عورت اور عورت کی آزادی کے بارے میں استکباری دنیا کا نظریہ کیا ہے؟

آج کے انسان کے اہم خدشوں میں سے ایک عورتوں کے حقوق کا دفاع ہے، اگرچہ عورتوں کے حقوق کے دفاع کی تاریخ قدیمی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ مسئلہ سب سے اہم اجتماعی مسائل میں شمار ہوتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے دفاع کا مسئلہ آج کل، زیادہ تر عورت کے تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق میں مردوں کے برابر ہونے اور اجتماعی پابندیوں سے عورت کی آزادی کے محور کے موضوع پر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ سوال کا صحیح اور دقیق جواب دینے کے لیے پہلے مغرب میں عورت کے دفاع کے جریان اور ،موجودہ واقعات پر ایک نظر ڈالی جائے، جسے آج “فمینزم” کہتے ہیں، اس کے بعد ایک منصفانہ نقطہ نگاہ سے مغربی دنیا میں عورت کی آزادی پر تحقیق کی جائے۔

دنیا میں ہمیشہ مرد اور عورتیں تعداد میں برابر تھے، اور کبھی شاید عورتیں مردوں سے زیادہ تھیں، لیکن پوری تاریخ میں عورت، مرد کے تسلط میں رہی ہے اور عورت ہمیشہ ایک ایسے معاشرہ میں زندگی بسر کرتی تھی، جہاں پر اس کے حقوق پامال کیے جاتے تھے۔ بعض معاشروں میں اس کا تعارف حقیر اور پست ترین مخلوق کے عنوان سے کیا جاتا تھا کہ وہ صرف مردوں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ قدیم یونان کا تمدن  اس زمانہ کا ایک درخشاں ترین اور وسیع ترین تہذیب و تمدن شمار ہوتا تھا، اس میں بھی عورتوں کی حالت اس ترقی یافتہ تمدن کے ساتھ ہرگز متناسب نہیں تھی۔ ” وہ عورت کو صرف جنسی خواہشات پوری کرنے کے ایک عنصر کے عنوان سے جانتے تھے اور عورت کسی صورت میں مرد کی شریک حیات شمار نہیں ہوتی تھی، کیونکہ وہ اس کو مکمل انسانی قوتوں کی مالک نہیں سمجھتے تھے اور عورت کو بدبختیوں اور مشکلات کا سرچشمہ جانتے تھے۔ عورت کو زندگی کے تمام ابعاد میں پست اور ذلیل جانتے تھے اور اسی وجہ سے اس کو شوہر کے مرنے کے بعد زندہ رہنے کا حق نہیں تھا۔ یونانی، عورت کو پاک نہ ہونے والی ایک مخلوق اور شیطان کی نسل جانتے تھے اور اسے مردوں کی خدمت کرنے ان کی جنسی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کسی کام میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔[1]

قدیم روم میں بھی عورت کی بہتر حالت نہیں تھی اور اس تمدن میں عورت کو شیطان کی علامت سمجھا جاتا تھا اور اس کے اجتماعی اور خاندانی مقام سے چشم پوشی کی جاتی تھی اور لوگ عورت کو شیطان کا مکمل مظہر اور نقصان دہ ارواح میں سے جانتے تھے اور اسے عقل و دماغ کی گمراہی کا مظہر جانتے تھے اور اسی لیے وہ عورت کو اذیتیں پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور اسے ہنسنے اور بات کرنے سے منع کرتے تھے۔ حقیقت میں رومی عورتوں کو انسان شمار نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ان کی حیثیت عام چیزوں جیسی ہوتی تھی اور موت کے بعد یہ بھی دوسری چیزوں کی مانند وراثت میں ملتی تھیں[2]۔

عورت کے بارے میں یہ نقطہ نظر مغربی تمدن کی پوری تاریخ میں ، “رنسانس” کے دور تک جاری تھا، جسے مغربی تمدن کی بیداری کا دور کہا جاتا تھا۔ حتی کہ دوسرے معاشروں میں بھی عورت کے ساتھ یہی امتیازی سلوک برتا جاتا تھا اور عورت مالکیت ، وراثت اور اجتماعی حقوق وغیرہ سے محروم تھی۔

مثال کے طور پر، ہندوستان میں عورت کو مرد کو خراب کرنے والی ایک شرپسند مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ آسٹریلیا کے بعض قبیلوں میں بنیادی طور پر عورتوں کو انسان شمار نہیں کیا جاتا تھا[3]۔ مصر، چین، افریقہ اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی عورتیں اجتماعی حقوق سے محروم تھیں اور فرمانبردار کی حیثیت سے مردوں کے اختیار میں ہوتی تھیں تاکہ ان سے کام لیا جائے اور ان سے جنسی پیاس بجھانے میں استفادہ کیا جائے۔

