قمه لگانے کے سلسله میں گزشته زمانے اور عصر جدید کے مراجع عظام کا فتوی کیا هے ؟

امام حسین علیه السلام کی عزادری کی ، معصو مین علیهم السلام اور اولیائے دین نے همیشه تاکید فر مائی هے- امام حسین علیهم السلام کی مظلو مانه شهادت کے بعد پوری تاریخ میں ان تقریبات کا سلسله جاری رها هے اور یه عمل عاشور کی ثقافت کو زنده رکھنے اور لوگوں کے اسلام وقرآن سے آگاهی حاصل کر نے کا سبب بنا هے – اس سلسله میں امام خمینی (رح) فر ماتے هیں : ” اس وقت چوده صدیاں گزررهی هیں که ان منبروں ، مرثیه خوانی ، ذکر مصیبت اور سینه زنیوں نے همارا تحفظ کیا هے [1]–”

جس چیز کی او لیائے دین نے تاکید کی هے، وه اصل ان تقریبات کا انعقاد هے ، عزادری کی مجلسیں منعقد کرنا هے ، حتی خود ائمه اطهار علیهم السلام نے امام حسین علیه السلام کی عزادری کی مجلسیں منعقد کر نے میں کوششیں کی هیں [2]– لیکن عزادری کی تقریبات کو منعقد کر نے کے سلسله میں احادیث میں کوئی خاص شکل وصورت کی سفارش نهیں کی گئی هے، بلکه اس سلسله میں تمام طریقے اس وقت تک جائز اور اسلام واهل بیت اطهار علیهم السلام کی طرف سے مورد تائید هیں ، جب تک اسلام کے نورانی احکام کے مخالف نه هوں اور دین ومذهب کے لئے توهین کا سبب نه بنیں – امام جعفر صادق علیه السلام نے جب ابو هارون سے تقاضا کیا که آپ (ع) کے لئے امام حسین علیه السلام کی عزادری میں مرثیه خوانی کریں ، ان سے فر مایا : ” جس طرح اپنے لئے امام حسین علیه السلام کی قبر کے پاس مرثیه خوانی کرتے هو اسی طرح یهاں پر بھی عزادری کر نا اور مرثیه پڑھنا [3]“- بعد والے زمانوں میں ماتمی جلوس نکلنے لگے اور عزادری کے طریقے بدلتے رهے-

امام حسین علیه السلام کی عزادری کے طریقے هرقوم و ملت کے آداب و رسومات کے مطابق مختلف ممالک میں اور مختلف زمانوں میں مختلف هیں اور ان کے بارے میں آیات وروایات کے مطابق شرعی لحاظ سے کوئی استناد موجود نهیں هے ، بلکه یه ایک عرفی مسئله هے اور صرف سید شهداء امام حسین کے ساتھـ شیعوں کے عشق و محبت کی بناپر هر قوم و ملت کا عرف بنا هے-

عزادری کے ان طریقوں میں سے ایک طریقه ، جو بعض شهروں اور ملکوں ، جیسے عراق ، پاکستان اور هندوستان میں بعض عزادروں کے توسط سے انجام پاتا هے ، قمه لگانا هے- ( کها جاتا هے که عزادری کے اس طریقه کا پیغام اور معنی امام حسین علیه السلام اور دین اسلام کی راه میں جاں نثاری اور سر فروشی کی آمادگی کا اظهار کرتا هے)

قمه مارنے کے جائز اور نا جائز هو نے کا مسئله قدیم زمانے سے فقها اور مراجع تقلید کے در میان همیشه اختلافی مسئله رها هے اور همیشه بعض فقها نے اس کے جائز هو نے کا حکم دیا هے اور بعض نے اسے جائز نهیں جانا هے-

اس مسئله کے حکم کے بارے میں پهلی بار مرحوم آیت الله العظمی نائینی سے سوال کیا گیا اور ان کا فتوی اس زمانے کے مراجع اور بعد والے زمانے مراجع کے فتوی کا محور رها هے-

انهوں نے اس نکته کو بیان کر نے کے بعد ، که قمه لگانے کی تائید یارد کے سلسله میں کوئی آیت یا روایت موجود نهیں هے ، کوئی ضرر نه هو نے کی شرط پر اس کے جائز هو نے کا فتوی دیا هے [4]– ان کے بعد دسیوں مراجع تقلید نے نیا فتوی صادر کئے بغیر ان کے نظریه کی تائید کی هے – فقها کے اس گروه کے مقابل میں ، بعض فقها، من جمله آیت الله العظمی سید ابو الحسن اصفهان (رح) نے اس کے حرام هو نے کا فتوی دیا هے ، کیو نکه قمه لگانا اور سر سے خون جاری کر نا ، بعض غیر مسلمانوں پر منفی اثر ڈالتا تھا اور تشیع کے خلاف بدظنی اور پروپیگنڈا پھیلانے کا سبب بن جاتا تھا –

