عورتوں کے حیض کے پیش نظر ،روزوں کا کفاره بجالاتے وقت اکتیس دن مسلسل روزه رکھنا کیسے ممکن هے؟

حائض کے احکام

 

عورتوں کے حیض کے پیش نظر ،روزوں کا کفاره بجالاتے وقت اکتیس دن مسلسل روزه رکھنا کیسے ممکن هے؟

اگر ایک عورت کو روزوں کا کفاره ادا کرنا هو تو اسے ساٹھ دن تک روزے رکھنے هیں، جس میں سے اسے اکتیس دن تک مسلسل روزے رکھنے هیں، مهربانی کر کے فرمائیے که یه کیسے ممکن هے جب که اسے اسی دوران حیض کے باقاعده ایام سے دوچار هونا پڑتا هے { اور وه مسلسل اکتیس دن روزے نهیں رکھ سکتی هے}؟

 

قرآن مجید میں خدا کى شکر گزارى ایک کامل مصداق یعنى مکتب توحید کے مجاہد اور علمبردار حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ہے ان کا ذکر اس لحاظ سے بھى خصوصیت کاحامل ہے کہ مسلمان با لعموم اور عرب بالخصوص حضرت ابراہیم کو اپنا پہلاپیشوا اور مقتداء سمجھتے ہیں _
اس عظیم اور بہادر انسان کى صفات میں سے یہاںصرف پانچ صفات کى طرف اشارہ کیا گیا ہے :
پہلے فرمایا گیا ہے :” ابراہیم اپنى ذات میں ایک امت تھے”_(1)
اس سلسلے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو”امت ” کیوں قرار دیا گیا ، مفسرین نے مختلف نکات بیان کیے ہیں ان میں سے چارقابل ملاحظہ ہیں :
1_ابراہیم علیہ السلام انسانیت کے عظیم رہبر، مقتداء اور معلم تھے اسى بناء پر انھیں امت کہا گیا ہے کیونکہ ” امت ” اسم مفعول کے معنى میں اسے کہا جاتاہے جس کى لوگ اقتداء کریں اور جس کى رہبرى لوگ قبول کریں _
2_ ابراہیم علیہ السلام ایسى شخصیت کے مالک تھے کہ اپنى ذات میں ایک امت تھے _کیونکہ بعض اوقات کسى انسان کى شخصیت کا نور اتنى وسیع شعاعوں کا حامل ہوتا ہے کہ اس کى حیثیت ایک دویا بہت سے افراد سے زیادہ ہوجاتى ہے اور اس کى شخصیت ایک عظیم امت کے برابر ہوجاتى ہے _
ان دونوں معانى میں ایک خاص روحانى تعلق ہے کیونکہ جو شخص کسى ملت کاسچا پیشوا ہوتا ہے وہ ان سب کے اعمال میں شریک اور حصہ دار ہوتا ہے اور گویا وہ خود امت ہوتا ہے _
3_ وہ ماحول کہ جس میں کوئی خدا پرست نہ تھا اور جس میں سب لوگ شرک وبت پرستى کے جوہڑمیں غوطہ زن تھے _اس میں ابراہیم علیہ السلام تن تنہاموحد اور توحید پرست تھے پس آپ تنہا ایک امت
تھے اور اس دور کے مشرکین ایک الگ امت تھے _
4_ ابراہیم علیہ السلام ایک امت کے وجودکا سرچشمہ تھے اسى لئے آپ کو ”امت ” کہا گیا ہے _ اس میں کوئی اشکال نہیں کہ یہ چھوٹا سالفظ اپنے دامن میں یہ تمام وسیع معانى لئے ہوئے ہو _
جى ہاں، ابراہیم ایک امت تھے_
وہ ایک عظیم پیشوا تھے _
وہ ایک امت سازجوانمرد تھے _
جس ماحول میں کوئی توحید کا دم بھر نے والا نہ تھا وہ توحیدکے عظیم علمبردار تھے_
2_ ان کى دوسرى صفت یہ تھى کہ” وہ اللہ کے مطیع بندے تھے ”_(2)
3_ ”وہ ہمیشہ اللہ کے سیدھے راستے اور طریق حق پر چلتے تھے”_(3)
4_” وہ کبھى بھى مشرکین میں سے نہ تھے ”_(4)
ان کے فکر کے ہر پہلو میں ، ان کے دل کے ہر گوشے میں اور ان کى زندگى کے ہر طرف اللہ ہى کانور جلوہ گرتھا _
5_ان تمام خصوصیات کے علاوہ ”وہ ایسے جواں مرد تھے کہ اللہ کى سب نعمتوں پر شکر گزار تھے”_(5)
ان پانچ صفات کو بیان کرنے کے بعد ان کے اہم نتائج بیان کیے گئے ہیں :
1_” اللہ نے ابراہیم کو نبوت اور دعوت کى تبلغ کے لئے منتخب کیا ”_(6)
2_” اللہ نے انھیں راہ است کى ہدایت کی”_(7)
اور انھیں ہر قسم کى لغزش اور انحراف سے بچایا _
ہم نے بارہا کہا ہے کہ خدائی ہدایت ہمیشہ لیاقت واہلیت کى بنیاد پر ہوتى ہے کہ جس کا مظاہرہ خود انسان کى طرف سے ہوتا ہے اس کى طرف سے کسى کو کوئی چیز استعداد اور کسى حساب کتاب کے بغیرنہیں دى جاتى حضرت ابراہیم کو بھى اسى بنیاد پر یہ ہدایت نصیب ہوئی _
3_ ”ہم نے دنیا میں انھیں ”حسنہ” سے نوازا ”_ وسیع معنى کے اعتبار سے ”حسنہ ” میں ہر قسم کى نیکى اور اچھائی کا مفہوم موجود ہے اس میں مقام نبوت رسالت سے لے کر اچھى اولادوغیرہ تک کا مفہوم موجود ہے_
4_ اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے ”_(8)
5_ ان صفات کے ساتھ ساتھ اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک ایساا متیاز عطا فرمایا ہے کہ ان کا مکتب و مذہب صرف ان کے اہل زمانہ کے لئے نہ تھا بلکہ ہمیشہ کے لئے تھا خاص طور پر اسلامى امت کے لئے بھى یہ ایک الہام بخش مکتب قرارپایا ہے _جیساکہ قرآن کہتا ہے :”پھر ہم نے تجھے وحى کى دین ابراہیم کى اتباع کرکہ جو خالص توحید کا دین ہے ” _(9)

 

ماخذ
(1)سورہ نمل آیت120

(2)سورہ نمل آیت 120
(3)سورہ نمل آیت 120
(4)سورہ نمل آیت120
(5)سورہ نمل آیت 121
(6)سورہ نمل آیت 121
(7) سورہ آیت 121
(8) سورہ نمل آیت122
(9) سورہ نمل آیت 4

تبصرے
Loading...