قرآن مجید کیوں آیه، آیه کی صورت میں هے؟ قرآن مجید کے سوروں میں سے کو نسا سوره پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پر یک بارگی نازل هوا هے؟

اس میں کوئی شک و شبهه نهیں هے که قرآن مجید پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پر تیئیس (23) سال کى مدت میں تدریجی صورت میں نازل هوا هے ـ دوسرى طرف سے هم پڑھتے هیں که ” قرآن مجید ماه رمضان میں اور ایک هى رات میں نازل هوا هے،”[1] یه آیات  تاکید کرتى هے که قرآن مجید ماه رمضان میں نازل هوا هے اـ اس کے علاوه آیه ” انا انزلناه فى لیلۃ القدر”[2] اور آیه ” انا انزلناه فى لیلۃ مبارکۃ” [3] بیان کرتى هیں که قرآن مجید ایک شب میں نازل هوا هےـ مذکوره تین آیتوں کا موازنه کرنے پر واضح هوتا هے که وه رات ماه رمضان میں تھى ـ

احادیث بھی اس کى گواهى دیتے هیں که قرآن مجید دو صورتوں میں نازل هوا هے:

حفص بن غیاث فے نقل کیا هے که میں نے حضرت امام صادق علیه اسلام سے پوچھا که خدا وند متعال کا ارشاد هے;” شھر رمضان الذى انزل فیھ القرآن” جبکه قرآن مجید اول سے آخر تک بیس سال میں نازل هوا هے؟ امام نے فرمایا: ” پورا قرآن ماه رمضان میں بیت المعمور پر نازل هوا هے، اس کے بعد بیس سال کى مدت میں نازل هوا هےـ[4] اهل سنت کى روایتوں میں بیت المعمور کے بجائے بیت العزۃ آیا هےـ

تفسیر صافى کے نویں مقدمه میں، بیت المعمورکى رسول الله کے قلب سے تفسیر کى گئى  هے اور فرمایا هے;” گویا اس کے نزول کا مراد قلب پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم هے،چنانچه خدا وند متعال نے ارشاد فرمایا:” نزل بھ الروح الا مین على قلبک”ـ اس کے بعد بیس سال کى مدت کے دوران قرآن مجید کے قلب سے آپ(ص) کى زبان پر نازل هوا، جب جبریئل آتے تھے ، تو وه وحى کو الفاظ میں پڑھتے تھےـ

قرآن مجید کے تتدریجى نازل هونے کى علت:

پغیمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کى حیات کے دوران اگر کوئى واقعه رونما هوتا یا مسلمان کسى مشکل سے دوچار هوتے تو ان واقعات کے بارے میں یا مشکل کو دور کرنے کے لئے یا سوالات کا جواب دینے کے لئے ، چند آیات کا مجموعه یا کوئى سوره نازل هوتا تھاـ ان مناسبتوں یا واقعات کو اصلاح میں اسباب نزول یا شان نزول کهتے هیں ، که بهت سى آیات کو دقیق طور پر سمجھنے کے لئے ان کا جاننا ضرورى هےـ

اس بنا پر قرآن مجید هجرت سے قبل اور اس کے بعد 23 سال کى مدت میں مختلف مناسبتوں اور گونا گون واقعات کے پیش نظر تدریجعاٰ نازل هوا هےـ یه نزول کبھى آیه اور کبھى سوره کى شکل میں انجام پاتا تھا ، اور پیغمبر صلی الله علیه و آله و سلم کى زندگى کے آخرى ایام تک جارى رهاـ اس کے بعد تمام آیات جمع کى گیئں اوریه مجموعه ، کتاب  یعنى” قرآن مجید” کى صورت اختیار کر گیاـ

نزول کا یه طریقه ، قرآن مجید کى خصوصیات میں سے هیں اور اسے دوسرى آسمانى کتابوں سے جدا کرتا هےـ کیونکه صحف ابراهیم (ع) اور الواح موسى(ع) دفعتهً نازل هوئے هیں اور یهى امر مشرکین کى طرف سے عیب ان کے بارے میں جوئى کا سبب بنا هےـ