علامہ طباطبائی ماضی بعید کے اقوام میں عورتوں کی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں: ” اس سلسلہ میں جو چیز تمام قوموں کے درمیان مشترک تھی، وہ یہ تھی کہ ان اقوام کی نظر میں عورت کو کسی قسم کی آزادی و حریت کا حق نہیں تھا۔ نہ ارادہ میں اور نہ عمل میں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں مرد کی ولایت و سرپرست کے تحت ہوا کرتی تھی۔ وہ کسی کام کو اپنی مرضی اور ارادہ سے انجام نہیں دے سکتی تھی اور اجتماعی مسائل میں سے کسی ایک میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں رکھتی تھی{نہ حکومت میں، نہ عدلیہ میں اور نہ کسی اور شعبے میں}۔ اب ہم ذرا دیکھتے ہیں کہ کسی قسم کا حق نہ رکھتے ہوئے اس کی کونسی ذمہ داریاں تھیں؟ اولاً: وہ سب ذمہ داریاں جو مرد پر تھیں، عورت کے ذمہ بھی تھیں، حتی کہ کام کاج کرنا، کھیتی باڑی اور لکڑی توڑنا وغیرہ  اور ثانیاً: ان کاموں کے علاوہ ، گھر کا نظم و نسق چلانا اور بال بچے پالنا بھی اسی کے ذمہ تھا، اور اس کے علاوہ جو کچھ مرد کہے اس پر عمل کرنا بھی اس کے ذمہ تھا۔[4]

اسلام کے ظہور اور عورتوں کے حقوق کے ترقی یافتہ دین کے ابلاغ کے بعد ، عورت کی تحقیر کرنے اور اسے پست سمجھنے کی فضا بدل گئی اور مسلمانوں پر فرض بن گیا کہ عورت کو محترم سمجھیں اور اس کے حقوق کی رعایت کریں اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو ان کا مواخذہ کیا جائے گا اور بعض مواقع پر ان کو سزا ملے گی۔بہرحال مغربی تمدن کے قرون وسطی ، حتی کہ “رینسانس” کے دوران بھی عورت نامناسب حالات سے دوچار تھی اور اسے صرف عورت ہونے کے جرم میں گوناگون مظالم سے دوچار ہونا پڑتا تھا۔ غرض ازدواج، تعلیم و تربیت، ووٹ دینے، اجتماعی فیصلوں اور بعض مواقع پر مالکیت کے حق سے بھی محروم ہوتی تھی۔ مغرب میں ترقی پسند دور میں 1789ء میں جب فرانس میں حقوق انسانی کی قرارداد کو قبول کیا گیا ، اس میں بھی عورتوں کے حقوق اور ان کے مردوں کے مساوی ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے[5]۔

ایسے ظالمانہ حالات میں جب عورت کے لیے حتی کہ اپنے دانشوروں کی نظروں میں بھی کوئی پناہ گاہ موجود نہیں تھی، تو قدرتی بات ہے کہ وہ اپنے چھینے گیے حقوق کو پھر سے حاصل کرنے کے درپے ہو تاکہ اپنے فطری حقوق سے بہرہ مند ہو جائے۔

مغربی دنیا میں شدت سے تبدیلیاں پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ، عورتوں کی طرف سے اپنے حقوق کی بحالی اور ان کے دفاع کے لیے تحریکیں شروع ہوئیں اور یہ تحریکیں “فمینزم” کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کی داغ بیل مغربی فلسفہ کی بنیادوں پر ڈالی گئی ، کہ یہ “ہیومینزم” یا انسانی محوری کا ایک اصول ہے، جو انسان کا مطالبہ ہے، اور اسی اصول کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ سیکولرازم، کے معنی ، اس دنیا سے متعلق بننا ہے اس طرح کہ دین اور دنیا کے قلمرو کو تفکیک کر کے دین کو انسان کے مختلف شعبوں سے الگ کر کے انفرادی زندگی تک محدود کرنا ہے۔ فردگرائی کے یہ معنی ہے کہ انسان اپنے جسم کا مالک ہے اور خود اپنے بارے میں فیصلہ کرتا ہے۔

ان ہی فلسفیانہ بنیادوں پر عورتوں نے مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے کئی تحریکوں کا آغاز کیا، اگرچہ عورتیں آزادی اور برابری کا حق حاصل کرنے کے لیے مبارزہ کر رہی تھیں، لیکن اس کے باوجود مختلف اعتقادات رکھتی تھیں اور حتی کہ بعض عورتوں کے گروہ ایک دوسرے کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اس طرح “فمینزم” کی تحریکیں مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتی رہیں ان میں سے بعض کی طرف ان کے اھداف اور تشکیل کے لحاظ سے ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے، تاکہ ان کے مقاصد سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

