قرآن عربی زبان میں کیوں نازل ھواھے۔

خدا کی سنتوں میں سے ایک سنت ، انسانوں کی ھدایت کیلئے رسولوں کا بھیجنا ھے، خدا کے پیغمبر بھی انسانوں کے ساتھه رابطے کیلئے اس علاقھ کے لوگوں کے ساتھه جھان وه مبعوث ھوتے تھے  ان ھی کی زبان میں بات کرتے تھے۔ پیغمبر کا اپنی قوم کی زبان میں گفتگو کرنا ، خدا کی ایک اور سنت میں سے ھے، خداوند متعال  کا ارشاد ھے :” ھم نے جس رسول کو بھی بھیجا اسی کی قوم کی زبان کے ساتھه بھیجا تاکھ وه لوگوں پر باتوں کو واضح کرسکے ” [1] یھ سنت  ان پیغمبروں کے بارے مین بھی سچ ھے جن کی دعوت عالمگیر تھی اور جو سب لوگوں کی ھدایت کیلئے مبعوث ھوئے تھے جیسے اولو العزم پیغمبر لیکن وه بھی اپنی ھی قوم کی زبان میں بات کرتے تھے ابتدائے بعثت سے جھاں وه  مبعوث ھوئے تھے۔ اور اگر ایسا نھ ھوتا تو اس پیغمبر کی شریعت ، اس قوم میں ھی جھاں وه مبعوث ھوئے تھے قابل فھم اور قابل قبول نھ ھوتی ۔

قرآن کی ، زبان ایک  بلند تر ” حقیقت” ھے اور اس سے پھلے کھ وه عربی زبان میں ڈھال جائے ، وجود کے ایک ایسے مرحلے میں تھا جھاں انسانی عقلوں کو اس پر دسترس نھ تھی ، خداوند متعال نے اسے اپنے اصلی مقام سے نیچے لاکر انسانوں کے لئے قابل فھم بنایا اور اسے عربی لفظوں کا لباس پھنایا تا کھ انسانی عقلیں اس سے مانوس ھوکر اس کے حقایق کو سمجھه سکیں۔ [2]

پس قرآن کی اصل اور اس کی حقیقت ، زبان اور کسی بھی زبانی سانچے میں ڈھلنے سے بلند تر ھے ۔ لیکن یھ کیوں عربی زبان میں نازل ھوا ، اسی سلسلے میں کھا جاسکتا ھے که عربی زبان کی ذاتی خصوصیات کے علاوه ، کھ یھ زبان قانوں پذیرھونے کے ساتھه زبانوں کے درمیان فصاحت و بلاغت کی چوٹی پر ھے۔ پیغمبر اکرم اس قوم میں مبعوث ھوئے جو عربی زبان میں گفتگو کرتی تھی ، اور آنحضرت (ص) کو خدا کا پیغام پھنچانے کیلئے ایک قابل فھم معجزه چاھئے تھا تاکھ لوگ اسے نھ جھٹلائیں۔ خدا پر ایمان لائیں اور دین کو پھیلانے میں کوشش کریں ، البتھ اس کے قابل فھم ھونے کا یھ مطلب نھیں ھے کھ قرآن کے سب حقایق کی فھم نھیں ھے ، کیونکه قرآن کے حقایق لا محدود ھیں ، بلکھ اس سے مراد زبان کی فھم اور بعض حقائق کی اجمالی فھم ھے۔

بعثت سے پھلے عرب کی جاھلی قوم ، زندگی کے سب سے پست لوازم کے ساتھه رھتی  تھی اس لئے خدائے متعال نے پیغمبر کو عرب قوم میں مبعوث کیا ، حضرت علی علیھ السلام ، اسلام سے قبل  اور پیغمبر کی  آمد سے پھلے دور جاھلیت کے بارے میں فرماتے ھیں ” اللھ نے انھیں اس وقت بھیجا جب  لوگ گمراھی میں متحیر اور فتنوں مین ھاتھه پاؤں مار رھے تھے خواھشات نے انھیں بھکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کردی تھی ، جاھلیت نے انھیں سبک سر بنادیا تھا اور وه غیر یقینی حالات اور جھالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ۔ آپ (ص) نے نصیحت کا حق ادا کردیا ، سیدھے راستھ پر چلے اور لگوں کو حکمت اور موعظھ حسنھ کی طرف دعوت دی۔” [3]

یھ شرائط سبب بنے تھے کھ پیغمبر عرب قوم میں بھیجے گے پس قرآن کو بھی عربی زبان میں ھونا چاھئے نھ کھ دوسری زبانوں میں۔ لیکن جو کچھه اھم ھے وه قرآن سے فائده حاصل کرنا ھے  جو عرب زبانوں کیلئے مخصوص نھیں خداوند متعال فرماتا ھے ” اگر ھم اس قرآن کو عجمی زبان مین نازل کردیتے تو یھ کھتے کھ اس کی آیتیں واضح کیوں نھیں ھیں، اور یھ عجمی کتاب اور عربی انسان کا ربط کیا ھے ، تو آپ کهه دیجئے کھ یھ کتاب صاحبان ایمان کیلئے شفا اور ھدایت ھے اور جو لوگ ایمان نھیں رکھتے ھیں ان کے کانوں میں بھراپن ھے اور وه ان کی نظر میں کبھی نھیں آرھا ھے اور ان لوگوں کو بھت دور سے پکارا جائے گا” [4]