قرآن مجید میں ارشاد هے:” اور یه کافر بھى کهتے هیں که آخر ان پر یه قرآن ایک دفعه کل کامل کیوں نهیں نازل هوگیاـ هم اس طرح تدریجاً نازل کرتے هیں تاکه تمھارے دل کو مطمئن کر سکیں اور هم نے سے ٹھر ٹھر کر نازل کیا هے .”[5]  دوسرى جگه ارشاد فرماتا هے:” اور هم نے قرآن کومتفرق بنا کر نازل کیا هے تاکه تم تھوڑا تھوڑا لوگوں کے سامنے پڑھو اور هم نے خود اسے تدریجاً نازل کیا هےـ”[6] علامه طباطبائى نے اس آیه شریفه کى تفسیر میں چند اهم نکتوں کى طرف اشاره کیا هے:” آیه اپنے سیاق سے صرف نظر کرتے هوئے تمام قرآنى معارف پر مشتمل هے که یه معارف خداوند متعال کے پاس الفاظ کى صورت موجود تھے که تدریجى صورت کے علاوه انسان کے ذهن میں نهیں سما سکتے هیں ، اس لئے ضرورى هے که تدریجاً نازل هوجایئں، اس عالم کى خاصیت بھى یهى هے، تکه لوگ آسانى کے ساتھـ ان پر غور کرکے انھیں حفظ کریں اور اس حساب سے آیه شریفه وهى معنى بیان کرتى هے جو آیه ” انا جعلناه قراناً عربیاً لعلکم تعقلون وانھ فى الکتاب الدینا لعلى حکیم”[7] بیان کرتى هےـ قرآن مجید کے تدریجاً اور ٹھهر ٹھهر کر نازل هونے کا فلسفه، علم و عمل کا قرآن مجید کے قریب هونا اور اسے قبول کرنے میں لوگوں کى استعدادوں کا مکمل هونا هےـ[8] اور قرآن مجید کى آیات کا تدریجاً ، جدا جدا، سوره سوره اور آیه آیه کى صورت میں نازل هونا اس کے اصلى اعتقادات اور اس کے فرعى اعتقادات کو قبول کرنے میں لوگوں کى استعدادوں کو مکمل کرنا هے اور کچھـ ایسى مصلحتوں کے مطابق هے که انسان کے لئے مد نظررکھى گئى هیں تھا اور وه یه هے که قرآن مجید کا علم اس پر عمل کے قریب هو اور انسان کى فطرت و مزاج پر معارف واحکام کو حاصل کرتے هوئے زیاده دباو نه پڑےاور وه تنگ نه آئے ، اس کے معارف کو یکے بعد دیگرے درک کرے تاکه قرآن مجید کى بھى وهى حالت نه بنے جو تورات کى بنى تھى ـ کیونکه تورات کے دفعتهً نازل هونے کى وجه سے یهودیوں نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا یهاں تک که جب تک نه خداوند متعال نے ان کے سروں پر پهاڑ کو معلق کیا اسے قبول کرنے کے لئے حاضر نهیں هوئے”ـ[9]

اس کے علاوه قرآن مجید سے استنباط هوتا هے که قرآن مجید کے تدریجى نزول کا فلسفه یه هے که پیغمبراکرم صلی الله علیه و آله و سلم اور مسلمان احساس کریں که وه مسلسل خداوند متعال کے خاص  کرم کے سائے میں هیں اور حق تعلىٰ کے ساتھـ ان کارابطه جارى هےـ اس وحى کا جارى رهنا اور آیات کا نازل هونا همت افزائى اور استحکام بخشنے کا سبب بنتا هےـ[10]

مختلف زمانوں اور مختلف مناسبتوں پر آیات کے نازل هونے کے بعد، انھیں سوروں کى شکل مین جمع کیا گیا اور تمام آیات ایک کتاب یعنى “قرآن مجید” کى صورت اختیار کر گئیںـ هر سوره کى آیات کى تعداد ایک تعبدى کاامر هے اور یه کام سب سے چھوٹے سوره (کوثر جو تین آیات کى تعداد پر مشتمل هے) سے لے کر سب سے بڑے سوره (بقره جو 286آایات پر مشتمل هے) تک پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کے خاص حکم اور دستور کے مطابق انجام پایا هے اور کسى قسم کے دخل و تصرف کے بغیر آج تک اس صورت میں باقى هے اور اس سلسله میں ایک راز مضمر هے جو قرآن مجید کے معجزه اوراس کى آیات کے تناسب سے مربوط هےـ[11]

