شبهہ شیعہ کہتے ہیں امام علی (ع) کے فضائل اور انکی امامت کا منصوص ہونا تواتر سے ثابت ہے

شبهہ شیعہ کہتے ہیں امام علی (ع) کے فضائل اور انکی امامت کا منصوص ہونا تواتر سے ثابت ہے

شیعہ کہتے ہیں امام علی (ع) کے فضائل اور انکی امامت کا منصوص ہونا تواتر سے ثابت ہے ، جبکہ یہاں کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ دعوی کرنے والے شیعہ حضرات ، اصحاب میں سے نہیں ہیں لہذا انہوں نے نہ تو پیغمبر کی زیارت کی ہے اور نہ ہی آپ کی فرمائشات کو سنا ہے اور اگر شیعہ اپنی روایات کہ صحابہ سے منسوب نہ کریں تو انکے یہ بیانات مرسل اور منقطع شمار ہونگے اور صحیح حدیث کے زمرے میں نہیں آئیں گے اور اصحاب کی وہ تعداد جسے شیعہ قبول کرتے ہیں انکی تعداد بہت کم ہے کہ جسے دس افراد یا اس سے تھوڑا زیادہ بیان کیا گیا ہے اور اگر اتنی تعداد کسی روایت کو نقل کرتی ہے تو انکے اس منقول کو تواتر نہیں کہا جا سکتا اور اصحاب کی جس بڑی تعداد نے امام علی (ع) کے فضائل نقل کیے ہیں شیعہ حضرات انکی بابت اچھی ذہنیت نہیں رکھتے اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں ۔ جب وہ اتنی بڑی جماعت کہ جنکی قرآن نے تعریف کی ہے اس پر جھوٹا ہونے اور حقیقت چھپانے کا الزام لگاتے ہیں تو مٹھی بھر افراد کے جھوٹ بولنے اور حقیقت چھپانے کا تو زیادہ احتمال ہے ؟

