شیطان اور جن کی توانائی اور طاقت کی حد کیا هے اور یه انسان کے لئے کس قدرمزاحمت ایجاد کر سکتے هیں؟

پهلے ،هم شیطان و جن کے الفاظ اور شیطان وجن کے مفهوم میں رابطه اور شیطان کے تسلط کے حدود پر بحث کرتے هیں:

لفظ شیطان وجن کا مفهوم:”شیطان”نکال باهر کیاگیا اور مردود کے معنی میں هے.قرآن مجید میں یه لفظ مفرد کی صورت میں ستر بار اور جمع کی صورت میں (شیاطین)اٹهاره بار آیا هے .

لغوی معنی:طبرسی ،راغب ،ابن اثیر اور دوسروں کے عقیده کے مطابق ،لفظ شیطان کا “نون”اصلی اور لفظ کا حصه هے،یعنی ماده “شطن یشطن&quotے.”شطن”دور هو نے کے معنی میں هے(شطن عنه ای عبد).اس لحاظ سے شیطان نیکی سے دور هو نے کے معنی میں هے(٣).آیات وروایات سے معلوم هو تا هے که شیطان جنات میں سے هے (٤).

دوسرے الفاظ میں شیطان ،هر موذی،گمراه کر نے والے،باغی اور سرکش انسان یا غیر انسان مخلوق کو کهتے هیں اور ابلیس اس شیطان کا نام هے جس نے حضرت آدم علیه السلام کو دھوکه دیا اور اس وقت بهی اپنے لشکر کو لے کر انسان کی کمین گاه میں بیٹها هوا هے(٥).

لفظ جن:

قرآن مجید میں یه لفظ بائیس بار آیا هے ,جن ،لغت میں پوشیدگی اور مخفی کے معنی میں هے اور آگ یا آگ (٧)کی ملاوٹ سے پیدا کیا گیا هے.قرآن مجید کے مطابق ،جن ایک باشعور اور بااراده مخلوق هے اور اپنی فطرت کے مطابق انسان کے حواس (ظاھری و باطنه)  سے مخفی هو تا هے اورعام شرائط میں ،حس کے ذریعه قابل ادراک نهیں هے .وه انسان کے مانند مکلف هے اور آخرت میں اٹھا لیا جائے گا .وه اطاعت کر نے والا یا نافر مان ،مومن یا مشرک و…هو سکتا هے(٨).

جنات کی ماهیت کے بارے میں ملاصدرایوں توصیف کرتے هیں :”جنات،عالم حس میں ،عالم غیب میں اور عالم تمثیل (عالم مثال)میں ایک مخلوق هے .لیکن اس دنیا میں ان کا وجود،جیسا که بیان هوا،ان کاکوئی ایسا جسم نهیں هے جو ایک قسم کا لطیف اور معتدل هو،بجزیه که اس کے مناسب ایک روح اور مبدا فعال سے ایک نفس اسمیں اضافه هوا هے ،اور ممکن هے جنات کے بعض اوقات ظاهر اور مخفی هو نے کا سبب یه هو که ان کے بدن لطیف هیں که لطافت اور نر می میں متوسط هیں اور جدا هو نے اور پھر سے ملنے کی قابلیت رکھتے هیںاور جب پھر سے ملتے هیں اورغلیظ هو تے هیں اور ان کا قوام گاڑها هو تا هے تو دکهائی دیتے ھیں  .اور جب جدا هو کران کا قوام رقیق هو تا هے اور جسم لطیف بن جاتا هے تو آنکهوں سے اوجهل هوتے هیں،هوا(بهاپ)کے مانند، جب وه غلیظ هوتی ھے اور بادل کی صورت اختیار کر تی هے تو دکهادیتی دیتا هے اور جب اپنی لطافت کی طرف پلٹتی هے تو دکهائی نهیں دیتی هے …(٩)”جنات،انسان کے مانندروح اور بدن رکهتے هیں اور عقل وشعور ،اراده اور حرکت کے حامل هیں .ان میں سے بعض مرد اور بعض عورتیں هیں ،بچے پیدا کرتے هیں اور مکلف و مسئول هیں .ان میں بھی موت وحیات اور کفر و ایمان هے.