یھاں پر ایک   اور سوال اٹھتا ھے کھ خدا کے آخری پیغمبر صلی اللھ علیھ و اآلھ وسلم عرب زبان تھے اور ان کی کتاب ھی عربی زبان میں تھی، یھ سعادت فارسی زبان والوں یا کسی اور زبان والوں کو کیوں نصیب نھ ھوئی؟ اس سوال کے جواب سے پھلے چند نکات بیان کرنا ضروری ھے پھر سوال کا جواب دیں گے۔

الف ) جب آخری پیغبمر کی بات ھوتی ھے ، کچھه افراد ھونے چاھئے جو پیغام کو دریافت کرکے اچھی طرح سے اس کی حفاظت کرسکیں۔ ( دین کے محفوظ رکھنے کا اندرونی عامل )

ب ) دوسری جانب بعض افراد ھمیشھ دین کو نابودکرنے کی کوشش میں ھیں ، جس طرح سب انبیاء کی تاریخ میں مشاھده کیا جاتاھے ( بیرونی سبب دین کی تغییر کا ) اس لئے اس طرح کی مشکل کیلئے کوئی حل ڈھونڈنا چاھئے۔

ج) ایسا بالکل نھیں ھے کھ ھمیشه (خصوصا پیغمبر کی وفات کے بعد بھی ) معجزه یا خارق العادۃ کاموں کے ذریعے دین اور قرآن کی حفاظت کی جائے۔

ان مقدمات کے بعد انسانوں اور ان کے  رھنے کے  ماحول پر نظر ڈالتے ھوئے دیکھه لیں کھ کس ماحول میں اور کن شرائط میں یھ نکات متحقق ھونے کے لائق ھیں۔

اولا : عرب ایسے لوگ ھیں جو اپنی زبان ، رسوم ، قوانین ، اور نسب کے بارے میں خاص تعصب رکھتے ھیں انھیں آسانی سے اپنی زبان اور ثقافت سے دور نھیں کیا جاسکتا یھاں تک کھ اس دور میں بھی عالمگیریت کے پروپگنڈے کے باوجود بھی وه اپنے کپڑوں کو چھوڑ نھیں سکتے ( اندرونی عامل محفوظ ھونے کا )

ثانیا : حجاز کے عرب کچھه اس طرح تھے کھ نھ صرف وه اپنی مادری زبان سے الگ نھیں ھوسکتے تھے ، بلکھ پوری تاریخ کے دوران کوئی بیرونی حکومت سے انھیں یھ کام کرنے پر مجبور نھ کرسکی ، یعنی خارج سے انھوں نے کوئی اثر قبول نھیں کیا ( تغییر کیلئے خارجی عامل )

ثالثا : حجاز کے عربوں کی زبان ضمیروں کی کثرت کے باوجود ، تثنیھ ، مفرد، اور جمع کے ضمیروں کو آپس میں فرق، اور مذکر اور مؤنث کے صیغوں کا آپس میں مختلف ھونا مختلف قسموں کا جمع ھونا ، کنایات اور استعارات وغیره سے مالا مال ھونا ، سبب بنا ھے کھ زیاده مطالب کو الفاظ کی کم تعدادکے ذریعے بیان کیا جائے بغیر اس کے کھ کوئی ابھام یا اجمال گوئی ھو۔

ان نکات کو مد نظر رکھه کر دین خاتم اور اس کی کتاب باقی رھنے کیلئے حجاز کی سرزمین اور عرب زبان دفاع کرنے کی بھترین طبیعی اور معمولی (غیر خارق العادۃ ) راه ھے قرآن نے اپنی داخلی جاذبیت  اور دلپذیر آھنگ اور آوا کے ذریعے صحرا نشین عربوں کے ذھنوں میں اپنی جگھ بنائی جو عرب فصیح او رموزون کلام کے پسند کرنے والے تھے ار اس طرح مختلف لفظی تحریفوں سے یھ کلام محفوظ رھا اس طرح قرآن کا عربی زبان میں نازل ھونا اسکی دائمی حفاظت کیلئے تھا۔ [5] ھاں قرآن کا عربی زبان مین نازل ھونا ، خدا کی طرف سے عرب زبانوں کے لئے  ایک خاص کرم اور رحمت تھی ، اور اگر غیر عربی زبان میں نازل ھوتا، تو عرب زبان جن کی تعداد کم نھ تھی اس پر ایمان نھیں لاتے خدائے متعال کا ارشاد ھے:” اگر ھم اسے کسی عجمی آدمی پر نازل کرتے اور وه ان میں پڑھه کر سناتا تو یھ کبھی ایمان لانے والے نھیں تھے” [6]



[1]  سوره ابراھیم / ۴

[2]  المیزان ، ( ترجمھ فارسی ) ج ۸ ص ۱۲۲، ۱۲۳۔

[3]  نھج البلاغه ، ترجمھ دشتی ، خطبه ۹۵۔

[4]  سوره فصلت / ۴۴

[5]  فصلنامھ بینات ، شماره ۲۷ ص ۳۸ أ ۴۱

[6]  سوره شعراء ۱۹۸ ۔۔۔ ۱۹۹

تبصرے
Loading...