البته جو فقها ماضی میں اس کے جائز هو نے کے قائل تھے، وه بھی بدن کوضرر پهنچنے کی صورت میں اسے جائز نهیں جانتے تھے –

لیکن آج ، عزادری کا یه طریقه ، اس کے علاوه که اس کے شعائر هو نے کے بارے میں کسی نص کی عدم موجدگی کے پیش نظر حتی اس کے مستحب هو نے کا بھی حکم نهیں دیا جا سکتا هے[5]، دشمنان اسلام کے لئے اس سے ناجائز فائده اٹھانے اور پروپیگنڈا کر نے کا سبب بھی بنا هے – اس طرح که ذرائع ابلاغ کے ذریعه اس کی تشهیر کر کے اس کے افسوسناک نتائج حاصل کئے جاتے هیں جو مشاهدین کی نظر میں اسلام ومذهب کی توهین کا سبب بن جاتا هے –

اسی وجه سے امام خمینی (رح) نے اس سلسله میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں فر مایا هے : ” موجوده حالات میں قمه نه لگائیں – [6]

اس کے علاوه مغربی ممالک کی طرف سے اس کے بارے میں گمراه کن پروپیگنڈے کے پیش نظر مراجع تقلید ، حضرت آیات عظام خامنه ای ، فاضل لنکرانی ، مکارم شیرازی ، نوری همدانی اور تبریزی (رح) نے ان سے کئے گئے سوال کے جواب میں ، اس عمل (قمه لگانے) کو عصر حاضر میں جائز نهیں جانا هے [7]

البته موجوده مراجع تقلید میں سے بھی بعض نے اس کے جائز هو نے کا حکم دیا هے اور یه اس لئے هے که وه اس عمل کو مذهب کی توهین اور بد نام هو نے کا سبب نهیں جانتے هیں –

آخر پر یه بات قابل ذکر هے که حجامت ( سینگی لگانا) ایک شرعی مستحب هے اور اس کے اپنے خاص آداب و شرائط هیں[8] ، اگر حقیقت اگرمیں ثابت بھی هو جائے که علم طب کے مطابق قمه لگا نے میں حجامت کی خاصیت هے ، پهر بھی اس کے جائز هو نے کا قائل نهیں هو سکتا هے، کیونکه اس توجیه سے مذهب کی توهین اور اس سے دشمنوں کا ناجائز فائده اٹھانا ختم نهیں هو سکتا هے –



[1] – محدثی ، جواد، فرهنگ عاشورا ،ص٣٣٩-

[2] – مقتل امام حسین (ع) مقرم ،ص٣٦٧ : پرسشها و پاسخ ها ،ج١٣، ص ١٦٩- ١٧٠-

[3] – فرهنگ عاشورا ، ص ٣٤١-

[4] – فر هنگ عا شورا، ص ٢١٥-

[5] – فضل الله ، سید محمد حسین ، نگاهی اسلامی به عاشورا، ص٤٤-

[6] – فر هنگ عاشورا،ص٣٨٧-

[7] – مسائل جدید از دید گاه علما و مراجع ، ج چهارم ، ص٢٠١ و ٢ه٢ : توضیح المسائل ( المحشی للامام الخمینی ) ، ج٢،ص ١٠٢٦: استفتاء از مقام معظم رهبری : سوال نمبر ١٤٦٠ : کیا مخفیانه طور پر قمه لگانا حلال هے یا یه که جنابعالی کا فتوی عمو میت رکهتا هے ؟

جواب : قمه لگانا ، اس کے علاوه که عرفاً ماتم کے مظاهر میں شمار نهیں هوتا هے اور ائمه اطهار علیهم السلام کے زمانه میں اور اس کے بعد والے زمانه میں اس کی کوئی مثال نهیں ملتی هے اور معصوم علیهم السلام کی طرف سے خاص یا عام صورت میں اس کی تائید نهیں هوئی هے، عصر حاضر میں مذهب کی توهیں اور بد نام هو نے کا سبب هے ، اس لئے یه کسی حالت میں جائز نهیں هے “پرسشها و پاسخها “، شماره ١٣،ص ٣٣٠: فرهنگ عاشورا ، ص١٩٨; موسو عۃ ا العتبات المقدسه ، ج٨،ص٣٧٨-

[8] – قمی ، شیخ عباس ، سفینه البحار ، ج١، ماده حجم –

تبصرے
Loading...