عورتوں کی ماہانہ عادت کا فلسفہ کیا ہے؟

یہ سوال پیش کرنے کی وجہ یہ ہے کہ  مذکورہ آیہ شریفہ کے معنی پر صحیح طور پر توجہ نہیں کی گئی ہے- مسئلہ کی حقیقت واضح ھونے کے لئے ہم اس آیہ شریفہ کے معنی اور اس کی تفسیر کا ایک جائزہ لیتے ہیں- خداوند متعال اس آیہ شریفہ میں ارشاد فرماتا ہے: “وَ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحيضِ قُلْ هُوَ أَذىً فَاعْتَزِلُوا النِّساءَ فِي الْمَحيضِ وَ لا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ …. “[1] ” اور اے پیغمبر یہ لوگ تم سے ایام حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہدو کہ حیض ایک اذیت اور تکلیف ہے، لہذا اس زمانے میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک نہ پاک ھو جائیں ان کے قریب نہ جاو- – – “

یہ آیہ شریفہ، عادت کی حالت میں عورتوں سے  ہم بستری سے اجتناب کا فلسفہ بیان کرتی ہے، کیونکہ ایسی حالت میں ہم بستری کرنا، نفرت انگیز ھونے کے علاوہ کافی نقصان دہ بھی ہے کہ آج کے علم  طب نے بھی اسے ثابت کیا ہے، اس میں مرد اور عورت کا عقیم ھونا،{ سفلیس و سوزاک جیسی }جنسی بیماریوں کے جراثیم کے لئے پرورش کا مناسب ماحول پیدا ھونا، مرد اور عورت کے آلہ تناسل میں سوزش پیدا ھونا، اور مرد کے آلہ تناسل میں آلودہ خون کا داخل ھونا جیسے نقصانات شامل ہیں، جن کا مفصل ذکر طب کی کتابوں میں آیا ہے، لہذا اطبا اس قسم کی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرنے کو منع کرتے ہیں- دوسری جانب اس خون کا خارج ھونا عورتوں کے لئے رنج و تکلیف کا سبب بنتا ہے-

خون حیض کی پیدائش کا سرچشمہ، رحم کی رگوں کی گھٹن اور خون سے بھر جانا ہے اور اس کے بعد یہ رگیں پھٹ کر خون جاری ھوتا ہے- جو خون عورتوں کی عادت کے ایام میں خارج ھوتا ہے ، وہ ایک ایسا خون ہے جو ہر مہینے  رحم کی اندرونی رگوں میں احتمالی جنین کے تغذیہ کے لئے جمع ھوتا ہے ، کیونکہ عورت کا رحم ہر ماہ ایک تخمک {اوری} کی تولید کرتا ہے- اور اس تخمک کا رحم کے اندر رگوں کے پاس ھونا، خون سے سرشار نطفہ کے تغذیہ کے لئے آمادگی ہے، اگر اس وقت، جب یہ تخمک رحم کے اندر داخل ھوتا ہے، مرد کا نطفہ { اسپرم} وہاں موجود ھو تو نطفہ اور جنین تشکیل پاتا ہے اور اور رگوں میں موجود خون اس نطفہ کو تغذیہ کرنے میں صرف ھوتا ہے، اگر ایسا نہ ھو، تو ان رگوں کے پھٹنے کی وجہ سے خون جاری ھوتا ہے اور یہ وہی حیض کا خون ہے- اور یہاں پر جنسی آمیزش کے ممنوع ھونے کی ایک اور دلیل معلوم ھوتی ہے، کیونکہ عورت کا رحم اس خون کے نکلنے کے وقت ، کسی صورت میں نطفہ کو قبول کرنے کی آمادگی نہیں رکھتا ہے، اس لئے اس کام سے عورت کو اذیت اور تکلیف ھوتی ہے-[2]

اس بنا پر خون حیض اور عورتوں کی عادت ایک سالم عورت کے بدن کے سسٹم کےعادی عمل کی علامت ہے اور اس خون کا خارج ھونا، عورتوں کے لئے درد و تکالیف کے باوجود خداوند متعال کی ایک بڑی مہربانی ہے- اس خون کا خارج ھونا عورتوں کی صحت و سلامتی کے لئے اس قدر اہم ہے کہ بالغ ھونے اور یائسگی سے پہلے اس عادت کی عدم موجودگی عورتوں کی عدم سلامتی شمار ھوتی ہے اور یہ ایک بیماری ہے جس کا علاج کرنا چاہئے- کیونکہ اگر یہ خون ہر مہینے میں عورت کے بدن سے خارج نہ ھو اور عورت حاملہ بھی نہ ھو کہ یہ خون جنین کے تغذیہ کے لئے صرف ھو جائے، تو اس خون کا عورت کے رحم کی رگوں میں موجود ھونا اس کی صحت و سلامتی کے لئے خطرناک ھوسکتا ہے، لیکن اس خون کا خارج ھونا، اگر چہ درد و رنج کے ساتھ بھی ھو، عورت کے لئے مفید اور حیات بخش ہے، اور یہ عالم مادہ اور فطرت کا لازمہ ہے، کیونکہ یہ فطرت اور عالم مادہ کا قانون ہے، جو ہمیشہ رات کے ساتھ دن، منافع کے ساتھ نقصان، آرام و آسائش کے ساتھ سختی، خوشی کے ساتھ نا راحتی اور شادی کے ساتھ غم ھوتا ہے اور عالم مادہ فطرت میں ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے- اور مادی دنیا میں صرف منافع کی توقع نہیں رکھنی چاہئے،{سختی، مشقت و تلخی کے بغیر} صرف لذت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کیونکہ اس قسم کی توقعات نہ عاقلانہ ہیں اور نہ عملی جامہ پہنانے کے قابل ہیں-

 


[2]تفسير نمونه، ج‏2، ص: 139-138

 

تبصرے
Loading...