لیبرل فمینزم“: یہ تحریک قدیمی ترین اور سب سے بڑی فمینزم تحریک کو تشکیل دیتی ہے اور اس تحریک کا اعتقاد سیاسی و اجتماعی قوانین کی اصلاح کے ذریعہ زن و مرد کے حقوق کو مساوی قرار دینا ہے۔ ان کا اعتقاد ہے کہ ادبیات کے میدان میں پروگرام کے تحت مردوں کی سرپرستی اور سالاری کے الفاظ اور عبارتوں کو خاتمہ بخشنا چاہئیے۔ عورتوں کی انفرادی آزادی کی حفاظت کی جانی چاہئیے، جو اجتماعی رسومات اور اداروں سے اہم تر ہے۔ اگرچہ اس گروہ سے متعلق عورتیں بھی خاندانی نظام کی تشکیل کی زیادہ تنقیدیں کرتی ہیں، لیکن اس کے تحفظ کا بھی مطالبہ کرتی ہیں۔

مارکیسسٹ فمینزم: اس تحریک سے متعلق عورتیں، عورتوں کے تحت تسلط قرار پانے کے عامل کو ، اقتصادی روابط کی پیداوار جانتی ہیں، جس کے مطابق سرمایہ داری اور مالکیت مردوں سے مخصوص ہے، ان تبدیلیوں کی بنیاد مغربی فلسفہ کے اصول پر ڈالی گئی ہے۔ اس گروہ سے متعلق افراد معاشرہ میں خاندان کی تشکیل کے زبردست مخالف ہیں اور عورتوں کے گھر میں کام کاج کرنے کا متبادل حل ریسٹورانٹوں اور اطفال خانوں میں کام کرنا جانتے ہیں تاکہ عورت عام جگہوں پر آزادانہ طور پر شرکت کر سکے۔ البتہ جدید مارکسیسٹ، خاندان کے مثبت پہلووں کی تاکید کرتے ہیں۔

ریڈیکل فمینزم: اس گروہ کے افراد اعتقاد رکھتے ہیں کہ مردوں کی بالادستی اور ان کا ظلم تمام اجتماعی برائیوں، من جملہ عورت کی تحقیر کا سرچشمہ ہے۔ اس گروہ کے افراد کے عقیدہ کے مطابق ، نکاح ایک خطرناک وسیلہ ہے، جسے مردوں نے عورتوں کو قید و بند کرنے کے لیے وضع کیا ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق ، ازدواج کو، عورت کے زندانی ہونے کا پیغام شمار کیا جاتا ہے۔ ریڈیکل فمینزم نے سقط جنین کو قانونی بنانے کی زبردست کوشش کی ہے۔ نسل کی حفاظت کے لیے اعتقاد رکھتے ہیں کہ نسل پیدا کرنے کے پرانے طریقہ کو بدلنا چاہئیے اور مصنوعی لقاح )تخم ریزی( اور مصنوعی طور پر لیبارٹریوں میں نشونما کے ذریعہ عورتوں کو حاملگی اور وضع حمل کی مشکلات سے نجات دلانا چاہئیے۔

سوشل فمینزم: سوشل فمینزم کے قائل افراد ، مردوں کی عورتوں پر بالادستی کا ایک حصہ مردوں کی جنسی خواہشات کی بالادستی جانتے ہیں اور اس کا ایک حصہ اقتصاد اور سرمایہ داری نظام جانتے ہیں۔ اس گروہ کے افراد ازدواج کے فطری طریقہ کے قائل نہیں ہیں اور اسے ایک بناوٹی امر جانتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مخالفت کو ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ عورتوں کی آزادی کی راہ میں طبقاتی اور ہم جنس بازی جیسے امور سے مقابلہ کرنا ناگزیر سمجھتے ہیں۔

سپر ماڈرن فمینزم: فمینزم میں افراط و تفریط کے نتیجہ میں سپر ماڈرن فمینزم وجود میں آیا ہے کہ نسبت پرستی اور ہر قسم کے اعتقاد کا انکار کرنا اس کی خصوصیات ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ عورتوں پر مردوں کی بالادستی کے عوامل، ثقافت کی نوعیت، دین اور جغرافیہ وغیرہ پر منحصر ہے، اور ان عوامل کا انکشاف کرنے کے لیے مقامی طور پر تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مغربی دنیا میں جو کچھ عورت کو ملا ہے بظاہر وہ حیرت انگیز ہے، فمینزم کی تحریک کی دین بہت کچھ ہے۔ جو اصلی سوال یہاں پر پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس وقت جہاں پر مغربی عورت کھڑی ہے، کیا اس انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بعد اس کی شان اور انسانی تکریم کو تحفظ ملا ہے؟ بہ الفاظ دیگر کیا آج کی مغربی عورت کو سکون ملا ہے یا یہ کہ اضطراب اور بے آرامی کی حالت میں ہے؟