جن و شیطان کے رابطه کا مفهوم:

شیطان اپنے اصلی معنی میں،معنای وصفی رکھتا هے اور “شریر”کے معنی میں هے .قرآن مجید میں شیطان اسی معنی میں استعمال هوا هے .لیکن کبهی خود ابلیس کے بارے میں اور کبهی اس کے عام معنی میں هر شریر مخلوق کے بارے میں استعمال هوا هے ،جس میں شرارت “راسخ ملکه”میں تبدیل هوئی هے.حتی که قرآن مجید میں صراحت هوئی هے که ممکن هے شیطان جن یا انسان سے هو(١٠).

شیاطین میں جن ایک ممتاز فرد هے جو شیطنت میں ایک بلند مقام رکهتا هے اور وه ابلیش هے .ابلیس کے بارے میں قرآن مجید میں کافی بحث کی گئی هے،من جمله اس کے جن هو نے کی تاکید کی گئی هے(١١).

شیطان کے تسلط کے حدود:

ایران کے قدیمی دین ثنویت میں ،اهریمن،برائیوں،آفات اور نقصان ده مخلوقات ،جیسے سانپ،عقرب وغیره کا خالق مطلق هے.ممکن هےبعض لوگ یه خیال کریں که قرآن مجید اور اسلام میں بتا گیا شیطان،قدیم ایرانیوں کے عقیده کے مطابق اهریمن کے مترادف هو.لیکن یه واضح غلط فهمی هے اورخلقت کے کام میں شیطان اور جن کا کوئی رول نهیں هے.تمام اشیاء کا خالق پروردگار عالم هے اور خدا کے علاوه کسی کو خلقت اور تدبیر میں کسی قسم کا اختیار نهیں هے.قرآن مجید اس قسم کے باطل افکار کی مذمت میں فر ماتا هے:”وجعلوا لله شرکاء الجن وخلقهم وحرقوا له بنین وبنات بغیر علم سبحانه وتعالی عما یصفون”(١٢)

شیاطین کے تسلط کے حدود ،دلوں میں وسوسه پیدا کر نا،(١٣)برائیوں کی دعوت اور برائیوں کو برعکس اور اچهائی کی صورت میں دکهاتے  هیں،اس کے علاوه کوئی تسلط نهیں رکھتے هیں اور کسی کو کوئی کام انجام دینے پر مجبور نهیں کرتے هیں اور قرآن مجید میں جوکچھـ ان کے کام کے بارے میں کها گیا هے ،وه اسی اصل کی طرف پلٹتے هیں .(١٤)لیکن فرشتے اور جنات کچھـ طاقت رکھتے هیں اور انسان پر نازل هو تے هیں .فرشتوں کا نزول حالت احتضار تک هی محدود نهیں هے،بلکه اس کے علاوه بهی اگر کوئی “الله”کهے اور اس پر قائم رهے ،تو فرشتے اس پر نازل هو تے هیں.(١٥)جنات میں بھی ایک محدود طاقت هے .وه بڑی تیزی سے غیر معمولی کام انجام دے سکتے هیں .جنات اگر چه فکروعقل کے لحاظ سے کمزور هیں لیکن ان میں سر گر می کی قدرت زیاده هے ،وه بهاری بوجهـ کو کم وقت میں ایک جگه سے دوسری جگه منتقل کر سکتے هیں.ان کا ادراک عقلی اور قوی نهیں هے اور زیاده سے زیاده خیالی اور وهمی هےاور قرآن مجید کی آیات سے جنات کا انسان کے مانند مادی هو نا معلوم هو تا هے .حضرت سلیمان علیه السلام کی داستان میں جب جنات میں سے ایک عفریت نے دعوی کیا که وه تخت بلقیس کو سلیمان کے پاس اس کے اپنی جگه سےاٹھنے سے پهلے لاسکتا هے.(١٦)توحضرت سلیمان علیه السلام نے اس جن کی بات کی تردید نهیں کی ،اگر چه قرآن میں ذکر نهیں هوا هے که تخت بلقیس کو لایا. جنات اور شیاطین ممکن هے کچھـ کام، جیسے قرآن کى تلاوت سننا ، انجام دیں.

