شرمیلے پن کى بنیاد کیا هے ؟

سوال کا جواب دینے سے پهلے ضرورى هے که هم خجالت کے معنى و مفهوم سے آگاه هوجائیں اور اس کے بعد خجالت کى بنیادوں پر تحقیق کریں ـ

قرآن مجید میں ماده ” خجل ” سے کوئى لفظ استعمال نهیں هوا هے ـ اس لئے اس کے معنى کو پانے کے لئے لغت اور علم نفسیات کى کتابوں کى طرف رجوع کرنا چاهئےـ

ایسا لگتا هے که ” خجالت ” کے بارے میں گونا گوں جو معنى کئے گئے هیں، ان میں ” شرمیلا پن ” سب سے بهتر معنى هے ـ کیونکه علم نفسیات کى اکثر کتابوں میں یه لفظ اسى معنى معنى میں آیا هے ـ اس لئے هم بھى اس سلسله میں اسی معنى میں بحث کریں گے ـ

شرمیلا پن، ایک اجتماعى حالت میں اپنے اوپر غیر معمولى اور اضطرابى حالت میں توجه کرنا هے که اس کے نتیجه میں انسان ایک قسم کى نفسیاتى کشمکش سے دوچار هوتا هے، اس کى پهچان اور جذبات کے حالات متاثر هوتے هیں اور اس میں ناپخته اور نا سجیده برتاو اور نا مناسب رد العمل کى حالت فراهم هوتی هے ـ

ساده تر الفاظ میں، شرمیلا پن، یعنى اپنے آپ پر غیر معمولى طور سے توجه کرنا اور دوسروں سے روبرو هونے کا ترس پیدا هونا ـ

” حیا ” اور ” شرمیلے پن ” میں فرق :

بعض لوگوں نے شرمیلے پن کو حیا کے متردف جانا هے اور اپنى بیٹیوں کے پاس اس کى تائید، توجیه اور همت افزائى کرتے هیں ـ

یه تصور صیحح نهیں هے اور یه دوچیزیں آپس میں مترادف نهیں هیں ـ ایک حدیث میں بیغمبر اکرم صلى الله علیه وآله وسلم نے حیا کو دو صورتوں میں تعبیر فرما یا هے :

1ـ عقل پر مبنى حیا 2ـ حماقت اور نادانى پر مبنى حیا

اسى بنا پر حضرت على علیه السلام نے بھى فرمایا هے : ” جو حق بات کهنے میں شرم کرتا هے، وه اس کى نادانى هے، اس کے مقابل میں کسى برے کام کى وجه سے لوگوں سے حیا کرنا شائسته اور اچھا هے ـ [1] اس بنا پر جو حیا عقل پر مبنى هو وه انسان کى ایک بڑى صفت، ایمان کى نشانى اور اس کى شخصیت کے نشو و نما کى دلیل هے، دوسرے الفاظ میں قدرت نفس اور ایک ارادى اور قابل قدر امر هے اور آیات [2] و روایات میں اس کى تعریف کى گئى هے ـ

اس کے مقابل میں، شرمیلاپن، مکمل طور پر ایک غیرارادى، ناپسند اور ناتوانى اور اجتماعى معلولیت کا امر هے ـ

بچوں میں بھى شرمیلاپن، یعنى بچے کا دوسروں کے سامنے بات کرنے ڈرنا هے ـ لیکن حیا کے معنى، بچه کا قابل قدر پرگراموں اورآداب اسلامى کا پابند هونا هے ـ

اگر ایک بچه منکرات، گناه اور بیهودگى سے پر هیز کرتا هے، تو وه شرمیلا نهیں هے ـ

اگربچه بڑوں کا احترام کرنے کى عادت کرے اور محرمات سے چشم پوشى کرے اور دوسروں کے اسرار سننے سے پرهیز کرے، تو اس قسم کا بچه شرمیلا نهیں هے ـ یه حیا کے نمونے هیں جن کى الهىٰ اور آسمانى ادیان میں تاکید کى گئى هے ـ[3]

” خجالت اور شرمیلے پن ” کے بارے میں اسلام کا نظریه :

اسلام شرمیلے پن کا مخالف هے اور اسے اسلام کى مسئولیت اور ایک قسم کے انفرادى و اجتماعى فرائض کو قبول کرنے کى تاکید اور سفارش سے سمجھا جاسکتا هے ـ

بالکل واضح هے که اجتماعى ذمه داریوں کو قبول کرنا اور انسانى و اسلامى فرائض کو انجام دینا، شجاعت کے بغیر ممکن نهیں هے ـ مثال کے طور پر امر بالمعروف اور نهى عن المنکر کے فریضه کے سلسله میں قرآن مجید میں کافى تاکید کى گئى هے ـ[4] اس کے لئے اخلاقى جرآت اور مفید و موثر رابطه برقرار کرنے کى توانائى کى ضرورت هوتى هےـ [5]

” خجالت اور شرمیلے پن ” کے عوامل

شرمیلا پن انسان کے نشوو نما کے دوران تدریجاً ظاهر هوتا هے ـ بچوں میں شرمیلے پن کى ابتدائى علامت چار سال کى عمر میں رونما هوتى هے ایک سال کى عمر میں اس کى علامتیں واضح طور پر ظاهر هوتى هیں، کیونکه بچه اس عمر میں جب اجنبى شخص سے روبرو هوتا هے تو اپنى آنکھوں کو چھپا لیتا هے یا اپنے چهره کو چھپاتاهےـ