اس کے جواب میں کہنا چاہئیے کہ: مغربی دنیا میں ایک طولانی تحریک کے بعد عورتوں کی آزادی کا نتیجہ: حق رائے، سقط جنین کا حق، بلاوجہ طلاق حاصل کرنا ، مالی آزادی، جنسی آزادی، سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی امور میں وسیع پیمانے پر شرکت، ازدواج کی عمر کا بڑھنا، مجرد زندگی بسر کرنے میں افزائش، خاندان کی نابودی، طلاق میں افزائش، زن و مرد میں لڑائی جھگڑے کا پیدا ہونا، نسوانیت کا تباہی سے دوچار ہونا، عورتوں میں شناخت کا بحران، مردانگی کو کمزور کرنا، خصوصی و عمومی{گھر اور معاشرہ} کے حدود کو پاٹنا، ہم جنس بازی کا رواج، عورتوں میں مختلف قسم کی بیماریوں، من جملہ روحانی و جسمانی بیماریوں کو بڑھاوا ملنا، سقط جنین کے ذریعہ عورتوں کا سرمایہ داروں کے منافع کے لیے وسیلہ بننا، جنسی قوا کا نابود ہونا اور جنسی روابط میں کمزوری پیدا ہونا وغیرہ ہے۔

یہ نتائج اس چیز کی علامت ہیں کہ فمینزم نے عورت کے ایک جہت کے رشد و بالیدگی پر توجہ کر کے اس کے وجود کے دوسرے ابعاد کو ضائع کر کے رکھ دیا ہے۔ اس تحریک کے قبل و بعد کے حالات پر تحقیق کرنے کے بعد ، خود فمینزم کے طرفداروں کے اعتقاد کے مطابق اور فمینزم کی تنقید کرنے والوں کے مطابق ، اگرچہ عورتوں نے  مذکورہ مسائل میں آزادی حاصل کی ہے، لیکن وہ اپنی فطرت سے بیگانہ بن گئی ہیں اور یہ مسئلہ عورتوں کے لیے عدم شناخت اور سرانجام مغربی عورتوں کے لیے اضطراب کا سبب بنا ہے۔ فمینزم کا انتقاد کرنے والا ڈاکٹر ٹانی گرنٹ کہتا ہے: ” آج معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں صرف آزاد ہوئی ہیں۔ لیکن جذبات کے لحاظ سے محتاج تر ، بےامن و متزلزل تر اور اپنی ماوں اور دادیوں کی بہ نسبت بے چارہ اور تنہا تر بن گئی ہیں۔[6]

جس چیز کی اہمیت ہے، وہ عورت کے معاشرہ میں سرگرمیوں کے اثرات ہیں۔ جو عورتوں کی خصوصی صلاحیتوں ، خاص کر جسمانی اور روحانی قابلیتوں اور عورتوں کی انسانی تکریم کے پیش نظر ہو سکتے ہیں،لیکن فمینزم کے مختلف گروہوں نے عورتوں کے اس اثر کو عورت کے جسمانی ظہور تک محدود کر کے رکھ دیا ہے، اس اعتبار سے، عورت ، مغربی تمدن کے لحاظ سے انفرادی آزادی حاصل کرنے کے باوجود صرف ظاہری جہت سے قابل توجہ قرار پائی ہے، یہ وہ نظریہ ہے جس نے آج کی مغربی عورت کو بے چارہ اور بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔

 


[1]. قائمی،علی، “حیات زندگی زن در اندیشه ی اسلامی”، ص 41، انتشارات امیری،تهران،طبع اول،1373 ھ ش.

[3].معصومی،مسعود،فمنیسم در یک نگاه، ص 19، موسسه آموزشی پژوهشی امام خمینی، قم، 1387ھ ش.

[4].طباطبایی،محمد حسین، الميزان، مترجم، موسوی همدانی، محمدباقر، ج‏2، ص 397، دفتر انتشارات اسلامى،قم، 1373ھ ش.

[5] .”فمنیسم در یک نگا”ه،ص26.

[6] اسلاملو،نعیمه، و دیگران،زن ستم تاریخی ستم برابری، ص 80، موسسه فرهنگی هنری خیبر،تهران، طبع اول،1389ھ ش.

 

تبصرے
Loading...