شیطان کے نفوذ کى راه

شیطان گوناگون طریقوں سے انسان پر حمله کرتاهے، کبھى سامنے سے اور کبھى پیچھے سے اور کبھى دائیں سے اور کبھی بائیں جانب سے” ثم لاتینھم من بین ایدیھم و من خلفھم وعن ایمانھم وعن شمائلهم.(١٨)”

انسان پر حمله کرنے اور اس کے نزدیک هونے کے بعد شیطان کا اهم ترین تسلط، انسان کے افکار پر تصرف کرناهے(١٩). حقیقت میں شیطان متعدد کمین گاهوں سے استفاده کرتاهے که هم یهاں پر ان میں سے بعض کى طرف اشاره کرتے هیں:

١. کبھی عبادت کے دائرے میں گهات لگاتاهے تا که انسان کو عبادت سے دور کردے، وه کوشش کرتاهے که انسان اپنے اعمال کو وحى کى بنیاد پر انجام نه دے، بلکه وه اپنى خواهشات کے مطابق عمل کرے ور حالانکه عبادت کے دائرے میں انسان خدا کا بنده هے اوراپنے تمام کام کو وحى الهى کے مطابق انجام دیتا هے.

٢. کبھی اس کى کمین گاه، عقل و شعور کا حلقه هوتاهے. وه ایسا کام کرتا هے که انسان اپنى فکر و خیال کے مقام پر، معارف الهى کو برهان کے ساتھـ تجزیه کرنے اور انھیں یقین سے سمجھنے اور قبول کرنے کے بحائے حقیقى برهان کى جگه پر جعلى براهان کو جگه دیتا هے اور خالص عقل وشعور سے محروم هوتاهے.

٣. کبھی شهود کے بارے میں گھات لگاتاهے، یه وه مقام هے جهاں پر انسان عالم ربوبیت کے حقائق کو بائد وشائد کے طورپر، اپنے دل سے کسى لفظ و مفهوم اوراستدلال کے واسطه کے بغیر نه کرسکے یا اس سے انکار کرے.مشاهده کرتا هے ،شیطان گهات لگتا هے تاکه انسان کو حقیقت کو اپنی اصلی حالت میں مشاهده نه کرسکے یا اس سے انکار کرے. حقیقت میں شیطان پهلے شهود کو اور اس کے بعد فکر اور پھر انسان کے عمل کو گمراه کرتاهے(٢٠)

قرآن ممجید کى آیات اور معصومین علیهم السلام کى روایات سے معلوم هوتاهے که شیطان اور جنات صرف ان افراد پر تسلط و نفوذ پیدا کرتے هیں جو خدا کى بندگى کى راه سے خارج هوتے هیں اور غفلت کے نتیجه میں خود پرستى اور نفس پرستى سے دوچار هوتے هیں اور شیطان کے لئے نفوذ کا موقع فراهم کرتے هیں، ورنه خدا کے صالح اور مخلص بندے شیطان کى مکارى اور تسلط سے محفوظ هوتے هیں، چنانچه بعض آیات میں، خود شیطان نے اس حقیقت کا اعتراف کیا هے: “قال فبعز تک لاغوینھم اجمعین الا عبادک منهم المخلصین(٢١)

چونکه شیطان کا تجرد، ایک مثالى اور خیال تجرد هے اور مکمل عقلى تجرد نهیں هے، اس لئے شیطان انسان کے مکمل عقلى مقام اور اخلاص تک رسائى نهیں رکھتا هے اور ایسے انسان کى عقلى اور عملى توانائى پر اثر انداز نهیں هوسکتا هے. وه مذکوره دو مرحلوں میں سے کسى ایک پر اثر انداز هونے کى صلاحیت نهیں رکھتا هے کیونکه وه ان سے نچلے درجه پر هے. لیکن شیطان همیشه گھات لگائے رھتا هے اور کامل انسانوں کے بارے میں بھی للچائى نگاهوں سے دیکھتا هے.

