارش على ربانى گلپایگانى، موسسه ی تحقیقاتى سید الشهداء، قم، ص، 291 – 286 ؛ سعیدى مهر، محمد، آموزش کلام اسلامى، ج1، ص 359 – 358، مرکز جهانى علوم اسلامى

[6] طباطبائى، محمد حسین، اصول فلسفه و روش رئالیسم، ج 3، ص 161 – 174، حاشیه استاد شهید مرتضى مطهرى، انتشارات صدرا.

[7] مثنوى مولوى، دفتر پنجم

تبصرے
Loading...