علی بن جعفر {ع} کی ایک روایت میں آیا ہے – کہ سلام کہتے وقت دائیں اور بائیں طرف رخ کرکے السلام علیکم و رحمتہ اللہ، السلام علیکم ور حمتہ اللہ کہنا چاہئیے، اس روایت کی دلالت کی سند کیسی ہے؟

مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے صحیح ہے-[1] اس روایت کے بارے میں فقہی منابع میں بحث و تحقیق کی گئی ہے، جس کا خلاصہ ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:

الف} دائیں اور بائیں طرف دیکھنا مستحب ہے:                                                     

اس روایت اور اس قسم کی دوسری روایتوں[2] کی بنا پر، فرا دا نماز پڑھنے والے شخص اور امام جماعت کے لئے مستحب ہے کہ نماز کے آخری سلام ” السلام علیکم ورحمتہ اللہ ” پھیرتے وقت اپنی آنکھوں کی انتہا یا ناک سے اپنے دائیں طرف اشارہ کرے، اس طرح کہ قبلہ کی طرف سے اپنے رخ کو موڑ لے- اس کے علاوہ مامون { جو با جماعت نماز پڑھتا ہے} کے لئے مستحب ہے کہ اگر اس کے بائیں جانب کوئی نہ ھو، اور اگر اس کے دونوں طرف مامومین ھوں، ” السلام علیکم” کو دہرائے اور بائیں جانب اشارہ کرے-[3]

اس بنا پر، مذکورہ روایت، اس حکم کے لئے ایک استنباط ہے-

ب} اختتامی سلام کی عبارت:

شیعہ فقہا کے نظریہ کے مطابق نماز کے سلام کے لئے دو عبارتیں بیان کی گئی ہیں:

1. «السَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلَی عِبَادِ اللّه الصَّالِحین»

2. «السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکَاتُه»

لیکن «السَّلَامُ عَلَیْکَ أیُّهَا النَّبی وَ رَحْمَةُ اللّهِ وَ بَرَکَاتُهُ» تشہد کا حصہ ہے اور نماز کے سلام کے خصوصی جملات میں شامل نہیں ہے-[4]

دوسرے سلام، یعنی ” السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکا تہ” کے بارے میں فقہا نے کچھ مباحث کئے ہیں، کہ سوال میں بیان کی گئی حدیث کا اس میں مداخلت ہے- ان مباحث میں سے ایک بحث یہ ہے کہ کیا مذکورہ حدیث پر استناد کرکے ” السلام علیکم و رحمتہ اللہ” کو ” وبر کاتہ” کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے یا یہ کہ نماز گزار کو ” وبر کاتہ” کی عبارت کو بھی پڑھنا چاہئیے؟ اس سلسلہ میں فقہا نے اپنے نظریات بیان کئے ہیں کہ ذیل میں ان کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے:

۱-بعید نہیں ہے کہ تقیہ کی وجہ سے عبارت” وبرکاتہ” ذکر نہ کی گئی ھو، کیونکہ اہل سنت سلام میں اس عبارت کو نہیں پڑھتے ہیں، جبکہ شیعوں کے نزدیک اگر ” و رحمتہ اللہ” کہا گیا تو مستحب ہے اس کے بعد ” وبرکاتہ” بھی کہیں-[5] جس طرح معراج میں جب پیغمبر اکرم {ص} سے حکم ھوا کہ سلام کہیں، آنحضرت {ص} نے فرمایا” السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ”[6] بعض فقہا نے ” وبرکاتہ”کو معراج کی حدیث کے اس حصہ سے استناد کیا ہے-[7]

۲-اس روایت کے پیش نظر اکثر فقہا نے کہا ہے کہ صرف” السلام علیکم” کہنا بھی کافی ہے اور نماز گزار پر واجب نہیں ہے کہ اس کے بعد ” ورحمتہ اللہ و برکاتہ” بھی کہے-[8]

 


[1] علامه حلّى، حسن بن یوسف، منتهى المطلب فی تحقیق المذهب، ج 5، ص 203، مجمع البحوث الإسلامیة، مشهد، چاپ اول، 1412ق؛ اردبیلى، احمد بن محمد، مجمع الفائدة و البرهان فی شرح إرشاد الأذهان، ج 2، ص 287، دفتر انتشارات اسلامى، قم، چاپ اول، 1403ق؛ نراقى، مولى احمد بن محمد مهدى، مستند الشیعة فی أحکام الشریعة، ج 5، ص 353، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم، چاپ اول، 1415ق.

[2] ملا حظہ ھو: فیض کاشانى، محمد محسن، الوافی، محقق و مصحح: حسینى اصفهانى، ضیاء الدین، ج 8، ص 779 – 782، ‌کتابخانه امام امیر المؤمنین علی علیه السلام، اصفهان، طبع اول، 1406ھ ؛ حرّ عاملى، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، ج 6، ص 419 – 423، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، قم، طبع اول، 1409ھ ؛ طباطبایى حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقى، ج 6، ص 477 – 479، مؤسسة دار التفسیر، قم، طبع  اول، 1416ھ .

[3] عنوان:«چرخاندن سر بعد از نماز به سمت راست و چپ»؛ سؤال 21603؛شیخ بهایی، محمد بن حسین، ساوجى، نظام بن حسین، جامع عباسى و تکمیل آن (محشّی)، ص 154 و 155، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع اول، 1429ق؛طباطبایى یزدى، سید محمد کاظم، العروة الوثقى مع التعلیقات، ج 1، ص 589، انتشارات مدرسه امام على بن ابى طالب علیه السلام، قم، چاپ اول، 1428ق؛ بهجت، محمد تقى، جامع المسائل، ج 1، ص 403، دفتر معظم‌له، قم، طبع دوم، 1426ھ.

[4] علامه حلّى، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیة على مذهب الإمامیة، محقق و مصحح: بهادرى، ابراهیم، ج 1، ص 260، مؤسسه امام صادق علیه السلام، قم، طبع اول، 1420ھ ؛ العروة الوثقى مع التعلیقات، ج 1، ص 588؛ امام خمینى، تحریر الوسیلة، ج 1، ص 181، مؤسسه مطبوعات دار العلم، قم، طبع اول، ؛ امام خمینى، توضیح المسائل (محشّی)، ج 1، ص 598 و 599، دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع هشتم، 1424ھ .

[5] . مجمع الفائدة و البرهان فی شرح إرشاد الأذهان، ج 2، ص 287؛ حسینی عاملى، سید جواد بن محمد، مفتاح الکرامة فی شرح قواعد العلاّمة، محقق و مصحح: خالصى، محمد باقر، ج 7، ص 544، ‌دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع اول، 1419ھ ؛ ملاحظہ ھو: توضیح المسائل (محشّی)، ج 1، ص 598 و 599.

[6] . وسائل الشیعة، ج 5، ص 468.

[7] طباطبایى بروجردى، آقا حسین، نهایة التقریر، مقرر: فاضل لنکرانى، محمد، ج 2، ص 330، بی نا، قم، بی تا؛ اشتهاردى، على پناه، مدارک العروة، ج 15، ص 553، دار الأسوة للطباعة و النشر، تهران، طبع اول، 1417ھ .

[8] مستند الشیعة فی أحکام الشریعة، ج 5، ص 352 و 353؛ نجفى (صاحب الجواهر)، محمد حسن، مجمع الرسائل (محشّی)، ص 291، مؤسسه صاحب الزمان علیه السلام، مشهد، طبع اول، 1415ھ ؛  نهایة التقریر، ج 2، ص 329 و 330؛ تحریرالوسیله،

 

تبصرے
Loading...