 یہ بات اس  عقلائی قاعدہ کے عین مطابق ہے ” اقرار العقلا  علی  انفسھم جائز ” یعنی  اگر کچھ معقول افراد اگر کسی ایسے مطلب پر کہ جو انکے ضرر اور نقصا ن میں ہو اعتراف اور اقرار کر لیں  تو ایسا اقرار صحیح اور قابل قبول ہے ۔
مثال کے طور پر اگر جناب عالی کسی شخص کے خلاف عدالت میں دعوی دائر کر دیں اور وہ دوران سماعت کچھ مطالب بیان کرے جو  آپ کے حق میں  اور  انکے خلاف ہوں  اور جج بھی انکی اسی بات  کو سامنے رکھتے ہوئے  آپ کے حق میں فیصلہ سنا دے    تو آپکا  فریق  یہ نہیں کہ سکتا کہ چونکہ آپ ہمیں قبول نہیں کرتے اور ہمیں  ظالم اور ستمگر سمجھتے ہیں لہذا آپ ہماری باتوں سے استناد نہیں کر سکتے  اور نہ ہی  یہ فیصلہ  آپ کے حق میں ہو سکتا ہے ۔
اگر آپ تواتر کے موضوع کو اس حیثیت سے تجزیہ کریں  جس طرح ہم نے بیان کیا ہے تو آپ کو سمجھ جائیں گے  کہ   اگر ہم  صحابہ کو قبول نہ بھی   کرتے ہوں  پھر بھی  ایسے تواتر سے ہمارا استناد  کرنا  صحیح ہو گا  کیونکہ  حضرت علی (ع)  کی امامت اور خلافت کے منکروں  کو بھی یہ تواتر قبول ہے۔
آپکا یہ  دعوی کرنا کہ شیعہ حضرات اکثر صحابہ  کرام کو  کافر جانتے ہیں اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ سرے سے یہ دعوی ہی بے بنیاد  اور غلط ہے۔ ایسے سوالات کے جوابات   کئی بار جواب دیئےجا چکے ہیں ۔ [2]  وہ کفر جس کی نسبت صحابہ کی طرف دہ جاتی ہے  وہ شرک اور بت پرستی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے مراد  کفران نعمت  ہے اور اللہ تعالی نے انہی الفاظ کو قرآن میں کئی بار دین دار افراد کے لیے استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر تفسیر ابن ابی حاتم  میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے دو معروف قبیلوں اوس اور خزرج میں سخت لڑائی تھی۔ اسلام آنے کے بعد ایک روز پیغمبر (ص) کی حیات طیبہ کے دوران جب  وہ اپنے  زمانہ جاہلیت کے  واقعات بیان کر رہے تھے تو اسی اثناء   میں طرفین غصے میں آگئے اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال لیں ۔ اس ماجرا کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی کہ جس میں بیان کیا گیا تھا کہ ” آپ کس طرح کافر ہو رہے ہیں جبکہ آپ پر  اللہ تعالی کی آیات تلاوت کی جاچکی ہیں اور اسکا نبی (ص) تمھارے درمیان موجود ہے ۔ [3]
یقیناً قرآن کی اس مقام پر کافر سے مراد خدا پر شرک باندھنا یا بتوں کی پوجا کرنا نہیں ہے  کیونکہ اوس اور خزرج کے افراد اپنی اس حرکت سے بت پرست تو نہیں ہو گئے تھے جبکہ اللہ تعالی انہیں اس غلط عمل کی بنا پر کلمہ کفر سے تعبیر کر رہا ہے اور اس طرح کے کئی دوسرے  ایسے عناوین بھی آیات قرآنی میں مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں ۔ [4]
بہرحال آپکا یہ کہنا کہ اگر  افرا دکی بہت بڑی تعداد پر حقیقت  چھپانے کا الزام  آتا ہے  تو  افراد کی تھوڑی تعداد پر  تو ایسے الزام کا زیادہ  احتمال موجود ہے یہ بہت ہی عجیب قسم کا استدلال ہے کیونکہ انسان اگر قرآنی آیات پر نگاہ دوڑائے تو وہ یہ جان سکتا ہے کہ اہل حق  اگرچہ  مستند دلائل اور صحیح راہ و روش رکھنے کے باوجود ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے ہیں ۔ اگر آپ اپنے استدلال کے بے بنیاد ہونے کی طرف  صحیح متوجہ ہونا چاہتے ہیں تو سورہ صف کی آیت نمبر ۱۴ کا دقت سے مطالعہ کریں اور اس کے ذیل میں بیان کی گئی تفاسیر کا بغور جائزہ لیجیے  کہ اللہ تعالی اس آیت میں یوں بیان فرما رہا ہے کہ ” جب حضرت عیسی (ع)  کے ذریعہ  بنی اسرائیل  کو دعوت ہو چکی تو اسکے بعد وہ دو فرقوں مومن اور کافر میں بٹ گئے کہ بعض مفسرین کے بیان کے مطابق  یہ اختلاف حضرت عیسی (ع) کے عروج آسمانی کے بعد رونما ہوا  جبکہ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ مومنین کی تعداد بہت کم تھی لیکن اس کے باوجود  انکے عقیدہ  کی تائید کئی سو سال گذر جانے کے بعد اور ظہور اسلام کے ساتھ واقع ہو گئی ۔ [5]
حضرت رسول اکرم (ص) کے فرمان کے مطابق  جو کچھ قوم بنی اسرائیل میں رونما ہو ا وہی میری امت میں بھی واقع ہو گا ۔ [6]
لہذا ممکن ہے یہ واقعہ اسی حدیث کا مصداق ہو کہ صحابہ کرام کی بہت بڑی تعداد حقیقت کو چھپا رہی ہو اور ان میں سے مٹھی بھر لوگ رسول اکرم (ص) کے تمام فرمودات پر ایمان لائے ہوں اور آخر میں کئی سوسال یا کئی ہزار سال گزرنے کے بعد جب حضرت مہدی (عج)کا ظہور ہو تو انہی کا عقیدہ تمام امت مسلمہ کا مورد تائید ٹھہرے ۔
پس قرآن کی رو سے اکثریت کا کسی فکر و عقیدہ کا قائل ہونا انکے عقیدہ کی حقانیت کی دلیل نہیں بنتا اور نہ ہی انکا حقیقت سے انحراف اس بات کی دلیل ہےممکن ہے اقلیت ان سے بھی زیادہ حقیقت سے دور ہو ۔
[1] ۔ اس کے لیے آپ مندرجہ ذیل کتب کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ۔
۱ ۔ الغدیر
۲۔ احقاق الحق
۳۔ عبقات الانوار اور دوسری کتب جو اس حوالے سے تحریر کی گئی ہیں ۔
تبصرے
Loading...