بچه کے شرمیلا هونے میں وراثث کا براه راست اثر هوتا هے اور اسى طرح ماحول اس کے شرمیلے پن کو زیاده کرنے یا تبدیل کرنے میں بھى مکمل طور پر موثر هے جو بچے دوسرے بچوں سے رابطه رکھتے هوں، وه کم شرمیلے هوتے هیں ـ

بچوں میں شرمیلے پن کے عوامل میں سے ایک عامل یه هے که بزرگ لوگ همیشه انھیں اپنے دوستوں، رفقاء جانے پهچانے اور ان جانے لوگوں کے سامنے هر بات کرنے اور حرکت انجام دینے سے روکتے هیں اور دھمکى آمیز آنکھوں سے ان کو چپ رهنے کا اشاره کرتے هیں، اگر اس کے باوجود بھى وه کوئى بات کریں تو انھیں کچل دیتے هیں اور نتیجه کے طور پر بچے تشخیص دیتے هیں که بزرگوں کى ملامت اور تمسخر سے بچنے کے لئے اور ان کى رضامندى حاصل کرنے کے لئے خاموش اور سرنیچے کرنے کے علاوه کوئی چاره نهیں هے ـ

البته ممکن هے جوانى کے دوران بھى یه مسئله پیش آئے اور اس کے عوامل کو مندرجه ذیل نکات میں خلاصه کیا جاسکتا هے :

1ـ شرمیلا انسان اپنے اور اپنى توانیوں کے بارے میں شک کرتا هے، اس لحاظ سے خیال کرتا هے که اس کے بارے میں کوئى تشخیص قدر و منزلت کا قائل نهیں هے ـ (اپنى بے جا حقارت )

2ـ شرمیلے انسان میں جرات کا فقدان هوتا هے (لهذا شرمیلے انسانے کے بارے میں کها گیا هے که اس میں جرات نهیں هوتى هے) اور دوسروں کى جانب سے مورد مذاق قرار دئے جائے کا وهم رکھتا هے ـ

بهت سے محققین شرمیلے پن کى اصلى وجه ترس یا اجتماعى اضطراب جانتے هیں ـ[6]

 اپنے جسمانى اور معنوى عیبوں کے بارے میں مبالغه کرتے هیں ـ

4ـ بعض افراد انکسارى کو شرمیلے پن سے مغالطه کرتے هیں اور اسے ایک قدر جانتے هیں، وه اپنے شرمیلے پن کے ذریعه تواضع کا مظاهره کرنا چاهتے هیں، جبکه حیا کے مانند توضع اور انکسارى ایک فضیلت هے، لیکن بےجا شرمیلاپن ایک قسم کا عیب اور نقص هے ـ متواضع شخص اپنی قدر و منزلت سے آگاه هوتاهے، لیکن شرمیلا انسان بیهوده خیالات کا اسیر هوتا هے اور خود کو غلط محاسبات کا شکار بنا تا هے ـ

5ـ بے جا ترغیب؛ مثلاً کوئی فکر کرے اور تصور کرے که اس کی شکل اور اس کا قیافه بد نما اور قابل نفرت هے اور اس میں نقص و عیب هے، اس لحاظ سے اپنے آپ کو لوگوں کے در میان ظاهر نهیں کرتا هے اور معاشره میں حاضر هونے سے پرهیز کرتا هے اور دوسروں کی طرف اس پر نگاه کرنے سے ڈرتا هے اور اجتماع سے فوراً دور چلا جاتاهے ـ

6ـ خود اعتمادی کا فقدان، گوشه نشینی اور معاشره سے دوری اختیار کرنے کی امید پیدا کرتا هے ـ

7ـ ممکن هے کبھی خجالت اور شرمیلے پن کا سبب احساس برتری هو که انسان اپنے لئے ایک کاذب و فرضی شخصیت کا قائل بن جا تا هے اور نتیجه کے طور پر بے جا توقعات رکھتا هے ـ

آخری نکته یه هے، که خجالت و شرمیلا پن کبھی انسان کے ناتوان هونے کے مساوی نهیں هےـ عام طور پر افراد، خیال کرتے هیں که وه ناتوان هیں ـ جبکه حقیقت میں ایسا نهیں هے ـ انسان کو اپنی توانائیوں اور استعدادوں کو پهچاننا چاهئے اور اپنے اعمال کے بارے میں شدید احساس اور دوسروں سے اپنا موازنه کرنے، احساس برتری، احساس کم تری، احساس تنهائی، گوشه نشینی کے خوف، مورد مذاق قرار پانے کے خوف اور دوسروں کی نظروں میں قابل قبول نه هونے کے خیال جیسے خجالت اور شرمیلا پن پیدا کرنے والے عوامل سے پرهیز کرنا چاهئے اوران عوامل کو اپنی زندگی اور ذهن کی فضا سے نکال باهر کرنا چاهئے ـ



[1]  میزان الحکمه، چاپ جدید، ج 2، ص 718.

[2]  قصص، 25.

[3]  اسلام و تربیت کودکان، ص 216، 221.

[4]  آل عمران، 104.

[5]  ملاحظه هو: غلامعلی، روانشناسی کم رویی، دفتر نشر فرھنگ اسلامی، حق جو، محمد حسن، نجات از کم رویی، مرکز فرھنگی انصار المھدی

[6]  افروز غلامعلی، روان شناسی کم رویی، ص 15.

تبصرے
Loading...