شرعی لحاظ سے ، بینکوں یا قرض الحسنه کے اداروں سے سهو لتیں حاصل کر نے کا کیا حکم هے؟

بینکوں اور قرض الحسن کے خزانوں سے سهو لتیں حاصل کر نا اگر سود (ربا) کا سبب نه بنے اور سهو لتوں کے بارے میں درج شرائط پر عمل کیاجا ئے ، تو کوئی حرج نهیں هے-

هم ذیل میں ان نکات کو خلاصه کے طور پر درج کرتے هیں جن کی اس سلسله میں رعایت کر نا ضروری هے:

١- قرضه کو حاصل کر نے کے لئے قبلاً کوئی رقم اس بینک یا خزانه میں جمع کر نے کی شرط نه هو-

اگر خزانه کو پیسے دینا اس عنوان سے هو که وه پیسے ایک مدت کے لئے خزانه میں قرض کی صورت میں رهیں ، اس شرط پر که خزانه بهی اس مدت کے بعد، اس شخص کو قرضه کی ایک رقم ادا کرے یا خزانه کی طرف سے قرضه دینا اس شرط پر هو که وه پهلے ایک رقم اس خزانه میں جمع کرے، تو یه شرط سود(ربا) کے حکم میں هے اور شرعی طور پر حرام و باطل هے لیکن اصل قرضه دونوں طرف سے صحیح هے[1]

البته بینک یا قرض الحسنه کے خزانه کی طرف سےرکنیت یا اس علاقه میں رهائش کی شرط یا دوسری ایسی شرائط جو اشخاص کو قرضه دینے کی محدودیت کا سبب بن جاتی هیں ، میں کوئی حرج نهیں هے- اورخزانه میں پیسے جمع کرانے کی شرط بھی اگر اس امر سے مربوط هو که قرضه دینا انهی افراد سے مخصوص هو تو کوئی حرج نهیں هے ، لیکن اگر اس کا اس امر سے ربط هو که خزانه سے قرضه حاصل کر نا اس شرط پر هو که درخواست کر نے والا بینک یا خزانه میں پهلے سے ایک رقم جمع کرائے تو یه شرط قرضه پر سود لینے کے زمرے میں آتی هے اور یه باطل هے[2]

٢-بینکوں کو قرضه دینے یا بینکوں یا قرض الحسنه کے اداروں سے قرضه لینے کے لئے منافع کی شرط نهیں لگانی چاهئے-

بینک کو قرضه دینے کا حکم بینک سے قرضه لینے کے حکم میں هے ، چنانچه قرضه کی قرارداد میں اگر منافع کی شرط رکهی گئی هو تو وه سود (ربا) هے اور یه حرام هے اور اس میں کوئی فرق نهیں هے که یه سود بینک کو دیا جائے یا ثابت جمع کی هوئی رقم پر هو یعنی پیسے جمع کر نے والا قرار داد کے مطابق ایک معین مدت تک اپنے پیسوں سے استفاده نه کر سکے یا اپنے پیسوں سے گردش کی صورت میں استفاده کرے لیکن اگر نفع کی شرط نه رکهی گئی هو اور پیسوں کا مالک اس قصد سے بینک کو پیسے نهیں دیتا هو که تاکه اسے نفع ملے اور اگر اسے کوئی نفع نه دیں وه خود کو اس کا طالب نه جانتا هو اور مطالبه نه کرے گا ، تو اس صورت میں اس بینک میں پیسے رکهنا جائز هے اور اس میں کوئی حرج نهیں هے[3]

٣- بینک سے شرکت کے عنوان سے یا کسی شرعی معامله کے تحت قرضه لینا صحیح هے اور اس میں کوئی حرج نهیں هے-

حضرت آیت الله العظمی خامنه ای اس سلسله میں فر ماتے هیں :

” بینک سے شرکت کے عنوان سے یا کسی شرعی معامله کے تحت قرضه لینا صحیح هے اور اس شرعی معا مله کے ذریعه جو منافع بینک کو حاصل هو تا هے وه سود(ربا) شمار نهیں هو تا – نتیجه کے طور پر بینک سے کسی عنوان کے تحت پیسے لینا، جیسے : گهر خرید نے یا بنانے کے لئے اور اسی طرح اس میں تصرف کر نے کے لئے کوئی حرج نهیں هے اور فرضاً اگر قرضه کے عنوان سے اور کچھـ اضافه رقم لینے کی شرط پر هو تو، اگر چه سود پر لیا هوا قرض شرعی طور پر حرام هے ، لیکن حکم و ضعی کی نظر میں اصل قر ضه ، قرضه لینے والے کے لئے صحیح هے اور اس میں اس کا تصرف کر نا کوئی حرج نهیں هے[4]

لوگ جو بینکوں سے قرض الحسنه کے طور پر یا اس کے علاوه کسی اور صورت میں رقو مات لیتے هیں اور اس پر کوئی اضافه رقم ادا کرتے هیں ، یه اس صورت میں حلال هے که معامله ،شرعی صورت میں انجام پائے اور اس میں سود (ربا) کی صورت نه پائی جاتی هو[5]

آخر پر اس نکته کی طرف اشاره کر نا ضروری هے که اگر کوئی شخص ایسے مسائل میں اس طرح مجبور اور مضطر هو جو حرام انجام دینے کو جائز قرار دے ، تو اس صورت میں سود لینے کا حرام هو نا زائل هو تا هے-

حضرت آیت الله العظمی خامنه ای اس سلسله میں فر ماتے هیں :

” سود (ربا) دینا حرام هے ، یعنی : بینک سے اس شرط پر قرضه کے طور پر پیسے لینا که اس رقم سے زیاده ادا کرے ، توحرام هے – مگر یه که اس حد تک مضطر هو که حرام کے مرتکب هو نے کو جائز بنائے- لیکن انسان حرام کا مر تکب هو نے سے بچنے کے لئے اضافی رقم ادا کر نے کی نیت نه کرے ،اگر چه اس سے وه رقم لی جائے گی[6]

هم آپ کے سوالات کا جواب دینے میں خوش هوں گے- تا که اس سلسله میں آپ کوجامع اطلاعات فراهم کر سکیں-



[1] – توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی) ،ج٢، ص : ٤٠٥-س ١٧٨٦-

[2] – اجوبۃ الا ستفتاءت (فارسی )،ص :٤٢٣س ١٧٨٧-

[3] – توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی) ،ج٢،ص: ٩٠٦ملحقات رساله آیت الله (بهجت)

[4] – توضیح المسائل(المحشی للامام الخمینی) ج٢احکام بانکها ،ص٩٣٥، مقام معظم رهبری-

[5] – توضیح المسائل (المحشی للامام الخمینی)، ج٢،ص : ٩١٥- ملحقات رساله آیت الله (مکارم) شیرازی-

[6] – توضیح المسائل مراجع،ج٢،ص٩٣٥،ص١٩١١-

تبصرے
Loading...