اس کے علاوه مختلف آیات سے قرآن مجید کے سوروں کى تشکیل کى کیفیت کےبارے میں کهنا چاهئے: ” هر سوره کى ترتیب، نظم اور آیات کى تعداد کا کام پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کى زندگى میں اور آنحضرت صلی الله علیه و آله و سلم کے ذاتى حکم سے انجام پایاهے اور یه ایک تعیدى کا امر هے، اسے تعبدى طور پر قبول کرنا چاهئےـ هر سوره بسم الله الرحمن الرحیم کے نازل هونے سے شروع هوتا تھا اور آیات نزول کى ترتیب سے اس میں درج هوتى تھیں ، جب دوسرا بسم الله نازل هوتا تھا تو دوسرا سوره شروح هوتا تھاـ یه آیات کى طبیعى ترتیب تھى ـ کبھى یه اتفاق بھى پیش آتا تھا که پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم جریئل امین کے اشاره پر حکم دیتے تھے تاکه ایک آیت کو اس کى طبیعى ترتیب کے مخالف کسى دوسرے سوره میں قرار دیں جیسے، آیه شریفه:” واتقوا یوماترجعون فیھ الى الله ثم توفى کل نفس ماکسبت وھم لا یظلموں”[12] که کها گیا هے که آیات آخرى نازل شده یه آیت میںسے هے، لیکن پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے دستور دیا که اسے سوره بقره میں ریا اور قرضه سے مربوط آیات کے درمیان آیت نمبر 281 کے طور پر درج کریںـ

اس بنا پر آیات کو سوروں میں خواه طبیعى ترتیب سے یا دستور و تعبدى کى تر تیب سے درج کیا گیا هو بهر صورت خود پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم کى زیرنگرانى درج کیا گیا هے اور اس کى پیروى کى جانى چاهئےـ اور ایسا نهیں هے که هر جگه پر کسى مطلب کے ختم هونے سے آیات ختم هوتى ـ ممکن هے کسى مطلب کے درمیان میں ،آیت تمام هو جائے اور مطلب دوسرى آیت میں جارىرهے، پس هر آیت کا چھوٹا یا بڑا هونا اس میں درج مطلب سے مربوط نهیں هے بلکه ایک تعبدى امر هےـ ماضى میں جو آیات کے اندازه کے بارے میں تھوڑا سا اختلاف رکھتے تھے، وه اس لئے تھاکه  پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم بعض اوقات کسى آیت کى تلاوت کے درمیان توقف فرماتے تھے اور تلاوت کو جارى نه رکھتے تھے لوگ گمان کرتے تھے که آیه ختم هوگئى هے اور ممکن هے دوسرى بار تلاوت کے دوران اس آیت کو بدون وقفه جارى رکھا هوـ[13]

لیکن جو سورےیکبار اور مجموعى صورت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم پر نازل هوئے هیں ، وه حسب ذیل هیں:

والضحى،الفاتحه، اخلاص، کوثر، تبت، بینھ، نصر، الناس، فلق، مرسلات، مائده، انعام، توبه، صف، عادیات، کافرون ـ[14]



[1]  بقره،185 “شھر رمضان الذى انزل فیھ القران”

[2]  قدر، 1.

[3]  دخان.3.

[4]  کافى، نقل از تفسیر صافى، مقدمه نھم.

[5]  فرقان ،32، وقال الذین کفروالولانزل علیھ القران جملۃ واحدۃ کذالک لنثبت بھ فوادک و رتلناه ترتیلا.

[6]  اسراء. 106، و قرانا فرقناه لتقره على الناس على مکث ونزلناه تنزیلا.

[7]  زخرف، 3 و4.

[8]  لوگوں کى استعداد میں رشد و بایدگى پیدا هونا.

[9] طباطبایی، محمد حسین، ترجمھ فارسى المیزان، ج 13، ص 305 و 306.

[10]  معروفت، محمدھادى ، علوم قرآنى، قم، موسسھ فرھنگى تمھید، 1380، ص 60ـ61.

[11] علوم قرآنى، پیشین، ص 111.

[12] بقره، 281.

[13] علوم قرآنى، پیشین ، ص 117.

[14] اسرار، مصطفى، دانستنیھاى قرآن ، ص 28، حسن زاده، صادق، کلید قرآن، ص 134.

تبصرے
Loading...