لوگوں نے جنات کے بارے میں بهت سے خرافات گھڑ لئے هیں جو عقل و منطق سے جوڑ نهیں کهائے هیں.مثال کے طور پر اگر ان پر ابلتاپانی ڈال دیا جائےتو وه چند گھروں کو آگ لگاتے هیں، یه موذى اور اذیت پهنچانے والى مخلوق هیں، بدرفتار اور کینه ور و… هیں. حالانکه اگر جنات کے وجود کا موضوع ان خرافات سے پاک هوجائے تو اصل مطلب مکمل طور پر قابل قبول هے، کیونکه زنده مخلوقات میں سے همیں صرف دکھائی دینے والی مخلوقات پر منحصر هونے کی کوئی دلیل موجود نهیں هے،بلکه غیر محسوس مخلوقات بھی بهت زیاده هیں… پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے نقل کی گئی ایک روایت میںآیا هے که آپ صلی الله علیه وآله وسلم نے فرمایا:” خلق الله الجن خمسه اصناف کالریح فی الھوا وصنف حیات و صنف عقارب و صنف حشرات الارض و صنف کبنی آدم علیه السلام الحساب والعقاب(٢٢)”

تاریخ اور قضایا سے معلوم هوتاهے که،قدیم زمانه سے آج تک بهت سے لوگوں کے دل اور تصورات جنات سے متعلق توهمات اور داستانوں سے بھرےهوئے تھے، اس طرح که بعض لوگ مکمل طور پر جنات کے بارے میں بالکل انکار کرتے هیں اور انھیں محض خرافات جانتے هیں اور دوسری طرف بعض لوگوں کے ذھن جنات کے بارے میں مبالغه آمیز داستانوں اور تصورات کی حد تک بھرے هوئے هیں اور بیشک اس قسم کے دونوں گروه افراط و تفریط میں پڑ گئے ھیں۔  دین مبین اسلام جنات کو ناقابل انکار حقیقت جانتا هے اور جنات کے بارے میں بے بنیاد تصورات کی اصلاح کرتاهے اور وهم و خرافات کو ذھن و دل سے دورکرتا هے اور دلوں کو توهمات کے غلبه سے رهائی بخشتا هے، اسی لئے قرآن مجید میں اس موضوع پر ایک سوره مخصوص هے(٢٣).

اس نکته کی یاد دهانی ضروری هے که: نظام هستی میں، تمام اشیاء کا وجود، خواه فرشتے هوں، جن وانسان اور دوسری محسوس مخلوقات و غیر محسوس مخلوقات هوں،خدا کی طرف سے هے اور ان کے تمام اثرات بھی اذن الهی سے هیں اور ان کی ایک حد معین هے.

