قرآن مجید کے سورہ ” نحل” کی آیت نمبر ۴۸ میں کیوں ” شمائل” کو جمع لایا گیا ہے جبکہ” یمین” کو مفرد لایا گیا ہے؟

اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال، اجسام کے سایوں کی دائیں بائیں کی طرف حرکت کو اپنی عظمت کی نشانیوں کے عنوان سے بیان کرتا ہے اور انھیں اپنے پرور دگار کے لئے سجدہ، تواضع اور خضوع و خشوع کی حالت میں جانتا ہے-

بیشک، اجسام کے سائے ہماری زندگی میں موثر رول ادا کرتے ہیں، ممکن ہے بہت سے لوگ اس سے غافل ھوں، اور قرآن مجید کا سایوں کے اس مسئلہ کو اہمیت دینا اسی نکتہ کی طرف توجہ دلانا ہے-[1]

سائے اگرچہ عدم نور کے علاوہ کچھ نہیں ہیں، لیکن ان کے بہت سے فائدے ہیں جیسے:

۱-جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی اور اس کی حیات بخش شعائیں مخلوقات کی زندگی اور ان کے نشو و نما کا سر چشمہ ہیں، سائے بھی نور کی کرنوں کی تعدیل میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں- سورج کی یکساں تپش اگر ایک طولانی مدت تک جاری رہے، تو تمام چیزوں کو پژمردہ کر دیتی ہے اور انھیں جلاکر راکھ کردیتی ہے، لیکن یہ سائے ہی ہیں جو سورج کی اس تپش کو معتدل اور موثر حد میں کنٹرول کرتے ہیں-

۲-عام تصور کے برعکس صرف نور ہی اشیاء کو دیکھنے کا سبب نہں ہے، بلکہ نور کو ہمیشہ سایوں اور نیم سایوں کے ہمراہ ھونا چاہئے، تاکہ اشیاء کا مشاہدہ متحقق ھو جائے، بہ الفاظ دیگر اگر کسی چیز کے اطراف میں نور یکساں صورت میں پڑتا رہے، اس طرح کہ کسی قسم کا سایہ یا نیم سایہ موجود نہ ھو، تو اس قسم کی چیزیں جو نور میں غرق ھوتی ہیں ہرگز دکھائی نہیں دیں گی-

یعنی، جس طرح مطلق تاریکی میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ہے، اسی طرح مطلق نور میں بھی کوئی چیز قابل رویت نہیں ھوتی ہے، بلکہ اشیاء کو دیکھنا، نور اور ظلمت{ روشنی اور سایہ} کی آمیختگی سے ہی ممکن ہے، اس لحاظ سے، اشیاء کے مشاہدہ اور ان کی ایک دوسرے سے تشخیص میں سایوں کا کلیدی اور موثر رول ھوتا ہے- { غور فر ما ئیے}

لیکن یہ کہ اس آیہ شریف میں کیوں ” یمین” { دایاں} مفرد کی صورت میں اور ” شمائل” {“شمال” یعنی بایان} جمع کی صورت میں آیا ہے- مفسرین نے اس کے کچھ وجوہات بیان کئے ہیں۔ ہم ذیل میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱-اس تعبیر میں فرق شاید اس لئے ھو کہ سایہ، صبح کی ابتداء میں { جنوب کےنقطہ پر توجہ کرنے والوں کے لئے } دائیں طرف پڑتا ہے اور اس کے بعد مسلسل بائیں طرف حرکت کرتا ہےتا کہ غروب کے وقت مشرق کے افق پر محو ھوجائے، [2] پس بائیں جانب سایوں کی کثرت معنی رکھتی ہے-

۳-” یمین” اگرچہ مفرد ہے لیکن بعض اوقات اس سے جمع کا ارادہ کیا جاتا ہے اور یہاں پر مراد جمع ہے-[3]

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ: یہ جو خداوند متعال لفظ” یمین” کو مفرد صورت میں لایا ہے {اگر چہ اس سے مراد جمع ہے} لفظ کو خلاصہ اور مختصر کرنے کے لئے ہے اور ” یمین” اس لفظ ” شئی” کی طرف پلٹتا ہے جو جمع ہے، کیونکہ لفظ ” شئی” سے جمع ارادہ کیا گیا ہے-[4]

۳-” یمین” کو مفرد لانا اور ” شمائل” کو جمع لانا اس معنی کی طرف اشارہ ہے کہ ” یمین” { دایاں} ایک کے معنی میں ہے، جبکہ شمال کی جہت زیادہ ہے، کیونکہ ہر چیز کا معنوی یمین اس کی وہی الہی جہت ہے، اور ہر چیز کا شمال اس کی خلقت کی جہت ہے اور وجہ الہی کی کثرت وحدت میں پائی جاتی ہے اور اس کی خلقت کی وجہ الہی کی وحدت ، کثرت میں فانی ھوتی ہے[5]

 


[1] مکارم شیرازی،ناصر ، تفسير نمونه، ج‏11، ص: 254 (با اندکی تصرف)، نشر دار الكتب الإسلامية، تهران‏، 1374 ه-ش‏

[2] تفسير قرطبى ذيل آيه فوق.

[3] رازى، ابو الفتوح  روض الجنان و روح الجنان في تفسيرالقرآن(تفسير ابو الفتوح رازى)، ج‏12، ص: 45، نشر بنياد پژوهشهاى اسلامى آستان قدس رضوى‏، مشهد، 1408 ه-

[4] بغدادى علاء الدين على بن محمد، لباب التأويل في معاني التنزيل، ج‏3، ص: 80،نشردار الكتب العلمية، بيروت‏،، 1415 ه  ش

[5] خانى رضا / رياضى، حشمت الله ترجمه بيان السعادة، ج‏8، ص130،نشر مركز چاپ و انتشارات دانشگاه پيام‏نور، تهران‏، 1372 ه-ش‏

 

تبصرے
Loading...