خداوند متعال نے اپنے نورانی کلام قرآن مجید میں مسلسل بیان فرمایا هے که مادی اورغیر مادی اسباب آزاد نهیں هیں، موت وحیات اور سود وزیان و… سب کچھـ خدا کے هاتھـ میں هے اور تمام حالات میں اس کو یاد کرناچاهئے اور اسی پر توکل اور بھروسا رکھنا چاهئے اور اسی کی پناه میں رهنما چاهئے، اس صورت مین کوئی مخلوق اسےنقصان نهیں پهنچا سکتی هے:”… ولیس بضارهم شیئا الا باذن الله”(٢٣) اور جن و انس کے شیاطین کے بارے میں بھی خبردار کیا هے اور فرمایاهے:” ایسا نه هو که ان کی طرف رجحان پیدا کرو، شیطان خدا اور آپ کا کھلا دشمن هے اور خود شیطان نے قسم کھائی هے که انسانوں کو گمراه کرے گا. لیکن شیطان کی قدرت، و سوسه پیدا کرنے کی حد تک محدود هے اور هرگز انسان کے اختیارات کو سلب کرنے کا سبب نهیں بن سکتاهے. البته شیطانی کارگزاریوں کا محور انسان کا نفس اماره هے، حقیقت میں نفس اماره شیطان کے لئے در اندازی پیدا کرنے کا سبب محسوب هوتاهے:” اور هم نے انسان کو پیدا کیا هے اور هم جانتے هیں که اس کا نفس اسے کن وسوسوں سے دوچار کرتاهے، اور هم اس کی شه رگ سے بھی زیاده اس کے نزدیک هیں (٢٥)” اسی طرح خداوند متعال فرماتاهے:”حقیقت میں تو میرے بندوں پر تسلط نهیں جماسکتا هومگر ان لوگوں پر جو گمراه هوکر تیری پیروی کریں. (٢٦)

مزید مطالعه کے لئے منابع:

غرایب و عجایب الجن،بدرالدین ابن عبدالله الشبلی، ترجمه وتحقیق و تعلیق ابراهیم محمد الجمل.

جن وشیطان، علیرضا رجالی، تهران، نشر نبوغ.

الجن فی کتاب والسنه، اعداد زاربن شاه زالدین، بیروت، ١٩٩٦ ء

الجن فی القرآن والسنه، عبدالامیر علی مهنا، بیروت، طبع١٩٩٢ء

الجن بین الاشارات القرانیه و علم الفیزیاء، عبدالرحمن محمد الرفاعی. طبع ١٩٩٧ء

 

حاشیے:

١.ص/٨٣.

٢. حجر/٤٢.

٣.قرشی،سید علی اکبر،قاموس قرآن، لفظ شطن.

٤. کهف/٥١:”فسجدوا الا ابلیس کان من الجن”

٥.مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج٢٩،ص١٩٢.

٦. حجر/٢٧:”والجان خلقناه من قبل من نارالسموم” ” اور جنات کو اس سے پهلے زهریلی آگ سے پیدا کیا هے.”

٧. رحمن/١٥:” وخلق الجان من مارج من نار” اور جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا هے”

٨. قاموس قرآن،لفظ جن.

٩. عباسی، ابراهیم،”جنات کے بارے میں عجب داستانیں”،ص٢٥

١٠. انعام/١١٢.

١١.کهف/٥٠ملاحظه هو مصباح یزدی، محمد تقی، معارف قرآن،ص٢٩٨.

١٢.انعام،١٠٠.

١٣.ابراهیم/٢٢:” ماکان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتک…اگر چه شیطان کی قدرت میں بعض دوسرے کام بهی هیں که بعض آیات سے معلوم هوتاهے، جیسے: انسان کے سامنے برے کاموں کو اچھے کام کے طور پر پیش کرنا، اموال اور اولاد مشارکت، وعدے دینا، انسان میں فراموشی ایجاد کرنا اور…

١٤.قاموس قرآن لفظ قرآن.

١٥. فصلت/٣٠.

١٦. نمل ٤٠-٣٠.

١٧.جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی،ج١،ص١١٩.

١٨. اعراف/١٧.

١٩.تسنیم،ج٣،ص٣٩٣.

٢٠.تفسیر موضوعی،ج١٢،ص٤٠٠.

٢١.ص،٨٣.

٢٢.مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه،ج٢٩،ص١٥٧:بحارالانوار،ج٦٠،ص٢٦٨.

٢٣. سیدقطب، تفسیر فی ظلال القرآن، مجلد٦، ص ٢٨ و ٢٧.

٢٤.مجادله/١٠.

٢٥.ق/٤٢.(محمد مهدی فولادوند، ترجمه ی قرآن کریم).

٢٦.حجر/٤٢.(محمد مهدی فولادوند، ترجمه ی قرآن کریم).

تبصرے
Loading...